International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.

Sunday, May 18, 2008

عوام کے منہ سے ایک وقت کا نوالہ بھی چھین لیا گیا ملک ا ور عوام دشمن طاقتیں کیا چاہتی ہیں ؟ ۔۔۔ تحریر: اے پی ایس، اسلام آباد

دہشت گردی کے خاتمے کیلئے اقتصادی و سیاسی نا انصافیوں کا ازالہ کرنا ہو گا۔ حکومت قومی سلامتی کے معاملات پر اپنی ذمہ داری سے آگاہ رہے‘ عوامی احساسات و جذبات کے برعکس فیصلے نہ کیے جائیں کیونکہ ملک میں جمہوریت جڑیں پکڑ رہی ہے۔ عوام کے ہر دور میں حکمرانوں سے یہ بات سن سن کرکان پک چکے ہیں کہ ہمارا دفاع ناقابل تسخیر ہے۔لیکن جونہی ڈمہ ڈولا میں امر یکی مزائل سے معصوم پاکستا نیوں کی ہلاکتیں ہوتی ہیں تو ہمارے عوام سوچتے ہیں کہ ہم اپنا پیٹ کاٹ کر گزارہ کر رہے ہیں اور ناقابل تسخیر د فاع کی باتیں سب بکواس نظر آتی ہیں۔ ملک کی سلا متی کے ٹھیکیداروں سے عوام کا مطالبہ ہے کہ ہم کس سمت جارہے ہیں۔ عوام کو حقائق سے آگا ہ کیا جائے۔ عوام کا تو اب یہ حال ہے کہ مرنا لاکھ ضروری لیکن جینا بھی مجبوری ملک میں عوام کا جینا مشکل ہوگیا ہوا ہے تما م مسائل اپنی جگہ لیکن ایک وقت کا نوالہ بھی ان کے منہ سے چھین لیا گیا ہے اس کا ذمہ دار کون ہے ؟ اقتدار کے بھوکے سیاستدان، چند ڈالروں کے عوض کتے سے بڑھ کر وفاداری کرنے والا اسٹیبلشمنٹ کا کوئی آلہ کار ےا اپنی ماں ( دھرتی) کو بیچ کر اور نادر شاہ کی طرح لوٹ مار کر کے بھاگنے کی تیار ی میں کوئی حکمراں ؟ مذکورہ با لا عوامی تحفظات و خدشات سے عوام کو آگاہ کیا جا ئے۔ کیونکہ یہ ملک عوام کا ہے کسی کے باپ کی جاگیر نہیں۔ ملک کے عوام کی آبادی کروڑوں میں ہے۔ چند لوگ جو خوشحال ہیں وہ اپنی نام نہاد دانشوری اپنے پاس رکھیں کہ ©©©" سب ٹھیک ہے" عوام کا اس وقت جانوروں سے بھی برا حال ہے کیونکہ جانور تو گھاس پھوس سے گزارہ کر لیتے ہیں لیکن عوام کیا کریں۔ ملک اور عوام دشمن قوتیں کیا چاہتی ہیں ؟ ملک دشمن طاقتوں کے نا پاک عزائم خاک میں ملیں گے اگر یہ خفیہ ہاتھ سمجتے ہیں کہ ایسے حالات پیدا کردیے جائیں کہ عوام تنگ آ کر پاکستان پر امریکہ کے جغرافیائی تسلط کو قبول کر لیں گے ایسا ممکن نہیں ہوگا اور نہ ہی کسی یہودی کا خواب پورا ہوگا کہ پا کستان کو کا رپوریٹ نظام میں تبدیل کر کے ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرح ٹھیکے پر دے دیا جائے۔ اگر چہ اس وقت ملک دشمن اور عوام دشمنوں کی کمی نہیں لیکن یہ قوتیں یاد رکھیں کہ خدا کے ایجنٹوں کی بھی کمی نہیں اگر چہ یہ تعداد میں چند ایک ہیں لیکن ان سب پر بھاری ہیں مذکورہ با لا تحفظات وخدشات کے لئے ضروری ہے کہ فی الفور وطن عزیز میں قانون کی حکمرانی کو عملی طور پر یقینی بنا یا جا ئے۔اور حکمرا نوں سمیت تما م ریا ستی اداروں کے سربراہوں کو قانون کا احترام کرنا ہوگا اور اس ضمن میں نہ صرف قانون پر عمل کرنا ہوگا بلکہ قانون پر عمل کروانا ہوگا ورنہ حالات جس سمت جارہے ہیں سوائے پچھتاوے کے کچھ نہیں ملے گا۔ جبکہ ملک بھر کے نمائندہ وکلاء نے معزول ججوں کی بحالی کے لئے 10 جون سے لانگ مارچ کرنے کا اعلان کر دیا ہے اور کہا ہے کہ اگر حکومت 10 جون تک معزول ججوں کو بحال کر دے گی تو لانگ مارچ کی بجائے10 جون سے ملک بھر میں جشن منایا جائے گا۔پارلیمنٹ ہاو¿س کے سامنے غیر معینہ مدت تک دھرنے کا اعلان،جمعرات کو ریلی نکالنے، احتجاجی اور بھوک ہڑتالی کیمپ لگانے کے فیصلے برقراررکھا گیا ہے ،24، 31 مئی اور 9 جون کو وکلاء کنونش منعقد ہونگے،ملک بھر میں احتجاج کیا جائے گا ،قومی اسمبلی کا گھیراو¿ کرنے سے بھی قطعاً دریغ نہیں کیا جائے گا ،آزاد عدلیہ اور ججوں کی بحالی تک جدوجہد جاری رہے گی آزاد عدلیہ کے بغیر عوام کو انصاف نہیں مل سکتا اور جب معاشرہ میں انصاف نہ ہو تو معاشرہ ترقی نہیں کر سکتا۔ لانگ مارچ کا فیصلہ بھاری اکثریت سے ہوا ہے۔ لانگ مارچ کا روٹ، اس کی سمتوں کا تعین ایک دو روز میں کر دیا جائے گا اور کمیٹی لانگ مارچ کے قائدین سے رابطے کرے گی۔ چونکہ ملک بھر کے وکلاء کی تمام تر توانائیاں لانگ مارچ پر مرتکز ہوں گی۔ اس لئے انھوں نے ہڑتال کی کال موخر رکھی ہے لہٰذا پاکستان بار کونسل نے ہر جمعرات کو عدالتوں کے مکمل بائیکاٹ اور روزانہ علامتی بائیکاٹ اور ریلی کا جو فیصلہ پہلے کیا تھا وہی برقرار رہے گا۔ جبکہ اعتزاز احسن نے کہا ہے کہ ہم پارلیمنٹ کو ججوں کی بحالی سے روک نہیں رہے اگر ججوں کو 10 جون سے پہلے بحال کر دیا جاتا ہے تو ملک بھر میں 10 جون کو لانگ مارچ کی بجائے جشن منایا جائے گا اور لوڈشیڈنگ کے باوجود موم بتیوں اور چراغوں سے چراغاں کیا جائے گا اعتزاز احسن نے کہا کہ 10 جون کو لانگ مارچ کے انعقاد کا مقصد قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران حکومت کو باور کروانا ہے کہ ملک بھر کے وکلاء عدلیہ کی آزادی اور ججز کی بحالی تک اپنے اس مشن اور جدوجہد کو جاری رکھیں گے جبکہ اس دوران اپنے مقصد کے حصول کے لئے قومی اسمبلی کا گھیراو¿ کرنے سے بھی قطعاً دریغ نہ کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ 10 جون سے شروع ہونے والے لانگ مارچ میں وکلاءاپنی تمام تر توانائیاں صرف کریں گے اور اس دوران پنجاب سمیت ملک بھر کے مختلف شہروں میں زبردست احتجاج بھی کیا جائے گاحکومت اگر اپنی مدت پوری کرنا چاہتی ہے تو اس کی بقاء اسی میں ہے کہ فوری طور تمام ججز کو بحال کیا جائے ‘اقساط میں معزول ججز کی بحالی کو کسی بھی صورت قبول نہیں کریں گے ‘وکلاء کو تقسیم کرنے والی قوتوں کو ناکامی کے سواء کچھ نہیں ملے گا بلکہ وکلاء تحریک ہر صورت کامیاب ہو گی ‘سیاسی جماعتوں کو بھی چاہیے کہ وہ وکلاء کے لانگ مارچ میں ہمارا بھرپور ساتھ دیں ،پرویز مشرف کے اقتدار کو بچانے والی جماعت جمہوریت کی دشمن اور عوام کی غدار ہو گی۔ حامد خان نے کہا ہے کہ ہم ججز کی اس بحالی کو قبول نہیں کریں گے جس میں جسٹس افتخار محمد چوہدری شامل نہ ہوئے اور نہ ہی ان کے بغیر عدلیہ آزاد ہو سکتی ہے۔ جبکہ اے این پی کے مرکزی صدر اور قومی اسمبلی میں پارٹی کے پارلیمانی لیڈر اسفندیار ولی خان نے آزاد عدلیہ کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ جسٹس افتخار سمیت تمام معزول ججوں کو قرارداد کے ذریعے بحال کرنے کیلئے کام جاری ہے اور اس سلسلے میں قرارداد تیار کر لی گئی ہے، توقع ہے کہ آنیوالے قومی بجٹ سے قبل معزول ججز بحال ہو جائینگے تاہم عدلیہ کے ایشو کو سیاسی مقصد کیلئے استعمال کرنا قابل مذمت ہے، جبکہ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات شیری رحمن نے کہا ہے کہ لانگ مارچ وکلاءکا جمہوری حق ہے حکومت ان پر کوئی قدغن نہیں لگائے گی۔ جمہوری حکومت کو وقت چاہئے ہوتا ہے۔ ان حالات میں بجٹ کی تیاری اور اسے پیش کرنا ایک چیلنج ہے۔ چیف جسٹس کی سکیورٹی کیلئے کابینہ فیصلہ کرے گی۔ وکلاء سے ہماری بات چیت بھی ہو رہی ہے۔ اس وقت وہ بھی اسٹیک ہولڈر ہیں اور ہم بھی ہیں اور ہم اس کا کوئی نہ کوئی حل ڈھونڈ نکالیں گے۔ اس کے برعکس وکلاء اگر احتجاج کرنا چاہتے ہیں یا لانگ مارچ کرنا چاہتے ہیں تو یہ ان کا حق ہے۔ لانگ مارچ ایک جمہوری دباو¿ ہے اور وہ اگر قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے ایسا کریں تو اس میں کسی بھی روک تھام کی نہ ہم ضرورت سمجھتے ہیں اور نہ کریں گے۔ ججوں کی بحالی پر وزیر قانون کا بیان آ چکا ہے ہم اس پر کام کر رہے ہیں اور انشاءاللہ عنقریب ہم یہ کام کریں گے۔ معزول ججوں کی تنخواہوں کا معاملہ اچانک پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کے لئے ایک بڑا سیاسی اور وقار کا مسئلہ بن گیا ہے کیونکہ وزارت قانون اور اٹارنی جنرل ملک قیوم نے آصف زرداری کے معزول ججوں کو تنخواہ دینے کے حکم پر اعتراضات اٹھاتے ہوئے کہا کہ اگر ان کے حکم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا تو اسے غیر قانونی قرار دیا جا سکتا ہے، ہفتہ کے روز معاملہ اس قدر بڑھا کہ وزیر قانون فاروق نائیک اور آصف زرداری کے درمیان میٹنگ ہوئی جس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کو کہا جائے گا کہ معزول ججوں کی تنخواہیں اپنے صوابدیدی فنڈز میں سے ادا کریں۔ پیپلز پارٹی نے نہ صرف معزول ججوں کو ”سٹنگ جج“ تسلیم کیا ہے بلکہ معزول عدلیہ کی باوقار بحالی کے لئے ایک اور قدم آگے بڑھایا ہے وزیراعظم کی طرف سے معزول ججوں کی رہائی کے احکامات کے بعد معزول ججوں کو تنخواہوں کی ادائیگی کا اعلان جمہوری قوتوں کی طرف سے دوسری اچھی خبر ہے۔ جبکہ معزول ججوں کو غیر قانونی قید سے رہا کر دیا گیا ہے اور ان کی تنخواہوں کی ادائیگی کا اعلان بھی کر دیا گیا ہے اس لئے اب صرف ان کو باعزت بحالی کا ایک قدم اور رہ گیا ہے۔ معزول ججوں کو غیر قانونی قیدمیں رکھنے والوں کیخلاف کارروائی ہونی چاہئے اور مبینہ افراد کیخلاف سیکرٹریٹ پولیس سٹیشن میں ایف آئی آر کیلئے درخواست بھی زیر التوا ہے۔ وکلاء سول سوسائٹی اور میڈیا ملک میں قانون کی حکمرانی اور آئین کی بالادستی کیلئے کھڑا ہے اور جمہوری قوتوں کیلئے وقت آ گیا ہے کہ وہ قوم کی تاریخ کے ان فیصلہ کن لمحات میں وکلاء اور میڈیا کے ساتھ کھڑی ہوں اس قسم کے مواقع زندگی میں ایک بار آتے ہیں اور جمہوری قوتوں کو یہ موقع ضائع نہیں کرنا چاہئے۔ کیچڑ اچھالنے کی سیاست سے گریز کیا جا ئے نہ ہی پاکستان اب اس سیاست کا متحمل ہوسکتا ہے۔ ہمیں ایک دوسرے پر الزامات کی بجائے مل کر آگے بڑھنا چاہئے نواز شریف کے معزول چیف جسٹس افتخارمحمد چودھری سمیت کسی جج کے ساتھ ذاتی تعلقات نہیں ہیں وہ صرف ملک میں آزاد اور خودمختار عدلیہ کیلئے لڑ رہے ہیں۔ عوام نے ان کے اصولی موقف کی بھرپور حمایت کی ہے اور وہ اس سے کسی صورت دستبردار نہیں ہوں گے۔ جہاں تک پنجاب میںحکومت کا تعلق ہے تو یہ الگ اشو ہے و ہ اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ انھیں مشرف نے نہیں، عوام نے مینڈیٹ دیا ہے۔ آصف زرداری کی انھوں نے مرکز اور صوبے میں غیرمشروط حمایت کی تھی،وہ ان سے پوچھیںکہ اس حمایت کے بدلے میں ہمارا ججوں کی بحالی کا مطالبہ ابھی تک پورا کیوں نہیں ہوا۔ تحریر: اے پی ایس،اسلام آباد

No comments: