International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.

Tuesday, March 25, 2008

عوام کا خادم اور ججز کی بحالی۔۔۔۔ تحریر چودھری احسن پر یمی










ملک کی 13ویں قومی اسمبلی نے پیر کو مخدوم سیّد یوسف رضا گیلانی کو بھاری اکثریت سے وزیراعظم منتخب کر لیا، انہیں 264 ووٹ ملے جبکہ ان کے حریف چوہدری پرویز الٰہی کو 42 ووٹ ملے۔ جبکہ منتخب وزیراعظم نے گذشتہ روزایوانِ صدر میں صدر پرویز سے اپنے عہدے کا حلف بھی لے لیا ہے وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کاتمام نظر بند فاضل جج صاحبان کو فوری طو رپر رہا ئی کا حکم قا بل تحسین ہے۔ اب عوام ججز کی رہائی کے بعد ان کی بحالی کے منتظر ہیں اور عوام وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی سے یہ بھی توقع کرتے ہیں کہ وہ ججوں کی بحالی پر بھی عوام کو سر پرائز دیں گے اس کے علاوہ مہنگائی، غربت اور لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کیلئے بھی کو ئی ہنگامی بنیادوں پر حکمت عملی وضع کریں گے اور میثاقِ جمہوریت اور اعلان مری پر ان کی روح کے مطابق عملدر آمد کر کے پارلیمنٹ کی بالا دستی کو یقینی بنا ئیں گے چاروں صوبوں کے عوام نے نئی حکومت کو مینڈیٹ دیا ہے اور عوام نے بھی اس امید کے سا تھ توقع کی ہے کہ نئی حکومت ملک کے مسائل حل کرے گی۔ ا اگر چہ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ مسائل کے حل کیلئے 100 روزہ پروگرام پر عمل درآمد کرکے ثابت کیا جائے گا کہ ہم پاکستان کے وزیر اعظم نہیں، خادم ہیں۔ سیاسی قوّتیں ہم سے تعاون کریں، ہم ملک کی ترقی اور استحکام کیلئے کام کریں گے۔ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے یہ بھی اعتراف کیا ہے ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کیلئے کوئی ایک آدمی یا جماعت کچھ نہیں کر سکتی جب تک پوری قوم یکجا نہ ہو، اسی صورت میں ہم جمہوریت کی قیمت ادا کر سکتے ہیں۔ اگر چہ سید یوسف رضا گیلانی کی تعمیری سوچ اور عوام کے لئے کچھ کر گزرنے والے پختہ ارادوں پر کسی کو کوئی شک نہیں ۔لیکن عوام اتنے ڈرے اور سہمے ہوئے ہیںکہ نیا سیاسی منظر نا مہ تبدیل ہونے کے بعد بھی مہنگائی،غربت، بے روز گاری، نا انصا فی اور ہر شعبے میں لا قا نو نیت میں کوئی فرق نہ آیا تو پھر کدھر جا ئیں گے۔ کیو نکہ عوام کا سابقہ دور حکومت میں حکمرانوں کی غلط بیانی اور جھوٹ پر مبنی تقریر یں سن سن کر کا ن پک چکے ہیں۔ شوکت عزیز جو ملکی ترقی کیلئے پالیسیوں کے تسلل اور معاشی اصلا حات جیے الفاظ استعمال کر کے عوام کوبے وقوف بنا تا رہا اور جب وہ ملک سے فرار ہوا تو اس کے چٹے پٹے کھل کرکئی بحرانوں کی شکل میں عوام کے سامنے آ گئے اور اس وقت شوکت عزیز پر جو الزامات لگائے جا رئے ہیں کہ تین سو ارب سے زیادہ اس کی جیب میں گیا ہے اور کئی سو کھرب اس کے حواریوں نے لوٹا ہے جن کو مشرف نے بیسا کھیوں کے طور پر استعمال کیا اور قائد اعظم کا لیبل لگا کر لوٹ ما ر میں نادر شاہ کو بھی پہچھے چھوڑ گئے اور اسی طرح کے الزامات اور قیاس آرائیا ں پرویز مشرف کے خلاف بھی کی جا رہی ہیں کہ پرویز مشرف کی بھی بیرون ممالک میں کھر بوں روپے سرما یہ کا ری ہے۔ ارب، کھرب کہا ں سے آئے یہ ان میں سے کسی کے باپ نے ان کو نہیں دیے ظاہری بات ہے کہ قومی خزانے کو بے دردی سے لوٹا گیا ہے حکو مت بنانے کی تا خیری کی ایک و جہ مبینہ طور پر یہ بھی بتائی جا تی رہی ہے کہ لوٹ مار کو آڈٹ کرنے والوں سے کلیر کر راتے رہے ہیں ۔ لیکن لوٹ مار کرنے والوں سے گزارش ہے کہ دنیا کا بڑے سے بڑا جرم بھی ثبوت چھوڑ دیتا ہے اور یہی وہ وجوہات ہیں جن کی وجہ سے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری ان سب کو کھٹکتا ہے اگرچہ ایک وجہ مشرف کی صدارت بھی تھی ۔ چیف جسٹس افتخا ر محمد چودھری نے کسی کے باپ کو نہیں ما را ہوا۔ اس نے صرف اس روایت کو توڑا ہے۔ جس کے مطابق سا ٹھ سا لہ تاریخ میں آئین توڑ نے اور بد عنوان حکمرانوں کو عد لیہ تحفظ د یتی رہی اور اس کی وجہ سے ملک اور اس کے عوام آ ج تباہی کے دہا نے پر پہنچ گئے اور ایک ایسا ملک جس میں ایک فیصد لو گوں نے 99 فیصد کو یر غمال بنا یا ہوا ہے ان کی مثال ایسے ہی ہے جیسے تھانے میں کسی بے گناہ کو پکڑ کر اور اس کی بے بسی سے فا ئدہ اتھا کر اور اسے ڈرا دھمکا کر من مانی کی جا تی ہے اور یہی سلوک عوام سے ہو رہا ہے اگرچہ ان تمام برائیوں کا حل انقلاب ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جس معاشرے میں منافقت اور بد عنوانی عروج پر ہو وہا ں انقلاب کی کوئی توقع نہیں کی جا سکتی۔دوسری آپشن نظام کی تبدیلی کیلئے تعلیم ہے کہ اگر ہر پا کستانی تعلیم کے زیو ر سے آراستہ ہو اور صا حب شعور بن سکے لیکن افسوس کے ساتھ ملک میں ایسا بھی نہیں۔ سابقہ حکمران دعوے کرتے رہے کہ ملک کی شرح خواندگی باون فیصد ہو گئی ہے لیکن حقیقت اس کے بر عکس ہے ۔ شرح خوانگی پندرہ فیصد سے بھی کر ا س نہیں ہو ئی۔ اب نظام کی تبدیلی اور سما جی و آ ئینی تحفظ کے لئے عوام کے پا س جو شاٹ کٹ ہے وہ خود مختار عدلیہ کی آزادی ہے اس ضمن میں عدلیہ کی آزادی نام کی نہیں بلکہ کا م کی بھی ہونی چاہیے جس طرح افتخار محمد چودھری کی ایک نو NO نے اس ملک کے اس استحصالی طبقے کو بے نقاب کر کردیا جو سا ٹھ سال سے سولہ کروڑ عوام پر اجا رہ داری کر رہا ہے ۔ بات پرویز مشرف کی نہیں بلکہ ہر اس رو ےیے کی ہے جو اس نظام کی تبدیلی میں رکارٹ ہے ۔ پرویز مشرف نے بھی گزشتہ دنوں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ" اس ملک میں قیادت کا بحران ہے۔ ©©" قیادت کے ساتھ دیانت کا لفظ بھی لازم و ملزوم ہے ۔کیونکہ 2 نمبر قیادت کا سٹاک وافر مقدار میں موجود ہے اور جنہیں ہر دور میں اقتدار میں رہنا اچھا لگتا ہے ۔ قلم تو زہر پھو نکتا رہے گا بہرحا ل آتے ہیں نئی حکومت کی طرف 1973ءکا آئین ایسا مسودہ ہے جو قابل عمل اور قابل قبول ہے، اور اس ضمن میں وزیر اعظم یوسف رضا کو اداروں کی مضبوطی کےکیلئے یقین دلانے کے ساتھ عملی طور پر ججز کی بحالی کرکے ثابت کرنا ہوگا کہ ہم وزیر اعظم نہیں ،عوام کے خادم ہیں کیونکہ عوام کی یہی آواز ہے۔ عوام سے کئے گئے وعدوں کو بھی یاد ر کھنے کی بجائے ان کو پورا کرنا ہو گا انتقامی سیاست اگرچہ بری بات ہے لیکن سابق دور میں انتقامی سیاست کرنے والوں کے خلاف قانون کے مطابق ضرور کاروائی کی جائے اور ان کو کیفر کردار تک پہنچا یا جا ئے اور جہا ں تک قومی خزانہ لو ٹنے والوں کا تعلق ہے وہ معا ملہ چیف جسٹس افتخا ر محمد چودھری پر چھوڑ دیا جا ئے وہ جا نیں اور ان کا کام

No comments: