بھور بن مری معاہدہ کے تحت چیف جسٹس سمیت تمام ججوں کی بحالی ضرور ی ہے پا کستان کے عوام کو امید ہے کہ میاں نوا ز شریف اور آصف زرداری اس معاہدے پر 30دن کے اندر اندر عملدآمد کرائینگے اور اگر معاہدہ پر عملدرآمد نہ ہوا تو عوام کے تہور تبدیل ہوجائینگے وکلاءنے بھی موجودہ حکومت سے ایک ہی بات کی ہے کہ 2نومبر والی عدالتوں کو بحال ہونا چاہیے اور جن ججوں نے پی سی او کے تحت حلف لیا ہے ان کیلئے بھی ایک راستہ ہے اگر ان ججوں میں کوئی میرٹ پر منتخب ہوا ہے تو وہ رہ سکتا ہے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے بینچوں میں توسیع کی جاسکتی ہے اور اس ضمن میں کوئی اعتراض نہیں جبکہ چودھری اعتزاز احسن نے کہا ہے کہ یہ تشویشناک بات ہے کہ چاروں صوبوں کے چیف جسٹس نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جناب ڈوگر پر اعتماد کا اظہار کیا ہے سپریم کورٹ کورکمانڈر ز کا ادارہ نہیں کہ جس پر اگر کوئی خطرہ لاحق ہوں تو فوری طور پر چاروں صوبوں کے چیف جسٹس اس پر اعتماد کریں عدلیہ آزاد ہے اور کوئی بھی جج دوسرے جج کا ماتحت نہیں یہ بات میری سمجھ سے بالا تر ہے اور تشویشناک بات ہے کہ چاروں صوبوں کے چیف جسٹس صاحبان نے اس طرح کیوں کیا عدالتیں آزاد ہیں ان کا اپنا ایک وقار ہے کیا ضرورت تھی کہ چاروں صوبوں کے چیف جسٹس صاحبان نے چیف جسٹس سپریم کورٹ ڈوگر صاحب پر اعتماد کا اظہار کیا ہے انہوںنے کہا ہمارا کسی سے کوئی جھگڑا نہیں نہ کوئی محاز آرائی ہے ہم صرف یہ چاہتے ہے کہ 2نومبر والی عدلیہ کو بحال کیا جائے اور اس کے علاوہ ہم کسی چیز پر راضی نہیں ہونگے اٹارنی جنرل آف پاکستان نے خود اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ 2نومبر کے بعد جوبھی عدالتی فیصلے ہوئے ہیں وہ غیر آئینی ہے انہوںنے کہا اب مرکز میں حکومت تشکیل پا گئی ہے اس کے باوجود ایوان صدر میں سازشوں کا سلسلہ بدستور جاری ہے اب کوئی سازش کامیاب نہیںہوسکتی کیونکہ مری معاہدے کے تحت چیف جسٹس سمیت سارے ججوں کو 30دن کے اندر بحال کرنا ہے انہوںنے کہا آصف زرداری میاں نواز شریف سے ان کے والد کے انتقال پر اظہار تعزیت کیلئے گئے تھے وہاں پر کوئی سیاسی بات چیت نہیں ہوئی اس ملاقات کو اخبارات نے غلط رنگ دیا ہے انہوںنے کہا کہ یہ ہماری روایت ہے کہ اگر کوئی خوشی پر نہ بلائیں تو نہیں جانا چاہیے اور اگر غمی پر بھی نہ بلائے تو وہاں ضرور جانا چاہیے انہوںنے کہا اگر پاکستان کے آئین میں کوئی ترامیم لائی جارہی ہے تو اچھی بات ہے ہم اسے دیکھیں گے اس ترامیم کا موجودہ پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے ججوںکے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے انہوںنے کہا جن ججوں نے پی سی او کے تحت حلف اٹھایا ہے امید ہے کہ وہ ایوان صدر میں ہونے والی سازشوں کا حصہ نہیں بنیں گے بلکہ اس سے الگ تھلگ رہیں گے خلیل رمد ے جو سپریم کورٹ کے جج ہے ان کے گھر پر غیر قانونی طور پر چھاپہ مار کر ان کے گھر کو سیل کیا گیا جس کا فوری طور پر وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے نوٹس لیا اور ان کا گھر دوبارہ ان کو دے دیا گیا ہے اور اس سازش میں ڈوگر صاحب ملوث تھے امید ہے کہ وہ مزید کسی سازش کا حصہ نہیں بنیں گے انہوں نے کہا کہ اگر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے مری معاہدے کے برعکس کوئی فیصلہ کرنے کی کوشش کی تو عوام سیاہ اور سفید کے بارے میں جانتے ہے اس لیے امید ہے کہ کوئی ایسا اقدام نہیں اٹھایاجائے گا جس سے معاہدے پر اثرپڑے موجودہ پی سی او کے تحت جن ججوں نے حلف لیا ہے ان کی واپسی کاراستہ موجود ہے اور جو میرٹ پر اپنے عہدوں پر پہنچے ہے وہ کام کرسکتے ہیں اور اس کیلئے سپریم کورٹ اور دیگر عدالتوں کی بینچوں میں اضافہ کیا جاسکتا ہے ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ وکلاءکی 9مارچ 2007سے جاری تحریک کامیابی کے قریب پہنچ چکی ہے جس سے حقیقی عدلیہ وجمہوریت قائم ہوگی ۔اگر موجودہ حالات کا فائدہ نہ اٹھایا گیا تو تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔ ججوں اور فوجی حکمرا نوں کی ملی بھگت سے ہمیشہ قانون کی بے حرمتی کی گئی ہے۔ حیرت ہے کہ رہائی کے بعد جج عدالتوں میں کیوں نہیں جارہے سیا سی جماعتوں نے اگر موجودہ حالات کا خاطر خواہ فائدہ نہ اٹھایا تو پھر نہ کبھی عدلیہ آزاد ہوگی اور نہ ہی ملک میں حقیقی جمہوریت آئے گی پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے غیر آئینی ججوں کو بھی معزول ہونے والے حقیقی ججوں کے ساتھ شامل کیا گیا تو یہ آئین کے ساتھ مذاق ہوگا۔ اصل اور نقل میں فرق ضرور رہنا چاہئے۔ آئندہ اعلی عدلیہ میں ججوں کی تقرری صرف چیف جسٹس صاحبان کی سفارش کی بجائے امریکہ کی طرز پر پارلیمنٹ کی کمیٹی کے ذریعے کی جائے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو سڑکوں پر آنے کا ہرگز کوئی شوق نہیں انہیں یہ اقدام مجبورا عدلیہ کو بچانے اور اس کا تشخص برقرار رکھنے کیلئے کرنا پڑا۔ عوامی حلقوں نے این آر او پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ایک انتہائی غیر مناسب قانون ہے جس کا فائدہ صرف بڑے لوگوں کو پہنچا ہے جبکہ عام آدمی جیلوں میں سزائیں کاٹ رہا ہے۔ جبکہ حلقو ں میں یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری سمیت دیگر جج 3نومبر سے نظر بند تھے اب وہ رہا ہوچکے ہیں ان کا عدالتوں میں جاکر کام نہ کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ کہ صدر پر ویز مشرف کے بعد اس منصب پر کوئی اچھا انسان فائز ہو پارلیمنٹ دو تہائی اکثریت سے صدر کا مواخذہ کرسکتی ہے تاہم پرویز مشرف غیر آئینی صدر ہیں اس لئے ان کے مواخذہ کی بھی ضرورت نہیں انہیں عدالت کے ذریعے فارغ کیا جائے۔ جبکہ وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ اقتدار تحفہ میں نہیں ملا کارکنوں کی قربانیوں کے نتیجے میں عوامی راج آیا ہے ۔آسائشوں ، مراعات اور مفادات کے لیے برسراقتدار نہیں آئے۔ اقتدار سے چمٹے رہنے کی کوئی ضرورت نہیں اگر عوام کی خدمت نہ کر سکے ۔آئین اور پیپلز پارٹی نے ملک کو یکجا رکھا ہواہے ۔ ملکی ترقی اور استحکام کے لیے سب کو آئین پر عمل کرنا ہو گا ۔نظام سے مطمئن نہیں ہیں ۔ اصل حقائق سے جلد عوام کو آگاہ کیا جائے گا۔ وفاقی وزراء سے ایک ہفتہ میں وزارتوں کے اصل حالات کی تفصیلی رپورٹس طلب کر لی ہیں ۔پارٹی میں جمہوریت ہے ۔ایسا نہ ہوتا تو میں وزیر اعظم نہ بنتا ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ آصف زرداری نے سب سے پہلے جمہوریت اپنے گھر یعنی پا رٹی کے اندر متعارف کرا ئی ہے اور آصف زرداری کے اس فیصلے کا پا کستان کے عوام انھیں خراج تحسین پیش کرتے ہیں انہوں نے فرسودہ نظام سے عوام کو نجات دلا کر عوامی راج کو قائم کیا ۔ ہم نے بھی نظام کو تبدیل کرنا ہے ۔ملک میں اتحاد کی حکومت قائم ہے ۔ذرالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے منشور اور بصیرت ، نظریات کو آگے لے کر چل رہے ہیں ۔ اسی کے ذریعے ہم نے عوام کو طاقت ور کرنا ہے ۔ عوامی راج پر فخر ہے نظام سے بغاوت کرتے ہیں ۔ ملک کی خدمت کے لئے بر سر اقتدار آئیں ہیں ۔ مخدوم نہیں خادم ہیں ۔ مستقبل میں سید یوسف رضا گیلانی لکھا جائے ۔ مخدوم نہ لکھا جائے ۔ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو وفاق کی اعلامت تھیں ۔ دو چیزوں پیپلز پارٹی اور آئین نے اس ملک نے یکجا رکھا ہوا ہے ۔ دونوں چیزیں لازم و ملزوم ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ آئین اور پیپلز پارٹی کی وجہ سے ملک قائم ہے ۔جب ہم نظام اداروں ، آئین کی بات کرتے ہیں تو ہم وفاق کی بات کرتے ہیں ۔ ملک کو مضبوط کرنا ،آگے بڑھانا اور ترقی کے راستے پر گامزن کرنا ہے تو سب کو آئین پر عمل کرنا ہو گا ۔پیپلز پارٹی پر یہ الزامات عائد ہوتے تھے کہ پارٹی میں جمہوریت نہیں ہے ۔ پارٹی میں انتخابات نہیں کرائے جاتے ۔ ان لوگوں سے میں سوال کرنا چاہتا ہوں کہ اکثریت ملنے کے باوجود بھٹو خاندان نے مجھے وزیر اعظم بنا کر ثابت کردیا کہ پارٹی میں جمہوریت ہے ۔ سندھ سے بھی وزیر اعظم ہوسکتا تھا ۔وفاق کی بنیاد پر پنجاب سے وزیر اعظم آیاہے۔ پیپلز پارٹی وفاق کی علامت ہے بھٹو کی وجہ سے وفاق قائم ہے ۔ اقتدار تحفہ میں نہیں ملا ۔ کارکنوں نے بے پناہ قربانیاں دیں ، کارکنوں نے کوڑے کھائے ، صعوبتیں برداشت کیں ، شاہی قلعہ میں رکھا گیا ، جیلیں کاٹیں ہر قسم کی معاشی اور سماجی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ۔پھر عوامی راج آیا ہے کارکن کسی موقع پر نہ جھکے نہ بکے ۔ ایسی سیاسی جماعت کی دنیا میں بہت کم مثال ملتی ہے اتنی قربانیاں کسی دوسری جگہ نہیں ملتی تاریخ ان قربانیوں کو فراموش نہیں کر سکے گی۔ شہداء کے خون کی وجہ سے اس مقام پر پہنچے ہیں ۔ قوم اور پارٹی کو یقین دہانی کراتے ہیں کہ آسائشوں ، مفادات اور مراعات کے لیے اقتدار میں نہیں آئے بلکہ عوام کی خدمت کے لیے آئے ہیں ۔ خون رائیگاں نہیں جائے گا ۔ انہوں نے کہاکہ ہم اور کابینہ عوام کی توقعات پر پورا اترنے کی کوشش کریں گے۔ اقتدار پر چمٹے رہنے کی ضرورت نہیں اگر عوام کی خدمت نہیں کر سکے ۔ پاکستان کی خدمت کے لیے آئے ہیں عوام کے مسائل حل کریں گے ۔ اگر ایسا نہ کر سکے تو ان عہدوں پر بیٹھے رہنے کا کیا جواز ہو گا پارٹی کی قائد شہید بے نظیر بھٹو نے بھی اپنی شہادت سے چوبیس گھنٹے قبل مجھے یہی پیغام دیا نظام کی تبدیلی چاہتے ہیں موجودہ نظام سے مطمئن نہیں ہیں ۔ آئین ، قانون کی حکمرانی اور عوام کے منتخب نمائندوں کے عزت و احترام کو یقینی بنانا ہے ۔ سولہ کروڑ عوام کا مینڈیٹ لے کر آئے ہیں ۔عوامی راج کے لیے مینڈیٹ ملا ہے ۔ حکومت کے سو دن کا پروگرام دے دیا ہے کابینہ کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ایک ہفتہ میں اپنی وزارتوں کا جائزہ لے کر رپورٹ پیش کریں ۔ اصل حقائق قوم کے سامنے لائیں گے۔ عوام اور دنیا کی رہنمائی چاہیے مسائل گھمبیر ہیں منقسم مینڈیٹ ملا ہے ۔ مخلوط حکومت قائم ہوئی ہے تمام فورسز کو ساتھ لے کر چلیں گے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ روز مجھے کسی نے ایوان صدر میں کہا کہ قومی اسمبلی نے متفقہ طور پر ان پر اعتماد کا اظہار کیا ہے کوئی اپوزیشن نہیں ہو گی ۔ وزیر اعظم نے کہا کہ میڈیا ہماری اپوزیشن ہے وہ اصلاح کرے غلطیوں کی اصلاح کرے مثبت تنقید کا خیر مقدم کیا جائے گا ۔غلطیوں سے سیکھیں گے۔ انہوںنے کہاکہ بے نظیر بھٹو کی حکومت جب برطرف ہوئی تو میں نے صدارتی اقدام کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا کہ یہ اقدام بد نیتی پر مبنی ہے ۔وزیر اعظم نے کہاکہ میڈیا ہماری غلطیوں سے آگاہ کرے۔ میں خود بھی صحافت سے وابستہ ہوں کیونکہ میں نے صحافت میں ماسٹر کیاہواہے ۔وزیر اعظم نے اپنی تقریب کا اختتام اس شعر پر کیا۔ ” کچھ اپنوں کچھ غیروں نے سہارا دیا ۔۔۔لغزش کی ضرورت تھی سنبھلنے کے لیے “ ۔۔
International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.
Wednesday, April 2, 2008
سب کو آئین پر عمل کرنا ہو گا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔۔۔۔ تحریر چودھری احسن پریمی
بھور بن مری معاہدہ کے تحت چیف جسٹس سمیت تمام ججوں کی بحالی ضرور ی ہے پا کستان کے عوام کو امید ہے کہ میاں نوا ز شریف اور آصف زرداری اس معاہدے پر 30دن کے اندر اندر عملدآمد کرائینگے اور اگر معاہدہ پر عملدرآمد نہ ہوا تو عوام کے تہور تبدیل ہوجائینگے وکلاءنے بھی موجودہ حکومت سے ایک ہی بات کی ہے کہ 2نومبر والی عدالتوں کو بحال ہونا چاہیے اور جن ججوں نے پی سی او کے تحت حلف لیا ہے ان کیلئے بھی ایک راستہ ہے اگر ان ججوں میں کوئی میرٹ پر منتخب ہوا ہے تو وہ رہ سکتا ہے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے بینچوں میں توسیع کی جاسکتی ہے اور اس ضمن میں کوئی اعتراض نہیں جبکہ چودھری اعتزاز احسن نے کہا ہے کہ یہ تشویشناک بات ہے کہ چاروں صوبوں کے چیف جسٹس نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جناب ڈوگر پر اعتماد کا اظہار کیا ہے سپریم کورٹ کورکمانڈر ز کا ادارہ نہیں کہ جس پر اگر کوئی خطرہ لاحق ہوں تو فوری طور پر چاروں صوبوں کے چیف جسٹس اس پر اعتماد کریں عدلیہ آزاد ہے اور کوئی بھی جج دوسرے جج کا ماتحت نہیں یہ بات میری سمجھ سے بالا تر ہے اور تشویشناک بات ہے کہ چاروں صوبوں کے چیف جسٹس صاحبان نے اس طرح کیوں کیا عدالتیں آزاد ہیں ان کا اپنا ایک وقار ہے کیا ضرورت تھی کہ چاروں صوبوں کے چیف جسٹس صاحبان نے چیف جسٹس سپریم کورٹ ڈوگر صاحب پر اعتماد کا اظہار کیا ہے انہوںنے کہا ہمارا کسی سے کوئی جھگڑا نہیں نہ کوئی محاز آرائی ہے ہم صرف یہ چاہتے ہے کہ 2نومبر والی عدلیہ کو بحال کیا جائے اور اس کے علاوہ ہم کسی چیز پر راضی نہیں ہونگے اٹارنی جنرل آف پاکستان نے خود اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ 2نومبر کے بعد جوبھی عدالتی فیصلے ہوئے ہیں وہ غیر آئینی ہے انہوںنے کہا اب مرکز میں حکومت تشکیل پا گئی ہے اس کے باوجود ایوان صدر میں سازشوں کا سلسلہ بدستور جاری ہے اب کوئی سازش کامیاب نہیںہوسکتی کیونکہ مری معاہدے کے تحت چیف جسٹس سمیت سارے ججوں کو 30دن کے اندر بحال کرنا ہے انہوںنے کہا آصف زرداری میاں نواز شریف سے ان کے والد کے انتقال پر اظہار تعزیت کیلئے گئے تھے وہاں پر کوئی سیاسی بات چیت نہیں ہوئی اس ملاقات کو اخبارات نے غلط رنگ دیا ہے انہوںنے کہا کہ یہ ہماری روایت ہے کہ اگر کوئی خوشی پر نہ بلائیں تو نہیں جانا چاہیے اور اگر غمی پر بھی نہ بلائے تو وہاں ضرور جانا چاہیے انہوںنے کہا اگر پاکستان کے آئین میں کوئی ترامیم لائی جارہی ہے تو اچھی بات ہے ہم اسے دیکھیں گے اس ترامیم کا موجودہ پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے ججوںکے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے انہوںنے کہا جن ججوں نے پی سی او کے تحت حلف اٹھایا ہے امید ہے کہ وہ ایوان صدر میں ہونے والی سازشوں کا حصہ نہیں بنیں گے بلکہ اس سے الگ تھلگ رہیں گے خلیل رمد ے جو سپریم کورٹ کے جج ہے ان کے گھر پر غیر قانونی طور پر چھاپہ مار کر ان کے گھر کو سیل کیا گیا جس کا فوری طور پر وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے نوٹس لیا اور ان کا گھر دوبارہ ان کو دے دیا گیا ہے اور اس سازش میں ڈوگر صاحب ملوث تھے امید ہے کہ وہ مزید کسی سازش کا حصہ نہیں بنیں گے انہوں نے کہا کہ اگر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے مری معاہدے کے برعکس کوئی فیصلہ کرنے کی کوشش کی تو عوام سیاہ اور سفید کے بارے میں جانتے ہے اس لیے امید ہے کہ کوئی ایسا اقدام نہیں اٹھایاجائے گا جس سے معاہدے پر اثرپڑے موجودہ پی سی او کے تحت جن ججوں نے حلف لیا ہے ان کی واپسی کاراستہ موجود ہے اور جو میرٹ پر اپنے عہدوں پر پہنچے ہے وہ کام کرسکتے ہیں اور اس کیلئے سپریم کورٹ اور دیگر عدالتوں کی بینچوں میں اضافہ کیا جاسکتا ہے ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ وکلاءکی 9مارچ 2007سے جاری تحریک کامیابی کے قریب پہنچ چکی ہے جس سے حقیقی عدلیہ وجمہوریت قائم ہوگی ۔اگر موجودہ حالات کا فائدہ نہ اٹھایا گیا تو تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔ ججوں اور فوجی حکمرا نوں کی ملی بھگت سے ہمیشہ قانون کی بے حرمتی کی گئی ہے۔ حیرت ہے کہ رہائی کے بعد جج عدالتوں میں کیوں نہیں جارہے سیا سی جماعتوں نے اگر موجودہ حالات کا خاطر خواہ فائدہ نہ اٹھایا تو پھر نہ کبھی عدلیہ آزاد ہوگی اور نہ ہی ملک میں حقیقی جمہوریت آئے گی پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے غیر آئینی ججوں کو بھی معزول ہونے والے حقیقی ججوں کے ساتھ شامل کیا گیا تو یہ آئین کے ساتھ مذاق ہوگا۔ اصل اور نقل میں فرق ضرور رہنا چاہئے۔ آئندہ اعلی عدلیہ میں ججوں کی تقرری صرف چیف جسٹس صاحبان کی سفارش کی بجائے امریکہ کی طرز پر پارلیمنٹ کی کمیٹی کے ذریعے کی جائے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو سڑکوں پر آنے کا ہرگز کوئی شوق نہیں انہیں یہ اقدام مجبورا عدلیہ کو بچانے اور اس کا تشخص برقرار رکھنے کیلئے کرنا پڑا۔ عوامی حلقوں نے این آر او پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ایک انتہائی غیر مناسب قانون ہے جس کا فائدہ صرف بڑے لوگوں کو پہنچا ہے جبکہ عام آدمی جیلوں میں سزائیں کاٹ رہا ہے۔ جبکہ حلقو ں میں یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری سمیت دیگر جج 3نومبر سے نظر بند تھے اب وہ رہا ہوچکے ہیں ان کا عدالتوں میں جاکر کام نہ کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ کہ صدر پر ویز مشرف کے بعد اس منصب پر کوئی اچھا انسان فائز ہو پارلیمنٹ دو تہائی اکثریت سے صدر کا مواخذہ کرسکتی ہے تاہم پرویز مشرف غیر آئینی صدر ہیں اس لئے ان کے مواخذہ کی بھی ضرورت نہیں انہیں عدالت کے ذریعے فارغ کیا جائے۔ جبکہ وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ اقتدار تحفہ میں نہیں ملا کارکنوں کی قربانیوں کے نتیجے میں عوامی راج آیا ہے ۔آسائشوں ، مراعات اور مفادات کے لیے برسراقتدار نہیں آئے۔ اقتدار سے چمٹے رہنے کی کوئی ضرورت نہیں اگر عوام کی خدمت نہ کر سکے ۔آئین اور پیپلز پارٹی نے ملک کو یکجا رکھا ہواہے ۔ ملکی ترقی اور استحکام کے لیے سب کو آئین پر عمل کرنا ہو گا ۔نظام سے مطمئن نہیں ہیں ۔ اصل حقائق سے جلد عوام کو آگاہ کیا جائے گا۔ وفاقی وزراء سے ایک ہفتہ میں وزارتوں کے اصل حالات کی تفصیلی رپورٹس طلب کر لی ہیں ۔پارٹی میں جمہوریت ہے ۔ایسا نہ ہوتا تو میں وزیر اعظم نہ بنتا ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ آصف زرداری نے سب سے پہلے جمہوریت اپنے گھر یعنی پا رٹی کے اندر متعارف کرا ئی ہے اور آصف زرداری کے اس فیصلے کا پا کستان کے عوام انھیں خراج تحسین پیش کرتے ہیں انہوں نے فرسودہ نظام سے عوام کو نجات دلا کر عوامی راج کو قائم کیا ۔ ہم نے بھی نظام کو تبدیل کرنا ہے ۔ملک میں اتحاد کی حکومت قائم ہے ۔ذرالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے منشور اور بصیرت ، نظریات کو آگے لے کر چل رہے ہیں ۔ اسی کے ذریعے ہم نے عوام کو طاقت ور کرنا ہے ۔ عوامی راج پر فخر ہے نظام سے بغاوت کرتے ہیں ۔ ملک کی خدمت کے لئے بر سر اقتدار آئیں ہیں ۔ مخدوم نہیں خادم ہیں ۔ مستقبل میں سید یوسف رضا گیلانی لکھا جائے ۔ مخدوم نہ لکھا جائے ۔ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو وفاق کی اعلامت تھیں ۔ دو چیزوں پیپلز پارٹی اور آئین نے اس ملک نے یکجا رکھا ہوا ہے ۔ دونوں چیزیں لازم و ملزوم ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ آئین اور پیپلز پارٹی کی وجہ سے ملک قائم ہے ۔جب ہم نظام اداروں ، آئین کی بات کرتے ہیں تو ہم وفاق کی بات کرتے ہیں ۔ ملک کو مضبوط کرنا ،آگے بڑھانا اور ترقی کے راستے پر گامزن کرنا ہے تو سب کو آئین پر عمل کرنا ہو گا ۔پیپلز پارٹی پر یہ الزامات عائد ہوتے تھے کہ پارٹی میں جمہوریت نہیں ہے ۔ پارٹی میں انتخابات نہیں کرائے جاتے ۔ ان لوگوں سے میں سوال کرنا چاہتا ہوں کہ اکثریت ملنے کے باوجود بھٹو خاندان نے مجھے وزیر اعظم بنا کر ثابت کردیا کہ پارٹی میں جمہوریت ہے ۔ سندھ سے بھی وزیر اعظم ہوسکتا تھا ۔وفاق کی بنیاد پر پنجاب سے وزیر اعظم آیاہے۔ پیپلز پارٹی وفاق کی علامت ہے بھٹو کی وجہ سے وفاق قائم ہے ۔ اقتدار تحفہ میں نہیں ملا ۔ کارکنوں نے بے پناہ قربانیاں دیں ، کارکنوں نے کوڑے کھائے ، صعوبتیں برداشت کیں ، شاہی قلعہ میں رکھا گیا ، جیلیں کاٹیں ہر قسم کی معاشی اور سماجی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ۔پھر عوامی راج آیا ہے کارکن کسی موقع پر نہ جھکے نہ بکے ۔ ایسی سیاسی جماعت کی دنیا میں بہت کم مثال ملتی ہے اتنی قربانیاں کسی دوسری جگہ نہیں ملتی تاریخ ان قربانیوں کو فراموش نہیں کر سکے گی۔ شہداء کے خون کی وجہ سے اس مقام پر پہنچے ہیں ۔ قوم اور پارٹی کو یقین دہانی کراتے ہیں کہ آسائشوں ، مفادات اور مراعات کے لیے اقتدار میں نہیں آئے بلکہ عوام کی خدمت کے لیے آئے ہیں ۔ خون رائیگاں نہیں جائے گا ۔ انہوں نے کہاکہ ہم اور کابینہ عوام کی توقعات پر پورا اترنے کی کوشش کریں گے۔ اقتدار پر چمٹے رہنے کی ضرورت نہیں اگر عوام کی خدمت نہیں کر سکے ۔ پاکستان کی خدمت کے لیے آئے ہیں عوام کے مسائل حل کریں گے ۔ اگر ایسا نہ کر سکے تو ان عہدوں پر بیٹھے رہنے کا کیا جواز ہو گا پارٹی کی قائد شہید بے نظیر بھٹو نے بھی اپنی شہادت سے چوبیس گھنٹے قبل مجھے یہی پیغام دیا نظام کی تبدیلی چاہتے ہیں موجودہ نظام سے مطمئن نہیں ہیں ۔ آئین ، قانون کی حکمرانی اور عوام کے منتخب نمائندوں کے عزت و احترام کو یقینی بنانا ہے ۔ سولہ کروڑ عوام کا مینڈیٹ لے کر آئے ہیں ۔عوامی راج کے لیے مینڈیٹ ملا ہے ۔ حکومت کے سو دن کا پروگرام دے دیا ہے کابینہ کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ایک ہفتہ میں اپنی وزارتوں کا جائزہ لے کر رپورٹ پیش کریں ۔ اصل حقائق قوم کے سامنے لائیں گے۔ عوام اور دنیا کی رہنمائی چاہیے مسائل گھمبیر ہیں منقسم مینڈیٹ ملا ہے ۔ مخلوط حکومت قائم ہوئی ہے تمام فورسز کو ساتھ لے کر چلیں گے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ روز مجھے کسی نے ایوان صدر میں کہا کہ قومی اسمبلی نے متفقہ طور پر ان پر اعتماد کا اظہار کیا ہے کوئی اپوزیشن نہیں ہو گی ۔ وزیر اعظم نے کہا کہ میڈیا ہماری اپوزیشن ہے وہ اصلاح کرے غلطیوں کی اصلاح کرے مثبت تنقید کا خیر مقدم کیا جائے گا ۔غلطیوں سے سیکھیں گے۔ انہوںنے کہاکہ بے نظیر بھٹو کی حکومت جب برطرف ہوئی تو میں نے صدارتی اقدام کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا کہ یہ اقدام بد نیتی پر مبنی ہے ۔وزیر اعظم نے کہاکہ میڈیا ہماری غلطیوں سے آگاہ کرے۔ میں خود بھی صحافت سے وابستہ ہوں کیونکہ میں نے صحافت میں ماسٹر کیاہواہے ۔وزیر اعظم نے اپنی تقریب کا اختتام اس شعر پر کیا۔ ” کچھ اپنوں کچھ غیروں نے سہارا دیا ۔۔۔لغزش کی ضرورت تھی سنبھلنے کے لیے “ ۔۔
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment