International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.

Saturday, May 24, 2008

چوہے ، بلی ،گھنٹی اور قوم کے مجرم ۔۔۔۔ تحر یر چودھری احسن اے پی ایس اسلا م آباد


پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ انہوں نے صدر پرویز مشرف کو کبھی آئینی صدر تسلیم نہیں کیا اور ہم چاہتے ہیں وہ چلے جائیں بجائے اس کے کہ ان کا احتساب ہو۔ فوجی سربراہان، گورنرز اور ججوں سمیت آئینی عہدوں پر تعیناتی کا اختیار صدر کے بجائے وزیر اعظم کو دینا چاہتے ہیں۔ ان کے مطابق صوبہ سرحد کا نام تبدیل کرکے پختونخواہ رکھنے کی تجویز ہے، سینٹ میں وفاق اور چاروں صوبوں سے ایک ایک اقلیت کا نمائندہ بھی رکھنا چاہتے ہیں، فوج اور عدلیہ پر تنقید کی بنا پر قومی اسمبلی کی رکنیت سے نااہلی کی شق ختم کرنے اور مشترکہ مفادات کی کونسل کو فعال بنانے کی بھی شقیں شامل ہیں۔ 1973 ء کے آئین کی دفعہ 62 ‘ 63 اور 90 میں ترمیم کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ دفعہ 62 اور 63 اراکین پارلیمنٹ کی اہلیت کے بارے میں ہیں اور دفعہ 90 صدر کے اختیارات کے بارے میں ہے اور ترمیم کے مطابق اختیارات کا مرکز وزیراعظم اور کابینہ کو بنانے کی کوشش کی جائے گی ۔ چاروں صوبوں کے گورنرز اور مسلح افواج کے سربراہوں کی تقرری کا اختیار وزیراعظم کے مشورے سے مشروط کرنے کی تجویز پیکج میں دی گئی ہے ۔مجوزہ آئینی پیکج کے مطابق آئین میں کنکرنٹ لسٹ کو 80 فیصد ختم کیا جا رہا ہے ۔ اور چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کا اختیار قومی اسمبلی اور سینٹ میں لیڈر آف اپوزیشن کے مشورے سے ہو گا ۔ اور اگر یہ نہیں ہوں گے تو قومی اسمبلی کے سپیکر اور چیئرمین سینٹ کے مشورے سے یہ تقرر کیا جائے گا۔ نیشنل فنانس کمیشن میں قومی اسمبلی اور سینٹ میں لیڈر آف اپوزیشن کو شامل کیا جا رہا ہے اور سینٹ کے قائد ایوان کو بھی اس میں شامل کیا جا رہا ہے ۔ آئینی پیکج میں ایک شق شامل کی گئی ہے کہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے ججز ریٹائرمنٹ کے بعد کسی سرکاری ادارے میں ملازمت نہیں کرسکتے اور نہ ہی وہ چیف الیکشن کمشنر کے عہدے پر تعینات ہو سکتے ہیں ۔ ایک دوسری شق کے مطابق صوبہ سرحد کا نام تبدیل کرنے کے بارے میں بھی کہا گیا ہے تاہم اس کے لیے مزید صلاح و مشورے ہوں گے۔ آئینی پیکج کے مطابق کوئی بھی شخص دو سے زائد مرتبہ صدر نہیں بن سکے گا اور صوبہ سرحد کا نام پختونخواہ رکھنے کی تجویز بھی آئینی پیکج میں شامل ہے ۔آئینی پیکج کے مطابق آرٹیکل 104کے تحت نگران حکومت سپیکر کی مشاورت سے قائم کی گئی ہے اور صوبوں میں گورنر کی مشاورت سے کی جائے گی ۔سی سی آئی کا اجلاس ہر سال میں دو دفعہ ہو گا ۔ قومی اقتصادی کونسل کو فعال بنایاجائے گااور فنانشل کونسل کا اجلاس تین سال بعد ہو گا اجلاس میں پیش کی گئی قرار داد کے مطابق بے نظیر بھٹو کی جمہوریت کیلئے کی گئی کاوشوں کو خراج تحسین پیش کیا گیا اور سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے ممبران نے آئینی پیکج پر اتفاق رائے کیا اور دوسری سیاسی جماعتوں سے آئینی پیکج کے بارے میں مشاور ت کی تائید کی ۔ آصف علی زرداری کے سیاسی اقدامات جمہوریت کی طرف سفر و عوام کو بحران سے نکالنے کیلئے ان کی مکمل حمایت کا اعلان کیا اور اجلاس نے اس بات کا بھی اعادہ کیا کہ آصف علی زرداری جو پالیسی بھی اختیار کریں گے پارٹی اس پر عملدرآمد کرے گی یہ مجوزہ آئینی پیکج مسلم لیگ(ن) کے قائد نواز شریف کو بھیجا گیا ہے اور اس پر نواز شریف کی جانب سے آنے والی آو¿ٹ پٹ کے بعد اس میں مزید تبدیلیاں کی جا سکتی ہیں پیپلزپارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پارٹی کے شریک چیئر مین آصف علی زرداری نے کہاکہ سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی سے آئینی پیکج کی منظوری کے بعداس کو نواز شریف ، ایم کیو ایم ، اسفند یار ولی اور دوسری جماعتوں کو بھیج دیا گیاہے۔ آئینی پیکج کی منظوری پارلیمنٹ کے اندر اور باہر سب جماعتوں سے لیں گے انہوںنے کہاکہ ہم پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی مفاہمت کی پالیسی کو لے کر آگے بڑھیں گے جس کے تحت 90ہزار فوجیوں کو شملہ میں مذاکرات کے ذریعے رہاکروایا گیا اور پاکستان کی ہزاروں مربع میل زمین کو واپس لیاگیااور بے نظیر کی اسی پالیسی کے تحت صدر پرویز مشرف نے وردی اتاری ۔ انہوں نے کہاکہ ہم آئینی پیکج پر صدر پرویز مشرف سے بھی ڈائیلاگ کریں گے اور پارلیمنٹ سے اسے منظور کروائیں گے اور پوری دنیا کی جمہوری قوتوں کے سامنے رکھیں گے اور ان سے مشاورت کریں گے۔ بے نظیر بھٹو کے قتل کا ذمہ دار مسلم لیگ (ن) کی طرف سے صدر مشرف کوقرار دئیے جانے کے حوالے سے ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ یہ حق پیپلزپارٹی کا کیونکہ قوم نے ہمیں بے نظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات اقوام متحدہ سے کروانے کا مینڈیٹ دیا ہے اور ہم اس مینڈیٹ کو سبو تاڑ نہیں ہونے دیں گے انہوں نے کہاکہ ہم اس مسئلے کو اقوام متحدہ میں لے کر جائیں گے آصف علی زرداری نے کہاکہ ججوں کی بحالی کیلئے ہم وکلاء سے بھی بات چیت کریں گے کیونکہ ہم ججوں کو بحال کرنا چاہتے ہیں۔جمہوریت اور آمریت کبھی اکٹھے نہیں چل سکتے ۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ آئینی پیکج کی منظوری کے حوالے سے کوئی ڈیڈ لائن نہیں دی لیکن ہماری کوشش ہے کہ جلد سے جلد اس کو منظور کروا لیں انہوں نے کہاکہ وکیلوں کا اور ہمارا موقف مختلف نہیں ہے ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ جب میں نے شدید مشکلات کے اندر آئی ایس آئی کی بات نہیں مانی تو اب ان حالات کے اندر کس طرح مانوں گا ۔ آئی ایس آئی حکومت کے تحت کام کرتی ہے۔ پیپلز پارٹی کو اسٹیبلشمنٹ کی سازشوں کے خلاف لڑنے کا زیادہ تجربہ ہے ۔ عوام کاپریشر ہو گا ، میڈیا کاپریشر ہو گا ہمارا بل سینٹ اور قومی اسمبلی میں ہوگا ۔ صوبوں میں اور قومی اسمبلی میں ہماری اکثریت ہے بل کو وہاں سے پاس کروائیں گے اور پھر سینیٹر سے درخواست کروںگا۔ جبکہ سابق وزیر ریلوے شیخ رشید احمدنے کہاہے کہ پیپلز پارٹی کے مجوزہ آئینی پیکج کے مطابق معزول چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری 29مئی تک فارغ ہو جائیں گے ایک نجی ٹی وی کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے آئینی پیکج پر اپنے رد عمل میں انہوں نے کہاکہ آئینی پیکج کی منظوری کیلئے دو تہائی اکثریت حاصل کرناممکن نہیں ہے پیپلز پارٹی کے مجوزہ آئینی پیکج کے حوالے سے عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما اسفند یار ولی خان نے کہاہے کہ آئینی پیکج کے بہت سے نکات جمہوری نظام کو مستحکم کریں گے جبکہ مسلم لیگ نواز کے رہنما راجہ ظفر الحق نے اپنے رد عمل میں کہاکہ آئینی پیکج پر غور کے بعد فیصلہ کیاجائے گا جماعت اسلامی کے مرکزی رہنما لیاقت بلوچ نے اس آئینی پیکج پر اپنے رد عمل میں کہاہے کہ ایسا لگتاہے کہ یہ آئینی پیکج واشنگٹن میں تیار کیاگیا ہے جسے ایوان صدر کے ذریعے پیپلز پارٹی کے حوالے کیاگیا۔اپنے بیان میں انہوںنے کہاکہ یہ آئینی پیکج قوم کیلئے نا قابل قبول ہو گا جس میں پرویز مشرف کے ناجائز اقدامات کو بھی تحفظ دیا جارہا ہے اور پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے ججز کو بھی تحفظ فراہم کیاگیا ہے انہوں نے توقع ظاہر کی کہ مسلم لیگ (ن) بھی اس آئینی پیکج کو مسترد کردے گی انہوں نے کہاکہ اے پی ڈی ایم کی جانب سے اٹھارہ اور انیس جون کو بلائی جانے والی کانفرنس میں آئینی پیکج کے مسودے کی تجاویز پر غور کیاجائے گا مولانا فضل الرحمن نے کہاکہ ابھی پورا آئینی پیکج ہمارے سامنے نہیں آیا میں نے اپنی پارٹی کا پارلیمانی اجلاس سموار کو طلب کیا ہے پیکج کی تفصیلات جاننے کے بعد ہی اس کی مختلف شقوں پر اپنی حتمی رائے دے سکیں گے۔ انہوں نے کہاکہ پارلیمنٹ کو زیادہ با اختیار بنایا جانا چاہیے ایگزیکٹو کے اختیارات وزیراعظم کو منتقل کیاجانا چاہیے کیونکہ یہ پارلیمان طرز حکومت کی اصل روح ہے ۔پاکستان مسلم لیگ(ن)کے مرکزی ترجمان محمد صدیق الفاروق نے کہاکہ ریٹائرڈ جنرل پرویزمشرف بے نظیربھٹو کے مبینہ قاتل،2002ء کے عام انتخابات میں دھاندلی کے مجرم ،کارگل شکست کے ذمہ دار ،پاکستان میں گندم اور انرجی کا دانستہ بحران پیدا کرنے کے مبینہ مجرم،عدلیہ سمیت ملک کے اہم اداروں کو غیر مستحکم کرنے ، کرپشن اور کرپٹ عناصر کو فروغ اور تحفظ دینے ، صنعتی و تجارتی کارٹلز(Cartels)کوتحفظ فراہم کرنے ،غیر ملکی اورملکی قرضوں کو 6ہزار ارب روپے تک بڑھانے ،تجارتی خسارے کو 1.6ارب ڈالر سے 18ارب ڈالر تک پہنچانے ،بے روزگاری اور غربت میں اضافہ کرنے اور ملکی معیشت کو تباہی کے دہانے پہنچانے اور پاکستان کو Ungoverable بناکر سول وار کی طرف دھکیلنے کے مجرم ہیں۔ان جرائم کی روشنی میں وہ Misconduct اور ریاست پاکستان کو غیر مستحکم کرنے اور کرپشن میں ملوث ہونے کے مجرم ہیں ۔ وہ اس وقت جبراً صدر کے عہدے اور ایوان صدر پرقابض ہیں اور موجودہ منتخب مخلوط حکومت کے خلاف مٹھی بھر لوگوں کے ساتھ ملکرسازشیں کرنے میںبھی مصروف ہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیاکہ اِن جرائم کے ارتکاب کی بنیاداور وفاق کو بچانے کیلئے ریٹائرڈ جنرل پرویزمشرف کو “عہدے” سے برخواست (Impeach) کرنے کیلئے بلاتاخیر پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلایاجائے ۔اگر اس میں تاخیر کی گئی تو ملک اور قوم کو مزید نقصان پہنچنے کا سنگین خطرہ لاحق ہے۔مسلم لیگ(ن) کے مرکزی ترجمان نے مطالبہ کیا کہ سابق وزیراعظم شوکت عزیز ،بلال مشرف،ترکی میں پاکستان کے سفیر اور سابق گورنر سرحدریٹائرڈ لفٹیننٹ جنرل افتخارکوبیرون ملک سے طلب کرکے اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویزالٰہی ،سابق آئی بی چیف ریٹائرڈ اعجاز شاہ،سابق وزیراعلیٰ سندھ ارباب غلام رحیم یعنی پرویزمشرف سمیت8کے ٹولے سے تفتیش کی جائے جس کے نتیجے میں اِن تمام جرائم اور پرویزمشرف کی ذاتی کرپشن اور لوٹی ہوئی دولت سے بنائے گئے بیرون ملک اثاثے بے نقاب ہو سکیں۔صدیق الفاروق نے کہاکہ بے نظیر بھٹو شہید کے قتل کی سازش پرویزمشرف نے ق لیگ کے رہنماو¿ں اور انٹیلی جنس بیورو کے سربراہ ریٹائرڈ بریگیڈیئر اعجاز شاہ کے مشورے سے تیار کی اور انہی کے ذریعے اس پر عمل درآمد کرایا۔اس حوالے سے مارک سیگل کے نام بے نظیر بھٹو شہید کی ای میل اور 16اکتوبر 2007ء کو مشرف کو لکھاگیا خط ناقابل تردیدثبوت ہیں۔ اپنی ای میل جسے نزعی بیان سمجھا جا رہا ہے بے نظیر بھٹو نے کہا،”اگر مجھے کچھ ہوگیا(قتل کردی گئی) تو میر ے نزدیک اس کے ذمہ دار پرویزمشرف ہونگے”۔ سی آئی اے لاس انیجلس ٹائمز (CIA Times Los Angeles) نے 18 جنوری 2008ء کو اپنی اشاعت میں سی آئی اے کے حوالے سے پرویزمشرف کو ہی بے نظیر بھٹو کو قاتل بتایا ہے۔ صدیق الفاروق نے کہاکہ پرویز مشرف نے ہر ممکن کوشش کی کہ بے نظیر بھٹو اپنی پارٹی میں ان کی (مشرف) کی پسند کے آدمی کو وزیراعظم بنوادیں او رخود پاکستان نہ آئیں لیکن بے نظیر بھٹو نے ان کی یہ بات نہ مانی۔ جب صدر بش کے دباو¿ پر انہوںنے نہ چاہتے ہوئے بے نظیر بھٹو کو پاکستان آنے کی اجازت دی تو18اکتوبر2007ء کو ان پر قاتلانہ حملہ کروادیا۔ اس حملے میں بھی وہی طریقہ کاراختیار کیاگیا جو 27دسمبر2007ء کو راولپنڈی میں اختیار کیاگیا۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بارے میں مشرف حکومت کا تین بار موقف تبدیل کرنا،حملے سے پہلے محافظ پولیس کی گاڑیاں واپس بلالینا،جیمرزکوناکام بنانا،اوپر سے ملنے والی ہدایت پر سعودعزیز کا فوراً”جائے وقوعہ کو دھونے اور محترمہ کا پوسٹ مارٹم نہ کرنے کے احکامات جاری کرنابھی بے نظیر بھٹو کے قتل میں پرویزمشرف،وزیراعلیٰ پنجاب اور آئی بی چیف وغیرہ کا ملوث ہوناثابت کرتا ہے۔کارگل شکست کی منصوبہ بندی کے ذریعے انہوںنے پاکستان اور بھارت کو نہ صرف ایٹمی جنگ کے دہانے پر پہنچادیاتھا بلکہ وہ 3000سے زیادہ پاکستانی فوجیوں کی شہادت کے بھی مجرم ہیں۔پرویزمشرف نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فاو¿ل کھیل کھیلا جس کے نتیجے میں دہشت گردی میں اضافہ ہوا اور خود پاکستان دہشت گردی کا نشانہ بن چکا ہے۔ پاکستان کے فوجی سپاہی سے لے کر لیفٹننٹ جنرل اور خفیہ اداروں کے اہلکار دہشت گردی کا نشانہ بن رہے ہیں۔ اب تک 2ہزار سے زیادہ پاکستانی فوجی اور ہزاروں شہری دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں ۔ انہوں نے امریکہ کی طرف سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میںپاکستانی فوج میں تقسیم کرنے کیلئے دیئے گئے 4.58 ارب ڈالر(270ارب روپے) کا کوئی حساب نہیں دیا۔ 2002ء کے عام انتخابات میں آئی ایس آئی کے ذریعے انہوںنے دھاندلی کی اور ق لیگ کے علاوہ کچھ دیگر لوگوں کو بھی پارلیمنٹ کا ناجائز ممبر بنوایا۔ اس کی تصدیق اس وقت آئی ایس آئی کے پولیٹیکل ونگ کے سربراہ میجر جنرل(ر) احتشام ضمیر کر چکے ہیں ۔ پرویزمشرف نے دھاندلی کے ذریعے اسمبلی میں پہنچائے جانے والے اپنے آدمیوں کے ذریعے اپنے 12اکتوبر99ئ کے غیر آئینی اقدام کو 17 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے تحفظ دلوایا۔آئین اور قانون کی نظر میں دھاندلی کے نتیجے میں پارلیمنٹ میں جانے والے لوگ غیر ممبر تھے۔ لہذا انہوں نے آئین میں جوترمیم کی وہ بھی آرٹیکل6کے زمرے میں آتی ہے ۔ اس کے ساتھ ہی پرویزمشرف مس کنڈکٹ (Misconduct) کے بھی مجرم ہیں ۔ جبکہ اعلی ترین سابق عسکری قیادت نے دعویٰ کیا ہے کہ پرویز مشرف کے لیے واپسی کا محفوظ اور پر امن راستہ اب بند ہو چکاہے ۔انہیں کارگل سے لے کر قبائلی علاقوں میں فوج کشی ، دہشت گردی کے خلاف جنگ اور لال مسجد سے 3 نومبر کی ایمرجنسی تک تمام غیر قانونی و غیر آئینی سرگرمیوں کاحساب دینا ہو گا ۔ نو منتخب حکومت قومی سانحات کی تحقیقات کے لیے فی الفور کمیشن تشکیل دے۔ آرمی چیف کا عہدہ چھوڑنے اور وردی اتارنے کے بعد پرویز مشرف کو آرمی ہاو¿س میں رہنے کا کوئی اختیار اور حق حاصل نہیں وہ آرمی ہاو¿س کو اپنے مقاصدکے لیے استعمال کر رہے ہیں اور فوج کی حمایت کاتاثر دے رہے ہیں فوج اور حکومت ان سے فی الفور آرمی ہاو¿س خالی کرائے ۔ ایکس سروس مین مسلح افواج پر جمہوری کنٹرول کی حامی ہے کو منتخب حکومت بھی جرات مندانہ اور آزادانہ فیصلے کریں ۔ پرویز مشرف نے اگر اٹھاون ٹو بی سے تحفظ لینے کی کوشش کی تو ایکس سروس مین بھرپور مزاحمت کرے گی۔لیفٹیننٹ جنرل ( ر ) اسد درانی نے کہا کہ 18 فروری سے قبل اور 3 نومبر کے بعد ہماری کوشش تھی کہ ایکس سروس مین کو اکٹھا کر کے ملک کی موجودہ صورتحال پر مشاورت کی جائے اور قومی سلامتی کے لیے اپنا کردار ادا کیا جائے۔ 18 فروری کے انتخابات ، وکلاء سول سوسائٹی کی جدوجہد اور میڈیا کے کردار نے ملک میں ایک شعور اجاگر کیا۔ انتخابات میں پرویز مشرف کی پالیسیوں کو مسترد کیاگیایہ ایک ریفرنڈم تھا۔ انہوں نے کہاکہ ہمارے خدشات میں وقت کے ساتھ پھر اضافہ ہو رہاتھا ۔انہوں نے اجلاس کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ 18 فروری کے انتخابات میں عوام کا اصل مطالبہ اور فیصلہ یہ تھاکہ پرویزمشرف صدارت کا عہدہ چھوڑ دیں ۔انہوں نے ملک میں سیاسی و جمہوری اور آئینی عدم استحکام پیدا کیا ۔انہیں اپنی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے صدارت کے منصب سے الگ ہونا چاہیے ۔ پرویزمشرف نے عدلیہ کے بھی تانے بانے ادھیڑ دئیے۔ عدلیہ کے خلاف اقدام کے بعد اگر اب بھی 2 نومبر کی عدلیہ بحال نہ ہوئی تو پھرکبھی یہ ادارہ آزاد نہیں ہو سکتا ۔ چیف جسٹس کو آرمی ہاو¿س ، ایوان صدر یا وزیر اعظم ہاو¿س میںبلوانا عدلیہ پر قدغن لگانے کے مترادف ہے۔ گزشتہ چند ہفتوں سے الیکشن کمیشن کے رویے سے بھی نئے شکوک و شبہات پیداہو رہے ہیں ۔ موجودہ حکومت نے باہم اتحاد کا مظاہرہ کر کے احسن اقدام کیا۔ انہوں نے حکمران اتحاد سے اپیل کی کہ 18 فروری کے انتخابات میں ملنے والے مینڈیٹ کی پاسداری کریں۔ ایکس سروس مین حکومت کی طرف سے فاٹا ، وزیرستان ، قبائلی علاقوں میں امن معاہدوں کا خیر مقدم کرتی ہے لیکن ہمیں ہر طرح کے بیرونی دباو¿ کو مسترد کر کے اپنے فیصلے خود کرنا ہوں گے۔ ماضی میں یہ مثالیں موجود ہیں کہ ہم نے جب بھی اپنے فیصلے آزاد ہو کر کئے ان میں کامیابی ملی ۔ ہمیں نیگرو پونٹے اور امریکی سفیر کے اشاروں کو بھی خاطر میں نہیں لانا چاہیے ۔ انہوںنے کہاکہ پرویز مشرف کے لیے واپسی کا راستہ اب بندہو چکا ہے۔ انہیں کارگل سے آج تک فوجی اور قومی امور پر کڑے ٹرائل سے گزرنا ہوگا ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ فی الفور ایک آزاد اور غیر جانبدار کمیشن تشکیل دیا جائے۔ جو پرویز مشرف کے خلاف دہشت گردی کے خلاف جنگ قبائلی علاقوں میں لشکر کشی ، لال مسجد آپریشن سمیت تمام سرگرمیوں کا تفصیلی جائزہ لے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم پاکستانی فورسز پر جمہوری کنٹرول کے حامی ہیں تاکہ اداروں میں چیک اینڈ بیلنس کے ذریعے ملک و قوم کی ترقی کی راہ متعین کی جاسکے ۔ انہوں نے کہاکہ پرویز مشرف کو آرمی چیف کا عہدہ چھوڑنے اور وردی اتارنے کے بعد آرمی ہاو¿س میں رہنے کا کوئی اختیار نہیں وہ یہ تاثر دے رہے ہیں کہ فوج اب بھی ان کے ساتھ ہے جو فوج کے لیے بذات خود انتہائی خطرناک ہے۔ لہذا پاک فوج فی الفور آرمی ہاو¿س خالی کرائے ۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ ڈاکٹر عبد القدیر خان کو فی الفور رہا کیا جائے۔ سابق وزیر اعظم شوکت عزیز کو فی الفور پاکستان واپس بلوا کر احتساب اور انکوائری کے عمل سے گزارا جائے ۔ انہوں نے کہا کہ پرویز مشرف اگرچہ ایوان صدر میں بیٹھے ہیں لیکن وہ آئینی صدر نہیں ہیں جو اٹھاون ٹو بی کو اپنا محافظ خیال کرتے ہیں اگر انہوں نے دوبارہ اس کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کی تو ایکس سروس مین بھرپور مزاحمت کرے گے ۔ آج ملک میں مہنگائی بد امنی بے روزگاری زوروں پر ہے ۔ لاپتہ افراد کے حوالے سے انہوںنے کہاکہ چار سال سے جاری یہ سنگین ایشوز جو چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی معزولی کا بھی ذریعہ بنا یہ نہ صرف قانون بلکہ اخلاقیات کے بھی منافی ہے ۔ نومنتخب حکومت لا پتہ افراد کی بازیابی کے لیے فوری کارروائی کرے۔ انہوں نے پیشن گوئی کہ پاکستان میں آئندہ بہت جلد بڑے واقعات رونما ہونے والے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ آئین کی خلاف ورزی پر پرویز مشرف کے خلاف آئین کی آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی کی جانی چاہیے ۔ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ ہم کسی سیاسی جماعت کے حامی نہیں بلکہ نو منتخب حکومت کو اچھے اقدامات پر خراج تحسین پیش کرنے کے ساتھ انہیں بعض چیزوںکی نشاندہی کر رہے ہیں یہ درست ہے کہ ماضی میں ذاتی حیثیت میں ہمارے بھی بع لوگوں نے غلطیاں کی ہوں گی لیکن بحیثیت ادارہ مجموعی طور پر ایسے کام ہوئے جو ملک و قوم کے مفاد میں نہیں ۔ ماضی کی غلطیوں کے ازالے کے لیے ہی ہم وسیع تر قومی مفاد میں نئی جدوجہد کر رہے ہیں ۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ 3 نومبر کی ایمرجنسی کا اقدام بذات خود غیر آئینی و غیر قانونی تھا لہذا اس کے تحت جاری ہونے والے اقدامات اور تقرریاں و تعیناتیاں بھی غیر قانونی ہے۔ انہوں نے کہاکہ ایکس سروس مین نے وکلاءکی ملک گیر تحریک میں بھرپور شمولیت کرے گی اور تحریک کے دوران وکلاء کی ہر ممکن سپورٹ کی جائے گی ۔ ایکس سروس مین کے پچیس لاکھ اراکین قومی مفاد کے کسی بھی فیصلے پر عملدرآمد کے لیے متفق ہیں ۔ جبکہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر میاںمحمد شہبازشریف نے کہا ہے کہ ہم ایک ایسا نظام لائیں گے جس سے مستقبل میں جمہوری حقوق کے لئے لڑنے والے سیاسی کارکنوں کے ساتھ ریاست کی جانب سے جارحانہ کاروائیوںکاسلسلہ ترک ہوجائیگا۔ پارٹی کی اصل طاقت اس کے کارکن ہیں اورپارٹی کے وزراء ، ایم این اے اور ایم پی اے حضرات انہی کارکنوں کی وجہ سے آج ان عہدوں پرسرفراز ہیں ۔ درخت کی جڑیں نہ ہوں تو وہ زمین پرآرہتا ہے اوراگر سیاسی کارکن نہ ہوں تو قیادتیں لنگڑی اور اندھی ہوجاتی ہیں ،افسران غیر آئینی اور غیر قانونی احکامات ماننے کی روش اور عادت بدل لیں ،چادر اور چاردیواری کا تقدس مجروح کرنے والوں کو نظروں سے دور رکھا جائے گا عدلیہ اور ججز کی بحالی کی جنگ جاری رہے گی ۔ پارٹی قیادت گزشتہ 8سالہ دور آمریت میںجمہوریت کے لئے جد وجہد کرنے والے پارٹی کارکنوں کو سلام پیش کرتی ہے ۔ مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں نے مشرف حکومت کے ظالمانہ او رجابرانہ ہتھکنڈوں کا مقابلہ کرتے ہوئے قیدو بند کی صعبوتیں برداشت کیں ، جیلیں کاٹیں ، بدترین ریاستی جبرو تشد د کا مردانہ وا رمقابلہ کیا، لاٹھیاں او رگولیاں کھائیں دہشت گردی کے جھوٹے مقدمات بھگتے لیکن ہمارے ان عظیم کارکنوں نے سخت ترین حالات میںبھی پارٹی او رلیڈر شپ کو زندہ رکھا۔جس کی قائد مسلم لیگ(ن) محمدنوازشریف او روہ دل کی گہرائیوں سے قدر کرتے ہیں۔ کارکنوں کی 8سالہ سیاسی جد وجہد پارٹی کے لئے گراں قدر سرمائے کی حیثیت رکھتی ہے ہمارے ان کارکنوں نے آمروں کی گود میںپلنے والوں کا ڈٹ کرمقابلہ کیا ۔کسی قسم کا لالچ او ردباو¿ ان کے پایہ استقلال میں لغزش پید ا نہ کرسکا مسلم لیگ(ن) اپنے ان کارکنوں کی جمہوریت کے لئے دی گئی لازوال قربانیوں کو انتہائی عزت کی نگاہ سے دیکھتی ہے یہ کارکنوں کی جدو جہد کا ہی نتیجہ تھا کہ 18فروی کو ایک آندھی چلی اور عوام کی اکثریت نے آمریت اور اس کی گو د میںپرورش پانے والوں کو خس وخاشاک کی طرح بہا دیا ۔محمد شہبازشریف نے کارکنوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ و ہ اطمینان رکھیںکیونکہ اب زیادتیوں کا دور ختم ہوچکا ہے اور کارکنوں کی قربانیاں رنگ لانے والی ہیں۔آپ کے حقوق دلوانے میں میں آپ کا وکیل بن کر لڑوں گا اور عوام کو حکومت سے سہولت دلوانا آپ کے فرائض میں شامل ہے ۔یہ آپ کا فرض ہے کہ آپ حکومت کی آنکھیں بن کر اسے اس کی کمزوریوں اور کوتاہیوں سے آگا ہ کریں اور اپنے اپنے علاقوں میں آٹے کی فراہمی ، صحت و علاج کی خدمات اور تھانے کچہری میں انصاف کے حصول کے لئے سرگرم رہیں ۔ آپ کو آپ کا حق ملے گااور میں اس بات کو یقینی بناو¿ں گا کہ کسی کارکن کی حق تلفی نہ ہوہم آ پ کو عوامی خدمت اور منصوبوں کی مختلف کمٹیوں میں نمائندگی دیں گے کارکن تجاویز دیں ان کی تجاویز پ رعمل کیا جائے گا اور انہیںساتھ لے کر چلیں گے جس کسی افسر نے بھی ماضی میںسیاسی جماعتوں کے کارکنوں کے ساتھ زیادتیاں کی انہیں احتساب کے کٹہرے میں لایا جائے گا ہمیں پاکستان کے غریب عوام کو مہنگائی ، بے روزگاری ، آٹے کے بحران اور بجلی کے بحران سے نجات دلانی ہے عدلیہ کو آزاد،ججوں کو بحال کرانا ہے او رپاکستان کو حقیقی معنوں میں قائد اعظم اور اقبال کا پاکستان بنانا ہے ۔ ہم انشاء اللہ اپنے کارکنوں کے ساتھ عدلیہ مل کر شبانہ روز محنت کریں گے اورا س ملک سے مہنگائی بے روزگار،غربت کا خاتمہ کرکے عوام کو انصاف مہیا کریں گے اور پاکستان کو قائد اعظم کا پاکستان بنائیں گے آج قائد مسلم لیگ (ن) محمد نوازشریف کا یہی خواب ہے کہ پاکستان میں جج بحال ہوںآزاد ہو مہنگائی لوڈ شیڈنگ اور آٹے کے بحران کا خاتمہ ہو عوام کا معیار زندگی بلندہو انہیں روزگار کے بہترین مواقع میسر ہوں ملک سے بھوک افلاس کا خاتمہ ہو اور ہم انشاءاللہ عوام کے تعاون اور آپ کی تجاویز سے یہ تمام کام کریں گے۔ انہوں نے کہا نوکر شاہی کو اس بات کا پابندبنایا جائے گا کہ وہ کارکنوں کی عزت کریں اور انہیں ان کا جائز مقام دے ۔
ججوں کی بحالی کیلئے تیار کئے گئے آئینی پیکج میں تبدیلی کی ضرورت ہے اگر اس پر غورو خوض اور اس میں تبدیلیاں نہ کی گئیں تو معاملہ جوں کا توں رہے گا۔ وکلاء کی تحریک ایک ہی نقطے پر مرتکز ہے اور وہ نقطہ معزول ججوں کی بحالی اور عدلیہ کو دو نومبر 2007ء والی پوزیشن پر بحال کرنا ہے ججوں کی بحالی کیلئے تیار کئے گئے آئینی پیکج کے اندر ججوں کی بحالی کے حوالے سے جو نکات ڈالے گئے ہیں ان میں تبدیلی ، غور وخوض اور بحث کی ضرورت ہے اگر ان کو تبدیل نہ کیاگیا تو معاملہ جوں کا توں رہے گا اور صورتحال میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی ملک کے عوام اس امید سے ہیں کہ انشاء اللہ افتخار چوہدری اور دیگر جج ضرور بحال ہوں گے اور افتخار چوہدری اس ملک کے چیف جسٹس بنیں گے۔ آزاد عدلیہ کی بحالی تک ملک میں جمہوریت کو مضبوط نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی عوام کو انصاف کی فراہمی ممکن ہے۔ اے پی ایس اسلام آباد

No comments: