International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.

Sunday, April 20, 2008

گیلانی کے بعد زرداری وزیر اعظم ۔۔۔۔۔۔۔ تحریر چودھری احسن پریمی






بش انتظامیہ نے شدت پسندوں کے خلاف پاکستانی علاقوں تک کارروائیاں بڑھانے سے متعلق امریکی فوجی کمانڈرز کی تجویز مسترد کردی ہے اور کہا ہے کہ پاکستانی علاقوں میں امریکی فوج کی کسی بھی کارروائی سے نومنتخب حکومت اور شدت پسندوں کے درمیان جاری مذاکرات کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ایک امریکی اخبار کے مطابق افغانستان میں امریکی کمانڈرز نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کی کوششوں میں اضافہ پر زور دیتے ہوئے پر پاکستان کے قبائیلی علاقوں میں شدت پسندوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا تھا۔ واشنگٹن میں امریکی انتظامیہ کے ایک اہلکار نے کہا ہے کہ امریکی کمانڈرز کی تجویز میں محدودسرحد پار پاکستان میں محدو آرٹلری حملے ،پریڈیٹر طیاروں کے ذریعہ میزائل حملے یا سی آئی اے پیرا ملٹری فورسز یا اسپیشل پریشن فورسز کی چھوٹی ٹیموں کے ذریعہ کارروائیاں شامل ہیں ۔ اخبار کے مطابق امریکی کمانڈر اس بات کو ترجیح دے رہے ہیں کہ یہ حملے پاکستانی فوج کے تحت ہوں ،تاہم قبائیلی علاقوں میں پاکستانی فوج کا آپریشن شدت پسندوں کے ساتھ مذاکرات کی وجہ سے کم ہوگیا ہے۔اخبار کا کہنا ہے کہ افغانستان میں امریکی اہلکاروں نے پاکستان میں ممکنہ اہداف کے بارے میں پاکستان میں امریکی سفیر این پیٹرسن سے سے تبادلہ خیال کیا ہے۔اخبار نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان نے سی آئی اے کو قبائیلی علاقوں میں عرب اور دوسرے غیر ملکی شدت پسندوں کو ہلا ک کر نے کی محدود اتھارٹی دی ہے۔اخبار کا کہنا ہے کہ یہ واضح نہیں ہے کہ کیا سینئر حکام حملہ کے اختیار کے باے میں بحث میں شامل ہیں یا نہیں ؟ امریکی حکام کہتے رہے ہیں کہ قبائیلی علاقوں میں شدت پسندوں کے خلاف حملوں کے امکان کو رد نہیں کیاجاسکتا ۔ قومی ایشوز پر صوبوں میں عملدرآمد کرانے کیلئے مربوط پالیسی کا قیام ناگزیر ہے ۔ اگرچہ 100روزہ ایکشن پلان پر عملدرآمد جاری ہے اورعوام جلد ریلیف ملنے کے انتظار میں ہیں۔ اورتمام سیاسی جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنا اس لئے ضروری ہے تاکہ عوام کے مسائل افہام و تفہیم سے حل ہوسکیں ۔ قومی مالیاتی کمیشن ( این ایف سی ) ایوارڈ، پانی کی تقسیم، صوبائی خود مختاری اور لوکل گورنمنٹ سسٹم میں اصلاحات کیلئے یکساں پالیسی کا قیام بھی ضروری ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کا دعوی ہے کہ وہ وفاق کی علامت ہے اور پارٹی کی چیئرپرسن شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے جمہوریت اور وفاق کے استحکام کیلئے قربانی دی ہے ۔ پاکستان کے عوام کی فلاح و بہبود اور ان کے مسائل کے حل کیلئے شہید بی بی نے جو پروگرام مرتب کیا تھا اور جو منشور دیا تھا اس کے تحت ان کی حکومت نے 100 روز ایکشن پلان بنایا ہے بقول وزیر اعظم گیلانی اس ایکشن پلان پرانھوں نے عملدرآمد شروع کر دیا ہے ۔ وفاق اور صوبوں کی سطح پر عملدرآمد سے 100 دنوں کے بعد عوام کو فوری ریلیف ملنا شروع ہو جائے گا اور عوام تبدیلی محسوس کریں گے۔ اولین ترجیح ملک سے بیروز گاری ، مہنگائی اور غربت کا خاتمہ ہے ، جس کے لیے اقدامات کیے جا ئیں ملک بھر میں معیشت کے استحکام کیلئے نئی صنعتیں ، فیکٹریاں اور ملیں قائم کی جائیں ۔ صنعتکاروں اور تاجروں کو ریلیف پیکیج دیا جائے ۔ نئے انڈسٹریل زونز قائم کرکے روز گار کے مواقع پیدا کیے جائیں چاروں صوبوں کیلئے یکساں پالیسی ہو تعلیم، صحت، ہاو¿سنگ، مواصلات اور زراعت کے شعبوں پر خصوصی توجہ دینی چاہئے۔ تعلیم کے شعبے میں انقلابی اصلاحات کی جائیں اور پرائمری تعلیم کے شعبے کو مضبوط کیا جائے وزیر اعظم کو چاہیے کہ سب سے پہلے گندم کی اسمگلنگ کو روکنے کیلئے اور عوام کو سستا اور معیاری آٹا فراہم کرنے کیلئے ہر ممکن اقدامات کیے جائیں۔پورے ملک میں بجلی کا بحران ہے اور بجلی کے بحران کو حل کرنے کیلئے قلیل المیعاد، طویل المیعاد اور درمیانی مدت کی پالیسیاں مرتب کی جا ئیں۔ جبکہ حکمران پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے قومی اسمبلی کے انتخاب میں شرکت کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر ضرورت پڑی تو وہ وزیراعظم کا عہدہ سنبھال سکتے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ پرویز مشرف کو اقتدار میں لائی اور اب یہی قوّتیں جمہوری حکومت کے خلاف سازشیں کر رہی ہیں، موجودہ حکومت کو دو تہائی اکثریت ملی تو صدر کے احتساب کا سوچے گی۔ آصف زرداری ملک کی خاطر تصادم نہیں چاہتے،ا ان کے مطابق عدلیہ ایسی ہونی چاہیے جو انتظامیہ کے دباو¿ میں نہ آئے،انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ محترمہ نے بچّوں کا گارڈین مجھے نہیں، میری بہن فریال کو نام زد کیا ہے ، تمام برطرف ججوں کو بحال کیا جائے گا اور اس کے ساتھ ساتھ عدلیہ میں اصلاحات کا پیکیج بھی پارلیمان میں پیش کیا جا رہا ہے۔آصف علی زرداری نے ججوں کے بارے میں کہا ہے کہ انہوں نے جنگ کا آغاز اس لیے نہیں کیا کہ جمہوریت کو خطرہ ہے یا نظام خطرے میں ہے، بلکہ شروعات اپنی ذات کی خاطر کی ہے کہ ان کی نوکری کو خطرہ ہے، لیکن ان کے بقول اس کے باوجود بھی وہ عدلیہ کو بحال کر رہے ہیں۔ ’ہمارے ساتھ کیا ہوا، اللہ شاہ صاحب (سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس سجاد علی شاہ) کو سلامت رکھے، میں آپ کو آج ایک راز کی بات بتاوئں کہ جنگ شروع کہاں سے ہوئی۔ اصل میں ہم نے ان کے بیٹے کو نوکری دیر سے دی، ذاتی بات پر لغاری (سابق صدر سردار فاروق لغاری) اور ایک سید نے بے وقوفی کی سازش کی اور پیپلزپارٹی کی حکومت برطرف ہوئی، ملک کو کہاں لے گئی، مارشل لا لگا‘ سپریم کورٹ کے جج جسٹس فلک شیر کو سینیارٹی کی بنیاد پر چیف جسٹس بنانے کے سوال پر انہوں نے کہا ہے کہ اس بارے میں انہوں نے اخبار میں پڑھا ہے اور حقیقت وزارت قانون کو معلوم ہوگی۔ آصف علی زرداری نے کہا کہ وہ عدلیہ کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں اور ایسی عدلیہ ہونی چاہیے جو انتظامیہ کے دبائو میں نہ آئے۔ بینظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات اقوام متحدہ سے کرانے کے بارے میں سوال پر انہوں نے بتایا ہے کہ آئندہ دو ہفتوں کے اندر وزیر خارجہ اقوام متحدہ کو باضابطہ خط بھیج دیں گے۔ اقوام متحدہ سے تحقیقات میں بیورو کریسی کی جانب سے رکاوٹ کے بارے میں انہوں نے کہا ہے کہ ’بیورو کریسی کی ایک رائے ضرور ہوتی ہے لیکن وہ سمجھیں کہ مکھی پہ مکھی بٹھا تے ہیں۔ لاڑکانہ سے بینظیر بھٹو کی قومی اسمبلی کی نشست پر وہ آصف اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور کاغذات نامزدگی جمع کرائیں گے۔ ’ بی بی شہید نے وصیت میں بچّوں کا گارڈین آصف زرداری کو نام زد نہیں کیا بلکہ ان کی بہن فریال کو کیا ہے، شاید بی بی سمجھتی ہوں کہ آصف پارٹی چیئرمین بن رہا ہو اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین کی ذمہ داری بہت بڑی ہے اور اب تک جو بھی پارٹی چیئرمین بنا ہے شہید کیا گیا، شاید اس لیے انہوں نے فریال کو (گارڈین) مقرر کیا ہے‘ رکن اسمبلی بننے کے بعد ان سے وزیراعظم بننے کے بارے میں دریافت کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ یہ ضروری نہیں کہ پارٹی چیئرمین، وزیراعظم بھی بنے۔ جب پوچھا کہ کیا وہ عہد کرتے ہیں کہ وزیراعظم نہیں بنیں گے تو انہوں نے انکار کیا اور کہا کہ اگر ضروری ہوا تو وہ وزیراعظم بنیں گے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ کہتے ہیں کہ کچھ خفیہ ہاتھ جمہوری حکومت کے خلاف سازش کر رہے ہیں، آخر یہ کون ہیں، آپ حکومت میں ہوتے ہوئے بھی ان کی نشاندہی نہیں کرسکتے؟ تو انہوں نے کہا کہ ’ان کی نشاندہی کرتے ہیں، یہ وہی قوتیں ہیں جنہیں آپ اسٹیبلشمینٹ کہتے ہیں۔‘ ’ان قوتوں نے ہی بی بی شہید سے کہا کہ سن دو ہزار سات کے الیکشن کا بائیکاٹ کریں، بی بی نے ایسا نہیں کیا تو انہوں نے دھمکی دی کہ وہ پیپلز پارٹی کو صرف سندھ تک محدود کردیں گے اور ایسا ہوا بھی لیکن بی بی شہید نے ان قوّتوں کا مقابلہ کیا، یہ وہی قوّتیں ہیں جو صدر مشرف کو اقتدار میں لائیں اور یہی قوتیں جمہوری حکومت کے خلاف محلاتی سازشیں کر رہی ہیں۔ ان کے اس جواب پر جب پوچھا گیا کہ ایک طرف آپ صدر مشرف کو سازشی قوّت قرار دے رہے ہیں اور دوسری طرف ان کے ساتھ محبت اور نفرت کا رشتہ بھی ساتھ ساتھ برقرار رکھا ہوا ہے تو آصف علی زرداری نے کہا کہ ’صدر مشرف سے محبت ہے نہ نفرت، ہم ان کی اسمبلی میں نہیں بلکہ اپنی اسمبلی میں بیٹھے ہیں، ان کا بطور صدر پارلیمان سے ایک تعلق ہے اور فی الحال اسٹیٹسکو برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔‘ ’ہم ملک کی خاطر تصادم نہیں چاہتے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم انہیں قبول کرتے ہیں، جب بھی ہمیں دو تہائی اکثریت ملی ہم ان کا محاسبہ کرنے کا سوچیں گے۔ جبکہ وفاقی وزیر قانون و پارلیمانی امور فاروق ایچ نائیک نے کہا ہے کہ صدر اور وزیراعظم کے اختیارات میں توازن کیلئے آئینی پیکج لایا جائے گا، پاکستان پیپلز پارٹی اور اس کی اتحادی جماعتوں نے معزول ججوں کی بحالی سمیت جو وعدے کیے وہ تمام پورے کیے جائیں گے اور آئندہ چند دنوں میں سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا، معزول چیف جسٹس کی 2013ء تک مدت میں کمی کے بارے میں کوئی بات اب تک زیر بحث نہیں آئی اور جو ٹائم فریم دیا گیا تھا اس کے ندر معاملات طے ہو جائیں گے۔ اہم فیصلہ جلد سامنے آنے والا ہے۔ اتحادی جماعتوں کی مشاورت کے بعد قومی اسمبلی میں ججوں کی بحالی کی قرارداد پیش کریں گے۔ پاکستان پیپلز پارٹی ملک میں قانون کی حکمرانی، جمہوریت، عدلیہ کی خود مختاری اور پارلیمان کی بالادستی کیلئے پ±رعزم ہے۔ ہماری عظیم قائد محترمہ بے نظیر بھٹو شہید نے اپنی جان کا نذرانہ اس مشن کی تکمیل کیلئے دیا۔ ہمارے شریک چیئرمین آصف علی زرداری محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے مشن کو آگے لے کر بڑھ رہے ہیں، ہم آئین اور قانون کے مطابق عمل کریں گے اور پاکستان کے عوام کوکسی کالے قانون اور امتیازی قانون سے متاثر نہیں ہونے دیں گے۔ اعتزاز احسن کے حمایت یافتہ سرحد سے تعلق رکھنے والے حاجی سید رحمن پاکستان بارکونسل کے نئے وائس چیئرمین منتخب ہوگئے ہیں۔پاکستان بارکونسل کے نومنتخب وائس چیئرمین نے صحافیوں کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ اجلاس کے دوران اعتزاز احسن کو کوئی نوٹس جاری نہیں کیا گیا جبکہ بار کونسل کی تقسیم کا تاثر بھی درست نہیں ہے۔برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ ملی بینڈ نے کہا ہے کہ برطانیہ افغانستان اور پاکستان میں مفاہمت کا سب سے بڑا حامی ہے ۔برطانوی وزیر خارجہ ایک روزہ دورے پر پشاور پہنچے جہاں انہوں نے گفت گو میں بتایا کہ علاقے میں سیکورٹی کا مسئلہ سب سے اہم ہے اور پاک افغان افغان باڈر کا علاقہ ان کے لئے نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ڈیوڈ ملی بینڈ نے کہا کہ انکی حکومت سیکورٹی معاملات میں پاکستانی حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتی ہے۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ برطانیہ پاکستان کی اقتصادی ترقی کے لئے مدد جاری رکھے گا۔برطانوی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ کافی عرصے سے پاکستان مشکل حالات سے گزر رہا ہے۔ بین الاقومی امداد جاری رہے گی اور برطانیہ اپنے وعدوں کی پاسداری کرتے ہوئے ملک میں جاری ترقیاتی منصوبے جاری رکھے گا۔ایک اور سوال کے جواب میں ڈیوڈملی بینڈ کا کہنا تھا کہ ہر برطانوی شہری بے نظیر بھٹو قتل کیس کی آزادانہ تحقیقات چاہتا ہے۔ ملی بینڈ نے کہا کہ ان کی حکومت پاکستان میں آزاد عدلیہ کی حامی ہے اور چاہتی ہے کہ پاکستان کے ادارے مستحکم ہوں۔برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ ملی بینڈ نے وزیر اعلیٰ سرحد امیر حیدر خان ہوتی سے ملاقات کی جس میں عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفندیار ولی خان نے بھی شرکت کی۔ پشاور میں خود کش بم دھماکوں میں شہید ہونے والوں کے بچوں اور لواحقین نے بھی برطانوی وزیر خارجہ سے ملاقات کی۔ ڈیوڈ ملی بینڈ نے صوبہ سرحد کے گورنر اویس احمد غنی سے بھی ملاقات کی جس میں گورنر سرحد نے قبائلی علاقوں کے بارے میں بریفنگ دی اور بتایا کہ قبائلی علاقوں میں امن و امان کے قیام اور شدت پسندوں کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں۔برطانوی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ان کی حکومت پاکستان میں سیاسی عمل میں بہتری کو سراہاتا ہے۔ ڈیوڈ ملی بینڈ نے کہا کہبرطانیہ پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف کوششوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ ا یسوسی ایٹڈ پریس سروس ڈاٹ کام



No comments: