International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.

Saturday, May 10, 2008

قوم پو چھنا چاہتی ہے کہ۔؟ تحریر اے پی ایس اسلام آباد






امریکی سفیر نے کہاتھا کہ پرویز مشرف پاکستان کے صدر ہیں اور اب اس معاملے کو چھوڑ کر آگے بڑھنا چاہئے ۔ امریکی سفیر اور یورپی یونین کے ان بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ کچھ معاہدات ضرور ہوئے ہیں جو تاحال منظر عام پر نہیں آئے یہ بڑی بدقسمتی ہے کہ پاکستان کی تقدیر بدلنے جا رہی ہے لیکن پاکستانی قوم کو ان معاہدات کے بارے میں کوئی علم نہیں ہے ۔ کیا ان معاہدات میں درج ہے کہ پرویز مشرف صدر رہیں گے ۔ معاہدات کے ضمانتی کون ہیں ۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رہے گی ۔ امریکہ کو مراعات ملتی رہیں گی اور پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی تنصیبات کی نگرانی امریکہ کرتا رہے گا ۔ اس طرح کے اور بھی بہت سے سوال ہیں کہ جن کا قوم کو کوئی جواب نہیں مل رہا ہے ۔ گاہے گاہے وہاں سے اشارے ملتے رہتے ہیں اور اسی طرح کا ایک بہت بڑا اشارہ اب امریکی کانگرس نے دیا ہے کہ پاکستان وہ کردار ادا نہیں کر رہا جو اسے کرنا چاہئے اور یہاں تک کہا گیا ہے کہ نواز شریف راہ راست پر نہیں آ رہے ۔ یہ ایک انتہائی خوفناک بات ہے لگتا ہے اگر نواز شریف امریکہ کی توقعات پر پورا نہیں اترتے تو پھر نواز شریف کے ساتھ وہی سلوک کیا جائے جیسا کہ بے نظیر بھٹو ‘ جنرل ضیاء الحق ، ذوالفقار علی بھٹو اور لیاقت علی خان سے کیا گیا ۔ اور جو بھی انکار کرے گا اسے کہنا پڑے گا کہ ” فرینڈ، ناٹ ماسٹرز “ لیکن اس وقت بہت دیر ہو چکی ہو گی پیپلزپارٹی کے راہنما چونکہ معاہدات کے مطابق چل رہے ہیں جبکہ اس سے پہلے بے نظیر بھٹو نے تو معاہدات سے بغاوت کر دی تھی ۔عوام کو یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ یہ معاہدات کیا ہیں کیونکہ معاہدات کے سرعام نہ آنے سے پاکستانی پارلیمنٹ قوم کے مینڈیٹ ‘ آزادی اور حاکمیت اعلیٰ پر حرف آتے ہیں ۔ جبکہ حمید گل نے یہ بھی کہا ہے کہ یا تو ہمارے لیڈر اپنے آپ کو ان معاہدات سے الگ کریں اور راستے میں تبدیلی لائیں بصورت دیگر ملک تباہی کی طرف جائے گا ۔ قوم بغاوت کر دے گی کیونکہ لوگ بھوکوں مر رہے ہیں ۔ شاید امریکہ بھی یہی چاہتا ہے کہ ملک میں خانہ جنگی ہو ۔ فلسطین کی طرح وہاں حماس نے دوتہائی اکثریت حاصل کر لی تھی لیکن امریکہ نے محمود عباس کو قائم رکھا اور پرویز مشرف کی حیثیت بھی وہی ہے ۔ وقت آ گیا ہے کہ قوم اور لیڈران ان معاہدات کو منظر عام پر لانے کا مطالبہ کریں تاکہ پتہ چلے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں ۔ امریکہ کو اپنی امداد کا دکھ ہے تو اسے پاکستان کی قربانیوں کو بھی دیکھنا چاہئے کیا ہمارا خون اتنا ہی سستا ہے کہ امریکہ اس کو پس پشت ڈال دے ۔ اگر امریکہ امداد کا حساب مانگتا ہے تو ہمیں بھی اپنے جوانوں کے خون کا حساب مانگنا چاہئے ۔ امریکہ کو پاکستانی عوام کی رائے کا احترام کر نا چاہیے 18 فروری کو عوام نے واضح طور پر صدر مشرف اور ان کی پالیسیوں کو مسترد کر دیا ہے امریکہ کو فرد واحد کی حمایت کر نے کی بجائے پاکستان میں عوام دوست پالیسیوں کی حمایت کرنی چاہیے امریکہ کی دوغلی پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان میں امریکہ کے خلاف نفرت میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے ایک طرف امریکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر اربوں ڈالر خرچ کر رہا ہے امریکی حکام کو چاہیے کہ پاکستان میں جمہوریت اور مضبوط اداروں کو سپورٹ کیا جائے نہ کہ ایک آمر کے ہاتھ مضبوط کیے جائیں۔ 3 نومبر کے تمام اقدامات غیر آئینی تھے اور آئین کی نظر میں کوئی اقدام یا تو آئینی ہو سکتا ہے یا غیر آئینی ماورائے آئین اقدام کی کوئی اصطلاع قابل قبول نہیں ہو سکتی ۔ کسی فرد واحد کو یہ اختیار نہیں کہ وہ اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کو برطرف کر سکے ۔ قرار داد کا مسودہ تیار ہو چکا ہے جس کے تحت ججوں کو غیر مشروط طور پر بحال کیا جانا چاہئے اس کے بعد اگر پارلیمنٹ کوئی آئینی پیکج لانا چاہے تو یہ اس کا حق ہے ۔ عوام کی خواہش کے برعکس عدلیہ کی آزادی پر قدغن عائد کرنا درست اقدام نہیں ہو گا ۔ عوام نے حکومت کوعدلیہ کی آزادی ججوں کی بحالی اور معیشت کی بحالی سمیت تمام چیزوں کا مینڈیٹ دیا ہے ۔ اس کی اولین ترجیح ملک میں امن و امان اور اقتصادی بحران پر قابو پانا ہونا چاہیے۔ ۔ججوں کا مسئلہ بھی حل ناگزیر ہے اورانھیں دوسرے مسائل بھی حل کر نے چاہیے 12 مئی کو ججوں کی بحالی کے لیے قومی اسمبلی کا اجلاس ہوتا نظر نہیں آرہا ۔ ججوں کی بحالی کی قرا رداد پیش کرنے کے لیے سینٹ اور قومی اسمبلی کا مشترکہ اجلاس طلب کرنا ہو گا جو صرف صدرہی بلا سکتے ہیں اور اگر ججوں کی تعداد بڑھانا ہوئی تو صدارتی آرڈنینس کے ذریعے ہو گی تو بھی صرف صدر ہی آرڈنینس جاری کر سکتے ہیں ۔ ججوں کی بحالی کی قرار داد پارلیمنٹ میںپیش کی جائے گی اور آئین کے مطابق پارلیمنٹ سے مراد قومی اسمبلی اور سینٹ دونون ہیں اس کے لیے سینٹ اور قومی اسمبلی کا مشترکہ اجلاس بلانا ہوگا جس کا اختیار صدر کے پاس ہے قرار داد سے بحال کرنے کی جب بات کی جاتی ہے تو اس کے دو طریقے سامنے آرہے ہیں ۔ پہلا تو یہ کہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوںکا مشترکہ اجلاس صدر طلب کریں اور دوسرا طریقہ یہ ہے کہ آئین کے آرٹیکل 89 کے تحت صدر کے ذریعے آرڈنینس لایا جائے جو تحفظات باقی ہیں اس کے حوالے سے پارٹی سربراہان فیصلہ کریں اور جیسے ہی یہ تحفظات دور ہوںاجلاس کے لیے سمری بھجوادیں۔جبکہ ججوں کی بحالی کے حوالے سے 12 مئی آخری ڈید لائن ہے اورا گر یہ فیصلہ اس دن نہ ہوا توپی ایم ایل ن جماعت وہی کرے گی جو اسے کرنا چاہیئے۔ ججوں کی بحالی کے حوالے سے میعاد میں بارہ مئی تک توسیع بھی کوئی مناسب فیصلہ نہیں تھا۔ ا ور اس سے مزید آگے بڑھنے کا کوئی جواز ہی نہیں ہے اگر 12 مئی کو اس حوالے سے فیصلہ نہ ہوا تو مسلم لیگ(ن) وہی کچھ کرے گی جو اسے کرنا ہے ۔ اگرچہ مسلم لیگ(ن) 12 مئی کی کمٹمنٹ کے حوالے سے سنجیدہ ہے ۔ اسی لیے تمام ارکان قومی اسمبلی کو اسلام آباد بلا لیا گیا ہے ۔ بارہ مئی کو گیارہ بجے ن کااجلاس ہو گا اور اگر وعدے کے مطابق اس دن قومی اسمبلی کا اجلاس بلالیا گیا تون والے اسمبلی میں جائیں گے ورنہ فیصلہ اس اجلاس میں کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ تیس دنوں کے بعد بارہ مئی اور اب اگر قانونی پیچیدگیوں میں الجھانے کی کوشش کی گئی تو مسلم لیگ(ن) اپنا حتمی فیصلہ کرے گی ۔ ججوں کی بحالی کے معاملے پر حکمران اتحاد میں اختلافات پائے جاتے ہیں اور دونوں کی آراء مختلف ہیں۔ حکومت یا کوئی دوسری طاقت 2نومبر 2007 والی عدلیہ کو بحال ہونے سے نہیں روک سکتی۔ عوام کو امید ہے کہ جج صرف ایک حکم سے بحال کئے جا سکتے ہیں لیکن یہ صرف موجودہ حکومت پر منحصر ہے۔ ججوں کی بحالی کا ایشو عوام کی نظروں، آئین اور قانونی ماہرین کے مطابق بڑا واضح ہے کہ اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ بالآخر جج بحال ہی ہوں گے دو قانونی ماہرین، کمیٹی کے ارکان ججوں کی بحالی کے ایشو پر مختلف خیالات رکھتے ہیں، اس لئے یہ معاملہ سیاسی قیادتوں کے ہاتھ میں چلا گیا ہے۔ یہ بڑا سادہ سا کیس ہے جس کے حل کے لئے پارلیمنٹ کی قرار داد بھی ضروری نہیں۔ تاریخ میں کبھی نہیں ہوا کہ فرد واحد کی آئین میں کی گئی ترامیم دو تہائی اکثریت کی منظوری کے بغیر آئین کا حصہ بن جائیں۔ ایک آئینی ماہر کا کہنا ہے کہ اگر صدر پرویز آرڈیننس کے اجراء میں غیر ضروری تاخیر کرتے ہیں یا نفاذ سے انکار کرتے ہیں تو پارلیمنٹ کے ذریعے مذکورہ ایکٹ میں مطلوبہ ترمیم کی جاسکتی ہے تاہم آئین کے آرٹیکل 89 کے تحت صدر کسی آرڈیننس جس کو وزیراعظم کا ایگزیکٹو آرڈر بھی کہا جا سکتا ہے ،پر دستخط کیلئے کسی ٹائم فریم کے پابند نہیں ہیں وہ یہ نکتہ نظر اختیار کرسکتے ہیں کہ آرڈیننس آئین یا سپریم کورٹ کے کسی فیصلے سے متصادم ہے اس لئے اس پر دوبارہ غور کیا جانا چاہیے ‘ یہ تاخیر کی وجہ ہوسکتی ہے۔ آرٹیکل 75 کے مطابق صدر پارلیمنٹ کے منظور کردہ بل کو 30یوم میں منظور کرینگے یا پارلیمنٹ کو پیغام کے ساتھ واپس بھیجیں گے کہ وہ اس پر دوبارہ غور کرے‘ ان کی طرف سے تجویز کردہ تبدیلیاں پارلیمان میں دوبارہ زیر غور لائی جائیں گی‘ پارلیمنٹ بل کو اصل شکل میں یا صدر کی خواہش کے مطابق ترامیم سمیت منظوری کے بعد صدر کو بھیجتی ہے تو وہ اسے نامنظور نہیں کرسکتے یعنی یہ بل اپنے آپ قانون بن جاتا ہے کیونکہ حکومتی اتحاد کی اہم پارٹیوں میں اتفاق رائے ہے اس لئے پارلیمنٹ سے ایسے کسی بل یا آئینی ترمیم کی منظوری کوئی مسئلہ نہیں ہوگا‘ نواز شریف حکومت کے دوران 14 ویں آئینی ترمیم دونوں ایوانوں میں منٹوں میں منظور کرلی گئی۔ جسٹس افتخار محمد چوہدری بحالی کے بعد موجودہ چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر اور چاروں ہائیکورٹس کے چیف جسٹس موجودہ چیف جسٹس صاحبان کی جگہ لیں گے۔ سپریم کورٹ میں ججوں کی تعداد سے متعلق ایکٹ میں کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس کے علاوہ 16 جج ہونگے‘ معزول ججوں کی بحالی کے بعد تعداد 26 + 1(چیف جسٹس) کرنا پڑیگی‘ جسٹس جاوید اقبال کو بحالی میں شمار نہیں کیا جارہا جبکہ جسٹس رانا بھگوان داس پہلے ہی ریٹائر ہوچکے ہیں اگر سپریم کے ججوں کی ریٹائرمنٹ کی عمر65برس برقرار رہتی ہے تو3 نومبر کو پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے جسٹس محمد نواز عباسی آئندہ جون میں ریٹائر ہوجائیں گے۔ جبکہ ججوں کی عدم بحالی پر 12 مئی کو وکلا نے” یوم سیاہ“ منانے کا اعلان کیا گیا ہے۔ موجودہ پارلیمنٹ بھی ماضی کی طرح غلام ہے،وعدوں سے ہٹ کر موجودہ اسمبلی5سال تو کیا 5دن بھی نہیں چل سکتی اور اگر پارلیمنٹ ججزکو‘ آئین کے مطابق بحال نہیں کرپائی تو صدر پرویز مشرف پارلیمنٹ توڑنے میں حق بجانب ہونگے۔ا 18 فروری کو پرویز مشرف کمزور ترین تھے آج پھر سیاستدانوں کے غلط فیصلوں کی وجہ سے وہ مضبوط ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ عدلیہ میں ججوں کی تعداد بڑھانے سے ابتری اور بدانتظامی پیدا ہوگی، آئینی پیکیج کے نام پر عدلیہ کے پر کاٹنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ججوں کو ایک قرارداد کے ذریعے بحال کروایا جا سکتا تھا لیکن کمیٹی بنا کر اس معاملے کو الجھایا جارہاہے۔ججوں کی بحالی کی تفصیلات طے کرنے کیلئے قائم کی گئی کمیٹی کی تشکیل کے عمل میں عبدالحفیظ پیرزادہ کا نام کس نے پیش کیا اس معاملے پر خاصا کنفیوڑن پایاجاتا ہے، یہ کنفیوڑن شہباز شریف کی جانب سے زرداری کے اس دعوے کو مسترد کرنے سے مزید بڑھ گیا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ صدر پرویز کے اس آئینی جادوگر کو کمیٹی میں رکن کے طور پر دراصل نواز شریف کیمپ نے نامزد کیا تھا۔پاکستان پیپلزپارٹی کے سربراہ آصف علی زردای کی جانب سے میڈیا کے سامنے بہ تکرار اس انکشاف نے کئی حلقوں کی تیوریاں چڑھا دی ہیں کہ پاکستان مسلم لیگ نواز کے سربراہ نواز شریف نے عبدالحفیظ پیرزادہ کا نام کمیٹی کے رکن کی حیثیت سے پیش کیا تھا۔عبدالحفیظ پیرزادہ (جو کہ صدر پرویز کے کیمپ کے معروف رکن اور صدر پرویز کی حمایت میں سخت گیر رویہ رکھتے ہیں،)نے تین نومبر کے اقدامات، آئین کی معطلی ، اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی معزولی اور پاکستان کے آئین میں فردواحد کی جانب سے ترامیم جیسے اقدامات کی حمایت کی تھی ، عبدالحفیظ پیرزادہ صدر مشرف کے تمام اقدامات کی کھلی وکالت کرتے ہیں اور وہ سکڑتی ہوئے ایوان صدر کی اعلیٰ ترین شخصیت کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہتے ہیں ، جب دبئی میں نواز شریف اور زرداری کے مابین ہونے والے مذاکرات کے دوران کمیٹی کے رکن کی حیثیت سے عبدالحفیظ پیرزادہ کا نام پیش ہوا تو تجزیہ نگاروں کا خیال تھا کہ یہ زرداری کا کام ہوگا اور اس طریقے سے انہوں نے ایوان صدر سے اپنی ڈیل کے پس منظر میں ججوں کی بحالی کی مذکورہ کمیٹی میں مشرف کیمپ کی نمائندگی یقینی بنائی ہے، لیکن زرداری کی جانب سے بار بار یہ دعویٰ بڑے پیمانے پر پریشاں فکری کا باعث بن رہا ہے کہ پیرزادہ کو نواز شریف نے نامزد کیا تھا۔میاں شہباز شریف نے بتایا ہے کہ عبدالحفیظ پیرزادہ کا نام نواز شریف نے پیش نہیں کیاتھا بلکہ یہ نام خود آصف علی زرداری نے پیش کیا تھا، انہوں نے مزید کہا کہ ” ہم نے صرف آصف علی زردری کی جانب سے کی گئی نامزدگی کو قبو ل کیا تھا، ہم نے ان سے کہا تھا کہ ہم آپ کی جانب سے دیئے گئے کسی بھی نام کو قبول کرنے کیلئے تیار ہیں ، انہوں نے یہ بھی یاد دلایا کہ وہ (زرداری) اس وقت دبئی میں یہ بھی کہہ چکے تھے کہ پیرزادہ انکا دوست ہے اور یہ کہ کمیٹی میں ان کے نام کی شمولیت سے انہیں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔وفاقی وزیر تعلیم احسن اقبال نے کہا ہے کہ کابینہ میں شامل ہونے کا کوئی ارادہ نہیں تھا لین جب اعلان مری کے مطابق 30دنوں کے اندر معزول ججوں کو بحال کرنے کا اعلان کیا گیاتو ہم نے کابینہ میں شمولیت اختیار کر لی ۔وفاقی وزیر تعلیم نے کہاکہ میثاق جمہوریت 2006ء میں کہاگیا تھا کہ کوئی جج پی سی او کے تحت حلف نہیں لیں گے اور ایمر جنسی کے نفاذ کے بعد ان ججز نے حلف لینے سے انکار کر دیا ایمر جنسی کے نفاد کے بعد پی سی او کے تحت حلف نہ لینے والے ججز نے میثاق جمہوریت پر عملدر آمد کیا تو ہم ان ججز کو ہر صورت بحال کریں گے کوئی ذاتی مفادات کا تحفظ نہیں کیاجائے گا ایک سوال کے جواب میں انہوں نے امید ظاہر کی کہ بارہ مئی تک ججز کی بحالی ممکن ہو جائے گی انہوں نے کہاکہ پی پی پی کے کارکنوں نے ہمارے ساتھ گو مشرف گو کے نعرے لگائے انہوں نے کہاکہ کچھ عناصر موجودہ حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی سازش کر رہے ہیں لیکن حکومت جمہوریت کو آگے بڑھا کر ججز کو بحال کرے گی اور اتحادی حکومت بھی آگے چلے گی ۔جبکہ اے پی ڈی ایم نے واضح کیا ہے کہ 12 مئی کو ججز بحال نہیں ہوںگے تو حکمران اتحاد اپنے اقتدار کو بھی برقرار نہیں رکھ سکے گا۔ اور اسے عوامی غیض و غضب کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔ چیف جسٹس افتخارمحمد چوہدری کو بحال نہ کیا گیا تو وہ امام خمینی بن کر ابھریں گے۔اس ایشو پر آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف امریکہ کوکرائی گئی یقین دہانی سے دستبردار ہوں قوم ان کے شانہ بشانہ کھڑی ہو گی چودہ مئی کواسلام آباد میں اے پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس میں آئندہ کا لائحہ عمل کا اعلان کیا جائے گا۔ انتخابات میں حصہ لینے والی جماعتوںکو پرویز مشرف کی غیر آئینی صدارت کے خاتمے ‘ ججز کی بحالی کا مینڈیٹ ملا ہے ۔ حکمران اتحاد آٹھ سالہ پالیسیوں کو ختم کرکے ملک کو استعماری قوتوں سے آزادی دلائیں ۔ پرویز مشرف نے ملک کو قیام پاکستان کی منزل سے دور کیا ہے ۔ اعلان مری کا پوری قوم نے خیر مقدم کیا ہے ۔ 30 اپریل کو قوم ججز کی بحالی منتظر تھی ۔ عدلیہ کو اس قدر آزاد اور خود مختار ہونا چاہیئے کہ ریاستی ادارے اگر قانون و آئین کو توڑے تو ان پر گرفت ہو سکے ۔ پہلے سیاسی جماعتیں فوجی آمریت سے سمجھوتہ کرکے انتخابات میں حصہ لیتی رہی ہیں جس سے آمرانہ قوتوںکو تقو یت ملتی رہی ہے ۔ حقیقی معنوں میں بااختیار پارلیمنٹ نہیں مل سکا ۔ پہلی مرتبہ سیاسی جماعتوں کا ملٹری ڈکیٹیٹر سے الگ ایجنڈا ہے ۔ تیس دن کا وقت ضائع کرکے حکمران اتحاد کی ساکھ کو نقصان پہنچا ہے ۔ قوم کو بارہ مئی کے حوالے سے امیدیں ہیں ججز بحال ہو جائیں گے۔ حکمران اتحاد 3 نومبر اور اس کے بعد پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے ججوں کو بھی بحال کرنا چاہتے ہیں ۔ قوم پوچھنا چاہتی ہے کہ مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی نے اس معاملے پر کیوں سمجھوتہ کیا اور وکلاء کی تحریک سے کیوں انحراف کیا جا رہا ہے ۔ فوجی آمریت کے احکامات کیوں قبول کیے جار ہے ہیں ۔ پی سی او کے تحت ججز کوقائم رکھنے سے عدلیہ آزاد نہیں ہو گی ۔ ان ججز کی بحالی کا مطلب یہ ہے کہ حکمران اتحاد نے پی سی او اور تین نومبر کے اقدامات کو قبول کر لیا ہے ۔ موقف پر ڈٹ جانے والی ججز عدلیہ میں اپنی منشاءاور مرضی کے مطابق فیصلے نہیں کر سکیں گے۔ کیونکہ وہ قلیل تعداد میں ہوں گے اور یہی امریکہ چاہتا ہے کہ دوبئی اور لندن میں مذاکرات کے ذریعے ا س شک کو تقویت مل رہی ہے کہ استعماری قوتوں نے اپنے مقاصد کے لیے سیاسی قیادت کو دباو¿ میں رکھا ہوا ہے ۔ حکمران اتحاد یکسوئی کے ساتھ انتظامی اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے ججز کو بحال کرتا ‘ فوج اور آرمی ہاو¿س اور امریکہ سے جس ردعمل کا اظہار ہوتا پوری قوم اس کی مزاحمت کرتی ۔ پرویز مشرف مسلم لیگ(ق) ‘ آزاد اور فاٹا کے ارکان کو اکٹھا کرکے 190 ارکان جمع کر سکتے ہیں ایسے میں حکومت کی کوئی ساکھ نہیں ہو گی ۔ یقینا سنگین بحران ہے ۔ جب تک پارلیمنٹ آئین و قانون کی بالادستی اور ملک درست سمت پر گامزن نہیں ہوتا۔ کوئی بحران حل نہیں ہو گا۔ عوام کا مطالبہ ہے کہ قومی مفادات پر سمجھوتہ نہ کیا جائے ۔ پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے ججوں کو قبول نہ کیا جائے ۔ پرویز مشرف غیر مقبول اور قابل نفرت بن چکے ہیں ۔ آرمی ہاو¿س ‘ ملک اور ایوان صدر کو اس شخص سے پاک کیا جائے ۔ جنرل (ر) حمید گل نے کہا کہ امریکی مفادات قوم کی بقاء اور سلامتی سے براہ راست متصادم ہے ۔ عدلیہ کی آزادی درحقیقت قانون کی حکمرانی ہے ۔ پرویز مشرف امریکہ کی حمایت پر راستے کا پتھر بنا ہوا ہے ۔ یہی ایک نکاتی ایجنڈا ہونا چاہیئے ۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری آئے اور پرویز مشرف جائے ۔ اے پی ایس اسلام آباد

No comments: