کہتے ہیں کہ مر جانے والے کی برسی ہوتی ہے ۔مرنے والا چلا جاتا ہے لیکن اس کے مرنے کی تاریخ ہر سال لوٹ آتی ہے ۔مرنے والا عام ہو یا خاص اُسے یاد کرنے والے عزیز رشتہ دار ہر سال اُس کی برسی مناتے ہیں اور رو دھو کر غم کو غلط کرتے ہیں ۔کہاجا رہا ہے کہ پاکستانی عوام بھی مُردہ ہو چکے ہیں اور اگر واقعی دانشوروں کا یہ کہنا صحیح ہے تو پھرسوال یہ ہے کہ ان کی برسی کب منائی جائے ؟ان مُردہ اجسام میں زندگی کی رمق آخری بار کب دیکھی گئی اس بارے میں کسی کو کچھ یاد نہیں ۔ بحث مباحثے کرنے والے اس حوالے سے واقعات کی کڑیاں ملاتے ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ ایوب خان کے دور تک پاکستانی قوم میں زندگی کی رمق پُوری شدت کے ساتھ موجود تھی اور جو تحریک عوامی سطح پر زورپکڑ لیتی وہ حکومت کی چُولیں ہلا دیتی تھی ۔ایک کالم نگار نے اِس حوالے سے بڑی خوبصورت بات کہی ہے کہ”پاکستانی عوام جو کبھی ناک پر مٹی نہ بیٹھنے دیتے تھے اب کوئی پوری ناک بھی کاٹ کر لے جائے تو بھی خاموش ہی رہتے ہیں “یہ وہی پاکستانی عوام ہیں کہ جو ایوب خان کے خلاف اُٹھے تو اُسکا بوریا بستر گول کر کے ہی بیٹھے۔1971ءمیں راہول اور پریانیکا کی دادی نے پاکستان کے دو ٹکڑے کر کے ہی دم لیا تو حواس باختہ پاکستانی عوام جواب طلبی کے لئے کبھی اپنی فوج اور کبھی اپنے سیاست دانوں کی طرف ہی دیکھتے رہے کہ کوئی تو ہوگا جو پھندہ اپنے گلے میں ڈال کر شرم سے ڈوب مرے گا لیکن ایسا کچھ نہ ہوا ۔اگلے موڑ پر پاکستانی عوام نے کبھی روٹی کپڑا مکان کا لالی پاپ چُو سا تو کبھی پاکستان کو اِسلام کا ناقابلِ تسخیر قلعہ بنا دینے کے خواب کی تعبیر میں اپنے دن گذار دیئے اور آج وہ اُس مقام پر کھڑے ہیں جہاں نہ روٹی ہے نہ کپڑا اور نہ سر چھپانے کے لئے چھت جہاں تک اِسلام کی بات ہے تو اس خواب کے بھی ٹکڑے اب شیشے کی کرچیوں کی طرح آنکھوں میں چبھتے ہیں کہ پاکستان کا نام اِسلامی جمہوریہ پاکستان سے بدل کر انتہاپسند پاکستان میںہو چکا ہے ۔عوامی لیڈر بھٹو نے جب پاکستانی عوام کو روٹی کپڑا مکان کا خواب دیا اور اسکے ساتھ کسانوں سے وعدہ کیا کہ انہیں حکومت کی طرف سے زمین دی جائے گی اور پھر ہر وعدے کی طرح یہ وعدہ بھی وفا نہ ہوا تو اس خواب سے عوام کو جگانے کے لئے سندھ کے عوامی شاعر ابراہیم منشی نے بڑی خوبصورت بات کہی تھی کہ ”ہاری کو سولہ ایکڑ زمین ملے گی چاند پر ۔۔۔“ایسے ہی ایک اور وعدے کی گونج اب بھی فضائوں میں ہے ۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے سر پرست آصف علی زرداری کا کہنا ہے کہ ہمیں عوام نے روٹی کپڑا اور مکان کے لئے ووٹ دئیے اور میاں نواز شریف کا کہنا ہے کہ عوام نے جو مشرف کے خلاف مینیڈیٹ دیا وہ ججوں کی بحالی کا مینڈیٹ تھا اور عوام پھٹی پھٹی پھٹی آنکھوں اور خالی ذہنوں سے سوچ رہے ہیں اور خود سے سوال کر رہے ہیں کہ ہم نے یہ مینڈیٹ کس لئے دیا تھا ؟بارہ مئی سے بارہ مئی تک کی کہانی کسی خالی کھوکھلی بازگشت کی طرح اُن کے کانوں میں گونج رہی ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ سب بے کار تھا ۔ مرمر کر بار بار جی اٹھنے والے پاکستانی عوام ایک بار پھر جس جذبے سے اٹھے تھے کہ اپنے ووٹ کی طاقت سے اپنی تقدیر بدل ڈالیں اُس جذبے کو اب کی بار آصف علی زرداری نے بیچ چوراہے نیلام کر دیا ہے اور اُردو غزل کے روائیتی عاشق معشوق کے محاورے ”وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہوگیا“ کی تفسیر بنے مسکر اہٹ کی نمائش کرتے نظر آتے ہیں۔ظلم سہہ سہہ کر لاش بن جانے والی پاکستانی قوم میں اگر زندگی کی تھوڑی سی بھی رمق ہوتی تو وقت کا تقاضا تھا کہ لیڈروں کا ہر عوامی سطح پر گھیرائو کیا جاتا اور جو پذیرائی شیر افگن اور ارباب رحیم کی ہوئی ہے ایسی ہی پذیرائی باقی سب لیڈروںاور انکی ٹیم کی کی جاتی ۔ پاکستانی قوم اگر زندہ ہے تو پھر اُسے ہر اُس لیڈر کا جوتوں کے ساتھ ایسے ہی احتساب کرنا ہے کہ جو پہلے عوام کو اپنے مقصد کے لئے استعمال کرتا ہے اور پھر وقت نکل جانے پر خود کو کسی وعدے کا پابند تصور نہیں کرتا ۔ یوں تو پاکستانی قوم کے پاس اپنے ”نام نہاد“ لیڈروں کے احتساب کی تاریخ بہت پُرانی ہے لیکن اگر اِسے صرف موجودہ حکومتی کرداروں کے نقطہ ءنظر سے دیکھا جائے تو پچھلے آٹھ سالوں کا حساب نکال کر صرف بارہ مئی سے بارہ مئی تک کا احتساب ہی بہت ہے ۔12مئی2007ءجب کراچی میں خونی ڈرامہ کھیلا گیا ۔سہمے ہوئے پاکستانی عوام اپنی ٹی وی کی سکرین پر لائیو موت کا کھیل دیکھ رہے تھے ۔تڑا تڑ گولیاں ۔۔۔لاشیں ۔۔اور زخموں سے کراہتے لوگجو صاحبان اقتدار تھے جن کے اس واقعے کے بعد منہ کالے کئے جانے چاہئیں تھے وہ اپنے”صدر“ مشرف کے گرد گھیرا ڈال کر راولپنڈی میں بھنگڑے ڈال رہے تھے اور ڈھول کی تھاپ پر رقص کر رہے تھے۔اِس خون خرابے کا براہ راست ذمہ دار کون تھا ؟ اس جنگ میں کس کی جیت ہوئی کس کی مات ہوئی ؟جواب کس کے پاس ہے؟ نہ کوئی ذمہ دار سامنے آیا اور نہ ہار جیت کا فیصلہ ہوا ۔مرنے والے مر گئے ۔مشرف اب بھی اقتدار پر براجمان ہے اور ایم کیو ایم اب بھی بر سر اقتدار ہے۔پاکستانی قوم میں زندگی کی رمق ہوتی تو اس خون خرابے کا حساب لئے بغیر پیچھے نہ ہٹتی۔ 14 مئی2007ءکو پاکستان کی سُپریم کورٹ کے ایڈیشنل رجسٹرار حماد رضا کو ان کے گھر میں بوڑھے والدین اور بیوی بچوں کے سامنے بے رحمی سے قتل کر دیا گیا ۔ معزول کئے گئے چیف جسٹس افسوس کے لئے حماد رضا کے گھر پہنچے تو بیوہ نے بین ڈالتے ہوئے کہا کہ آپ کی وجہ سے حماد کی جان لے لی گئی ۔9 اپریل2008ءکے دن ایک بار پھر کراچی میں خون کی ہولی کھیلی گئی ۔ دفاتر کو تالے لگا کر زندہ انسانوں کو اس میں جلا دیا گیا ۔ انسانیت چیختی رہی کہ ” خدا کے لئے بے بس مجبور لوگوں کو مت زندہ جلائو ۔۔۔ہم سب کو ایک دن مرنا ہے تم لوگ اپنی موت کا دن کیوں بھول رہے ہو “ لیکن ظلم کے کان ہمیشہ کی طرح بہرے رہے ۔ لوگ جلتے رہے پولیس بارہ مئی کی طرح نو اپریل کو بھی خاموش تماشائی رہی ۔ ایک رپورٹر نے آئی جی سندھ کو گھیر لیا اور تلخ لہجے میں کہا دن دہاڑے لوگوں کو اسلحے کے زور پر یرغمال بنا کر زندہ جلا دیا جاتا ہے اور آپ لوگ سیاسی ایماءپر خاموش رہتے ہیں ؟جواب ملا ”تم تقریر کر رہے ہو یا رپورٹنگ کررہے ہو ۔میرا وقت ضائع نہ کرو “رپورٹر حیران سوالیہ آنکھوں سے اس ڈھٹائی کو دیکھتا رہ گیا ۔ایسی ہی سوالیہ آنکھوں سے پاکستانی قوم آصف علی زرداری کو دیکھ رہی ہے جو آئی جی سندھ کی طرح پاکستانی قوم کو جواب دہ نہیں ہے ۔اس ملک پاکستان میں آج اگر کوئی زندہ ہے یا زندگی کسی کی محبوبہ ہے تو وہ پرویز مشرف ہے جسکی مردانگی پر آج بھی کوئی ”مس پاکستان “مرتی ہے ۔وزیر اعظم گیلانی ہے جس کے لش پش سوٹ اور گاڑیوں کو دنیا بڑی ”مرعوب“ ہو کر دیکھ رہی ہے ۔رحمان ملک ہے جس کے ہاتھ میں تاش کا ہر طاقتور پتہ ہے اور پاکستان کا ہر وہ سیاستدان ہے جو لچھے دار باتوں سے قوم کو بے وقوف بنانے کا ہنر جانتا ہے ۔جہاں تک پاکستانی قوم کا سوال ہے اگر وہ واقعی زندہ ہے تو پھر بارہ مئی سے بارہ مئی تک کا حساب لے کر ہی دم لے گی اور اگر واقعی اس کی سانسیں اُکھڑ چکی ہیں تو پھر میرے حساب سے 6 1دسمبر 1971 کے سیاہ دن ڈھاکہ فال کے ساتھ ہی پاکستانی قوم نے آخری ہچکی لے لی تھی۔اگر ایسی ہی زندگی گذارنی ہے کہ کوئی ناک بھی کاٹ کر لے جائے اور ہم اُف نہ کریں تو پھر کیوں ناں اپنی برسی کا دن ڈھاکہ فال کے ساتھ ہی طے کرلیں اور صاحبان اقتدار سے گذارش کریں کہ وہ پاکستانی قوم کے لئے کچھ اور کریں نہ کریں اس ”خاص“دن انکی برسی منانے کا اہتمام ضرور کیا کریں ۔ زیبا نورین
International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.
Saturday, May 24, 2008
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment