پشاور۔ وزیر اعلیٰ صوبہ سرحد امیر حیدر خان ہوتی نے کہا ہے کہ ہم اپنی سر زمین پر اغیار کی جنگ اور مفادات کیلئے پختونوں کے مزید قتل عام کی اجازت نہیں دے سکتے۔ ہم ہر قیمت پر اپنے اس خطے میں امن بحال کر نے کیلئے اپنے فیصلے خود کریں گے۔ صوبائی خود مختاری اور اپنے وسائل پر اپنے اختیار کی جدوجہد مجھے اپنے قائدین سے وراثت میں ملی ہے۔ جسے منطقی انجام تک پہنچانامیری اولین ذمہ داری ہے ۔ انہوں نے ان خیالات کا اظہار مردان میں فرنٹیئر ہاؤس کی نئی عمارت کا سنگ بنیاد رکھنے کے موقع پر منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ تقریب میں ڈسٹرکٹ ناظم حمایت اللہ مایار، سیکرٹری ایڈمنسٹریشن کرنل (ر)سیدغلام حسین، اعلیٰ صوبائی و ضلعی حکام کے علاوہ معززین علاقہ کثیر تعداد میں موجود تھے۔وزیراعلیٰ نے کہا کہ اپنی کرسی کو بچانے کیلئے مسائل کو طاقت کے ذریعے حل کرنے کی پالیسی اختیار کی گئی جس کے بارے میں اے این پی کے قائد اسفندیار ولی نے اسی وقت پیشن گوئی کر دی تھی کہ وزیرستان سے شروع ہونے والی اس آگ کو بجھانے کی کوشش نہ کی گئی تو یہ پورے صوبے میں پھیل جائے گی پھر حالات و واقعات نے ان کی یہ پیشن گوئی حرف بہ حرف درست ثابت کر دی اور آج اس آگ کی تپش پشاور اور مردان تک آن پہنچی ہے۔ انہوں نے کہا کہ عوامی مینڈیٹ حاصل کرنے کے بعد پختونوں کے تحفظ اور امن کی بحالی کیلئے ہم نے اپنا طریقہ اختیار کیا ہے جس کے مثبت نتائج سامنے آرہے ہیں۔ انہوں نے اس ضمن میں مولانا صوفی محمد کی رہائی اور سوات کے مولانا فضل اللہ کے ساتھیوں کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کو امن کے حصول کی جانب کامیاب پیش رفت قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ مولانا صوفی محمد اور ان کے ساتھی صوبہ سرحد میں امن لانے کیلئے حکومت کے شانہ بشانہ کوشاں ہیں ۔اسی طرح سوات کے مقامی طالبان نے حکومتی رٹ کا احترام کرنے اور بندوق نہ اٹھانے کا عہد کیا ہے۔ وزیراعلیٰ نے وفاقی حکومت سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ فاٹا میں شورش اور بدامنی کے خاتمے کیلئے روایتی جرگوں کا طریقہ اختیار کرے کیونکہ دونوں طرف سے پختون شورش کی اس آگ کا ایندھن بن رہے ہیں۔ انہوں نے اعلان کیا کہ ہم اپنے لوگوں کے ساتھ مذاکرات کر رہے ہیںغیر ملکیوں کے ساتھ ہمارا کوئی واسطہ نہیں اور نہ ان کے ساتھ مذاکرات کئے جائیں گے۔ ہم دوسروں کے مشورے پر اپنے بھائیوں پر گولی چلانے کی اجازت دینے کو تیار نہیں۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ مٹھی بھر شرپسند حکومتی کوششوں کو نقصان پہنچانے کے در پے ہیں۔تا ہم انہوں نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ عوامی تائید اور حمایت سے اس قسم کی سازشوں کے آگے بند باندھ دیا جائے گا ۔ انہوں نے کہا کہ امن و امان کی بحالی کے بعد ان کی دوسری بڑی ذمہ داری سیاسی مالیاتی اور انتظامی خود مختاری کا حصول ہے۔ اپنے وسائل پر اپنے اختیار کے بغیر ہم اپنے لوگوں کی خدمت نہیں کر سکتے۔ پن بجلی کے بقایا جات، ٹوبیکو سیس، تیل اور گیس کی رائلٹی اور دیگر معدنی وسائل کی آمدن میں وفاقی حکومت سے صوبے کا حصہ وصول کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہماری تیسری ترجیح اپنے لاکھوں ایکٹر بنجر اراضی کو سیراب کرنے کیلئے انتظامات کرنا ہے۔گومل زام اور جنوبی اضلاع کے دیگر ڈیموں کی تکمیل سے سات لاکھ ایکٹر اراضی سیراب ہو گی جو خوراک کی مد میں صوبے کی خود کفالت کی ضامن ثابت ہو گی۔وزیراعلیٰ نے مشکل حالات میں فرائض انجام دینے اور جانی قربانیاں پیش کرنے پر پولیس فورس کے کردار کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے اعلان کیا کہ چار ارب روپے کے پیکج کے تحت پولیس فورس کو مضبوط بنایا جائے گا۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ انہوں نے مردان کے لوگوں کے مقامی مسائل اور حکومتی افسران سے براہ راست رابطے کے لئے سیکرٹریٹ کے قیام کا وعدہ پورا کر دیا ہے۔اس کیمپ آفس میں ہر وقت اعلیٰ حکومتی ذمہ داران اور افسران موجود رہیں گے جو عوامی مسائل کو موقع پر حل کرنے کیلئے احکامات جاری کریں گے۔ قبل ازیںوزیراعلیٰ نے مقامی زکواۃ کمیٹیوں میں زکواۃ کی رقم کے چیک تقسیم کیے جن میں باری چم کے فلک شیر ، بجلی گھرکے منورشاہ ،غفران آباد کے گوہررحمان ،سرانجام کورونہ کے مراد علی ،شام گنج کے محمدافضل ،ضامن آباد کے شکیل احمد ،باجہ زئی کے حیات محمد ،بکیانڑے کے سردارعلی ،گھڑی دولت زئی کے وصال محمد ،کروغہ کے جاوید خان ،منگہ کے قیوم خان ،نعمت علی ،یوسف شاہ ،سیف الرحمن شامل تھے ۔اس سے پہلے ڈسٹرکٹ ناظم مردان حمایت اللہ مایار نے خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے امن کے قیام کے لئے موجودہ حکومت کامیابیوں کو سراہا اور اس جدوجہد میں بھر پور تعاون کا یقین دلایا۔ انہوں نے کہا کہ مردان کیمپ آفس کے قیام سے مردان کے لوگوں کو مقامی مسائل کے حل کیلئے پشاور جانے سے نجات ملے گی۔ انہوں نے تمام محکوموں کے ضلعی افسران کو ہدایت کی کہ وہ مقامی مسائل کو مقامی سطح پر حل کرنے کیلئے اپنا کردار ادا کریں۔
International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.
Saturday, May 24, 2008
پختونوں کے مزید قتل عام کی اجازت نہیں دے سکتے، ہم ہر قیمت پر اپنے اس خطے میں امن بحال کر نے کیلئے اپنے فیصلے خود کریں گے، وزیراعلیٰ سرحد
پشاور۔ وزیر اعلیٰ صوبہ سرحد امیر حیدر خان ہوتی نے کہا ہے کہ ہم اپنی سر زمین پر اغیار کی جنگ اور مفادات کیلئے پختونوں کے مزید قتل عام کی اجازت نہیں دے سکتے۔ ہم ہر قیمت پر اپنے اس خطے میں امن بحال کر نے کیلئے اپنے فیصلے خود کریں گے۔ صوبائی خود مختاری اور اپنے وسائل پر اپنے اختیار کی جدوجہد مجھے اپنے قائدین سے وراثت میں ملی ہے۔ جسے منطقی انجام تک پہنچانامیری اولین ذمہ داری ہے ۔ انہوں نے ان خیالات کا اظہار مردان میں فرنٹیئر ہاؤس کی نئی عمارت کا سنگ بنیاد رکھنے کے موقع پر منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ تقریب میں ڈسٹرکٹ ناظم حمایت اللہ مایار، سیکرٹری ایڈمنسٹریشن کرنل (ر)سیدغلام حسین، اعلیٰ صوبائی و ضلعی حکام کے علاوہ معززین علاقہ کثیر تعداد میں موجود تھے۔وزیراعلیٰ نے کہا کہ اپنی کرسی کو بچانے کیلئے مسائل کو طاقت کے ذریعے حل کرنے کی پالیسی اختیار کی گئی جس کے بارے میں اے این پی کے قائد اسفندیار ولی نے اسی وقت پیشن گوئی کر دی تھی کہ وزیرستان سے شروع ہونے والی اس آگ کو بجھانے کی کوشش نہ کی گئی تو یہ پورے صوبے میں پھیل جائے گی پھر حالات و واقعات نے ان کی یہ پیشن گوئی حرف بہ حرف درست ثابت کر دی اور آج اس آگ کی تپش پشاور اور مردان تک آن پہنچی ہے۔ انہوں نے کہا کہ عوامی مینڈیٹ حاصل کرنے کے بعد پختونوں کے تحفظ اور امن کی بحالی کیلئے ہم نے اپنا طریقہ اختیار کیا ہے جس کے مثبت نتائج سامنے آرہے ہیں۔ انہوں نے اس ضمن میں مولانا صوفی محمد کی رہائی اور سوات کے مولانا فضل اللہ کے ساتھیوں کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کو امن کے حصول کی جانب کامیاب پیش رفت قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ مولانا صوفی محمد اور ان کے ساتھی صوبہ سرحد میں امن لانے کیلئے حکومت کے شانہ بشانہ کوشاں ہیں ۔اسی طرح سوات کے مقامی طالبان نے حکومتی رٹ کا احترام کرنے اور بندوق نہ اٹھانے کا عہد کیا ہے۔ وزیراعلیٰ نے وفاقی حکومت سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ فاٹا میں شورش اور بدامنی کے خاتمے کیلئے روایتی جرگوں کا طریقہ اختیار کرے کیونکہ دونوں طرف سے پختون شورش کی اس آگ کا ایندھن بن رہے ہیں۔ انہوں نے اعلان کیا کہ ہم اپنے لوگوں کے ساتھ مذاکرات کر رہے ہیںغیر ملکیوں کے ساتھ ہمارا کوئی واسطہ نہیں اور نہ ان کے ساتھ مذاکرات کئے جائیں گے۔ ہم دوسروں کے مشورے پر اپنے بھائیوں پر گولی چلانے کی اجازت دینے کو تیار نہیں۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ مٹھی بھر شرپسند حکومتی کوششوں کو نقصان پہنچانے کے در پے ہیں۔تا ہم انہوں نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ عوامی تائید اور حمایت سے اس قسم کی سازشوں کے آگے بند باندھ دیا جائے گا ۔ انہوں نے کہا کہ امن و امان کی بحالی کے بعد ان کی دوسری بڑی ذمہ داری سیاسی مالیاتی اور انتظامی خود مختاری کا حصول ہے۔ اپنے وسائل پر اپنے اختیار کے بغیر ہم اپنے لوگوں کی خدمت نہیں کر سکتے۔ پن بجلی کے بقایا جات، ٹوبیکو سیس، تیل اور گیس کی رائلٹی اور دیگر معدنی وسائل کی آمدن میں وفاقی حکومت سے صوبے کا حصہ وصول کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہماری تیسری ترجیح اپنے لاکھوں ایکٹر بنجر اراضی کو سیراب کرنے کیلئے انتظامات کرنا ہے۔گومل زام اور جنوبی اضلاع کے دیگر ڈیموں کی تکمیل سے سات لاکھ ایکٹر اراضی سیراب ہو گی جو خوراک کی مد میں صوبے کی خود کفالت کی ضامن ثابت ہو گی۔وزیراعلیٰ نے مشکل حالات میں فرائض انجام دینے اور جانی قربانیاں پیش کرنے پر پولیس فورس کے کردار کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے اعلان کیا کہ چار ارب روپے کے پیکج کے تحت پولیس فورس کو مضبوط بنایا جائے گا۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ انہوں نے مردان کے لوگوں کے مقامی مسائل اور حکومتی افسران سے براہ راست رابطے کے لئے سیکرٹریٹ کے قیام کا وعدہ پورا کر دیا ہے۔اس کیمپ آفس میں ہر وقت اعلیٰ حکومتی ذمہ داران اور افسران موجود رہیں گے جو عوامی مسائل کو موقع پر حل کرنے کیلئے احکامات جاری کریں گے۔ قبل ازیںوزیراعلیٰ نے مقامی زکواۃ کمیٹیوں میں زکواۃ کی رقم کے چیک تقسیم کیے جن میں باری چم کے فلک شیر ، بجلی گھرکے منورشاہ ،غفران آباد کے گوہررحمان ،سرانجام کورونہ کے مراد علی ،شام گنج کے محمدافضل ،ضامن آباد کے شکیل احمد ،باجہ زئی کے حیات محمد ،بکیانڑے کے سردارعلی ،گھڑی دولت زئی کے وصال محمد ،کروغہ کے جاوید خان ،منگہ کے قیوم خان ،نعمت علی ،یوسف شاہ ،سیف الرحمن شامل تھے ۔اس سے پہلے ڈسٹرکٹ ناظم مردان حمایت اللہ مایار نے خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے امن کے قیام کے لئے موجودہ حکومت کامیابیوں کو سراہا اور اس جدوجہد میں بھر پور تعاون کا یقین دلایا۔ انہوں نے کہا کہ مردان کیمپ آفس کے قیام سے مردان کے لوگوں کو مقامی مسائل کے حل کیلئے پشاور جانے سے نجات ملے گی۔ انہوں نے تمام محکوموں کے ضلعی افسران کو ہدایت کی کہ وہ مقامی مسائل کو مقامی سطح پر حل کرنے کیلئے اپنا کردار ادا کریں۔
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment