واشنگٹن ۔ سچ کی تلاش میں جان قربان کرنے والے صحافیوں کی ایک یادگار واشنگٹن ڈی سی میں قائم کی گئی ہے جو اس شہر کے سب سے جدید نیوز میوزیم کا حصہ ہے۔ نیوزیم کے سینئیر ایڈیٹر ڈان راس کے مطابق خطرے سے جان بچا کر بھاگنا ایک فطری رد عمل ہے مگر گوشت پوست کے انسانوں میں چند کردار ایسے بھی ہوتے ہیں جو خطرے سے دور نہیں بلکہ خطرے کی طرف بھاگتے ہیں۔ یہ تین طرح کے لوگ ہوتے ہیں ، پولیس مین ،فائر مین اور جرنلسٹ۔ جرنلسٹ میموریل کی دیوار پر ان ایک ہزار آٹھ سو تینتالیس صحافیوں کے نام درج ہیں جنہوں نے صحافتی اصولوں کو قربان کرنے کے بجائے اپنی جان قربان کرنا مناسب سمجھا۔ یہاں موجود تصویریں صحافت کے پیشے کی حقیقی قیمت ادا کرنے والے انہی صحافیوں کی ہیں۔ جو اس بات کا ثبوت ہیںکہ میڈیا کی ترقی نے سچ کا سفر تیز تر اور صحافیوں کے لئے خطرات میں اضافہ کر دیا ہیڈان راس کے مطابق اس دیوار پر سب سے پہلا نام جس صحافی کا ہے وہ 1837 میں مارا گیا تھا۔ ۔ اس وقت سے 2000 تک کے زمانے کے درمیان جو نام ہیں ان کی تعداد خاصی کم ہے۔ مگر 2000 کے بعد یہ تعدادبہت زیادہ نظر آتی ہے۔جرنلزم میموریل کے سینئیر ایڈیٹرڈان راس کہتے ہیں کہ جب کسی صحافی کو جان بوجھ کر مارا جاتا ہے تو نیوز کے بزنس میں یہ بڑی خبر ہوتی ہے ،اور آج کے زمانے میں چھپ نہیں سکتی۔ ڈان راس مانتے ہیں کہ اٹھارویں صدی سے سن 2000 کے عرصے کیدوران مرنے والے صحافیوں کی کم تعداد اورگزشتہ آٹھ سالوں میں اس تعداد میں اچانک ریکارڈ کئے گئے۔ اضافے کی ایک وجہ خبروں کی ترسیل کے زیادہ برق رفتار اور ترقی یافتہ ذرائع ہوسکتے ہیں مگران کا کہنا ہے کہ عراق جنگ کے آغاز کے بعد سے صحافیوں کا منہ بند کرانے کی خواہش میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ 2007 میں مرنے والے 90صحافیوں میں سے30 عراق جنگ کے دوران ہلاک ہوئے تھے۔ڈان راس کہتے ہیں کہ اس جنگ کا پچھلی جنگوں سے فرق یہ ہے کہ اب صحافیوں کو خاص طور پر ٹارگٹ کیا جا رہا ہیکیونکہ مختلف عناصر نہیں چاہتے کہ سٹوری باہر نکلے۔ ورلڈ وار ٹو اور ویت نام جنگ کے زمانے میں کوئی صحافیوں کی جان کا دشمن نہیں بن گیا تھا مگر اب ایسا کیا جا رہا ہے تاکہ ان کی زبان بند کی جائے۔میموریل کی دیوار پر نام درج کرانے کی شرط بڑی سخت ہے۔ ڈان راس کہتے ہیں کہ اگر آپ صحافی ہوتے ہوئے ہارٹ اٹیک یا ٹرک کی ٹکر سے مرنے کا سوچ رہے ہیں تو میموریل کی دیوار پرآپ کے لئے کوئی جگہ نہیں۔ اس دیوار پر نام درج کرانے کے لئے صحافی کی موت اپنے پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی کے دوران ہونی ضروری ہے۔ مگر اس میموریل پر اپنی عقیدت کا خراج پیش کرنے والوں کی رائے کچھ ملی جلی سی ہے۔ جبکہ صحافیوں کو غیر ضروری خطرات سے بچنے کی تلقین کرنے والوں کی بھی کمی نہیں۔دو ہزار کے لگ بھگ صحافیوں کی اس یادگار میں پاکستانیوں کا حصہ کتنا ہے ؟کیا پاکستانی صحافی زیادہ خطرناک صورتحال میں کام کر رہے ہیں ؟ ڈان راس کہتے ہیں کہ پاکستان میں1965 کے بعد سے اب تک 29 صحافی مارے گئے ہیں۔ ان میں زیادہ تر پاکستانی صحافی تھے اور شاید ایک دو پاکستانی نہیں تھے۔ لیکن صحافیوں کو درپیش خطرات کے حوالے سے ڈان راس کا کہنا ہے کہ پاکستان ایسا ملک نہیں ہے جہاں پرمیں رپورٹنگ کرنا چاہوں گا۔ 1994 میں پاکستان میں دو صحافی مارے گئے تھے۔ 2000 میں ایک ، 2002 میں دو اور2007 میں چھ پاکستانی صحافی مارے گئے۔ یہ تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔ اس سال کے دوران بھی کچھ پاکستانی صحافی مارے جا چکے ہیں اور ڈان راس کا کہنا ہے کہ جو ریکارڈ ہمارے پاس ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اس سال کے آخری صحافی نہیں ہونگے۔میموریل کی دیوار پرجہاں 2007 میں شمالی وزیرستان میں قتل ہونے والے پاکستانی صحافی حیات اللہ خان سمیت کئی ایشیائی صحافیوں کی تصاویر دیکھی جا سکتی ہیں۔ وہاں پاکستانی نیوز چینل اے آر وائے کے کیمرہ مین محمد عارف ،روزنامہ مرکز کے جاوید خان ،فری لانس فوٹوگرافر محبوب خان ،روزنامہ پاکستان کے نور حکیم خان،روزنامہ اسلام کے مسعود محمود ،روزنامہ جنگ کے زبیر احمد مجاہد اورچشتی مجاہد کے نام بھی واشنگٹن ڈی سی کے اس جرنلزم میموریل پردرج ہو چکے ہیں
International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.
Wednesday, June 18, 2008
سچ کی تلاش میں جان دینے والے صحافیوں کی یادگار واشنگٹن ڈی سی میں قائم ، واشنگٹن کے میوزیم کی دیوار پر کئی پاکستانی صحافیوں کے نام درج ہیں
واشنگٹن ۔ سچ کی تلاش میں جان قربان کرنے والے صحافیوں کی ایک یادگار واشنگٹن ڈی سی میں قائم کی گئی ہے جو اس شہر کے سب سے جدید نیوز میوزیم کا حصہ ہے۔ نیوزیم کے سینئیر ایڈیٹر ڈان راس کے مطابق خطرے سے جان بچا کر بھاگنا ایک فطری رد عمل ہے مگر گوشت پوست کے انسانوں میں چند کردار ایسے بھی ہوتے ہیں جو خطرے سے دور نہیں بلکہ خطرے کی طرف بھاگتے ہیں۔ یہ تین طرح کے لوگ ہوتے ہیں ، پولیس مین ،فائر مین اور جرنلسٹ۔ جرنلسٹ میموریل کی دیوار پر ان ایک ہزار آٹھ سو تینتالیس صحافیوں کے نام درج ہیں جنہوں نے صحافتی اصولوں کو قربان کرنے کے بجائے اپنی جان قربان کرنا مناسب سمجھا۔ یہاں موجود تصویریں صحافت کے پیشے کی حقیقی قیمت ادا کرنے والے انہی صحافیوں کی ہیں۔ جو اس بات کا ثبوت ہیںکہ میڈیا کی ترقی نے سچ کا سفر تیز تر اور صحافیوں کے لئے خطرات میں اضافہ کر دیا ہیڈان راس کے مطابق اس دیوار پر سب سے پہلا نام جس صحافی کا ہے وہ 1837 میں مارا گیا تھا۔ ۔ اس وقت سے 2000 تک کے زمانے کے درمیان جو نام ہیں ان کی تعداد خاصی کم ہے۔ مگر 2000 کے بعد یہ تعدادبہت زیادہ نظر آتی ہے۔جرنلزم میموریل کے سینئیر ایڈیٹرڈان راس کہتے ہیں کہ جب کسی صحافی کو جان بوجھ کر مارا جاتا ہے تو نیوز کے بزنس میں یہ بڑی خبر ہوتی ہے ،اور آج کے زمانے میں چھپ نہیں سکتی۔ ڈان راس مانتے ہیں کہ اٹھارویں صدی سے سن 2000 کے عرصے کیدوران مرنے والے صحافیوں کی کم تعداد اورگزشتہ آٹھ سالوں میں اس تعداد میں اچانک ریکارڈ کئے گئے۔ اضافے کی ایک وجہ خبروں کی ترسیل کے زیادہ برق رفتار اور ترقی یافتہ ذرائع ہوسکتے ہیں مگران کا کہنا ہے کہ عراق جنگ کے آغاز کے بعد سے صحافیوں کا منہ بند کرانے کی خواہش میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ 2007 میں مرنے والے 90صحافیوں میں سے30 عراق جنگ کے دوران ہلاک ہوئے تھے۔ڈان راس کہتے ہیں کہ اس جنگ کا پچھلی جنگوں سے فرق یہ ہے کہ اب صحافیوں کو خاص طور پر ٹارگٹ کیا جا رہا ہیکیونکہ مختلف عناصر نہیں چاہتے کہ سٹوری باہر نکلے۔ ورلڈ وار ٹو اور ویت نام جنگ کے زمانے میں کوئی صحافیوں کی جان کا دشمن نہیں بن گیا تھا مگر اب ایسا کیا جا رہا ہے تاکہ ان کی زبان بند کی جائے۔میموریل کی دیوار پر نام درج کرانے کی شرط بڑی سخت ہے۔ ڈان راس کہتے ہیں کہ اگر آپ صحافی ہوتے ہوئے ہارٹ اٹیک یا ٹرک کی ٹکر سے مرنے کا سوچ رہے ہیں تو میموریل کی دیوار پرآپ کے لئے کوئی جگہ نہیں۔ اس دیوار پر نام درج کرانے کے لئے صحافی کی موت اپنے پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی کے دوران ہونی ضروری ہے۔ مگر اس میموریل پر اپنی عقیدت کا خراج پیش کرنے والوں کی رائے کچھ ملی جلی سی ہے۔ جبکہ صحافیوں کو غیر ضروری خطرات سے بچنے کی تلقین کرنے والوں کی بھی کمی نہیں۔دو ہزار کے لگ بھگ صحافیوں کی اس یادگار میں پاکستانیوں کا حصہ کتنا ہے ؟کیا پاکستانی صحافی زیادہ خطرناک صورتحال میں کام کر رہے ہیں ؟ ڈان راس کہتے ہیں کہ پاکستان میں1965 کے بعد سے اب تک 29 صحافی مارے گئے ہیں۔ ان میں زیادہ تر پاکستانی صحافی تھے اور شاید ایک دو پاکستانی نہیں تھے۔ لیکن صحافیوں کو درپیش خطرات کے حوالے سے ڈان راس کا کہنا ہے کہ پاکستان ایسا ملک نہیں ہے جہاں پرمیں رپورٹنگ کرنا چاہوں گا۔ 1994 میں پاکستان میں دو صحافی مارے گئے تھے۔ 2000 میں ایک ، 2002 میں دو اور2007 میں چھ پاکستانی صحافی مارے گئے۔ یہ تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔ اس سال کے دوران بھی کچھ پاکستانی صحافی مارے جا چکے ہیں اور ڈان راس کا کہنا ہے کہ جو ریکارڈ ہمارے پاس ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اس سال کے آخری صحافی نہیں ہونگے۔میموریل کی دیوار پرجہاں 2007 میں شمالی وزیرستان میں قتل ہونے والے پاکستانی صحافی حیات اللہ خان سمیت کئی ایشیائی صحافیوں کی تصاویر دیکھی جا سکتی ہیں۔ وہاں پاکستانی نیوز چینل اے آر وائے کے کیمرہ مین محمد عارف ،روزنامہ مرکز کے جاوید خان ،فری لانس فوٹوگرافر محبوب خان ،روزنامہ پاکستان کے نور حکیم خان،روزنامہ اسلام کے مسعود محمود ،روزنامہ جنگ کے زبیر احمد مجاہد اورچشتی مجاہد کے نام بھی واشنگٹن ڈی سی کے اس جرنلزم میموریل پردرج ہو چکے ہیں
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment