International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.

Monday, July 21, 2008

د ہشت گردی بذریعہ پولیس گردی تحریر: اے پی ایس،اسلام آباد

صدر پرویز مشرف نے اپنے آٹھ سالہ دور کے اندر مخالفین کو دبانے کے لیے پولیس کو کھلے عام استعمال کیا ہے ۔ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے امریکہ اور یورپی ممالک پاکستانی پولیس کو جدید ہتھیاروں و تربیت کی فراہمی کے لیے فنڈز فراہم کریں پاکستان میں پولیس سے سیاسی مداخلت کا خاتمہ کر کے ہی پولیس کو عوام دوست بنایا جا سکتا ہے ۔ پولیس سے متعلقہ خفیہ اداروں کو جدید آلات سے لیس کر کے اندرونی سیکورٹی کے معاملات ان کے سپر د کیے جائیں ۔ پاکستان میں پولیس کے نظام کو عوام دوست بنانے کے لیے سیاسی بھرتیوں اور تبادلوں کا خاتمہ کرنا انتہائی ضروری ہے اگرچہ پولیس آرڈیننس 2002 جاری کیا گیا ہے کہ لیکن ابھی تک اس پر عمل درآمد ممکن نہیں بنایا جا سکا ہے ۔ ملک میں بہت کم تعداد میں پبلک سیفٹی کمیشن قائم کیے گئے ہیں پولیس کو حکمران طبقہ اپنے ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کرتا رہا ہے اور جو لوگ حکمرانوں کی بات مانتے رہے ہیں ان کی تقرریاں ، تبادلے اور ترقیاں سیاسی بنیادوں پر ہوتی رہی ہیں پاکستان میں سزائیں صرف ان پولیس افسروں کو ملی ہیں جنہوں نے فوجی آقاو¿ں کی بات ماننے سے انکار کیا ہے گزشتہ آٹھ سالوں میں صدر پرویز مشرف نے پولیس کو اپنے ذاتی مقاصد کے لیے کھلے عام استعمال کیا ہے نئی سیاسی حکومت کو بدعنوان اور انسانی حقوق کو پامال کرنے والی پولیس ورثے میں ملی ہے پولیس آٹھ سالوں سے فوج کی خدمت کرتی رہی ہے اور صدر پرویز مشرف کے مخالفوں کے خلاف استعمال ہوتی اور انہیں دبانے کے فرائض سرانجام دیتی رہی ہے۔ اس دورن پولیس نے ماروائے عدالت اقدامات سے بھی گریز نہیں کیا اور انتخابات میں دھاندلی میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا ہے کیونکہ پولیس کو فوجی آمروں کی بھرپور آشیر باد حاصل تھی ۔ اس روئیے کی وجہ سے عوام میں پولیس کا اعتماد بحال نہیں ہو سکا ہے رپورٹ میں واضح طورپر کہا گیاہ ے کہ پاکستانی پولیس عسکریت پسندی اور دہشت گردی کے خاتمے کی صلاحیت نہیں رکھتی جیسا کہ فوج میں بیرونی جارحیت کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے پولیس کے زیر انتظام خفیہ اداروں کو اندرونی خطرات اور جرائم کی روک تھام کے لیے مزید وسائل دینے کی ضرورت ہے اور اس حوالے سے بین الاقوامی برادری خصوصا امریکی اور یورپی یونین کوچاہیے کہ وہ سویلین خفیہ ایجنسیوں کو جدید تربیت اور ٹیکنیکل مدد دیں تاکہ وہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے اپنا کردار ادا کر سکیں ۔ پاکستانی حکومت کو صرف پولیس کے مالی بجٹ اورتعداد کو ہی نہیں بڑھانا چاہیے بلکہ پولیس میں انتظامی لحاظ سے بھی تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے جس کے تحت سیاسی بھرتیاں بند ہوں ‘ تقرریاں ‘تبادلے ‘ بھرتیاں اور ترقیاتی میرٹ پر ہونی چاہئیں پولیس کے انتظامی اداروں کی تجاویز کواہمیت دی جانی چاہیئے اور پولیس کو عوام د وست اور شہریوں کا محافظ بنانے پر توجہ دی جانی چاہیئے ۔ اور عوامی نمائندوں پریہ بات واضح کرنی چاہیئے کہ ایک اچھی پیشہ وارانہ صلاحیتوں کی مالک ‘تربیت یافتہ اور اچھی تنخواہ دار پولیس ہی عوام کے مسائل حل کر سکتی ہے ۔ جبکہ انٹرنیشنل کرائسسز گروپ نے حکومت کو دی گئی اپنی تجاویز اور رپورٹ میں یہ بھی کہا ہے کہ ملک کی اندرونی سیکورٹی کی زمہ داریاں پولیس اور اس کی متعلقہ خفیہ ایجنسیوں کو دی جائیں۔ پولیس اہلکاروں کی تعداد میں اضافہ ‘ جرائم کے خاتمے کے لیے ان کی تربیت کی جائے ۔ ملک کی خفیہ ایجنسیوں ایف آئی اے اور آئی بی کو مضبوط کیا جائے ۔ پاکستان کی اندرونی سیکورٹی کے لیے تعینات رینجرز اور دیگر پیرا ملٹری فورسز کو ہٹا کر پولیس کو لگایا جائے ۔ پولیس کے محکمے سے بدعنوانی ختم کرکے ان کی اخلاقی تربیت کے حوالے سے اپنی سفارشات میں انٹرنیشنل کرائسسز گروپ نے کہا ہے کہ بدعنوان اور سیاسی حمایت یافتہ پولیس افسران کو اعلی عہدوں سے ہٹایاجائے ۔ پولیس میں نچلی سطح کے ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کیا جائے ۔ اسی طرح پولیس کے ملازمین کو مزید سہولتیںفراہم کرتے ہوئے ان کے ویلفیئر اور انکے اہل خانہ کی فلاح وبہبود کے لیے اقدامات کیے جائیں ۔ اسی طرح ڈیوٹی کے دوران جاں بحق ہونے والے پولیس اہلکار کے اہل خانہ کے لیے مراعات میں اضافہ کرتے ہوئے عوامی سطح پر اس کی خدمات کا اعتراف کیا جائے ۔ سینٹ کی سیٹینڈنگ کمیٹی کے تحت پولیسنگ کے حوالے سے ذیلی کمیٹی تشکیل دی جائے ۔ پبلک سیفٹی کمیشن کو مزید اختیارات دئیے جائین اور کمیشن کے ممبران کا انتخاب شفاف طریقے سے کیا جائے جس پر حکومت اور اپوزیشن کے دریان اتفاق رائے ہو ۔ اپنی سفارشات مین آئی سی جی نے کہا ہے کہ پولیس میںسیاسی مداخلت کو ختم کرتے ہوئے بھرتیوں ‘ تبادلوں کو خالصتا ادارے کی سطح پر کیا جائے اور ضلعی ناظم سے ڈی پی او کی سالانہ کارکردگی رپورٹ کے حوالے سے اختیار واپس لیا جائے ۔ سفارشات میں مزید کہا گیا ہے کہ پبلک سیفٹی کمیشن ‘ نیشنل پولیس مینجمنٹ بورڈ اوروفاقی اورصوبائی کمپلینٹس بورڈز کو بااختیار بنایا جائے ۔ مقدمات کی تحقیقات کے لیے آزاد وخود مختار آفیسرز تعینات ہونے چاہئیںاور پولیس میں خواتین اہلکاروں کی تعداد کو بڑھایاجائے اسی طرح سے پولیس کے معاملات میں فوج کی مداخلت ختم کی جائے آئی سی جی نے اپنی سفارشات مین بین الاقوامی برادری پرزور دیا ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پاکستان میں پولیس کی استعداد کار بڑھانے کے لیے امداد میں اضافہ کیا جائے اور ا مریکہ اور یورپی ممالک پولیس افسران کی تربیت کے لیے کام کریں ۔ جبکہ بیس جولائی 2007ءکا تاریخ سازفیصلہ تھا اس کے اثرات پوری قوم پر پڑے عوام میں ایک سوچ ابھری ۔فیصلے کے بعد خلیل الرحمن رمدے پر ہر قسم کا دباو¿ تھاوہ جہاں کہیں گیا ا س کا پیچھا کیاگیاحتیٰ کہ دوبئی، ایمسٹرڈیم او رجنیوا تک پیچھا کیا گیا۔ خلیل الرحمن رمدے وہ شخص ہیں جس کے پاس رہنے کیلئے اپنا گھر تک نہیں ۔ دنیا کی کوئی چیز نہیں جو انہیں آفر نہ کی گئی ہو۔ انہوں نے پہلے دن ہی طے کر لیا تھا کہ چاہیے میں اکیلا ہی رہ جاو¿ں، فیصلہ اپنے ضمیر اور ایمان کے مطابق کرنا ہے سپریم کورٹ کے معزول جج جسٹس خلیل الرحمن رمدے نے گزشتہ روزخصوصی ٹی وی انٹرویو میں کہا ہے کہ چیف جسٹس افتخار چوہدری کا 9مارچ کا انکار بڑا تاریخ ساز تھا اور اس کے بعد موجودہ تحریک کی سوچ ابھری۔14مئی کے حماد رضا قتل کیس کی سماعت نہیں ہو رہی تھی ہم ان کے گھر گئے وہاں بڑا تکلیف دہ قسم کا ماحول تھا حماد کی بیوہ ہمیں مخاطب کر کے کہنے لگی سر یہ نہ سمجھنا کہ صرف حماد کو قتل کیا گیاہے ۔ یہ آپ سب کے لئے پیغام ہے ۔ایک سوال پر انہوںنے کہا کہ 20جولائی سے دو تین روز پہلے میں نے باقی جج صاحبان سے کہا کہ سب مل بیٹھ کر ایک دوسرے کو کچھ بتا دیں کہ میں نے کیا لکھنا ہے لیکن اس کے باوجود ہم نے کوئی میٹنگ نہ کی ۔ اس کی وجہ تھی کہ ہم پر دباو¿ بہت زیادہ تھا کہ کوئی بھی اپنے آپ کو وقت سے پہلے ایکسپوز نہیں کرنا چاہتا تھا ۔ 20جولائی کو جب ہم مقدمے کی سماعت کے بعد عدالت سے نکلے اس وقت تک کسی جج کو یہ پتہ نہیں تھا کہ فیصلہ کیا ہونا ہے ۔ جب ہم چیمبر میں گئے اور وہاں بات چیت کی تو پتہ چلا کہ اس کا کیا فیصلہ ہونا ہے ۔ اس کے لئے میں نے پرچیاں بنائیں جن پر یس اور نو لکھا پھر میں نے ہر جج کے سامنے پرچیاں رکھیں اور ان کی بنیاد پر ہم نے فیصلہ سنا دیا ۔ میرے سمیت 10ججوں نے اس ریفرنس کو ہینڈل کیا میں کہتا ہوں کہ ان جیسے کوئی عظیم جج نہیں ہوتے ۔ میں ان میں سے ہر ایک کی عظمت کو سلام کرتا ہوں ۔ ان ججوں میں سے 9تین نومبرکو نکالے گئے ۔ 10ویں جسٹس عباسی شامل تھے جنہوں نے 3نومبرکو حلف اٹھایا ۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہر ایک کی اپنی سوچ اور صوابدید ہو تی ہے اور ثابت قدم رہے اور پھر وہ تین نومبر کو بھی اپنے موقف پر قائم رہے جسٹس شاکر اللہ جان کے بارے میں انہوں نے کہاکہ وہ بھی عظیم اور ثابت قدم جج ہیں اس وقت میں سمجھ رہا تھا کہ یہ ایسا وقت ہے جب اللہ تعالیٰ نے مجھے آزمانا ہے اور یہ فیصلہ میں نے پہلے دن ہی کر لیا تھا کہ چاہیے میں اکیلا ہی رہ جاو¿ں میں نے اپنا یہ فیصلہ اپنے ضمیر اور ایمان کے مطابق کرنا ہے اور میں نے ایمان کے مطابق ہی فیصلہ کیا۔ایک سوال پر انہوں نے کہاکہ میں نے میاں نواز شریف سے زندگی میں کبھی کوئی ذاتی فائدہ نہیں لیا۔میں نے 32سال ملازمت کی ہے بہت سے اعلیٰ عہدوں پر رہا ہوں مگر میں نے اس دوران کسی سے کوئی فائدہ نہیں لیا میں وہ شخص ہوں جس کے پاس رہنے کیلئے اپنا گھر تک نہیں ۔ دنیا کی کوئی چیز نہیں جو مجھے آفر نہ کی گئی ہو اگر مجھے نوکری کا لالچ ہوتا تو صدر پرویز مشرف بہت کچھ دیتا اس کی ایک خوبی ہے کہ جب وہ سودا کرتا ہے بڑا کھرا سودا کرتا ہے اور بڑے کھلے دل سے کرتا ہے اور پھر اس پر قائم رہتا ہے ۔ اس سوال پر کہ احمد سعید آپ کے پاس آفر لے کر آتے تھے جواب میں خلیل رمدے نے کہاکہ احمد سعید نے اس معاملے میں مجھ سے کبھی کوئی بات نہیں کی کہ میں کیا کروں او رکیا نہ کروں ہم نے جو بیس جولائی کو فیصلہ کیا اس پر ہمیں فخرہے اس کے بعد بھی ہمارا جو کردار رہا ہے وہ قابل فخر ہے انہوں نے کہاکہ جب مجھے کسی چیز کی آفر کی آتی تو مجھے بڑا ب±را لگتا انہوں نے کہاکہ ہم تمام ججوں پر بہت دباو¿ تھا انہوں نے کہاکہ جن ججوں نے بیس جولائی کو فیصلہ کیاتھا ان میں سے سوائے ایک جج کے باقی سب ججوں نے تین نومبر کو بھی حق کا ساتھ دیا۔ انہوں نے کہا کہ فیصلے کیلئے ڈر تو لگا ظاہر ہے ہم بھی انسان ہیں مگر کسی بھی خوف کیلئے انسان اپنے آپ کو تیار کر لیتا ہے تاہم دباو¿ ہر قسم کا تھا بیس جولائی کے بعد میں چھٹی ملک سے باہر چلا گیا میں جہاں کہیں گیا میرا پیچھا گیا خفیہ ایجنسیاں اور کچھ بندے میرے پیچھے لگے رہتے تھے مجھے جس کے گھر جانا تھا اس کو بعد میں دھمکاتے تھے کہ رمدے تمہارے گھر کیوں آیا کیا باتیں ہوئیں اس کو کیوں بلایا ؟ان کو حراساں بھی کیا گیا دوبئی ، ایمسٹرڈیم اور جنیوا میں کیا گیا ۔ جنیوا میں مجھے کسی دوست کا فون آیا جو بہت بڑے حکومتی عہدے پر تھے ایمسٹرڈیم میں میری بیٹی کا نمبر لیا گیا انہیں فون کر کے پوچھا گیا میری بیٹی نے بتایا کہ میرے والد جنیوا گئے ہیں پھر جنیوا کا نمبر لیا اور وہاں فون کیا میں پریشان ہو گیا کہ معلوم نہیں کیا بات ہو گئی ہے جب اس سے بات کی تو اس نے کہاکہ کوئی بات نہیں صرف خیر خیریت پوچھنے کیلئے فون کیا پھر مجھے پتہ چلا کہ شاید خفیہ والوں کو پتہ نہیں چلا کہ میں ایمسٹرڈیم سے نکل کر کہاں چلا گیا ہوں میں نے فون کرنے والے صاحب سے کہاکہ اگر آپ نے میری خیریت دریافت کرنی تھا تو آپ کے بندے ہر وقت میرے پیچھے لگے رہتے ہیں ان سے پوچھ لیتے جنیوا میں مجھے پتہ نہ چلا کہ بندے میرے پیچھے ہیں جنیوا میں میں اپنے ہم زلف کے ہاں ٹھہرا ہوا تھا جنیوا میں دو تین اخباروں میں نکلوایا گیا کہ جنیوا میں سازش ہو رہی ہے جب میں جنیوا میں تھا تو اعتزاز احسن بھی وہاں تھے اپنی بیٹی کے ہاں ٹھہرے ہوئے تھے جبکہ اعتزاز کو بھی معلوم نہیں تھا کہ میں بھی یہاں ہوں انہوں نے میرے ہم زلف کو فون کیاکہ ہم آپ کو ملنے آر ہے ہیں میرے ہم زلف نے مجھے اعتزاز کے بارے میں بتایا کہ وہ ملنا چاہتے ہیں تو میں نے کہا کہ ضرور آئیں ۔ جسٹس رمدے نے کہاکہ ہماری خفیہ تصویریں بھی بنائیں انہوںنے کہاکہ ہالینڈ میں بھی میرے پیچھے جاسوس لگے رہے جنیوا سے مجھے دوبئی جاناپڑا اس کے بعد میں ایمسٹرڈیم گیا وہاں ایئرپورٹ پر مجھے ملے انہوں نے کیمرہ بھی رکھا تھا اور ظاہر کررہے تھے کہ ہم جرنلسٹ ہیں مگر وہ اصلی نہیں تھے دو نمبر تھے۔ پھر انہوںنے میرے ساتھ اپنی تصویریں بھی بنائیں وہ باقاعدہ فون کر کے چیک کرتے تھے انہو ںنے دبئی ایمسٹرڈیم اور جنیوا فون کیا بعد میں بڑے لوگوں نے مجھے قسمیں دیں کہ معلوم نہیں یہ کس نے کیاہے اور کون لوگ آپ کے پیچھے تھے میرے بیٹے پر الزام بھی لگایا گیا کہ اس نے انکم ٹیکس میں دھاندلیاں کی ہیں اس کے بعد کوئی جواب نہیں آیا حتیٰ کہ میرے ایک عزیز بزرگ جنیوا کے ہسپتال میں داخل تھے ان کے پاس بھی خفیہ والے گئے اور پوچھا کہ خلیل الرحمن رمدے تمہارے پاس کیوں آیا تھا میں شوکت عزیز اور صدر کو الزام نہیں دیتا کیونکہ میرے پاس کوئی ثبوت نہیں یہ خدا جانتا ہے کہ خفیہ والے کس کے کہنے پر ایسا کر رہے تھے میرے بچوں کو بھی حراساں کیاگیا میں نے مشرف سے ملنے سے انکار جج کے طور پر کیا کیونکہ میرا منصب تھا کہ میں اپنے ایمان کے مطابق فیصلہ کروں۔ ہے ۔ اے پی ایس

No comments: