عوامی تجزیہ نگا روں کا دعوی ہے کہ بلال بیٹے نے ا پنے پپا مشرف کو فون کیا ہے کہ پا پا فوری طور پر ملک چھوڑ دیں آپ کی جان کو خطرہ ہے اس ضمن میں مشرف نے اپنے دوستوں سے غور و فکر کیا طے یہ ہوا کہ آپ کو تحفظ فراہم کیا جا ئے گا۔ جبکہ تجزیہ نگا روں نے یہ بھی رائے دی ہے کہ مشرف واحد حکمران ہوگا جس کا انجام سب کے لئے مقام عبرت ہوگا۔ تجزیہ نگا روں نے یہ بھی کہا ہے کہ فرعون بھی موت کے آخری وقت بھی اپنے آپ کو بہت مظبوط سمجھتا تھا لیکن جب خدا تعالی کا حکم ہوا تو اس کا دبد بہ خاک میں مل گیا ۔ تجز یہ نگا روں نے یہ بھی کہا ہے کہ مشرف بذ ریعہ ہوائی جہاز نہیں بھا گیں گے البتہ رات کی تا ریکی میں امریکن کے اشا روں پر جلال آباد کی طرف امریکن ایئر بیس کی طرف پیش قد می کریں گے اور اس دوران امریکن طالبا ن کو مخبری کر دیں گے جس کے نتیجے میں طالبان مشرف کو پکڑ لیں گے اور مشرف کو ایسا عبرت کا نشان بنا یا جا ئے گا کہ دنیا بھر کے آنے والے آمر سو بار سوچیں گے ۔ تجزیہ نگا روں نے یہ بھی دعوی کیا ہے کہ مشرف کے مقام عبرت کا خا کہ بھی مشرف کے دوست امریکہ نے ہی بنایا ہوا ہے۔ ملک میں جب تک سیاسی استحکام نہیں آتا معیشت مضبوط نہیں ہوگی۔ پرویز مشرف قومی مجرم ہیں ۔ آرٹیکل 6کے تحت ان کے خلاف مقدمہ چلنا چاہئے حکمران اتحاد کی جانب سے جو آئینی پیکج لایا جارہا ہے اس میں پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے ججوں کو بھی بحال رکھنا شامل ہے یہ وکلاءکی آزاد عدلیہ کی تحریک کی نفی ہے اسے نہ اے پی ڈی ایم اور نہ ہی وکلاء قبول کریں گے۔عوام کا موقف ہے کہ 2نومبر کی پوزیشن پر ججو ںکی بحالی کے بغیر یہ بحران ختم نہیں ہوسکتا۔ دونوں ایوانوں میں حکمران اتحاد کے پاس مطلوبہ تعداد موجود ہے اسے سنجیدگی کے ساتھ قومی ایجنڈے کی تکمیل کیلئے قدم بڑھانے ہوں گے۔ پرویز مشرف کے مواخذے ، ججز کی بحالی کو آئینی پیکج اور بیرونی دباو¿ کے تحت التواء کا شکار کیا جارہا ہے۔ ا بجٹ کا مرحلہ آرہا ہے۔ قومی اسمبلی وسینٹ کا اجلاس شروع ہوگیا ہے ملک معاشی بحران سے دوچار ہے۔ صنعت وزراعت تباہ حال ہے کوئی مکمل وزیر خزانہ نہیں ہے۔ بجٹ کی تیاری کے مراحل کو ضائع کردیا گیا ہے۔ اس لئے کوئی بڑی توقع نہیں کہ عوام کو اس بجٹ سے ریلیف ملے گا۔ کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے منصوبے کو قومی اقتصادی کونسل، عوام کو مطمئن کئے بغیر ختم کردینا ثابت کرتا ہے کہ جمہوریت، پارلیمنٹ اورعوام کی بات کرنے والے اس میدان میں مخلص نہیں ہیں۔ سٹیٹ بینک، عالمی مالیاتی اداروں کی رپورٹ نے ہماری معیشت کیلئے خطرات کی گھنٹیاں بجادی ہیں۔ ہماری معیشت پہلے سے زیادہ قرضوں میں دب گئی ہے۔ فنانشل مس مینجمنٹ پہلے سے زیادہ بدتر شکل اختیار کرچکی ہے۔ آٹھ سالوں میں گڈ گورننس دینے کی بجائے مراعات یافتہ کو نوازا گیا۔احسن اقبال نے کہا ہے کہ پارٹی کے قائد محمد نواز شریف اور صدر محمد شہباز شریف کے کاغذات نامزدگی کی منظوری نے عام انتخابات میں جنرل مشرف کے دھاندلی کے ایک اور منصوبے کا پول کھول دیا ہے۔ ان رہنماو¿ں کے کاغذات نامزدگی کی منظوری نے جنرل پرویز مشرف ، پرویز الہی اور پی سی او ججوں کی اس سازش کو ناکام کردیا جس کے تحت وہ نواز شریف کو قومی اسمبلی اور شہباز شریف کو صوبائی اسمبلی میںپہنچنے سے روکنا چہاتے تھے نواز شریف اور شہباز شریف کی کامیابی جمہوریت کے لیے بہت بڑا تحفہ ہو گی اور ملک میں جمہوری قوتوں کی طاقت میں بے اپناہ اضافہ ہو گا ۔ جنرل مشرف نے گزشتہ آٹھ سالوں میںپاکستان کو تباہ وبرباد کردیا ہے اور اب وہ چاہتے ہیں کہ انہیں تمغہ دے کر رخصت کیا جائے پاکستان کے سولہ کروڑ عوام ملک کے مستقبل کو داو¿ پر لگانیوالے مجرم کا احتساب چاہتے ہیں ۔12 اکتوبر 99 ء کو جب جنرل مشرف نے مسلم لیگ(ن) کی حکومت سے ملک چھینا تھا توپاکستان میں بجلی ، آٹا ، گیس اور عدلیہ نام کے کسی بحران کا وجود نہیں تھا لیکن آٹھ سالوں میں انہوں نے ہنستے بستے ملک کو لوڈ شیڈنگ سے اندھیر نگری بنا کر اور آٹا و گندم ،بحران سے فاقہ زدہ بنا کر جمہوری قیادت کے حوالے کردیا ہے ۔ جنرل مشرف کے جرائم میں قدر گھناو¿نے ہیں کہ جو بھی انہیں معافی دے گا وہ بھی ان کے جرائم میں برابرکا حصہ دار کہلائے گا۔پاکستانی عوام کی اکثریت نے صدر پرویز مشرف کو آئین پاکستان کی خلاف ورزی پر سزا دینے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ گیلپ پاکستان کی تازہ سروے رپورٹ کے مطابق 61فیصد عوام صدر پرویز مشرف کو آئین کی پامالی پر سزا دینے کے حق میں ہیں21فیصد ان کو معاف کرنے جبکہ 18فیصد نے اس حوالے سے کوئی جواب نہیں دیا۔ 64فیصد عوام نے ایمرجنسی کے نفاذ پر مواخذے اور انہیں ہٹانے کے حق میں رائے دی 11فیصد اس کو غلطی نہیں سمجھے۔ 23فیصد نے درمیانی رائے جبکہ 2فیصد نے کوئی رائے نہیں دی۔ یہ سروے 15مئی کے بعد کیا گیا جس میں پاکستان کے مختلف شہروںاور دیہاتوں سے مختلف آمدنی والے اور معاشرے کے مختلف طبقات کے لوگوں سے رائے لی گئی یہ سروے چاروں صوبوں کے عوام سے کیا گیا ہے 8سال قبل جب صدر پرویز مشرف نے اقتدار پر قبضہ کر لیا تو 70فیصد عوام نے ان کی حمایت کی تھی جو گیلپ کے اس وقت کے سروے سے ثابت ہوتا ہے 2007ءکے شروع میں 60فیصد عوام انکے مخالف تھے حالیہ سروے میں نواز شریف ملک کے مقبول ترین رہنما اور صدرپرویز مشرف سب سے غیر مقبول شخصیت بن چکے ہیں سروے رپورٹ کے مطابق صدر پرویز مشرف 59فیصد عوام کی ناپسندیدہ شخصیت ہیں جبکہ مولانا فضل الرحمن اور الطاف حسین 53فیصد کی ، آصف علی زرداری 26فیصد کی ، وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی 17فیصد اور مسلم لیگ(ن) کے رہنما میاں نواز شریف 13 فیصد عوام کی ناپسندیدہ شخصیت ہیں ‘ 47 فیصد عوام کا یہ خیال ہے کہ صدر پرویز مشرف کے اقتدار میں رہنے کی وجہ صرف امریکی حمایت اورپشت پناہی ہے ۔ 26 فیصد انکے اقتدار میں رہنے کی وجہ فوج کو 8فیصد پاکستانی عوام کو سمجھتے ہیں جبکہ 14فیصد انکے اقتدار میں رہنے کے حق میں اور 5فیصد نے کوئی رائے نہیں دی ۔ اگر مستقبل میں صدر پاکستان اٹھاون ٹو بی کے اختیار کو استعمال کرتے ہوئے اسمبلیوں کو تحلیل کرتے ہیں تو جب وہ اپنے اس اِقدام کو چودہ روز کے اندر ریفرنس کی صورت میں عدالت بھیجتے ہیں تو سوال پیدا ہوتا ہے ایک آزاد عدلیہ کی عدم موجودگی میں اس ریفرنس پر کس قسم کا فیصلہ سامنے آئے گا اگر یہ ریفرنس معزول ججوں پر مشتمل’آزاد عدلیہ کے پاس بھیجی جائے گی تو اس کافیصلہ میرٹ کی بنیاد پر ہوگا کیونکہ معزول ججز نے ماوراء آئین اِقدام کی مخالفت کرتے ہوئے حلف لینے سے انکار کیا تھا اور اگر عدلیہ آزاد نہیں ہوگی تو آپ صدارتی ریفرنسوں پر مثبت فیصلوں کی توقع نہ رکھیں۔ اگر عدلیہ آزاد نہیں ہوگی تو جمہوریت مضبوط نہیں ہوگی بصورت دیگر’اب پچھتائے کیا جب چڑیا چک گئی کھیت آزاد عدلیہ کی غیر موجودگی میں دہشت گردی، لوٹ مار اور تخریب کاری میں اضافہ ہوگا ۔ان کے مطابق کراچی میں ڈاکو¿وں کی زندہ جلانے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں نے اداروں پر اعتماد کرنا چھوڑ دیا ہے اوروہ اب اپنے فیصلے خود کرنا چاہتے ہیں۔ تحریک کا مقصد صرف عدلیہ کی نہیں بلکہ سماجی اور معاشی آزادی ہے تاکہ ملک کو قومی سلامتی کی ریاست سے فلاحی ریاست میں تبدیل کیا جائے جس میں ہر شہری کو انکی دہلیز پر انصاف مل سکے۔1958ء میں ایوب خان نے مارشل لاء لگا کر قائداعظم کے فلاحی ریاست کے تصور کو غیر محسوس طریقے سے قومی سلامتی ریاست میں تبدیل کردیا۔ان کے مطابق سوویت یونین کے پاس چالیس ہزار ایٹم بم ، جدید میزائل سسٹم اور ٹینک تھے مگر قومی سلامتی کی ریاست ہونے کی وجہ سے آج صفحہ ہستی سے مٹ گیا ہے ۔
امریکی انتظامیہ کی جانب سے صدر پرویز مشرف کی حمایت جاری رکھنے کے اشاروں کے بعد پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور مسلم لیگ(ن) کے قائد نواز شریف نے صدر مشرف کو عوام کے دباو¿ کے نتیجے میں صدارت سے ہٹانے پر اتفاق کرلیا ہے اور اس سلسلے میں نواز شریف نے آصف علی زرداری سے یقین دہانی حاصل کر لی ہے کہ مرکزی حکومت دس جون سے وکلاء کے ہونے والے لانگ مارچ کو فری ہینڈ دے گا جس کا رخ حکومت کی بجائے صدر مشرف کی جانب موڑا جائے گا ۔ ذرائع کے مطابق حکمران اتحاد کے قائدین نے اس فیصلے پر بھی اتفاق کرلیا ہے کہ وکلاء کے لانگ مارچ کی مسلم لیگ(ن) کھل کر جبکہ پیپلزپارٹی پس پردہ حمایت کرے گی جس کا مقصد صدر پرویز مشرف کی پشت پر کھڑے امریکہ کو باور کرانا ہو گا کہ صدر پرویز مشرف کے ہٹانے کے لیے حکمران اتحاد سخت عوامی دباو¿ کا شکار ہے ۔اور ان کو ہٹانا ناگزیر ہو چکا ہے۔ ذرائع کے مطابق 28 مئی کو یوم تکبیر کے موقع پر لاہور میں مسلم لیگ کے قائد نواز شریف نے ایک تقریب میں جذباتی تقریر کرتے ہوئے انکشاف کیا تھا صدر مشرف کے مواخذے کے لیے ان کے اور آصف علی زرداری کے درمیان اتفاق ہو چکا ہے ۔ جس کا مقصد ایوان صدر کی توجہ دو سری طرف رکھنا تھا اگرچہ بعض اطلاعات کے مطابق آصف علی زرداری ایوان صدر کو یقین دہانی کرا چکے ہیں کہ صدر کے خلاف مواخذے کی تحریک فوری طورپر نہیں لائی جائے گی ۔ آصف علی زرداری پر امریکہ سمیت ان بین الاقوامی حلقوں کا دباو¿ ہے کہ وہ صدر پرویز مشرف کے ساتھ مل کرکام کریں جبکہ دوسری طرف زرداری شدت سے محسوس بھی کررہے ہیںکہ صدر مشرف کو برقرار رکھنے پر ان کی عوامی مقبولیت کا گراف تیزی سے گر رہا ہے اور پارٹی کو بھی نقصان ہو رہا ہے ۔ ان حقائق کے تناظر میں آصف علی زرداری نے اپنے بڑی اتحاد نواز شریف کو اپنی مجبوریوں سے آگاہ کردیا ہے تاہم انہوں نے ساتھ ہی یہ یقین دہانی بھی کرائی ہے کہ حکومت وکلاء کے لانگ مارچ کے سلسلے میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالے گی ۔ ذرائع کے مطابق ڈاکٹر عبدالقدیر خان جو طویل عرصے سے اپنے گھر پر نظر بند ہیں اور ان کی میڈیا تک رسائی بھی نہیں تھی کو ایک پالیسی کے تحت آزادانہ انٹرویوز دینے کی اجازت دی گئی ہے جو ہر انٹرویو میں صدر مشرف کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے انہیں ماضی میں کی گئی غلطیوں کا ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں ۔ ڈاکٹر عبدالقدیر کے انٹرویوز صدر مشرف پر عہدہ صدارت چھوڑنے کے لیے دباو¿ کا حصہ ہیں ۔ حالانکہ دلچسپ بات یہ ہے کہ ڈاکٹر عبدالقدیر کے معاملات کو سٹریٹجک پلاننگ ڈویڑن ڈیل کررہا ہے جو فوج کے ماتحت ادارہ ہے ۔ ذرائع کے مطابق فوج جس نے سیاسی معاملات سے خود کو الگ رکھا ہوا ہے نے صدر پرویز مشرف پر واضح کیا ہے کہ وہ آئین کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے اپنے فرائض سرانجام دے گی اور صدر اور حکومت کے درمیان ہونے والے کسی بھی امکانی تصادم میںفریق نہیں بنے گی۔ ذرائع کے مطابق فوج نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ لانگ مارچ کا رخ اگر آرمی ہاو¿س کی جانب کیا گیا تو یہ فوج کے لیے باعث شرمندگی ہو گا لہذا ایسی صور تحال سے گریز کیا جائے جس سے فوج کے امیج کو نقصان پہنچے جو عوام میں بتدریج اب بہتر ہو رہا ہے ۔ ذرائع نے یہ بھی انکشاف کیا کہ لانگ مارچ جو دراصل معزول ججوں کی بحالی اور عدلیہ کی آزادی کے لیے کیا جا رہا ہے ۔ کو صدر مشرف کوہٹانے کے لیے استعمال کیا جا رہا تھا اور آصف علی زرداری صدر کو ہٹا کر باسانی اعلی عدلیہ کو اپنی شرائط پر بحال کرنے کے لیے نواز شریف کو رضا مند کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ وکلاء اور پاکستان مسلم لیگ ن نے پیپلز پارٹی کی جانب سے میاں نواز شریف کو پیش کئے گئے مجوزہ آئینی پیکیج کے بعض نکات پر تحفظات کا اظہار کر دیا ہے۔آئینی پیکج میں ججز کی برطرفی کا اختیار سپریم جوڈیشنل کمیشن کو دینے کی تجویز دی گئی ہے ذرائع کے مطابق پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے درمیان آئینی پیکیج کے مسودے کے بیشتر نکات پر اتفاق ہو گیا ہے تاہم کچھ نکات پر مسلم لیگ ن اور وکلاء اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ وکلاء نے کہا ہے کہ یہ آئینی پیکج صرف دو افراد کے لیے بنایا گیا ہے اس میں معزول چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی مدت ملازمت کم اور عبدالحمید ڈوگرکی مدت ملازمت میں اضافہ کیا گیا ہے ۔وکلاء نے کہا ہے کہ ایسے کسی آئینی پیکج کو قبول نہیں کیا جائے گا جس میں عدلیہ کی آزادی اور خود مختاری پر آنچ آئے ذرائع کے مطابق پیپلز پارٹی کی طرف سے آئینی پیکیج کو حتمی شکل دینے کے بعد مسودے کو اتحادیوں تک پہنچانے کا کام مکمل کر لیا گیا ہے جبکہ ابھی اس پر مشاورت جاری ہے جس کے بعداس آئینی پیکج میں تبدیلیاں بھی کی جا سکتی ہیں آئینی پیکیج میں ججوں کی برطرفی کا اختیار سپریم جوڈیشنل کونسل کے بجائے جوڈیشنل کمیشن کو دینے کی تجویز دی گئی ہے جبکہ صدر کو اختیار ات کے استعمال کیلئے وزیر اعظم کے مشورے کا پابند بنایا گیا ہے۔ واضح رہے کہ وفاقی وزیر قانون فاروق ایچ نائیک نے کہا ہے کہ آئینی پیکیج کو پارلیمنٹ میں بحث کیلئے اتحادیوں کی مشاورت کے بعد پیش کیا جائے گا جبکہ میاں نواز شریف نے وزیر قانون سے ملاقات میں کہا ہے کہ مل کر چلیں گے تو بچیں گے۔پاکستان پیپلزپارٹی کی جانب سے مجوزہ آئینی پیکج میں آئین توڑنے اور انہیں تحفظ دینے والوں پر غداری کے مقدمات چلانے ، ایک بار پھر چیف جسٹس کا عہدہ حاصل کرنے والا دوبارہ اس عہدے پر فائز نہ ہونے ، اہم تقرریوں کے اختیارات وزیراعظم تفویض کرنے ، صوبہ سرحد کا نام پختونخواہ رکھنے ، صدر کو وزیراعظم سے مشاورت کا پابند بنانے اور ججز کی بحالی کا طریقہ کار اتحادی جماعتوں سے طے کرنے58-2-B کے خاتمے ، سپریم کورٹ میں چاروں صوبوں کو مساوی نمائندگی دینے ،وزیر اعظم موجود نہ ہونے پر کابینہ کے سینئر ترین وزیر کو یہ اختیارات دینے سمیت اہم نکات کو شامل کیا گیا مسودہ 80نکات پر مشتمل ہے ججز کی مدت ملازمت کے فیصلے کو مشاورت سے طے کرنا بھی آئینی پیکج کے نکات میں شامل ہے۔ مجوزہ آئینی پیکج حکمران جماعت میں شامل تمام جماعتوں کے سپرد کردیا گیا ہے آئینی پیکج پر غور کیلئے پاکستان مسلم لیگ (ن) جمعیت علماء اسلام (ف) اور دیگر حکومتی جماعتوں نے خصوصی کمیٹیاں قائم کر دیں ہیں ججز کی بحالی کا طریقہ کار آئینی پیکج کا حصہ نہیں ہے اسی طرح ججز کی مدت ملازمت کا فیصلہ بھی حکمران اتحاد مشاورت سے کرے گا مجوزہ آئینی پیکج کے تحت ایک بار چیف جسٹس کا عہدہ حاصل کرنے والے دوبارہ اس عہدے پر فائز نہیں ہو سکے گا آئینی پیکج کے حوالے سے حکومتی اتحاد پاکستان ڈیمو کریٹک الائنس کا اجلاس بھی آئندہ چند دنوں میں متوقع ہے جس میں پی ڈی اے کے قائدین سمیت وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی بھی شرکت کریں گے۔اتحادی جماعتوں نے تجویز دی ہے کہ اتحادیوںکا اجلاس وزیراعظم کی صدارت میں ہونا چاہیے ۔ مجوزہ آئینی پیکج میں بیشتر نکات پارلیمنٹ کی بالادستی اور اداروںکے استحکام سے متعلق ہیں۔ ذرائع کے مطابق مجوزہ آئینی پیکج میں سپریم کورٹ میں چاروں صوبوں کو مساوی نمائندگی ، قدرتی وسائل کی پچاس فیصد آمدنی صوبوں کو دینے ، بلوچستان میں لیویز کی بحالی مقامی حکومتوں سے انتظامیہ کے اختیارات واپس لے کر صوبائی حکومتوں کو دینے کی تجاویز بھی شامل ہیں ۔آئینی پیکج میں کہا کہ ججز کی مدت ملازمت آرٹیکل 179اور 195کے بارے میں اتحادیوں کے صلاح مشورے سے طے کی جائے گی ۔ آرٹیکل 243اے ججز کی بحالی کا معاملہ 270سی سی کے حوالے سے فیصلہ آئینی پیکج میں خالی چھوڑ ا گیا ہے ۔ آرٹیکل پیکج کے مطابق 270ٹرپل اے ججز کی بحالی کے طریقہ کار اور 3نومبر کے اقدامات سے متعلق ہے اس بارے میں بھی اتحادیوں کے ساتھ صلاح مشورے سے کیا جائے گا ۔آرٹیکل 1دن میں صوبہ سرحد کا نام پختون خواہ رکھنے کی تجویز دی گئی ہے جبکہ آرٹیکل 6آئین توڑنے والوں سے متعلق ہے اس میں اب آئین توڑنے والوں اور ان کو تحفظ دینے والوں پر غداری کی سزا تجویز کی گئی ہے اور ان پر غداری کا مقدمہ درج کرایا جائے گا جبکہ آئینی پیکج میں جو اعلیٰ عدلیہ کے ججوں سے متعلق ہے اس میں چیف جسٹس آف پاکستان اور چیف جسٹس آف ہائی کورٹس کے عہدے کی معیاد مقرر کرنے کی تجویز دی گئی ہے ۔سپریم کورٹ کے ججوں کی عمر 65سال سے 68سال اور ہائی کورٹ کے ججز کی عمر 62سے 65سال کرنے کی تجویز ہے ۔دوسری بار چیف جسٹس نہ بننے کے حوالے سے تجویز میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس صاحبان کے لئے یہ آپشن رکھا جائے گا کہ یا تو وہ ریٹائرڈ ہو جائیں ۔ اس پر انہیں تنخواہ اور مراعات ملی گئیں اور اگر وہ اپنی مدت ملازمت کو جاری رکھنا چاہتے ہیں تو اس میں انہیں چیف جسٹس کی مراعات اور پیکج ملے گا اور وہ اپنی سروس کو 68اور 65سال تک جاری رکھ سکیں گے ۔ اس تجویز میں چیف جسٹس آف پاکستان کے اختیار ات میں بینجوں کو تشکیل دینے کے معاملے میں بھی قداغن لگائی گئی ہے ۔آئین کے آرٹیکل 1843میں عوامی اہمیت کا شامل کیا گیا ہے ۔ چیف جسٹس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ جب کوئی مفاد عامہ کا مسئلہ آئے گا اس میں کم از کم پانچ ججز پر مشتمل بینج سماعت کرے گا اور بینج کی تشکیل چیف جسٹس اور دو سینئر ترین ججز کریں گے ۔ آرٹیکل 209جو ججز کے احتساب سے متعلق ہے ۔ اس میں 209-Aجس میں ایک فیڈرل جودیشل کمیشن تشکیل دیا جائے گا ،کی تجویز دی گئی ہے ۔ جس میں ریٹائرڈ ججز کو شامل کرنے کی تجویز شامل ہے ۔کمیشن آکثریت کی بنیاد پر فیصلہ کرے گا پہلے صرف سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججوں کا ریفرنس بھیجا جا سکتا تھا لیکن اب اس ترمیم میں عدالت عظمی اور عدالت عالیہ دونوں کے چیف جسٹس صاحبان کے ریفرنس بھیجنے کی تجویز دی گئی ہے ۔ آئینی پیکج میں 58ٹو بی کے خاتمے کی تجویز بھی شامل ہے اسی طرح چیف الیکشن کمشنر سروس چیفس اور آرمی چیف کی تقرری کے تمام اختیارات صدر سے وزیر اعظم کو منتقل کرنے کی تجویز دی گئی ہے ۔ اس حوالے سے نئے آرٹیکل کا اضافہ نکات میں شامل ہے ۔ آئینی پیکج میں شامل ہے کہ وزیر اعظم کسی بھی وجہ سے موجود نہ ہوں یہ نہ اہل ہو جائیں تو ایسی صورت میں وفاقی کابینہ کا سینئر ترین وزیر بطور وزیر اعظم کا چارج سنبھال لے گا اور اپنے فرائض ادا کرے گا ۔ جبکہ وفاقی وزیر قانون فاروق ایچ نائیک نے کہا ہے کہ آئینی پیکج کا مسودہ حتمی نہیں اس میں تبدیلی کی جا سکتی ہے آئینی پیکج میں آرٹیکل 6 کو بدلا گیا ہے جو جج پی سی او کے تحت حلف اٹھائے گا وہ جج نہیں رہے گا ۔آئینی مسودے میں تبدیلی لائی جا سکتی ہے یہ حتمی نہیں ہے ۔ اس بارے میں اتحادی جماعتوں سے تجاویز لی جائیں گی ۔ صدر اور وزیر اعظم کے اختیارات میں توازن پیدا کیا جائے گا اور ایسی شقیں ختم کر دی جائیں گی جو 1973 ء کے آئین میں بعد میں شامل کی گئی ہیں ۔ انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان پیپلزپارٹی عدلیہ کی آزادی اور جمہوریت کو مستحکم دیکھنا چاہتی ہے ۔ آئینی مسودہ ایک سوچ کے ساتھ پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا یہ ایک مثبت مسودہ ہو گا ۔ جس میں تمام طبقات کی رائے شامل کی جائے گی ۔ آئینی پیکج کے مسودے کی کاپیاں اتحادی جماعتوں کو فراہم کرنا شروع کر دی گئی ہیں ۔ اے این پی کے سربراہ اسفندر یار ولی کی ہدایت پر پارٹی کی نائب صدر بشریٰ گوہر کو مسودے کی کاپی فراہم کر دی گئی ہے ۔ مولانا فضل الرحمان کی درخواست پر مسودے کی کاپی جے یو آئی کے راہنما مفتی ابرار کو دے دی گئی ہے ۔ ایم کیو ایم کے ایک نمائندے کو بھی آئینی پیکج کا مسودہ فراہم کر دیا گیا ہے جو لندن میں ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کو بھیجا جائے گا ۔ انہوں نے کہا کہ وہ مسلم لیگ ( ن ) کے قائد میاں نواز شریف کو آئینی پیکج کا مسودہ دینے کے لئے خود لاہور آئے ہیں ۔سابق وفاقی وزیر برائے مذہبی امور اعجاز الحق نے لال مسجد آپریشن کو قتل عام قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وزیرستان طرز پر اس آپریشن کی کابینہ سے منظوری نہیں لی گئی تھی اس واقعے کی تحقیقات ہونی چاہئیں انہوں نے ججز کی بحالی تحریک کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ اگر انہیں دعوت دی گئی تو وہ اس میں شامل ہوں گے ۔ اعجاز الحق نے کہا کہ 28 فروری کے انتخابات میں ہارنے والے امیدواروں کی نسبت انہیں زیادہ ووٹ ملے ہیں انہوں نے کہا ایسا لگتا ہے کہ ٹارگٹ دھاندلی ہوئی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ انتخابات سے پہلے ایک پروگرام بنا تھا جس کا این آر او ایک حصہ تھا اور اس کے مطابق پیپلزپارٹی اور اعتدال پسندوں کو لے کر آنا ہی ہے ۔ اعجاز الحق نے کہا کہ ق لیگ کے چند راہنماو¿ں نے این آر او کی مخالفت کی تھی اور اسی لئے این آر او کی مخالفت کے بعد انہیں میٹنگ میں نہیں بلایا گیا ۔ اعجاز الحق نے کہا کہ بے نظیر بھٹو امریکہ کے کہنے پر معاہدے کے تحت پاکستان آئیں تو سعودی عرب والوں نے نوٹس لیا ۔ صدر جنرل پرویز مشرف کو سعودی عرب کا دورہ کرنا پڑا ۔ طے پایا کہ نواز شریف بھی واپس آئیں گے ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوںنے کہا کہ الیکشن سے ایک سال پہلے فیصلہ ہو گیا تھا کہ ایم ایم اے کو ختم کر دیا جائے گا ۔ لال مسجد کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ان کی کوشش تھی کہ معاملے کو پرامن طریقے سے حل کرایا جائے ۔ اسی لئے کابینہ میں ان پر تنقید کی جاتی تھی اور صدر پرویز مشرف نے ذاتی طور پر بھی گلہ کیا کہ میرے کہنے پر انہوں نے مولانا عبدالرشید کو چھوڑا تھا ۔ اعجاز الحق نے کہا کہ انہیں آخری دن معلوم نہیں تھا کہ آپریشن ہونا ہے ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ لال مسجد آپریشن میں فائرنگ صبح 4 بجے شروع ہوئی تھی پہلے 19 اپریل کو آپریشن ہونا تھا جسے چوہدری شجاعت حسین کے کہنے پر ملتوی کیا گیا تھا اور متعدد اجلاسوں میں انہوں نے کہا کہ غیر متعلقہ افراد کے لال مسجد میں جانے کو روکا جائے اور مسجد کی مکمل نگرانی کی جائے تاکہ کوئی بھی اندر اور باہر نہ جا سکے ۔ اس طرح مسئلہ پرامن طریقے سے حل ہو جائے گا ۔ انہوں نے کہا کہ آپریشن سے پہلے رات پونے چار بجے ہمیں لال مسجد سے چلے جانے کو کہا گیا تھا انہوں نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں ایک انتہائی افسوس ناک واقعہ تھا ۔ اور اسے قتل عام بھی کہا جا سکتا ہے ۔ فریقین کی طرف سے ضد کی وجہ سے ہوا اور جس دن ایک کرنل شہید ہوئے اس دن کے بعد معاملات بگڑتے ہی چلے گئے کیونکہ کرنل کو گولی اندر سے ماری گئی تھی ۔ اعجاز الحق نے کہا کہ ان کے خیال میں کابینہ سے اس آپریشن کی منظوری نہیں لی گئی تھی ۔ انہوں نے کہا کہ یہ اس طرح کا آپریشن تھا جیسا وزیرستان میں ہو رہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ سانحہ کی تحقیقات ہونی چاہئیں تاکہ حقیقت تک پہنچا جا سکے ۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے تازہ بیان کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اندرونی کہانی انہیں معلوم نہیں تاہم شنید ہے کہ خارجی دباو¿ کے حوالے سے ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے صدر سے ملاقات میں اعتراف کر ایا تھا ۔ اعجاز الحق نے کہا کہ جو بھی ہے ڈاکٹر عبدالقدیر خان ان کے ہیرو ہیں اور ان سے زبردستی قوم کے سامنے اعتراف نہیں کر اا جانا چاہئے تھا ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ انہوں نے ابھی کسی دوسری سیاسی جماعت میں شمولیت کا فیصلہ نہیں کیا ۔ 3 نومبر کو جو فیصلے کئے گئے تھے وہ مارشل ایڈمنسٹریٹر کے فیصلے تھے اور 12 اکتوبر کو بھی مارشل لاء لگا تھا اور آئین سے ماورا اقدامات کئے گئے تھے 9 مارچ کو وزیر اعظم کے ساتھ ازبکستان جا رہے تھے ۔ لیکن بعد میں ملتوی ہوا اور پھر چلے گئے اور جہاز میں انہوں نے وزیر اعظم شوکت عزیز سے کہا تھا کہ یہ بہت بڑی غلطی ہوئی ہے ۔ معزول چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے حوالے سے اعجاز الحق نے کہا کہ افتخار محمد چوہدری کو چیف جسٹس بحال ہونا چاہئے اور اگر دعوت دی گئی تو تحریک میں شامل ہوں گے اور ق لیگ کی اکثریت اس حق میں تھی کہ ان کی حکومت خو د ہی چیف جسٹس کو بحال کر دے اور چوہدری شجاعت حسین کے ساتھ مل کر انہوں نے کوشش بھی کی لیکن صدر اور وزیر اعظم نہ مانے ۔ سابق وزیر اعجاز الحق نے کہا کہ صدر پرویز مشرف اپنی مرضی سے کرسی صدارت پر براجمان نہیں ہیں ۔ پس منظر میں کچھ ان کو امریکہ کی پشت پناہی حاصل ہے اور پیپلزپارٹی کی مرضی بھی اس میں شامل ہے ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ 2002 ء کے انتخابات میں ان کے حلقے میں کوئی دھاندلی نہیں ہوئی تھی انہوں نے کہا کہ شوکت عزیز کو باہر سے لا کر وزیر اعظم بنانے والوں نے غلطی کی تھی اور اگر شوکت عزیز کے خلاف کوئی شواہد ہیں تو انہیں واپس بلانا چاہئے اور وہ خود بھی آ سکتے ہیں ۔امریکہ کے صدارتی انتخابات میں چاہے جو بھی پارٹی جیتے لیکن امریکہ ایشیاء کے لئے اپنا تعاون جاری رکھے گا ۔ یہ بات امریکہ کے وزیر دفاع رابرٹ گیٹس نے کہی ہے ۔ یہ پیغام انہوں نے ایشیائی سیکیورٹی اور دفاع سے متعلق ایک کانفنرس میں افسروں کو دیا ہے ۔ اس پیغام کاایک مقصد اپنے اتحادیوں کو یقین دلانا اور چین کو وارننگ دینا ہے جو حالیہ برسوں کے دوران ایک بڑی اقتصادی اور فوجی طاقت بن کر ابھرا ہے ۔ رابرٹ گیٹس نے کہا ہے کہ وہ امریکہ کے 7 صدور کی خدمت کر چکے ہیں اس لئے میں اعتماد کے ساتھ یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ امریکی انتظامیہ کی ایشیائی سلامتی کی پالیسی ہمیشہ برقرار رہے گی کیونکہ اس کے تمام مفادات اس علاقے سے وابستہ ہیں انہوں نے کہا کہ آئندہ برسوں میں امریکہ کی ایشیائ کے ساتھ وابستگیاں اور قریبی و مستحکم ہوں گی ۔ سنگاپور میں گیٹس نے چین پر تبصروں کو متوازن کرنے کی کوشش کی ۔ امریکی عہدیداروں نے کہا کہ وہ واشنگٹن کا نظریہ واضح کرنا چاہتے ہیں لیکن بیجنگ کے ساتھ کوئی کھلی دشمنی مول لینا نہیں چاہتے ۔ گیٹس نے بیجنگ کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ اس نے شمالی کوریا کی نیوکلیئر بات چیت میں زبردست تعاون کیا ہے انہوں نے چینی فوجی بجٹ مین شفافیت برتنے امریکہ کی اپیل کا اعادہ کیا ۔ جاپان کے وزیر دفاع شکیئر وا اشیبا نے بھی مفادات کے بارے میں وضاحت کرے لیکن چین کے لیفٹیننٹ جنرل مازیاو¿ نیان نے کہا کہ ان کے ملک کے دفاعی اخراجات دیگر ممالک کے مقابلہ میں کم ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ چین کے دفاع بجٹ کا دوتہائی حصہ دیکھ بھال اور تربیت پر خرچ ہوتا ہے انہوں نے امریکی میزائل دفاعی نظام پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ نظام حقیقتا صرف دفاع کے لئے نہیں ہے ۔ انہوں نے کہا کہ چین ایک امن پسند ملک ہے اور اس کے عوام بھی امن پسندہیں ہماری فوج دوسرے ملک کے لئے خطرہ نہیں ہے ۔ رابرٹ گیٹس نے کہا کہ میانمر میں سمندری طوفان سے متاثرہ ہزاروں لوگ اس وجہ سے مر گئے کیونکہ وہاں کی حکومت نے ان کے لئے غیر ملکی امداد ٹھکرا دی ۔ پینٹگان کے سربراہ نے میانمر کے فوجی حکمرانوں پر الزام لگایا ہے کہ انہوں نے غیر ملکی امداد بھیجنے کی اجازت دینے کی درخواست پر گونگے بہرے ہونے کارویہ اختیار کیا ۔ میانمر نے چار ہفتہ قبل طوفان نرگس کے آنے کے بعد امریکی فوج سے امداد قبول کرنے میں ہچکچاہٹ دکھائی جبکہ انڈونیشیا اور بنگلہ دیش جیسے ممالک حالیہ برسوں میں قدرتی آفات کے وقت اسے قبول کرتے رہے ۔ اخبارات کی عالمی تنظیم ( ورلڈ ایسوسی ایشن آف نیوز پیپرز) نے کہا ہے کہ عالمی سطح پر صحافتی آزادیاں بری طرح پامال کی جا رہی ہیں جس میں آمر حکومتوں ‘ بدعنوان حکام اور منظم گروہوں کا ہاتھ ہے ۔ ڈبلیو اے این نے چھ ماہ کی رپورٹ جاری کی ہے یہ رپورٹ تنظیم نے ورلڈ نیوز پیپرز کانگرس اور ورلڈ ایڈیٹر فورم کے سالانہ اجلاس کے موقع پر سویڈن کے شہر گوئی برگ سے شائع کی ہے ۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس وقت پوری دنیا کے اندر صحافتی آزادیوں کو شدید خطرات لاحق ہیں لاطینی امریکہ میں مختلف گروہ گینگرز اور بدعنوان حکام سے انہیں خطرہ ہے جبکہ مشرق وسطی میں آمر ‘ افریقہ میں جنگ و جدل ‘ ایشیا میں حکومتیںا ور سنٹرل ایشیا اور یورپ موت اور عدالتی کارروائیاں صحافتی آزادیوں کو پامال کررہی ہیں رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان اورافغانستان میں صحافی آزادی اظہار رائے کے لیے اپنی جدوجہد کو جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ لاطینی امریکہ میں صحافیوں پر حملے معمول بن چکے ہیں جہان مختلف گینگز اور حکام اپنے آپ پر ہونے والی تنقید کو روکنے کے لیے صحافیوں پر قاتلانہ حملے کرتے ہیں جن میںگزشتہ چھ ماہ کے دوران چار صحافی ہلاک ہوئے ہیں جبکہ لاتعداد صحافیوں پر حملہ اور انہیں ہراساں کیا گیا ہے ۔ یہ خطہ صحافیوں سے بدسلوکی کرنے میں سب سے آگے ہے ۔ مشرق وسطی اور جنوبی افریقہ مین گزشتہ چھ ماہ کے دوران آمر حکومتوں نے صحافیوں کو خاموش کرنے اور ان کی آزادی کو دبانے کے لیے کئی غیر قانونی اقدامات کیے ہیں پورے خطے میں حکومتی کنٹرول میں میڈیا کو رکھنے کی کوششیں جاری ہیں افریقہ میں بغاوت والے علاقوں میں صحافیوں مین حملوں میں اضافہ ہوا ہے اور حکومت ‘ صدر اور فوج پر تنقید کرنے کے جرم میں کئی صحافیوں کو جیلوں میں قید کر دیا گیا ہے ۔ یورپ کے کئی ممالک میں پریس کی آزادی کو بری طرح سے پامال کیا جا رہا ہے جبکہ ایشیائی ممالک میں صحافتی آزادیوں کو خطرات لاحق ہیں ۔ مختلف مقامات پر بات کرنے والے صحافیوں کو قتل کرنا اور انہیں عدالتوں میں گھیسٹنا معمول بن گیا ہے ۔ ایشیا میں صحافت کوکئی رکاوٹوں کا سامنا ہے ۔ اورخصوصا یہ رکاوٹیں حکومت کی طرف سے کھڑی کی جا رہی ہیں پاکستان اورافغانستان میں صحافی اپنے حقوق کی جنگ لڑرہے ہیں ۔ برما‘ جنوبی کوریا اور لاو¿س میں آمریت صحافیوں کو آزادانہ کام کرنے کی اجازت نہیںد ے رہی ۔ نومبر 2007 ء سے 29 صحافی قتل ہو چکے ہیں عراق صحافیوں کے لیے سب سے خونی ملک رہا ہے جہاں 9 صحافی قتل ہوئے ہیں۔ جبکہ سابق وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے مسلم لیگ (ق) سے مستعفی ہوتے ہوئے عوامی مسلم لیگ کے نام سے اپنی نئی جماعت کا اعلان کر دیا ہے ۔ انہوں نے ضمنی انتخابات میں حصہ نہ لینے کا اعلان کیا ان کی جانب سے این اے 55کے ضمنی الیکشن کیلئے بیگم نسیم نامی خاتون امیدوار کو نامزد کیا گیا ہے اس امر کا اظہار انہوں نے لال حویلی میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ شیخ رشید احمد نے کہاکہ یلو کارڈ دکھایا جاچکا ہے آصف علی زرداری اس کا اشارہ دے چکے ہیں انہوں نے کہاکہ وہ طویل انگز نہیں دیکھ رہے ہیں مختصر کھیل دیکھ رہے ہیں ضمنی انتخابات بھی زیادہ مدت کیلئے نہیں دیکھ رہا ہوں انہو ںنے کہاکہ حالات تباہی کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں لوگ حوصلے سے کام لیں ملک میں خود کشی کا رحجان تشویش ناک ہے لوگ حوصلے نہ ہاریں انہوں نے کہاکہ سیاسی صنعتکاروں اور جاگیر داروں کو دو دو تین تین بار وقت دیا گیا لوگوں کے اعتماد پر پورا نہیں اترے بد اعتمادی کی فضا ہے حالات انہائی سنگین ہی ں۔ تاہم حکمران اتحاد کیلئے دعا گو ہوں انہوں نے کہاکہ انتخابات بنیادیں ہلا دیتے ہیں عوام انتخابات میں درست فیصلے کرتے ہیں مگر ملک کی بدقسمتی ہے انہوں نے کہاکہ دو تین ماہ میں ایک بڑا سیاسی گروپ ان کی جماعت میں شامل ہو جائے گا ورکروں اور محروم پسماندہ طبقات کی حمایت ہو گی ۔ ییلو کارڈ دکھا دیا گیا ان سے حکومت نہیں چل رہی جبکہ ملک کی تاریخ کی پہلی حکومت ہے جسے پارلیمنٹ میں کسی اپوزیشن اور چیلنج کا سامنا نہیں ہے بھاری کم مینڈیٹ کو زیادہ وقت نہیں دیکھ رہا ہوں صدر مملکت حکومت کے کسی فیصلے میں رکاوٹ نہیں ہیں سارے معاملات طے ہیں یہ عوام کی توجہ دوسری طرف سے ہٹا رہے ہیں انہو ںنے کہاکہ ابھی سابقہ سٹوریاں اور کلپ دکھا رہا ہوں ٹاپ ٹو باٹم سب اس میں شامل ہیں عوامی مسلم لیگ عوام کے گرد گھومے گی خواص کی جماعت نہ ہو گی عوام سیاستدانوں سے زیادہ سمجھدار ہیں انہوں نے کہاکہ اقتدار کی اپنی اور اپوزیشن کی اپنی باتیں ہوتی ہیں جس طرح یہ ہمیں لیتے ہیں تھے ہم بھی ان کو اس طرح لیں گے ہم نے پانچ سال تک اقتدار کے مزے لوٹے ہیں اپنی ذمہ داری کو قبول کرنا چاہیے صدر کی حمایت کے بارے سوال کا جواب دیتے ہوئے شیخ رشید احمد نے کہاکہ میں نے انہیں ووٹ دیا۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ جو لوگ پانچ سال تک اقتدار کے مزے لوٹتے رہے اب اس میں کیڑے کیوں نکال رہے ہیں میں نے مسلم لیگ (ق) کو اپنا استعفیٰ بھجوا دیا ہے پنڈی میں جینا مرنا ہے موجودہ حکومت کی مدت کے حوالے سے سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہاکہ انگز کو جلد سمیٹا جائے گا شاید کچھ اور منظر ہو انہو ںنے کہاکہ موجودہ حکمران اتحاد کے پاس ججز کی بحالی کیلئے مطلوبہ ارکان کی تعداد موجود ہے شروع دن سے مائنس ون کا فارمولا چل رہا ہے۔ جبکہ عوامی حلقوں نے اس کے رد عمل میں کہا ہے کہ یہ جماعت ملک بھر کے عوام میں مقبول ہوسکتی ہے بشرطیکہ شیخ رشید کو ملک بھر کے چور ،ڈاکو ، بد معاش جاگیر داروں اور قرضہ چور سیاستدانوں کے خلاف سرعام عوام دشمن سوچ کے خلاف اعلان جنگ کرنا ہوگا۔ اے پی ایس اسلام آباد
International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment