کیانی صاحب ہمارے ملنے والے ہیں۔ کبھی کبھار راولپنڈی سے اسلام Èباد Èنا ہو تو ضرور مل کر جاتے ہیں کسی زمانے میں پاکستان فوج میں صوبیدار میجر تھے۔ ریٹائرڈ ہوئے عرصہ گزر گیا مگر ابھی تک اس زمانے میں جی رہے ہیں جب پاکستان دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت کے طورپر ترقی کررہا تھا اور فوج کی بڑی عزت تھی۔ چند روز قبل ملنے Èئے تو کہنے لگے ”صدر جنرل (ر)پرویز مشرف کے ترجمان میجر جنرل (ر) راشد قریشی کا کہنا ہے کہ صدر مشرف کی پالیسیوں پر تنقید کرنے والے پاکستانی بے وقوف ہیں۔ ان کو کیا ہوگیا ہے؟ کس جگہ بیٹھے ہیںاور کیا بات کررہے ہیں“ میں نے عرض کیا ”راشد قریشی صاحب کو جتنا میں جانتا ہوں وہ اس طرح کی بات نہیں کرسکتے۔ ان کا یہ بیان میں نے بھی پڑھا ہے مگر میرے خیال میں یہ الفاظ کسی اور تناظر میں کہے گئے ہوں۔“کیانی صاحب نے کہا کہ ”یہ تناظر وناظر کی باتیں چھوڑیں۔ سیدھی بات کریں۔ پہلے میرا بھی خیال تھا کہ بے وقوف پاکستانی کے الفاظ ایک Èدھ جگہ ہی ہوں گے ۔دوسری کسی جگہ نہیں ہوں گے مگر جب دوسرے اخبارات چھانے تو ان میں بھی موجود تھے سارا میڈیا تو غلط نہیں ہوسکتا۔ اگر راشد قریشی کی بات درست مان لی جائے تو اکثر قلمکاروں کے ساتھ ساتھ اور بھی بہت سے لوگ بے وقوف قرار پاجاتے ہیں۔ سبھی جانتے ہیں کہ یہاں کون کون صدر مشرف کی پالیسیوں پر تنقید کرتا رہا ہے اور کررہا ہے۔ راشد قریشی میرے بھی بڑے محترم ہیں مگر انہیں یاد دلانا ضروری ہے کہ صدر مشرف کے خلاف مظاہروں میں ان کے بہت قریبی عزیز بھی شامل ہوتے رہے ہیں رشتے کی نوعیت احتراماً واضح نہیں کرتا“ میں نے اصرار کیا نہ کیانی صاحب نے اسرار توڑا ان کا کہنا تھا ”سیاسی اختلافات گھر تک ن ہیں پہنچنے چاہئیں۔ میری مراد کس سے ہے وہ خود بڑے سمجھدار ہیں سمجھ جائیں گے۔ “میرا خیال تھا وہ سابق جرنیلوں کی بات کررہے ہیں۔ اس پر کیانی صاحب کہنے لگے ”میرا اشارہ ان کی طرف ن ہیں تاہم وہ بھی اس بیان کی زد میں Èجاتے ہیں۔ جنرل (ر) اسلم بیگ جنرل (ر) حمید گل، ایئرمارشل (ر) اصغرخان جنرل (ر)فیض علی چشتی، میجر جنرل (ر)ظہیرالاسلام عباسی، سمیت صدرمشرف اور راشد قریشی کے بہت سے سینئرز مسلسل تنقید کررہے ہیں۔ یہ لوگ دونوں کیلئے استاد کا درجہ رکھتے ہیں۔ سینئر کی ہر جگہ بڑی عزت ہوتی ہے مگر فوج میں سینئر کا مقام حد سے زیادہ محترم اور مقدس ہوتا ہے۔ ہمیں نہیں معلوم ایوان صدر کے دونوں مقیموں کے اپنے سینئرز کے بارے میں کیا احساسات ہیں۔ مگر ان کے بیان کی روشنی میں دیکھا جائے تو ان کے نزدیک یہ سب لوگ بھی بے وقوفوں میں شمار ہوتے ہیں ایوان صدر کے باسیوں کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اپنے سااتذہ کو بے وقوف کہنے والے شاگردوں کو کیا کہا جاتا ہے۔ اس کی بھی وضاحت کی ضرورت نہیں۔ دونوں خود بڑے سمجھدار ہیں سمجھ جائیں گے“۔ کیانی صاحب کچھ زیادہ ہی تپے ہوئے تھے۔ میری تمام تر کوشش کے باوجود وہ اس بات کو روٹین میں لینے کے لئے تیار نہیں تھے۔ میرا کہنا تھا کہ پاکستان میں یہ سب چلتا ہے۔ مگر کیانی صاحب کا موقف تھا کہ یہ لوگ جب جوجی میں Èئے بول دیتے ہیں اور یہ بھی نہیں دیکھتے کہ ان کے ساتھ کس ادارے کا نام لگا ہے اور کس مقام پر اس وقت تشریف رکھتے ہیں اور ان کے قول وفعل سے ان اداروں پر کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ انہوں نے ماضی سے بھی دو مثالیں لاکر سامنے رکھ دیں۔ ان کا کہنا تھا ” صدارتی ریفرنڈم 2002 ءکے موقع پر پولنگ سٹیشنز پر الّوبول رہے تھے مگر پولنگ کی شرح 90 فیصد تک جا پہنچی تھی تو صدر مشرف نے کہا تھا کہ کچھ ”ایڈیٹس“ نے دھاندلی کی ہے پھر جب تین نومبر سے چند ماہ پہلے ایمرجنسی کی خبریں Èرہی تھیں تو صدر کے قریبی سید مشاہد حسین نے چوہدری شجاعت حسین کے ہمراہ صدر سے ملاقات کی تھی اور اس کے بعد باہر Èکر کہا تھا کہ ایمرجنسی نہیں لگ رہی۔ ایمرجنسی کا مشورہ کچھ ”نالائقوں“ نے دیا تھا لہذا جن لوگوں کے اپنے اردگرد ”ایڈیٹس اور ”نالائق“ لوگ رہتے ہوں ان کو دوسروں کے بارے میں اس طرح کے ریمارکس دینے سے پہلے سوچ لینا چاہئے کہ خود ان کو کن ناموں سے پکارا جاسکتا ہے۔ اتنا تو سب کو معلوم ہے کہ Èدمی اپنی صحبت سے پہچانا جاتا ہے لہذا یہ بتانے کی بھی ضرورت نہیں کہ کن ناموں سے پکارا جاسکتا ہے۔ وہ خود بڑے سمجھدار ہیں سمجھ جائیں گے“۔ میں نے بات ختم کرنے کی کوشش کرتے ہوئے عرض کیا ”میری رائے میں ہمیں اسم صفت (Adjectives) کا استعمال نہیں کرنا چاہئے۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ا یڈیٹ (Ediot) نالائق اور بے وقوف جیسے ناپسندیدہ اسمائے صفت ہماری روزمرہ گفتگو میں عام ہوتے جارہے ہیں۔ اگر کوئی جھنجلاہٹ یا پریشانی میں ایسے الفاظ استعمال کر بھی جائے تو اسے جواب میں انہی الفاظ سے نوازنے کے بجائے مناسب الفاظ میں غلطی کا احساس دلا کر بات وہیں ختم کردینا چاہئے“ ۔ اس پر کیانی صاحب گویا ہوئے ”مگر اس کے باوجود میں ایک بات ضرور کہوں گا۔ جنرل مشرف پاکستان کے صدر ہیں۔ اگر پاکستانی بے وقوف ہیں تو پھر جنرل مشرف ”بے وقوفوں کے صدر“ ہیں“۔ کیانی صاحب اتنی بات کہہ کر چلے گئے اور میں ان کا منہ دیکھتا رہا گیا۔ میرے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا۔
International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.
Saturday, May 24, 2008
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment