سیفما راونڈ ٹیبل کانفرنس نے مطالبہ کیا ہے کہ ملک میں رائج مختلف قوانین سے آزادی صحافت کے منافی تمام شقیں خارج کی جائیں ۔ آزادی اظہار اور آگاہی کا حق دیا جائے۔ یہ مطالبہ کانفرنس میں منظور کی گئی ایک قرارداد میں کیا گیا جسے سیفما کے سیکرٹری جنرل امتیاز عالم نے پیش کیا۔ کانفرنس کا موضوع ”میڈیا کی آزادی“ میڈیا قوانین اور میڈیا کے افراد کا تحفظ تھا جس کی صدارت منو بھائی نے کی۔ کانفرنس میں ملک بھر سے صحافیوں اور نمائندہ تنظیموں کے عہدیداروں نے شرکت کی۔ ایک اور قرارداد میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ متحارب زون (Conflict Zone) میں کام کرنے والے صحافیوں کی انشورنش کرائی جائے، انہیں تحفظ فراہم کیا جائے اور اس مقصد کیلئے خصوصی فنڈ قائم کیا جائے، جس کیلئے اشتہارات پر 10 فیصد ڈیوٹی عائد کی جائے۔ قرارداد میں مطالبہ کیا گیا کہ ورکنگ جرنلسٹوں کے حالات کار بہتر بنائے جائیں اور ویج بورڈ ایوارڈ پر فوری طور پر عملدرآمد کیا جائے۔ ایک اور قرارداد میں کہا گیا ہے کہ میڈیا میں اجارہ داری کے رجحان کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر جسٹس (ر) طارق محمود نے کہا کہ 9 مارچ کا واقعہ ایک تاریخی واقعہ ہے، جس نے حالات کا رخ بدل دیا اس کے بعد چلنے والی تحریک کی اصل کامیابی یہ ہے کہ اس کے نتیجے میں فوجی آمریت کے خلاف ایک مائنڈ سیٹ بن گیا۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان، اندرون سندھ اور سرحد میں تو فوجی آمریت کے خلاف پہلے سے ایک سوچ موجود تھی، حالیہ تحریک کے نتیجے میں پنجاب کی سوچ تبدیل ہوئی ہے۔ انہوں نے ان ججوں کو خراج تحسین پیش کیا جنہوں نے جسٹس افتخار چوہدری کے بغیر عہدوں پر بحالی کی پیشکش مسترد کردی۔ انہوں نے کہا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ وکلاء کی تحریک کا مقصد جمہوری نظام کو غیرمستحکم کرنا ہے، ہم کبھی بھی یہ نہیں چاہیں گے کہ جمہوری حکومت کو نقصان اور آمریت کو بالواسطہ یا بلاواسطہ کوئی فائدہ پہنچے۔ جسٹس پارٹی وغیرہ کی کوئی بات نہیں ہے، ہم صرف اس ملک میں قانون کی بالادستی چاہتے ہیں ہمیں خوشی ہے کہ ملک میں جمہوری قوتیں فعال ہوئی ہیں، ہم ان کی حمایت کرتے ہیں ہم چاہتے ہیں کہ ملک میں سیاسی نظام مستحکم ہو، ہم چاہے پھانسی چڑھ جائیں لیکن یہ نہیں چاہیں گے کہ ہمارے کسی فعل سے آمر کو فائدہ ہو۔ اصل مسئلہ ججوں کی بحالی یا ملازمت کا نہیں ہے تین نومبر کے اقدامات کا ہے، اگر کسی نے تین نومبر کے اقدامات کو آئینی پیکج کے تحت تحفظ دیا تو یہ بہت بڑا ظلم ہوگا۔ پرویز مشرف کے اقدام کو پہلے 17ویں ترمیم کے ذریعے تحفظ دیا گیا۔ ایم ایم اے نے یہ گناہ کیا لیکن اب دوسری مرتبہ پرویز مشرف کے غیرآئینی اقدام کو تحفظ نہیں دینا چاہئے۔ 1971ء میں ملک کی تقسیم کے بعد جرنیل کمزور ہوئے تھے لیکن بعد میں پھر پرویز مشرف آگئے۔ جسٹس (ر) طارق محمود نے کہا کہ ہم جمہوری قوّتوں کے پیچھے کھڑے ہیں لیکن میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ 1973ء کا آئین پیپلزپارٹی کا بنایا ہوا ہے، جس میں آرٹیکل چھ ہے کسی پر تو یہ لاگو ہونا چاہئے۔ لوگ مارشل لا کے بعد حلف اٹھانے والے ججوں پر تو تنقید کرتے ہیں، جن کے ہاتھ میں صرف قلم ہے اور وہ کمزور لوگ ہیں لیکن کوئی مارشل لا لگانے والوں کے خلاف بات نہیں کرتا کیونکہ وہ طاقت ور لوگ ہیں۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی عہدیدار عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ ہمارے ملک میں جمہوریت آتے آتے رہ جاتی ہے۔ آج بھی ہمارے ہارے ہوئے لوگ حکمران ہیں قاتلوں کے ہاتھ میں اختیارات ہیں تو انصاف کیسے ہوگا۔ ہماری جدوجہد بہت طویل ہے ہم ہمیشہ جمہوری جدوجہد کے ساتھ رہے ہیں لیکن اگر جمہوری قوتیں خودکشی کرنے لگیں تو سول سوسائٹی کی ذمہ داری ہے کہ وہ انہیں خبردار کرے۔ ہم پریس کی آزادی کی حمایت کرتے ہیں لیکن یہ ضرور کہوں گی کہ میڈیا تنقید کرنے میں حیلے پن کا استعمال کرے بہت کھردرے اندازمیں تنقید نہ کی جائے، بالخصوص خواتین کے بارے میں احتیاط سے رپورٹنگ کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ ملک کے حالات خراب ہو رہے ہیں اور آہستہ آہستہ پورا ملک متحارب زون میں تبدیل ہو رہا ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ متحارب زون میں کام کرنے والے صحافیوں کو خصوصی ٹریننگ دی جائے اور انہیں تحفظ فراہم کیا جائے۔ جبکہ چوہدری اعتزاز احسن نے کہا ہے کہ دس جون ایک تاریخ ساز دن ہوگا، آئینی پیکج کے بارے میں ہم سے ابھی تک کوئی مشورہ نہیں کیا گیا تاہم وکلا نے فوجی حکمراں کی وردی اتروائی تھی،اپنی تحریک کے ذریعے ملک میں الیکشن کروائے تھے اور اب معزول جج بھی بحال کرائیں گے۔ کاروباری برادری اور اقتصادی ماہرین نے اسٹیٹ بینک کی نئی مانیٹری پالیسی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔اسٹیٹ بنک کے نئے اقدامات کے حوالے سے ڈسکاو¿نٹ ریٹ میں اضافے اور 35 فیصد کیش مارجن عائد کرنے کو ملکی صنعت کیلئے نقصان دہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ شرح سود بڑھنے سے پیداواری لاگت مزید بڑھ جائے گی جس سے صنعت کار اسے صارفین پر منتقل کر دیں گے جس سے افراط زر کسی بھی طرح کم نہیں ہو گا۔ 35 فیصد کیش مارجن کے نفاذ سے صنعتوں کیلئے لیکوڈٹی کا مسئلہ پیدا ہو گا اور اس طرح صنعتیں تباہ ہوجائیں گی اسٹیٹ بینک کی مانیٹری پالیسی سے افراط زر کم ہونے کی بجائے مزید بڑھے گی۔ ماضی میں اسٹیٹ بینک کے اقدامات اس بات کی گواہی دیتے ہیں۔ اسٹیٹ بینک کے اقدامات سے مہنگائی بڑھ جائے گی کیونکہ ہماری صنعتوں کے خام مال کا مکمل انحصار درآمد پر ہے۔ اس فیصلے سے صنعتوں کی پیداواری لاگت بڑھنے سے ایکسپورٹ پر بھی منفی اثرات مرتب ہونگے۔ 8 سال پہلے بھی اس طرح کے فیصلے کیے گئے تھے جن کے مثبت اثرات سامنے نہیں آئے۔ اسٹیٹ بینک کے اقدامات سے درآمدی اشیاء 10 سے 15 فیصد مہنگی ہو جائیں گی۔ ملکی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہونگے۔ صنعتوں کی پیداواری لاگت بڑھے گی، صنعتوں کو پہلے بجلی، گیس کی قلت کا سامنا ہے۔ 35 فیصد کیش مارجن کی شرط سے صنعت کاروں کو نقد رقوم کے بہاو¿(کیش فلو) کی قلت کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔ انہوں نے حکومت کو تجویز دی ہے کہ ٹیکسٹائل کے خام مال کو کیش مارجن کی شرط سے مستثنیٰ قرار دیا جائے ۔ٹیکسٹائل انڈسٹری ملک میں افراط زر کا سبب نہیں ہے۔ اس کے برعکس ٹیکسٹائل سیکٹر ملک میں روزگار کی فراہمی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ حکومت اس سیکٹر کو تباہی سے بچائے۔ ایف پی سی سی آئی کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے بینکنگ کریڈٹ اینڈ فنانس کے سینئر وائس چیئرمین مرزا اختیار بیگ نے کہا ک ہے کہ اسٹیٹ بینک کے اقدامات سے افراط زر کو کنٹرول نہیں کیا جا سکے گا کیونکہ یہ غذائی اشیاء کا افراط زر ہے۔ اس کو طلب و رسد کے میکنزم کے برقرار رکھنے سے ہی کم کیا جا سکتا ہے۔ اس فیصلے سے پیداواری لاگت بڑھے گی جس سے ایکسپورٹ دنیا میں مسابقت کے قابل نہیں رہے گی۔پاکستانی عوام نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ 3 نومبر2007 کو غیرآئینی طور پر معزول کیے جانے والے تمام ججوں کو بحال کیا جائے اور عدلیہ کے آزادانہ کردار میں رکاوٹ نہ ڈالی جائے۔ جبکہ گزشتہ روز ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے ایشیاء اور پیسفک کے متعلق 20ممالک کے منیلا میں منعقدہ اجلاس میں مطالبہ کیا گیا کہ ان ججوں کو معزول کرنے سے پاکستان میں عدلیہ متاثر ہوئی ہے،لٰہذامعزول کئے جانے والے تمام ججوں کو بحال کیا جائے ،ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے ایشیا چیپٹر کی طرف سے جاری بیان کے مطابق ججوں کی معزولی سے پاکستان میں عدلیہ کا شعبہ بری طرح کمزور ہوا۔ عدلیہ کسی بھی ملک میں بدعنوانی کے خاتمہ ‘قانون انصاف کی فراہمی اور حکومتی اداروں میں احتساب کا ایک مو¿ثر ادارہ ہوتی ہے اس لئے عدلیہ کے آزادانہ کردار میں رکاوٹ نہ ڈالی جائے۔پیپلز پارٹی کے ترجمان فرحت اللہ بابر نے کہا ہے کہ اگر اقوام متحدہ نے بینظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات پر رضامندی کا اظہار کر دیا تو صدر پرویز مشرف، دو سابق وزرائے اعلیٰ اور سابق سربراہ انٹیلی جنس بیورو ریٹائرڈ اعجاز شاہ نشانے پر آسکتے ہیں۔پیپلز پارٹی 27 دسمبر کے سانحے کی تحقیقات کیلئے اقوام متحدہ سے رجوع کر رہی ہے اسی حوالے سے ایک ای میل محترمہ بینطیر بھٹو نے مارک سیگل کے ذریعے ولف بلٹزر کو تحریر کی تھی جسے تحقیقات کے دوران امدادی مٹیریل کے طور پر شہادت کیلئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے بینظیر بھٹو کی تدفین کے بعد پہلی پریس کانفرنس میں اسی ای میل کی جانب اشارہ کیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ ای میل صرف بینظیر کے قتل کی صورت میں استعمال کی جانی تھی ۔ ای میل میں بینظیر بھٹو نے سیکورٹی فراہم نہ کرنے پر جنرل پرویز کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ انہوں نے ولف بلٹزر کو تحریر کیا تھا کہ اگر انہیں کچھ ہو جائے تو پرویز مشرف اس کے ذمہ دار ہوں گے۔ پارٹی کے پاس جو بھی دستاویزی ثبوت دستیاب ہے وہ اقوام متحدہ کو فراہم کیا جائیگا۔ انہوں نے مزید کہا ہے کہ اصل سوال بین الاقوامی ادارے کو قتل کی تحقیقات پر راضی کرنا ہے ،انہوں نے کہا کہ دستیاب شہادتیں عالمی ادارے کو فراہم کر دی جائیں گی اور پھر متعلقہ افراد سے تفتیش کرنا ان پر ہوگا۔پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ نظریاتی کارکنان حوصلے بلند رکھیں اور مخالفین کی طرف سے افواہوں کے بنے ہوئے تانوں بانوں پر توجہ دینے کی بجائے پارٹی پالیسی کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی صفوں کو مضبوط اور درست رکھیں۔ موجودہ حکومت کی تشکیل کے ساتھ ہی مظلوم عوام سمیت ہر اس جماعت اور معاشرے کے ان طبقات کو جو ماضی کی آمرانہ حکومت میں سیاسی انتقام کا نشانہ بنے تھے ان کو یہ امید بندھ چلی تھی کہ ماضی میں سیاسی مفادات کے تحت کئے گئے آمرانہ اقدامات کو منسوخ کر کے معاشرے کے ہر طبقے اور فرد کے ساتھ انصاف کیا جائے گا لیکن موجودہ حکومت بھی آمریت کے پروردہ عناصر کو ساتھ ملا کر آمریت کی ڈوبتی کشتی کو سہارا دینے میں مصروف نظر آ رہی ہے اگرچہ وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ ججوں کی بحالی کیلئے آئینی پیکیج 10 جون سے قبل پارلیمنٹ میں پیش کر دیا جائے گا۔ پاکستان ایک امن پسند ملک ہے۔ اس کے کسی کے خلاف جارہانہ عزائم نہیں ہیں۔ ملکی سلامتی و خودمختاری کے تحفظ کیلئے ناقابل تسخیر دفاع ناگزیر ہے۔ وزیراعظم نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ صدر مشرف کی اس بات سے اتفاق رکھتے ہیں کہ پاکستان میں حکومت کرنا مشکل کام ہے ۔ انہوں نے کہا کہ صدر سے اچھے تعلقات ہیں ا ن سے خلوص سے ملاقات کروں گا صدر کے حوالے سے کوئی دباو¿ نہیں ہے اس وقت ملک کو متعدد مسائل کا سامنا ہے ۔ ووٹ لینے کے بعد سابق حکومت پر الزام تراشی کا کوئی جواز نہیں ہے ججز کی بحالی کی تحریک اعتزاز احسن کی نہیں وکلاء اور پیپلزپارٹی کی ہے ججز کی بحالی کے بعد مسلم لیگ(ن) کے وزراء دوبارہ کابینہ میں آ جائیں گے معزول چیف جسٹس کے لیے جیل اور تھانوں میں گیا معاملہ عدالت میں ہے اس لیے ان سے نہیں ملوں گا۔ اے پی ایس، اسلام آباد
International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment