مشرف کو کارگل ‘ قبائلی علاقوں میں فوج کشی ‘ دہشت گردی کے خلاف جنگ ‘ لال مسجد سے 3 نومبر کی ایمرجنسی تک تمام غیر قانونی و غیر آئینی سرگرمیوں کا حساب دینا ہو گا
نو منتخب حکومت قومی سانحات کی تحقیقات کے لیے فی الفور کمیشن تشکیل دے
جنرل ( ر ) اسد درانی ‘ جنرل ( ر ) حمید گل ‘ جنرل ( ر ) جمشید گلزار کیانی کی پریس کانفرنس
راولپنڈی۔ اعلی ترین سابق عسکری قیادت نے دعویٰ کیا ہے کہ پرویز مشرف کے لیے واپسی کا محفوظ اور پر امن راستہ اب بند ہو چکاہے ۔انہیں کارگل سے لے کر قبائلی علاقوں میں فوج کشی ، دہشت گردی کے خلاف جنگ اور لال مسجد سے 3 نومبر کی ایمرجنسی تک تمام غیر قانونی و غیر آئینی سرگرمیوں کاحساب دینا ہو گا ۔ نو منتخب حکومت قومی سانحات کی تحقیقات کے لیے فی الفور کمیشن تشکیل دے۔ آرمی چیف کا عہدہ چھوڑنے اور وردی اتارنے کے بعد پرویز مشرف کو آرمی ہاؤس میں رہنے کا کوئی اختیار اور حق حاصل نہیں وہ آرمی ہاؤس کو اپنے مقاصدکے لیے استعمال کر رہے ہیں اور فوج کی حمایت کاتاثر دے رہے ہیں فوج اور حکومت ان سے فی الفور آرمی ہاؤس خالی کرائے ۔ ایکس سروس مین مسلح افواج پر جمہوری کنٹرول کی حامی ہے کو منتخب حکومت بھی جرات مندانہ اور آزادانہ فیصلے کریں ۔ پرویز مشرف نے اگر اٹھاون ٹو بی سے تحفظ لینے کی کوشش کی تو ایکس سروس مین بھرپور مزاحمت کرے گی۔ ان خیالات کااظہار آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل ریٹائرڈ اسددرانی نے ویسٹریج میں بریگیڈےئر ( ر ) محمود کی رہائش گاہ پر ایکس سروس مین کے سینیئر اراکین کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کے دوران کیا اس موقع پر آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل ریٹائرڈ حمید گل اور سابق کورکمانڈر راولپنڈی لیفٹیننٹ جنرل ( ر ) جمشید گلزار کیانی سمیت دیگر سابق افسران بھی موجود تھے ۔لیفٹیننٹ جنرل ( ر ) اسد درانی نے کہا کہ 18 فروری سے قبل اور 3 نومبر کے بعد ہماری کوشش تھی کہ ایکس سروس مین کو اکٹھا کر کے ملک کی موجودہ صورتحال پر مشاورت کی جائے اور قومی سلامتی کے لیے اپنا کردار ادا کیا جائے۔ 18 فروری کے انتخابات ، وکلاء سول سوسائٹی کی جدوجہد اور میڈیا کے کردار نے ملک میں ایک شعور اجاگر کیا۔ انتخابات میں پرویز مشرف کی پالیسیوں کو مسترد کیاگیایہ ایک ریفرنڈم تھا۔ انہوں نے کہاکہ ہمارے خدشات میں وقت کے ساتھ پھر اضافہ ہو رہاتھا ۔انہوں نے اجلاس کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ 18 فروری کے انتخابات میں عوام کا اصل مطالبہ اور فیصلہ یہ تھاکہ پرویزمشرف صدارت کا عہدہ چھوڑ دیں ۔انہوں نے ملک میں سیاسی و جمہوری اور آئینی عدم استحکام پیدا کیا ۔انہیں اپنی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے صدارت کے منصب سے الگ ہونا چاہیے ۔ پرویزمشرف نے عدلیہ کے بھی تانے بانے ادھیڑ دئیے۔ عدلیہ کے خلاف اقدام کے بعد اگر اب بھی 2 نومبر کی عدلیہ بحال نہ ہوئی تو پھرکبھی یہ ادارہ آزاد نہیں ہو سکتا ۔ چیف جسٹس کو آرمی ہاؤس ، ایوان صدر یا وزیر اعظم ہاؤس میںبلوانا عدلیہ پر قدغن لگانے کے مترادف ہے۔ گزشتہ چند ہفتوں سے الیکشن کمیشن کے رویے سے بھی نئے شکوک و شبہات پیداہو رہے ہیں ۔ موجودہ حکومت نے باہم اتحاد کا مظاہرہ کر کے احسن اقدام کیا۔ انہوں نے حکمران اتحاد سے اپیل کی کہ 18 فروری کے انتخابات میں ملنے والے مینڈیٹ کی پاسداری کریں۔ ایکس سروس مین حکومت کی طرف سے فاٹا ، وزیرستان ، قبائلی علاقوں میں امن معاہدوں کا خیر مقدم کرتی ہے لیکن ہمیں ہر طرح کے بیرونی دباؤ کو مسترد کر کے اپنے فیصلے خود کرنا ہوں گے۔ ماضی میں یہ مثالیں موجود ہیں کہ ہم نے جب بھی اپنے فیصلے آزاد ہو کر کئے ان میں کامیابی ملی ۔ ہمیں نیگرو پونٹے اور امریکی سفیر کے اشاروں کو بھی خاطر میں نہیں لانا چاہیے ۔ انہوںنے کہاکہ پرویز مشرف کے لیے واپسی کا راستہ اب بندہو چکا ہے۔ انہیں کارگل سے آج تک فوجی اور قومی امور پر کڑے ٹرائل سے گزرنا ہوگا ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ فی الفور ایک آزاد اور غیر جانبدار کمیشن تشکیل دیا جائے۔ جو پرویز مشرف کے خلاف دہشت گردی کے خلاف جنگ قبائلی علاقوں میں لشکر کشی ، لال مسجد آپریشن سمیت تمام سرگرمیوں کا تفصیلی جائزہ لے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم پاکستانی فورسز پر جمہوری کنٹرول کے حامی ہیں تاکہ اداروں میں چیک اینڈ بیلنس کے ذریعے ملک و قوم کی ترقی کی راہ متعین کی جاسکے ۔ انہوں نے کہاکہ پرویز مشرف کو آرمی چیف کا عہدہ چھوڑنے اور وردی اتارنے کے بعد آرمی ہاؤس میں رہنے کا کوئی اختیار نہیں وہ یہ تاثر دے رہے ہیں کہ فوج اب بھی ان کے ساتھ ہے جو فوج کے لیے بذات خود انتہائی خطرناک ہے۔ لہذا پاک فوج فی الفور آرمی ہاؤس خالی کرائے ۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ ڈاکٹر عبد القدیر خان کو فی الفور رہا کیا جائے۔ سابق وزیر اعظم شوکت عزیز کو فی الفور پاکستان واپس بلوا کر احتساب اور انکوائری کے عمل سے گزارا جائے ۔ انہوں نے کہا کہ پرویز مشرف اگرچہ ایوان صدر میں بیٹھے ہیں لیکن وہ آئینی صدر نہیں ہیں جو اٹھاون ٹو بی کو اپنا محافظ خیال کرتے ہیں اگر انہوں نے دوبارہ اس کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کی تو ایکس سروس مین بھرپور مزاحمت کرے گے ۔ آج ملک میں مہنگائی بد امنی بے روزگاری زوروں پر ہے ۔ لاپتہ افراد کے حوالے سے انہوںنے کہاکہ چار سال سے جاری یہ سنگین ایشوز جو چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی معزولی کا بھی ذریعہ بنا یہ نہ صرف قانون بلکہ اخلاقیات کے بھی منافی ہے ۔ نومنتخب حکومت لا پتہ افراد کی بازیابی کے لیے فوری کارروائی کرے۔ انہوں نے پیشن گوئی کہ پاکستان میں آئندہ بہت جلد بڑے واقعات رونما ہونے والے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ آئین کی خلاف ورزی پر پرویز مشرف کے خلاف آئین کی آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی کی جانی چاہیے ۔ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ ہم کسی سیاسی جماعت کے حامی نہیں بلکہ نو منتخب حکومت کو اچھے اقدامات پر خراج تحسین پیش کرنے کے ساتھ انہیں بعض چیزوںکی نشاندہی کر رہے ہیں یہ درست ہے کہ ماضی میں ذاتی حیثیت میں ہمارے بھی بع لوگوں نے غلطیاں کی ہوں گی لیکن بحیثیت ادارہ مجموعی طور پر ایسے کام ہوئے جو ملک و قوم کے مفاد میں نہیں ۔ ماضی کی غلطیوں کے ازالے کے لیے ہی ہم وسیع تر قومی مفاد میں نئی جدوجہد کر رہے ہیں ۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ 3 نومبر کی ایمرجنسی کا اقدام بذات خود غیر آئینی و غیر قانونی تھا لہذا اس کے تحت جاری ہونے والے اقدامات اور تقرریاں و تعیناتیاں بھی غیر قانونی ہے۔ انہوں نے کہاکہ ایکس سروس مین نے وکلاء کی ملک گیر تحریک میں بھرپور شمولیت کرے گی اور تحریک کے دوران وکلاء کی ہر ممکن سپورٹ کی جائے گی ۔ ایکس سروس مین کے پچیس لاکھ اراکین قومی مفاد کے کسی بھی فیصلے پر عملدرآمد کے لیے متفق ہیں
No comments:
Post a Comment