International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.

Saturday, May 24, 2008

وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کے ساتھ ایک نشست ۔۔۔۔۔۔ تحریر : چودھری احسن اے پی ایس،اسلام آباد



و فاقی وزیر اطلاعات شیریں رحمن ذرائع ابلاغ سے وابستہ افراد کی مشکلات سے اس لئے آگاہ ہیں کہ وہ خود ایک ورکنگ جرنلسٹ رہ چکی ہیں اور انھوں نے اس عزم کا اعادہ کیا ہوا ہے کہ اپنے عہدے اقتدار میں آزادی صحافت کا ایک نیا باب رقم کریں گی۔آزادی صحافت حکومت کا تحفہ نہیں بلکہ وقت کی ضرورت تھی۔ نئی حکومت سے یہ بھی امید ہے کہ وہ میڈیاکی بہتری اور اسے سہولتیں بہم پہچانے کیلئے اپنی کوششیںجاری رکھے گی۔ گزشتہ دنوں راولپنڈی / اسلام آباد کے ایڈیٹرز اور کالم نگا روں کا وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی سے ملاقات کا اہتمام کیا گیا۔ اس ملاقات میں راقم الحروف بھی بحثیت ایڈیٹر ایسوسی ایٹد پریس سروس / کالمسٹ بھی موجود تھا۔ اس موقع پر وفاقی وزیر اطلاعات شیری رحمن نے ابتدائی کلمات کہے۔سیکریٹری اطلاعات اکرم شہید ی، پی آئی او غلام حضور باجوہ، پریس سیکرٹری جاوید اختر اور ایڈیشنل سیکرٹری وزیر اعظم سیکرٹریٹ ضمیر اکرم بھی مو جود تھے۔ اس موقع پروزیر اعظم پاکستان یوسف رضا گیلانی نے اخبارات کے ایڈیٹروں، سینئر صحافیوں اور کالم نگاروں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ججوں کے بارے میں آصف علی زرداری اور میاں نوازشریف جو بھی فیصلہ کر کے بتائیں گے میں احکام جاری کر دوں گا۔ آج بھی اپنی بات پر قائم ہوں اگر وہ کہیں گے تو صرف ایگزیکٹو آرڈر جاری کر دوں گا۔ اقتدار کے ساتھ اختیارات بھی ہمیں مل چکے ہیں اور مزید اختیارات ہم پارلیمنٹ کے ذریعے آئینی اور قانونی طریقے سے لیں گے ملک میں بہترین دو پارٹی سسٹم بن گیا تھا مگر اسے اردو اور انگریزی میں ”سفر“ کرنا پڑا، ا میں اور پیپلز پارٹی اس دعوے پر قائم ہیں کہ جج بحال ہوں گے صرف طریقہ کار طے ہو جائے۔ خارجہ پالیسی میں ملکی سالمیت خود مختاری، عزت و وقار پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ امریکی صدر بش کے ساتھ ملاقات میں کالر پر امریکی صدر بش نے امریکی پرچم اور میں نے پاکستانی پرچم لگایا ہوا تھا، ا ہم مغرب یا امریکہ کی لڑائی اپنی سرزمین پر نہیں لڑیں گے بلکہ دہشتگردی کے خلاف جنگ اپنے مفاد اور ضرورت کے تحت لڑیں گے اور کسی کی ہدایت نہیں لیں گے۔ صرف اسمبلی اور عوام کو جوابدہ ہوں اور مشیر داخلہ بھی میرے ماتحت اور میرے مشیر اور مجھے جوابدہ ہیں۔ بعض قوتیں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن)کو لڑانا چاہتی ہیں اور اب بھی اس کوشش میں ہیں مگر اکٹھا رہنا دونوں جماعتوں کی ضرورت ہے اور ہم نے ایک دوسرے کے مینڈیٹ کا احترام کرنے کا حلف لیا ہوا ہے۔ خوراک کی کمی بھارت سعودی عریبیہ اور سنٹرل ایشیا کی ریاستوں میں بھی ہے مگر ہم ایک زرعی ملک ہیں اور ہم زراعت پر توجہ دیں گے۔ آئندہ ماہ محترمہ کی شہادت کی انکوائری درخواست اقوام متحدہ کو بھجوا دی جائے گی۔عوام کے مینڈیٹ کے مطابق جمہوریت کی بحالی، پارلیمنٹ کی بالادستی اور عدلیہ کی آزادی کو یقینی بنانے کے پابند ہیں اور یہ تاثر غلط ہے کہ پیپلز پارٹی عدلیہ کے بحران کے حل کے سلسلے میں سنجیدہ نہیں ہے ، پاکستان پیپلز پارٹی فیڈریشن کی علامت ہے اور وہ سنجیدہ سیاست میں یقین رکھتے ہیں اور آئین کے دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے ملکی مفاد میں کام کرنا چاہتے ہیں ، ججوں کی بحالی میں تاخیر آئینی ماہرین کی رائے مختلف ہونے کی وجہ سے ہے اورپیپلز پارٹی کا وعدہ ہے کہ ججوں کو بحال کیا جائے گا ، سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری ہے کہ غلط فہمیوں کو جگہ دیئے بغیر عوام کی توقعات کیلئے مل کر کام کریں ،ججز کوبحال کرنا ہماری قوم سے کمٹمنٹ ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی عدالتی بحران کوحل کرنے کے لئے سنجیدہ ہے۔ہمیں اپنے اداروں کو عدلیہ سمیت مضبوط کرناہوگا۔ پیپلزپارٹی نے انتخابات میں بھی عدلیہ کی آزادی اور پارلیمنٹ کی بالادستی کی آواز اٹھائی تھی اورکہاتھاکہ ان کو ربرسٹمپ نہیں بننے دیاجائے گا۔ ہم ججزکو بہت عزت دیتے ہیں اوران کو بہت کچھ دیناہماری ترجیح ہے وزیراعظم نے منتخب ہونے کے بعد ججز کی رہائی کااعلان کیاتھا، وزیر اعظم نے صحافیوں کے اس فورم میں ملکی معاملات جن میں ججوں کی بحالی ، خارجہ پالیسی بجلی اور گندم کے بحران اور عالمی اقتصادی فورم کے موقع پر عالمی رہنماو¿ں اور خاص طور پر صدر بش کے ساتھ ملاقات کے حوالے سے کئے گئے سوالوں کی وضاحت اور حکومت کی پالیسیوں پر اظہار کیا وزیر اعظم نے سی پی این ای کے مطالبے پر لیاقت باغ کے مقام پر بینظیر بھٹو شہید کی یادگار تعمیر کرانے اور لیاقت باغ روڈ کا نام بینظیر روڈ رکھنے کا اعلان بھی کیا ۔ ججوں کی بحالی کے لیے آئینی پیکج 10 جون سے پہلے پارلیمنٹ میں پیش کر دیا جائے گا ۔ صدر پرویز مشرف کی جانب سے جمہوریت کی حمایت کرنے کی بات خوش آئند ہے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سابق حکومت کی پالیسیوں کو تبدیل کر دیاگیا ہے تاہم دہشت گردوں سے معاہدے نہیں کئے جائیں گے۔ وہ صدر مشرف کی اس بات سے اتفاق رکھتے ہیں کہ پاکستان میں حکومت کرنا مشکل کام ہے ۔ ا صدر سے اچھے تعلقات ہیں ا ن سے خلوص سے ملاقات کروں گا صدر کے حوالے سے کوئی دباو¿ نہیں ہے اس وقت ملک کو متعدد مسائل کا سامنا ہے ۔ ووٹ لینے کے بعد سابق حکومت پر الزام تراشی کا کوئی جواز نہیں ہے ججز کی بحالی کی تحریک اعتزاز احسن کی نہیں وکلاء اور پیپلزپارٹی کی ہے ججز کی بحالی کے بعد مسلم لیگ(ن) کے وزراء دوبارہ کابینہ میںآ جائیں گے معزول چیف جسٹس کے لیے جیل اور تھانوں میں گیا معاملہ عدالت میں ہے اس لیے ان سے نہیں ملوں گا۔ وزیراعظم بننے کے بعد ان کی خاندانی زندگی متاثر ہوئی ہے ۔ حکومت کے پہلے سو دنوں کے بارے پروگرام پر جنگی بنیادوں پر کام جاری ہے حکومت ، شدت پسندوں کے عزائم کو ناکام بنا دینے کیلئے پرعزم ہے اور ان شدت پسندوں کے گمراہ کن نظریات سے ملک کو بدنام نہیں ہونے دیا جائے گا۔ عدلیہ کی آزادی کا تہیہ کررکھا ہے ، خوراک توانائی بحران پر جلد قابو پا لیں گے ،سستی گاڑیوںکی تیاری کی پالیسی اپنائیں گے ،شدت پسندوں کے گمراہ کن نظریات ، اسلام کی روح کے منافی ہیں۔پاکستان ایک جدت پسند ملک ہے اور اٹھارہ فروری کے عام انتخابات میں عوام نے شدت پسند عناصر کو مکمل مسترد کرتے ہوئے بڑی سیاسی جماعتوں کو مکمل حمایت دی ہے۔ وزیراعظم نے ہنگامی بنیادوں پر پچاس ہزار ٹن گندم افغانستان برآمد کرنے کی ہدایات جاری کیں ہیں۔ دونوں ملکوں کے مفادات یکساں ہیں اور انہیں مل جل کر خطے کو درپیش مسائل پر قابو پانا ہوگا ۔ افغانستان کی صورتحال کے براہ راست اثرات پاکستان پر پڑتے ہیں اس لئے پاکستان چاہتا ہے کہ افغانستان میں پائیدار امن اور استحکام قائم ہو ۔اس کے نتیجے میں دونوں ممالک ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکتے ہیں ۔ حکومت نے 1973ء کے آئین کی بحالی ریاستی اداروں کو مستحکم بنانے ، عدلیہ کی آزادی ، الیکشن کمیشن کی خود مختاری اور میڈیا کی آزادی کا تہیہ کررکھا ہے ، خوراک اور توانائی کی کمی پر جلد قابو پا لیا جائے گا، عوام نے جمہوری قوتوں کو واضح مینڈیٹ دیاہے اور وہ ہم سے مسائل کے حل کی توقع رکھتے ہیں ،خوراک اور توانائی کی قلت عالمی مسئلہ ہے ، پاکستان میں تیزی سے ان بحرانوں پر قابو پانے کیلئے اقدامات کئے گئے ہیں اور جلد ان پرقابو پا لیا جائے گا ،حکومت غریب ترین طبقے کو سبسڈی دینے پر توجہ دے رہی ہے حکومت متوسط طبقے کی بڑھتی ہوئی ضروریات کے لئے کم ایندھن خرچ کرنے والی گاڑیوں کی پیداوار کو ٹرانسپورٹ پالیسی کے عین مطابق بنانے کے لئے کوششیں کررہی ہے حکومت سی این جی گاڑیوں کی حوصلہ افزائی کرے گی کیونکہ سی این جی گاڑیوں سے ماحولیاتی آلودگی نہیں ہوتی اور یہ متوسط طبقے کی پہنچ میں ہوتی ہیں۔ گاڑیوں کی پیداوار بڑھانے کی ضرورت ہے پاکستان کے دیہاتی علاقوںمیں سی این جی جیپس کی بہت ضرورت ہے جبکہ پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما آصف علی زرداری نے اشارہ دیا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ ایوان صدر میں صدر پرویز مشرف کے دن گنے جا چکے ہوں،عوام روٹی یا بجلی نہیں صدر پرویز سے نجات چاہتے ہیں۔ صدر کو ہٹانے کے لئے ان پر عوام کی طرف سے ”شدید“ دباو¿ ہے اور ان کے پاس کوئی راستہ نہیں۔ مشرف کوماضی کی باقیات قرار دیتے ہوئے انہوں نے تسلیم کیا ہے کہ آئین کے تحت صدر کے پاس اب بھی وزیراعظم کو ہٹانے اور اسمبلی تحلیل کرنے کے اختیارات موجود ہیں۔ جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا صدر کے طور پر پرویز مشرف کے دن گنے جا چکے ہیں تو انہوں نے براہ راست جواب دینے سے گریز کرتے ہوئے کہا کہ ”مجھے نہیں معلوم کہ ان کے دن گنے جا چکے یا میرے، یا ہماری حکومت کے، کون جانتا ہے؟“ زرداری نے آرٹیکل 58ٹو بی کے تحت صدارتی اختیارات کا حوالہ دیا جس کے مطابق صدر منتخب پارلیمنٹ کو تحلیل کر سکتے ہیں اور اس طرح وزیراعظم کو فارغ کر سکتے ہیں۔”ان کے پاس 58ٹو بی موجود ہے اور انہیں بے پناہ اختیارات حاصل ہیں، اگر وہ حرکت میں آتے ہیں تو آسکتے ہیں ”آخری حد“ یہ ہے کہ لوگ چاہتے ہیں مشرف چلے جائیں ”اور میں لوگوں کا خادم ہوں آقا نہیں۔“ زرداری نے کہا کہ ”صدر ماضی کا ورثہ ہیں اور وہ ہمارے اور جمہوریت کے درمیان رکاوٹ بنے ہوئے ہیں، انہوں نے میری بیوی (سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو) سے مذاکرات اور عالمی دباو¿ کے نتیجے میں وردی اتار دی۔ لیکن اس سے مشرف ڈیموکریٹ یا ایک سویلین صدر نہیں بن گئے،اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان کی صدارت قانونی ہے۔ یہ تمام معاملات میرے سامنے ہیں، میرے اوپرپاکستان کے عوام کا شدید دباو¿ ہے۔“ زرداری نے کہا ”عوام پیپلزپارٹی سے کہہ رہے ہیں کہ انہیں روٹی یا بجلی نہیں چاہئے وہ مشرف کو ہٹانا چاہتے ہیں۔“ ان کے ریمارکس اس وقت سامنے آتے ہیں جب صدراتی اختیارات کو محدود کرنے والے آئینی پیکیج فائنل ہونے کی رپورٹس پر صدارتی ترجمان نے زور دے کر کہا کہ صدر پرویز مستعفی نہیں ہوں گے۔ صدر کے قریبی ذرائع نے بھی ان رپورٹس کومسترد کر دیا کہ اگر حکومت گزشتہ برس ایمرجنسی لگانے کے اقدامات کی توثیق کرتی ہے تو وہ استعفیٰ دے دیں گے۔ زرداری نے کہا کہ ”وہ سیاستدان ہیں جو عوام کو جوابدہ ہوتا ہے۔ پیپلزپارٹی مکمل جمہوریت کی بحالی کے لئے ایک فارمولے پر کام کررہی ہے کیونکہ آخر کار یہ ہو چکا ہے، آپ ایک غیر جمہوری اور غیر منتخب صدر نہیں رکھ سکتے۔“ زرداری نے زور دے کر کہا کہ ”آپ قطعی ایسا نہیں کر سکتے، اب اس بات کی کوئی اہمیت نہیں کہ یہ مجھے، صدر پرویز یا کسی اور کو پسند ہے یا ناپسند، میرے پاس کوئی اور راستہ نہیں۔ گزشتہ 2ماہ سے میں وائٹ واش یا آپ اسے جو بھی کہیں کی کوشش کر رہا ہوں۔ ہم قومی مفاہمت پر پہنچے ہیں لیکن ان پر لوگ میری پوزیشن قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔“ زرداری نے یہ اشارہ بھی دیا کہ گزشتہ برس ایمرجنسی کے نفاذ کے دوران فارغ کئے جانے والے ججوں کے معاملے سے بھی آئینی پیکیج کے ذریعے نمٹا جائے گا۔ یہ معاملہ پہلے ہی ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے درمیان تنازع کا باعث بناہواہے جو 12مئی کی خودساختہ ڈیڈ لائن پرمعزول ججوں کی بحالی نہ ہونے کے باعث اپنے 9وزراء وفاقی کابینہ سے واپس لے چکی ہے۔ ن لیگ کے سربراہ نواز شریف کہہ چکے ہیں کہ ان کی پارٹی ایشوزپر حکومت کی حمایت کرے گی۔زرداری نے مزید کہا کہ کشمیر میں فوج کم اور پاک بھارت سرحد پر اکنامک زون ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہا ہے کہ پاک بھارت سرحد پر اکنامک زون قائم کرکے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو مضبوط بنایا جا سکتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر سے فوجوں کی کمی 60 سال پرانے مسئلے کو حل کرنے میں مدد گار ثابت ہوگی ۔ آصف علی زرداری نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر سے بھارتی فوج میں کمی قابل تحسین ہے ہم پاک بھارت سرحد پر اکنامک زون بنانا چاہتے ہیں انہوں نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں فوج کی کمی کو نیم فوجی دستوں اور پولیس سے پورا کیا جا سکتا ہے جو 60 سالہ پرانے کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے میں مدد گارثابت ہو گا۔ پاک بھارت تعلقات کو سرحدوں پر اکنامک زون بنا کر مضبوط بنایا جا سکتا ہے اورتھرمیں موجود کوئلے کے ذخائر کو توانائی کے حصول کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے اور ان کوئلے کے ذخائر کو بھارت برآمد بھی کیا جا سکتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان بھارتی معیشت میں توانائی جیسے اہم شعبے میں تعاون کرکے اپنا کردار ادا کر سکتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ میں اسی نظام میں رہ کر کام کرنا چاہتا ہوں اور صدر سے کوئی ٹکراو¿ نہیں چاہتا ۔ انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) چاہتی ہے کہ پاک بھارت ویزہ سسٹم کو آسان بنایا جائے تاکہ دونوں جانب کے عوام کو سفری سہولیات میں آسانیاں ہوں ۔ بے نظیر بھٹو کے قتل کی اقوام متحدہ سے تحقیقات کے مطالبے کی حمایت کیلئے پیپلز پارٹی نے بھارت سے مدد مانگی ہے اور کہا ہے کہ اگر دونوں ممالک عالمی ادارے میں مل کر قرارداد پیش کریں تو اسے تاریخ میں یاد رکھا جائے گا، یہ درخواست آصف علی زرداری نے بھارتی وزیر خارجہ پرناب مکھر جی سے ملاقات میں کی، زرداری نے بھارتی وزیرخارجہ سے مدد کی درخواست کی ہے مجھے ا±مید ہے کہ ان کے (شہید بینظیر ) قتل پر دونوں ملک مشترکہ قرارداد پیش کریں گے جو تاریخ میں یادگار ہوگا، مکھر جی کے رد عمل سے متعلق سوال پر ا±نہوں نے کہا کہ ”میں نے سرکاری تصدیق نہیں چاہی تاہم انہوں نے میرے موقف سے ہمدردی ظاہر کی۔“ زرداری نے کہا کہ”قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی قراردادیں منظور کر چکی ہیں، اس کے بعد میں نہیں سمجھتا کہ اس پر کسی بحث کی گنجائش باقی ہے، اب صرف وزیر خارجہ اقوام متحدہ کو ایک خط لکھیں گے اور اس کی پیروی کریں گے“۔پہلی مرتبہ ملک کے سولہ کروڑ عوام قانون کی حکمرانی کیلئے جدوجہد کر رہے ہیں جبکہ ملک میں قانون کی حکمرانی آزاد عدلیہ کے خاتمے کیلئے بہانے ڈھونڈے جا رہے ہیں،اب کسی سمجھوتے کی گنجائش نہیں وکلا جدوجہد مزید تیز کردیں،پی سی اوججز نے ماورائے آئین اقدام کی تائید کی ہے ،عوام انہیں جج نہیں ما نتے وہ اپنے اس اقدام کیلئے عوام کے سامنے جواب دہ ہیں،حکومت کوعوامی غصہ بڑھنے سے پہلے اداروں کا اعتماد بحال کرنا ہوگا جن ججز نے ماورائے آئین اقدام کی تائید کی انہیں جج نہیں سمجھتے وہ اپنے اس اقدام کیلئے عوام کے سامنے جواب دہ ہیں، ان کے نزدیک اگر عدلیہ 1956ء سے 2002ء تک مختلف مقدمات میں غلطیاں نہ کرتی تو آج یہ دن دیکھنے کو ملتا نہ یہاں تک نوبت آتی۔ ملکی تاریخ دیکھیں تو کسی سیاسی جماعت نے کبھی اتنی بڑی قربانی نہیں دی جس طرح ایک سیاسی جماعت نے اپنی 17وزارتیں چھوڑ کردی۔ 9مارچ سے لیکر آج تک وکلاء تحریک بتدریج اپنی منزل کی طرف گامزن ہے ملک میں آئین کی بالادستی کی تحریک مبارکباد کی مستحق ہے اگر میڈیا کو وکلاء تحریک کی آواز کہا جائے تو بہتر ہوگا، وکلاء اور جج صاحبان کسی صورت میں سمجھوتے کی پوزیشن میں نہیں رہے اور عوام نے مینڈیٹ دے کر انہیں اس مقام پر کھڑا کردیا ہے کہ اب صرف آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کی بات کرنی پڑے گی، اس ملک میں کبھی بھی قانون کی بالادستی نہیں رہی ہے اور کسی نہ کسی طریقہ سے عدلیہ اور آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کو ختم کرنے کے لیے بہانے تلاش کیے جاتے رہے جب بھی اس ملک پر کسی آمر نے طالع آزمائی کی اس نے آئین کو معطل کیا 8سے10تک حکمرانی کی اور آخر میں عدالت سے اسکی توثیق حاصل کی ۔جن جج صاحبان نے پی سی او کے تحت حلف اٹھا نے سے انکار کیا عوام کو ان پر فخر ہے اور وہ پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والوں کو جج تسلیم نہیں کرتے ۔ کراچی میں عوام کے ہاتھوں ڈاکوو¿ں کو تشدد کا نشانہ بنانے کا عوام نے تنگ آکر یہ راستہ اختیار کرنے شروع کردیے ہیں، جس کو ہم ”ہجوم کا انصاف“ کہتے ہیں جو اچھی بات نہیں ہے جبکہ افتخار محمد چودھری نے یہ بھی کہا ہے کہ اس سے قبل کہ لوگوں کاغم وغصہ مزید بڑھے،عوام کا اداروں پر اعتماد بحال کیا جائے۔ا ساٹھ سالوں میں پہلی مرتبہ سیاسی جماعتوں نے اصولوں کی سیاست شروع کردی ہے تاریخ دیکھیں تو کسی سیاسی جماعت نے کبھی اتنی بڑی قربانی نہیں دی جس طرح ایک سیاسی جماعت نے اپنی 17وزراتیں چھوڑ کردیں۔جبکہ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ججوں کی بحالی کے حوالے سے آئینی پیکج کا 62نکات پر مشتمل مسودہ تیار کر لیا ہے جو نواز شریف کو بھی بھیجا جائے گا ملک میں ابھی جمہوریت مستحکم نہیں ہوئی وکلاء ہمارے دوست ہیں اور ہماری ہی جنگ لڑ رہے ہیں لیکن ہم ججوں کے معاملے کو سیاسی طریقے سے حل کرنا چاہتے ہیں اس وقت اقتدار میں ،میں یا کوئی اور نہیں بلکہ بے نظیر بھٹو اقتدار میں ہیں ہم میڈیا کو وہی آزادی دیں گے جو محترمہ شہید بے نظیر بھٹو کی خواہش تھی ہم اس ملک میں سی این این اور بی بی سی جیسے ٹی وی چینلز دیکھنا چاہتے ہیں آصف زرداری نے بے نظیر بھٹو کی شہادت پر ” پاکستان کھپے“ کا نعرہ لگا کر اس ملک کی سالمیت کی حفاظت کی ہے اور اس ملک میں جمہوریت لائے ہیں وہ میڈیا کو داد دیتے ہیں اور جمہوریت کے حوالے سے ان کا عزم اسی طرح قائم رہے گا۔ اس وقت اقتدار ان کا یاکسی اور کا نہیں بلکہ شہید محترمہ کا ہے او ران کے نظریات کا ہے میڈیا کے لوگ ان کے ساتھ اقتدار میں شامل ہیںاو رملک میں جمہوریت لانے میںان کے معاون ہیں۔ ججوں کی بحالی کے حوالے سے باسٹھ نکا ت پر مشتمل آئینی پیکج کا مسودہ تیا رکر لیا گیا ہے جو نواز شریف کو بھی بھیجاجائے گا اس کے علاوہ کابینہ اور دیگر اتحادیوں کو بھی بھیجیں گے ۔وہ ججوں کے معاملے کو سیاسی طریقے سے بات چیت کے ذریعے حل کرنا چاہتے ہیں پوری دنیا میں جمہوری حکومتیں اس طرح کے مسئلے اسی طرح سے حل کرتی ہیں ۔ آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ پیپلزپارٹی پاکستان میں چلنے والی تمام تحریکوںمیں صف اول میں موجود رہی ہے اورہم نے کبھی عوام کو نہیں چھوڑا ہے ہم پاکستان میں جمہوریت کیلئے ماضی میں بھی جدوجہد کی اب بھی کر رہے ہیں اور یہ جدوجہد مستقبل میں بھی جاری رہے گی انہوں نے کہاکہ بھارت سے بہتر تعلقات کے حوالے سے میرے اور میاں نواز شریف کا خیال ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان سفری آسانیا ںپیدا کرنے کیلئے ویزا پالیسی کو نرم کیا جائے انہوں نے کہاکہ میں وعدہ کرتا ہوں کہ گندم کی قیمتیں ضرور کم ہوں گی پوری دنیا میں گندم ، تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہورہاہے لیکن ہم اس پر قابو پانے میں کامیاب ہو جائیں گے انہوں نے کہاکہ عوام مایوس نہ ہوں ہم اتفاق و اتحاد سے وہ سب کچھ کر سکتے ہیں جو نااتفاقی سے نہیں کیا جا سکتا انہوں نے کہاکہ وکلاء ہمارے دوست ہیں اور دراصل ہماری ہی جنگ لڑ رہے ہیں ہم معزول ججو ںکو ضرور بحال کریں گے اس مقصد کیلئے ہم گزشتہ دو ماہ سے بات چیت کا عمل جاری رکھے ہوئے ہیں انہوں نے کہاکہ پیپلز پارٹی اچھی طرح جانتی ہے کہ جمہوریت کیسے آگے جائے گی میڈیا ہمارا ساتھ دے اور ہمارا سپورٹر بنے ہم جمہوریت کی جنگ لڑتے ہیںپاکستان پیپلز پارٹی کے سیکرٹری جنرل جہانگیر بدر نے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی آمر کی دست بازو(ق) لیگ کوحکومت میں شامل کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی۔ قومی ہیرو ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو کچھ سہولتیں ملی ہیں عوام مستقبل میں اور بھی بہت کچھ دیکھیں گے۔ مسلم لیگ (ق) جنرل (ر) پرویز مشرف کا دست وبازو ہے۔ آمر کی گود میں بیٹھنے والی جماعت سے پیپلز پارٹی کس طرح حکومتی اتحاد کرسکتی ہے۔ پیپلز پارٹی ڈکٹیٹر شپ کو قبول نہیںکرے گی۔ ملک میں اس وقت ٹرانزٹ دور چل رہا ہے۔ ڈکٹیٹر کو بالآخر جانا ہے۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ جب بھی کوئی آمر آیا اس نے آئین میں ترامیم کیں جنہیں عدالتوں نے اور کچھ سیاسی جماعتوں نے بھی قبول کیا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو کچھ سہولتیں ملی ہیں جس سے عوام کو حکومت کی نیت کا اندازہ ہوجانا چاہئے۔ اقتدار کے کچھ ہفتوں بعد ہی ڈاکٹر قدیر کیلئے نرمیاں پیدا کردی گئی ہیں۔ حکومت مہنگائی پر قابو نہیں پاسکی جس کی وجہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمت میں زبردست اضافہ ہے ۔ جیسے ہی ججوں کا معاملہ حل ہوگا اور حکومت کو کچھ استحکام ملے گا عوام کو ریلیف دیا جائے گا آصف علی زرداری نے ذمہ داری ملنے پر بہترین صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا ہے مسلم لیگ (ن) آج بھی ہماری اتحادی ہے اور توقع ہے کہ وہ جلد وفاقی کابینہ میں بھی واپس آجائے گی۔ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ مسلم لیگ (ق) آٹھ سال تک آمر کی گود میں بیٹھی رہی اور اسے 2050ء تک باوردی صدر منتخب کرنے کے دعوے کرتی رہی ہے۔ حقیقت میں (ق) لیگ کسی سیاسی جماعت کا نام نہیں بلکہ یہ آمریت کے مسافروں اور مختلف جماعتوں سے بھاگے ہوئے لوگوں پر مشتمل گروہ ہے۔ اس سوال پر کہ مسلم لیگ (ق) کے بغیر مجوزہ آئینی پیکج کو سینٹ میں کس طرح منظور کروایا جائے گا جہانگیر بدر نے کہا کہ نیلوفر بختیار اور دیگر سینیٹرز نے پہلے ہی وہاں فارورڈ بلاک بنا رکھا ہے ۔ جب آئینی پیکج پیش ہوگا تو بہت سے لوگ فارورڈ بلاک کی شکل میں بھی اس کی حمایت کرسکتے ہیں کیونکہ (ق) لیگ میں لوگوں کو ڈر، خوف اور لالچ کے ذریعے شامل کیا گیا تھا۔ صدر کے مواخذے سے متعلق انہوں نے کہا کہ آئینی پیکج کی منظوری کے بعد آہستہ آہستہ مواخذہ کی نوبت بھی ضرور آئے گی۔ آئینی پیکج کی تیاری کے بعد اسے اتحادی جماعتوں کے سامنے پیش کرنے کے بعد پھر متفقہ طور پر پارلیمنٹ میں لائیں گے کیونکہ ججوں کی بحالی کے مسئلے کے باعث ملک میں ڈیڈ لاک پیدا ہوچکا ہے ۔ اسے حل کرنے کے بعد مہنگائی اور دیگر مسائل کے حل پر بھی توجہ دی جائے گی۔نواز شریف نے کہاہے کہ صدر کے تحفظات سے انہیں وہ پچھلا دور یاد آ رہاہے جب صدر وزیر اعظم کو برطرف کرنے اور اسمبلی توڑنے کے لیے گراو¿نڈ تیار کیا کرتا تھا ۔ جس طرح صدر نے موجودہ حکومت کے بارے میں تحفظات کا اظہار کیاہے اس سے پچھلا دور یاد آ رہا ہے کہ کس طرح ایک خاص مقصد کے لیے کام شروع کیا جاتا ہے اور کس طرح وزیر اعظم سے نجات اور اسمبلی توڑنے کے لیے راہ ہموار کی جاتی ہے۔ جب تک پرویز مشرف کے پاس موجودہ اختیارات ہوں گے اور پارلیمنٹ بے اختیار ہو گی۔ تو پہلا کام وہ وہی کریں گے جو صدر پرویز مشرف شروع کرنے جارہے ہیں ۔ حکومت کو آئے جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ہیں لیکن اس پر تحفظات ظاہر کئے جارہے ہیں اور جو کچھ کیا جارہاہے وہ گزشتہ آٹھ سالہ پالیسی کا تسلسل ہے۔ انہوں نے آصف علی زرداری سے کہا ہے کہ مواقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے ورنہ حالات سازگار ہوں یا نہ ہوں آمران سے فائدہ اٹھانے کی تاک میں ہوتا ہے ۔ ا جب تک سازشی عناصر موجود ہیں ملک میں استحکام نہیں آئے گا۔ عمران خان نے کہا ہے کہ اے پی ڈی ایم نے عوامی مینڈیٹ تسلیم کیا اور ججوں کی بحالی کیلئے ڈیڈ لائن دینے کی بجائے حکومت کو مکمل وقت دیا ہے۔ جیل سے رہائی کے بعد انہوں نے خود نواز شریف کو ٹیلی فون پر الیکشن میں حصہ لینے کا کہا لیکن تحریک انصاف کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی نے انتخابات میں حصہ لینے کی مخالفت کی۔ انہوں نے کہا کہ بینظیر کی شہادت نہ ہوتی تو جنرل مشرف نے ق لیگ کو جتوا لینا تھا۔عمران خان نے کہا کہ سیاست سے ایجنسیوں کا کردار ختم ہونا چاہئے۔ ان کا کہنا تھا کہ آئی ایس آئی کے پولیٹیکل سیل کے سابق سربراہ میجر جنرل ریٹائرڈ احتشام ضمیر نے انہیں مشرف کا ساتھ دینے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں لوگ صرف چوروں کو ووٹ دیتے ہیں۔ عمران خان نے کہا کہ ملکی دولت لوٹنے والے اپنے جرم کا اعتراف کر لیں تو مفاہمت کا نیا دور شروع ہو سکتا ہے لیکن اس وقت مفاہمت کے نام پر شرمناک کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جنرل مشرف کے مواخذے کی بجائے ان کی اہلیت کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جانا چاہئے۔ بارہ مئی کا واقعہ بھول جانا جرم ہو گا، عدلیہ آزاد ہوتی تو ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی نہ ہوتی۔امریکی نائب وزیر خارجہ جان نیگرو پونٹے اہم سیکیورٹی معاملات پر بات چیت کیلئے اگلے ہفتے پاکستان کا دورہ کریں گے ان کا یہ دورہ ایک اہم وقت پر ہو رہا ہے جبکہ پاکستان کے سیکیورٹی کے کئی مسائل ہیں فاٹا کے معاملات ہیں پاکستان میں سول جمہوری حکمرانی کو مضبوط کرنے کا معاملہ ہے ۔ جان نیگرو پونٹے کے ساتھ ایک اعلیٰ سطحی وفد بھی آرہا ہے ان کے ایجنڈے میں پاکستان کے ساتھ امریکہ کی جامع شراکت داری چل رہی ہے جس میں دہشت گردی کے مسائل ہیں انتہا پسندی کے معاملات شامل ہیں ان کے اس دورے میں پاکستانی حکام سے بات چیت میں ان معاملات کی رفتار کا جائزہ لینا ہے اس کے علاوہ وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کی مصر میں شرم الشیخ میں صدر بش کے ساتھ ملاقات ہوئی ہے اور جو معاملات طے پائے ہیں ان معاملات کو آگے بڑھانے پر بھی بات چیت ہو گی پاکستان میں توانائی، غذائی بحران کے بارے میں بات چیت ہو گی ۔ امریکہ ، چاہتا ہے کہ پاکستان میں ایک وسیع البنیاد حکومت کام کرے تاکہ قومی اتفاق رائے کے ساتھ معاملات کو آگے بڑھایا جا سکے ۔ پاکستان میں سول، جمہوری حکمرانی کو مضبوط بنانا ان کے ایجنڈے کا اہم پوائنٹ ہے اور توقع کی جارہی ہے کہ سیکیورٹی کے معاملات کے ساتھ پاکستان میں پائیدار جمہوریت کے قیام کیلئے تجاویز کو آگے بڑھانا شامل ہے۔عوام نے اس بات پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے کہ اعلٰی امریکی حکام متعدد مواقع پر اس بات کا اظہار کر چکے ہیں کہ نائن الیون کی طرز پر امریکہ پر اگلے حملے کا مرکز پاکستان کے قبائلی علاقے ہو سکتے ہیں۔ اس ضمن میں تازہ ترین بیان امریکی سنٹرل کمانڈ کے نامزد سربراہ اور سینیئر فوجی جنرل ڈیوڈ پیٹراس نے امریکی سینٹ کی مسلح افواج سے متعلق کمیٹی کے اجلاس میں دیا ہے۔ تسلسل سے آنے والے اس قسم کے بیانات پاکستان کو بلیک میل کرنے کی ایک سوچی سمجھی کوشش ہے تاکہ موجودہ قیادت کو پرویز مشرف کی غلامانہ پالیسیاں جاری رکھنے پر مجبور کیا جا سکے۔ پاکستان کے عوام 18فروری کو اپنا فیصلہ دے چکے ہیںاور دنیا بھر کے مسلمان اور تیسری دنیا کے لوگ عوامی رائے جانچنے کے ہر سروے میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر جاری امریکی مہم جوئی کے جواز، اس کی قانونی حیثیت اور افادیت کو مسترد کر چکے ہیں۔ موجودہ حکومت کے پاس واحد راستہ یہی ہے کہ وہ موجودہ پالیسی پر مکمل طور پر نظرِ ثانی کرے اور امریکہ سمیت تمام ممالک سے خوشگوار تعلقات کے قیام کے ساتھ ساتھ خطے میں امریکی مفادات کو آگے بڑھانے کی بجائے ملکی مفاد میں فیصلے کرے۔ امریکی قیادت کو بھی اپنی سوچ اور حکمتِ عملی پر نظرِ ثانی کرنی چاہئے اور اس بات کا جائزہ لینا چاہئے کہ افغانستان اور عراق سمیت دنیا بھر میں اس کی پالیسیاں کیوں ناکامی سے دوچار ہو رہی ہیں۔پیچیدہ سیاسی مسائل کو طاقت کے بے رحمانہ استعمال سے حل نہیں کیا جا سکتا۔ اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان محتاط اور محفوظ انداز میں خود کو خطے میں جاری تباہ کن امریکی جنگ سے علیحدہ کر لے ۔صرف اسی صورت میں قبائلی علاقہ جات ایک مرتبہ پھر امن کا گہوارہ بن سکتے ہیں ۔ اس مقصد کا حصول صرف سیاسی مذاکرات، باہمی اعتماد اور اصلاحات کے متفقہ پیکج کے ذریعے ہی ممکن ہے۔اگر امریکہ اور نیٹو کی افواج افغانستان میں ناکامی سے دوچار ہیں تو اس کا ملبہ پاکستان پر نہیں ڈالا جا سکتا۔امریکہ کو چاہئے کہ وہ پاکستان کو بلیک میل کرنے کی بجائے خود اپنی پالیسیوں کا جائزہ لے۔


No comments: