رچرڈ باؤچرنے میاں نوازشریف کے بعد صدر پرویز مشرف سے ملاقات کی ہے
ایک ایسے موقع پر جب پاکستان میں نئی حکومت اقتدار کی باگ ڈور سنبھال رہی ہے دو اعلیٰ امریکی اہلکاروں نے اسلام آباد میں نئی حکمراں قیادت سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔
نائب امریکی وزیر خارجہ جان نیگروپونٹے اور جنوبی ایشیا کے لیئے اسسٹنٹ سیکریٹری رچرڈ باؤچر نے مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں نواز شریف اور شہباز شریف سے ملاقات کی ہے۔
اس ملاقات میں کن موضوعات پر بات ہوئی اس بارے میں فی الحال انہوں نے کچھ بتانے سےگریز کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس بارے میں نواز شریف ایک اخباری کانفرنس میں کریں گے۔
اس ملاقات کے بعد دونوں امریکی اہلکار ایوان صدر پہنچے ہیں جہاں انہوں نے صدر پرویز مشرف سے ملاقات کی ہے۔
امریکی اہلکاروں کی مصروفیات کا ابھی علم نہیں ہے۔ یہ دورہ پہلے سے طے شدہ نہیں تھا۔
وزارت خارجہ پاکستانی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ یہ امریکی اہلکار بغیر کسی طے شدہ پروگرام کے اسلام آباد پہنچے ہیں۔ وزارت خارجہ کے ترجمان محمد صادق نے بات کرتے ہوئے کہا کہ انہیں ان اہلکاروں کی مصروفیات کا ابھی علم نہیں ہے۔ ان کا البتہ کہنا تھا کہ اس دورے میں یہ امریکی اہلکار ’سیاسی قیادت‘ سے ملاقاتیں کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ یہ دورہ پہلے سے طے شدہ نہیں تھا۔
ادھر اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے کی ترجمان کے میفیلڈ نے بتایا کہ یہ اعلیٰ اہلکار حکومت کے اندر اور باہر کے لوگوں سے ملیں گے جن میں سول سوسائٹی کے لوگ بھی شامل ہیں۔ تاہم انہوں نے اس کی مزید وضاحت نہیں کی۔
خیال ہے کہ وہ اسلام آباد میں قیام کے دوران حکمراں اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک الائنس کی قیادت کے علاوہ نئے وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی سے بھی ملاقاتیں کریں گے۔
مغربی دنیا خصوصًا امریکہ کو اخباری اطلاعات کے مطابق پاکستان میں نئی حکومت کے قیام سے قبائلی علاقوں میں شدت پسندوں کے خلاف جاری فوجی کاروائیوں سے متعلق خدشات پیدا ہوئے ہیں۔ دو اعلیٰ ترین اہلکاروں کی بغیر کسی پہلے سے طے شدہ پروگرام کے آمد سے اس تاثر کو تقویت ملتی ہے۔
نئی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ شدت پسندوں سے فوجی کارروائیوں کے ذریعے نہیں بلکہ بات چیت کے ذریعے مسائل حل کرنے کی کوشش کریں گے۔ مبصرین کے خیال میں امریکہ کو ایک اور تشویش صدر پرویز مشرف کے سیاسی طور پر اکیلے ہونے پر بھی ہے۔ امریکہ صدر مشرف کا پہلے دن سے بڑا حامی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں حلیف رہے ہیں۔ امریکی اہلکار نئی حکومت سے اس بابت یقین دہانی حاصل کرنے کی بھی کوشش کریں گے۔
بعض مبصرین کے مطابق امریکہ ایک جوہری مسلم ملک میں مزید سیاسی انتشار بھی نہیں چاہتا۔ ان ملاقاتوں کے بعد آیا یہ امریکی اہلکار ذرائع ابلاغ سے بات کریں گے یا نہیں یہ بھی ابھی واضح نہیں۔
No comments:
Post a Comment