International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.

Wednesday, June 18, 2008

لانگ مارچ کے ثمرات۔۔۔۔اسلامی اورچینی تاریخ سے دو حوالے




سیاست میں”لانگ مارچ“ متعارف کرانے کاسہرا چین کے سر باندھا جاتاہے جہاں کمیونسٹ پارٹی کے چیئرمین مائوزے تنگ (Maotse tung)16 اکتوبر34ءکو جنوبی صوبہ جیانگ ژی(Jiaingxi) سے سفر کرکے مغرب کی طرف مختلف صوبوں سے ہوتے ہوئے19اکتوبر 35ءکو شمال کے صوبے شانگ ژی(Shaanxi) پہنچے۔ اس وقت چین پرنیشنلسٹ پارٹی”کومنتانگ“ کاجاپان نواز حکمران چیانگ کائی شیک حکومت کررہاتھا۔ جاپانی فوجیںچین کے اکثر علاقوں میں داخل ہوکر قبضہ جماچکی تھیں اورچیانگ کائی شیک کی فوجیں ان کے ساتھ مل کر روس نواز کمیونسٹ پارٹی کی ریڈ آرمی کوکچلنے میں مصروف تھیں۔ ریڈ آرمی میںاکثریت کسانوں کی تھی یاپھر نیشنلسٹ پارٹی سے ٹوٹ کرآنے والے شامل تھے جن کی قیادت مائوزے تنگ کے ہاتھ میں تھی جوخود بھی ایک کسان تھے اوران کاماننا تھا کہ چین کوعوامی جمہوریہ دیہات کے کسانوں کی مدد سے بنایا جاسکتاہے جبکہ چیانگ کائی شیک شہروں میںبسنے والے کارخانہ داروںاور سرمایہ داروں کانمائندہ تھا۔ دونوں نظریات میں ٹکرائو کے باعث چین خانہ جنگی کی لپیٹ میںتھا۔ جاپان قوم پرستوں کے ساتھ اورروس کمیونسٹوں کے ہمراہ تھا جبکہ جرمنی کے لوگ مشیروں کے روپ میں دونوں طرف موجود تھے۔ مائوگوریلا جنگ کے قائل تھے اوراس طریق جنگ میں انہوں نے بے سروسامانی،تنگدستی اورکم افرادی قوت کے باوجود قوم پرستوں کوناکوں چنے چبوادیئے مگر پارٹی کے دیگر لیڈر براہ راست جنگ کے حامی تھے۔ لہٰذا انہوں نے مل کرمائو کومعزول کردیا جس کے بعد پارٹی اورپارٹی کے ملٹری کمیشن کی کمانڈ کیلئے3رکنی کمیٹی قائم کردی گئی مگر یہ کمیٹی جس میں چواین لائی بھی شامل تھے ناکام ہوگئی۔ اس وقت کمیونسٹ پارٹی کی فرسٹ ریڈ آرمی کاگڑھ صوبہ جیانگ ژی کاعلاقہ yuduتھا۔ 16اکتوبر 34ءکو یہاں ریڈ آرمی کی تعداد ایک لاکھ30 ہزار کے لگ بھگ تھی جن میں ہزاروں کی تعداد میں ایسے لوگ بھی تھے جن کاکام صرف بار برداری تھا۔یہ وہ وقت تھا جب مائو معزول ہوچکے تھے انہی حالات میں چیانگ کائی شیک کی فوجوں نے فرسٹ ایڈ آرمی کوآلیا اورچاروں طرف سے سخت محاصرہ کرلیا ۔ کمیونسٹ پارٹی کے بڑوں نے کمین گاہ سے نکل کر مقابلہ کرنے کافیصلہ کیا۔ فرسٹ ریڈ آرمی نے چیانگ کی فوجوں سے براہ راست ٹکر تو لے لی مگر سہ نہ سکی۔31 جنوری اوریکم دسمبر کے دو روز دریائے سیانگ کے کنارے گھمسان کا رن پڑا مگر میدان چیانگ کے ہاتھ رہاریڈ آرمی کے 40ہزار آدمی گاجر مولی کی طرح کاٹ کر رکھ دیئے گئے۔ بار برداری والے ان کے علاوہ تھے ان میں سے بھی کوئی مشکل ہی سے بچ سکا۔ اس بدترین شکست نے مائو کی چھاپہ مارپالیسی درست ثابت کر دی لہٰذا پارٹی اورملٹری کمیشن کی کمانڈ دوبارہ ان کے سپرد کردی گئی جودراصل ان کیلئے پہلے سے بڑا اورکڑا امتحان تھا کیونکہ ان کے لشکر کا ایک بڑا حصہ ہلاک ہو چکا تھا ۔ بچ جانے والوں میںبے شمار زخمی تھے اور جوجسمانی طورپر فٹ تھے وہ بھی ذہنی طور پر پژمردہ ہوچکے تھے۔ اس طرح تقریباً86 ہزار کا یہ شکست خوردہ لشکرتھا جس میں مائو کونہ صرف نئی روح پھونکنا تھی بلکہ دشمن سے بچا کردوبارہ جدوجہد اورمنزل کے حصول کی خاطر تیار بھی کرناتھا۔ مائو نے اسی سوچ کے تحت جنوبی چین سے نکل جانے کافیصلہ کیا جہاں قوم پرست چینی اورجاپانی فوجیں باقی ماندہ ریڈ آرمی کو بھی خون میں نہلانے کیلئے بے تاب گھیرا ڈالے کھڑی تھیں۔ مائو اپنی حکمت عملی سے ان کامحاصرہ توڑ کرساتھیوں سمیت مغرب کی طرف چل پڑے۔ مائو کے ساتھ86 ہزار لوگ روانہ ہوئے 370 دن میں12ہزار5سو کلومیٹر(8ہزار میل) سفر کیا۔ ایک سال سے زائد مسافت میںصوبہ صوبہ گزر کرکہیں موسم کا مقابلہ کرکے اورکہیں رستوں کی دشواری کاسامنا کر کے ، کہیں جنگجو سرداروں سے لڑ کر اورکہیں نیشنلسٹ فوجوں سے بھڑ کراورکہیں جاپانیوں سے بچ کرجب وہ منزل مقصود شانگ ژی صوبہ کے مقام Yananپہنچے تو ان کے ہمراہ صرف تقریباً7ہزارلوگ رہ چکے تھے۔ یہاں پہنچ کران کی پارٹی کے مسلح ساتھیوں کے دو دوسرے گروپ سیکنڈ ریڈ آرمی اورفورتھ ریڈ آرمی بھی آن سے آملے۔ یہ ان کے ایسے نظریاتی ساتھی تھے جوچین کے دوسرے علاقوں میںدشمن سے دو دو ہاتھ کررہے تھے مگر جب مائو نے اپنا گڑھ چھوڑ کرشمال کی طرف سفر شروع کیا تو ان کوبھی اسی مقام پرآکر ملنے کی تحریک ہوئی ۔ اس طرح مائو نے چین کے طول وعرض میںطویل اورصبر آزما سفر کرکے چینی عوام میں جہاں ایک طرف یہ شعور اجاگر کیا کہ ان کے مسائل کاحل کمیونزم میں ہے وہیں انہوں نے لوگوں کویہ اعتماد بھی دیا کہ ہم اپنے نظریہ پر کتنے مستحکم ہیں اوراس پر عملدرآمد کی خاطر کتنی مصیبتیں بھی جھیل سکتے ہیں مائو جدھر جدھر سے گزرے ادھر ادھر اپنے اثرات چھوڑتے گئے اوراس طرح جو سفر انہوں نے دراصل پسپائی یا انخلاءکی شکل میں شروع کیاتھا دنیا نے اس کولانگ مارچ یعنی بڑی پیش قدمی کانام دے دیا کیونکہ اس کے اثرات اتنے نتیجہ خیز ہوئے کہ کچھ ہی عرصے میں مائو کے ساتھیوں کی تعداد بڑھنے لگی اورچیانگ کائی شیک کے ساتھی اورفوجی مائو سے آکر ملنے لگے۔ نیشنلزم زوال پذیر ہونے لگا اورکمیونسٹ پارٹی چین کے طول وعرض میں مقبولیت کے جھنڈے گاڑھنے لگی۔1945ءمیں دوسری جنگ عظیم ختم ہوگئی۔ دوشہروں پرایٹم بم سے حملے کے بعد جاپان نے شکست مان لی اور چین سے بھی ہاتھ کھینچ لیا۔ چیانگ کائی شیک اکیلا مائو کی ریڈ آرمی کے سامنے نہ ٹھہر سکا اورفرار ہوکر تائیوان جاچھپا یکم اکتوبر1949ءکو مائو زے تنگ نے چین کوعوامی جمہوریہ بنانے کااعلان کردیا۔بلاشبہ یہ عزم، حوصلے، ارادے اوریقین کی انتہا تھی جس کامظاہرہ مائو اوران کے ساتھیوں نے کیالیکن بطور مسلمان ہم اسلامی تاریخ کاجائزہ لیں تو چین میں مائو کے لانگ مارچ سے بہت بہت پہلے13صدیاں قبل حضور نبی کریم کے دور میں بھی اس کی بڑی مثال موجود ہے ۔جسے ہجرت مدینہ کہتے ہیں جب کفار مکہ نے مسلمانوں پرعرصہ حیات تنگ کردیا اورحضور اکرم کو(خدانخواستہ) شہید کرنے کاارادہ کر لیا تو نبی کریم صحابہ کے ہمراہ مدینہ ہجرت کرگئے جہاں انصار ان کیلئے دیدہ ودل فرش راہ کیے ہوئے تھے۔ آقائے دوجہاں نے مدینہ میں دنیا کی پہلی اسلامی مملکت کی بنیاد رکھی اور اس ہجرت کانتیجہ یہ نکلا کہ مدینہ میں اسلام کوخوب فروغ ملا۔ اسلامی ریاست قائم ہونے سے مسلمان مضبوط ہوئے اور اس پوزیشن میں آگئے کہ مکہ فتح کرسکیں اورپھر کفار کے مظالم کی وجہ سے جوشہر انہیںچھوڑنا پڑا اسی میں بطور فاتح داخل ہوئے اورجوکفار ان پرظلم وستم کے پہاڑ توڑا کرتے تھے وہ انہی مظلوموں کے رحم وکرم کے محتاج ہوگئے۔ مذکورہ بالا بحث کی روشنی میں ہمیں پتہ چلتاہے کہ( اسلام اور کمیونزم کی بحث سے ہٹ کر سیاسی حوالے سے پڑھا جائے )اسلامی تاریخ میںحضور نبی کریم کامکہ سے مدینہ کوچ ہو یاچینی تاریخ میں13صدیاں بعد مائوزے تنگ کاجیانگ ژی سے شانگ ژی کاسفر ہو دونوں صورتوں میں یہ سفرکمزوری کی حالت میں کیے گئے مگر یہ سفر اختیار کرنے والوں کومنزل پرپہنچ کرطاقت ملی۔ مسلمانوں پر مکہ کی زمین تنگ کردی گئی تھی جبکہ مائو کے ساتھیوں کاجیانگ ژی میں رہنا ناممکن بنادیا گیا تھا۔ مکہ سے ہجرت ہوئی تھی اورجیانگ ژی سے انخلاء۔تھی یہ بھی ہجرت کیونکہ انہوں نے بھی اپنے نظریے کی خاطر گھر بار چھوڑا۔ اور دونوں نے دوسری جگہ جاکر پڑائو ڈالا۔ نظریے سے ان کی کمٹمنٹ ،نصب العین سے محبت اوراس کی خاطر کسی قربانی سے دریغ نہ کرنے کے جذبے نے ہراس علاقے کے مکینوں کومتاثر کیاجہاں جہاں سے وہ گزرے اور جدھر جدھر انہوں نے قیام کیا ۔ اورجس جس بستی سے یہ لوگ گزرے اس اس نگر کے باسی ان کے پیچھے ہولیے جبکہ منزل پر پہلے ہی ان کے والہانہ استقبال کی تیاریاں ہورہی تھیں اورلوگ ان کی آواز پرلبیک کہنے کیلئے تیار بیٹھے تھے ۔اورپھر تاریخ نے دیکھا کہ جولوگ کمزوری کی حالت میں گھربار چھوڑنے پرمجبور ہوئے انہوں نے وقت کے سرکش حکمرانوں کے تختے الٹ دیئے۔انہوں نے نئی مملکتوں کی بنیادیں رکھیںاور نظام بدل کررکھ دیئے۔

No comments: