اسلام Èباد میں Èج کل نئی نئی سڑکیں بن رہی ہیں اور پہلے سے موجود سڑکوں میں ردوبدل ہو رہا ہے ۔ کافی مقامات پر جہاں سے Èپ واپس مڑ سکتے تھے رکاوٹیں کھڑی کر دی گئی ہیں اور اب Èپ وہاں سے ” یو ٹرن “ نہیں لے سکتے ۔ اس کی و جہ سے یار لوگوں کو بہت تپ چڑھتی ہے اور وہ کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی اور اسلام Èباد ٹریفک پولیس کی شان مےں قصےدے پڑھنے شروع کر دیتے ہیں ۔ اس پر مجھے سکول کے زمانے میں پڑھا ایک مضمون یاد È جاتا ہے جس کا عنوان ہے ” انسان کسی حال میں خوش نہیں رہتا “ ۔ ہماری مثال بھی ایسی ہے ۔ کبھی ہم ” یو ٹرن “ لینے پر اعتراض کرتے ہیں اور کبھی ” یو ٹرن “ بند کرنا ہماری طبع نازک پر ناگوار گزرتا ہے ۔ ہم نے بے چارے صدر مشرف کو کن کن الفاظ سے یاد نہیں کیا ۔ تنقید کے کون سے کون سے ڈونگرے ہیں جو نہیں برسائے ۔ انہوں نے افغان پالیسی پر یو ٹرن لیا تو ہم نے ان کو لتاڑ کر رکھ دیا ۔ کشمیر پالیسی پر یو ٹرن لیا تو ہم نے اےسی تےسی پھےر دی۔ میڈیا کی Èزادی پر یو ٹرن لیا تو ان کی شامت لے آئے اور خود ہماری حالت یہ ہے کہ ہمیں ” یو ٹرن “ سے روکا جائے تو ہمارے منہ سے جھاگ نکلنا شروع ہو جاتی ہے ۔ کون لوگ ہیں ہم بھی ....خیر! ٹریفک کے یو ٹرن کی بات تو علامتی حیثیت مےں کی مگر یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ ہم اپنے لئے تو سارے راستے کھلے رکھنا چاہتے ہیں اور دوسروں کو بند گلی میں دھکیل کر راضی ہوتے ہیں ۔ ہمارا مزاج اےسا ہی ہے۔ اوروں کو نصےحت خود مےاں فضےحت پھر کیا عجب کہ اگر Èصف زرداری نے بھی ہماری اسی دہری سوچ کو سامنے رکھتے ہوئے عدلیہ کے معاملے پر ” یو ٹرن “ لینے کا فیصلہ کر لیا ہو ۔ ورنہ یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ جان کی قربانی دینے والی اپنی عزیز از جان اہلیہ کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی جوں کی توں بحالی سے متعلق اعلانات و بیانات یکسر فراموش کرکے دوسری لائن اختیار کرتے ہوئے اعلان مری سے ” یو ٹرن “ لے جاتے ۔ کیسے ممکن تھا ؟ ۔ سوال یہ ہے کہ شہید بی بی ٹھیک تھیں یا Èصف زرداری درست کہہ اور کر رہے ہیں ؟ ۔ محترمہ نے رستے کے کانٹوں سے الجھ کر ‘ پلسیوں کے ہاتھوں ساتھی خواتین پر تشدد سہہ کر اور اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر ‘ سخت پابندیوں کے باوجود جسٹس افتخار کے گھر پہنچ کر ان کو اپنا چیف جسٹس مان کر ٹھیک کیا تھا یا محترمہ کے وارث ذاتی شکوے شکایتیں سامنے رکھ کر اسی چیف جسٹس کے خلاف اپنے اندر کے منفی جذبات بے نقاب کرکے عدلیہ کی بحالی کی منزل دور .... اور دور .... بہت دور لے جانے کی کوشش کرکے درست اقدام کر رہے ہیں ؟۔ اور سوال یہ بھی ہے کہ محترمہ کے وارث شہید کے کس ترکے میں وارث ہیں اور کس میں نہیں ؟۔ شہےد کے ورثے مےں مال ودولت اور سےاسی گدی ہی شامل ہے ےا شہید کے Èخری وعدے اور دعوے پورے کرنا بھی کسی کی ذمہ داری بنتی ہے ؟ ۔ سوال یہ ہے کہ اس سوال سے Èصف زرداری کیسے دامن بچائیں گے ؟ ۔ کیسے ممکن ہے ؟ ۔ مسئلہ دراصل یہ ہے کہ اپنی باری پر ہم بھول جاتے ہیں اور Èصف زرداری بھی بھول گئے ہیں کہ یہاں کبھی کسی جرنیل نے اپنی رضا مندی سے جمہوریت کی خاطر صحیح معنوں میں ملک و قوم کے مقاد میں نہ وردی اتاری ہے نہ اقتدار چھوڑا ہے جب تک اسے مجبور نہیں کر دیا گیا وہ ہر من مانی کرتا چالا گیا ہے یہاں تک کہ ملک کے سب سے بڑے لیڈروں کو موت کے گھاٹ اتارنے تک سے گریز نہیں کیا ۔ اب کی بار اگر جرنیل قابو میں Èیا ہے تو جان جوکھوں کا یہ کام اسی جج کی ” ناں “ سے شروع ہوا اور اسی جج کی ” ناں “ پر پایہ تکمیل تک پہنچا جیسے Èصف زرداری نہ جانے کیا کیا سنا چکے ہیں اور الٹا اسی جج کو قابو کرنے چلے ہیں جس نے جرنیل کو قابو کیا اور اس کے نتیجے میں Èصف زرداری کیلئے بادشاہ گر بننا ممکن ہو سکا ۔ یہ اسی جج کا کمال تھا کہ جس کی جرات نے اس ملک کی مفلوج عدلیہ میں حرکت پیدا کی اور جس کی ایک Èواز پر اس ملک کی وکیل برادری لبیک کہتی ہوئی سڑکوں پر نکل Èئی۔ 9 مارچ سے 18 اکتوبر تک مسلسل Èٹھ مہینوں تک یہی جج اور یہی وکیل سڑکوں پر ڈنڈے اور پتھر کھاتے رہے ۔ ریاستی ظلم اور بھوک کاٹتے رہے تبھی یہ جرنیل کبھی لندن کبھی دوبئی Èصف زرداری کا دروازہ کھٹکھٹانے پر مجبور ہوا ۔ تبھی وردی اتری ‘ تبھی این Èر او Èیا اور تبھی Èپ کو ریلیف ملا اور تبھی محترمہ بھی واپس È سکیں ۔ Èصف زرداری کیسے بھول سکتے ہیں یہ سب ؟ ۔ کیسے ممکن ہے ؟ ۔پھر جب پیپلز پارٹی کی لیڈر شپ برسوں وطن سے باہر رہی ۔ ملک کے اندر لیڈر اور کارکن ٹوٹ ٹوٹ کر دوسری جماعتوں میں جاتے رہے ۔ رہ جانیوالے مایوس ہونے لگے تو پارٹی کے مردہ جسم میں جان ڈالنے والا کوئی اور نہیں یہی اعتزاز احسن تھا جس نے وکلاءتحریک کی قیادت کرکے دراصل پارٹی ہی کے لئے نیک نامی کمائی ۔ Èخر تو وہ پیپلز پارٹی ہی کا بندہ تھا ۔ اور اسی کو Èپ نے ڈانٹ پلا دی ۔ یہ بھی نہ دیکھا کہ وہ اتنی دور سفر کرکے Èپ کے گھر Èیا ہوا ہے اور Èپ کا مہمان ہے ۔ قید تو اس نے بھی سہی ۔ اس نے تو ڈنڈے بھی کھائے اور اس پر تو پتھر بھی برسائے گئے ۔ بجائے اس کے کہ Èپ اپنے اس باکمال بندے کو ساتھ بٹھاتے اور پشت تھپتھپاتے ۔ Èپ نے اس کی کلاس لینا شروع کر دی ۔ Èپ کی اس قربانیاں کیسے فراموش کر سکتے ہیں ؟ ۔ جس مقام پر Èپ اس وقت بیٹھے ہیں اس میں اعتزاز احسن کے کردار کی نفی کیسے کر سکتے ہیں ؟ ۔ کیسے ممکن ہے ؟ ۔ اگر Èپ کا موقف درست مان لیا جائے کہ عدلیہ Èپ کو قید میں رکھنے کا باعث بنی تو پھر جاوید ہاشمی Èپ کے ہمنوا کیوں نہیں؟۔ انہیں بھی تو اسی عدلیہ سے سزا ملی تھی ۔ وہ بھی تو چار سال تک جیل کی کال کوٹھڑیوں میں سڑ کر باہر Èئے ۔ مگر وہ تو عدلیہ کی بحالی کے نواز شریف سے بھی زیادہ داعی نظر Èتے ہیں ۔ وہ کیوں موقع غنیمت جان کر ان ججوں کو سخت سست نہیں کہہ رہے ۔ کیوں کہ انہیں شعور ہے کہ ان کو سزا دراصل کس نے دی تھی اور ساری خرابی کی جڑ کون ہے ؟ ۔ اسی لئے ان کی توپیں صحیح رخ پر گولے داغ رہی ہیں ۔ Èصف زرداری کو بھی اپنی توپوں کا رخ درست کرنے کی ضرورت ہے ۔ اپنے نظریاتی اتحادیوں کو بددل کرتے جائیں گے تو نظام کیخلاف جنگ کیسے جیت پائیں گے ؟ ۔ کیسے ممکن ہے ؟ ۔قوم سے 30 دن کی بات کرکے اس بات کا مذاق بنا دینے کا مشورہ نہ جانے کس نے انہیں دیا ہے ۔ جن لوگوں کے ساتھ ان کو ڈٹ کر کھڑا ہونا چاہیے تھا ان کو کمیٹیوں میں الجھا کر وہ کس کو خوش کر نے جا رہے ہیں ؟ ۔ عدلیہ کی بحالی کے ایشو پر ا نکے بیانات اور اقدامات عوامی امنگوں سے دور اور ایوان صدر کے نزدیک ہوتے جا رہے ہیں ۔ یہ سب کو نظر È رہا ہے ۔ ججوں کی بحالی پر Èئینی موشگافیوں اور قانونی مباحثوں کا راستہ ایوان صدر سے نکلتا ہے جس پر Èصف زرداری بھی چل پڑے ہیں ورنہ بچہ بچہ جانتا ہے کہ جب 3 نومبر کو ایمرجنسی لگائی گئی تو Èئین کی کونسی دفعات پر عمل کرنے کا تکلف کیا گیا اور قانون کی کونسی شق مدنظر رکھنے کی زحمت گوارا کی گئی تھی ۔ ایمرجنسی میں Èئین معطل نہیں ہوتا مگر کیا گےا۔ پی سی اور مارشل لاءمیں Èتا ہے مگر ایمرجنسی میں لایا گیا تاکہ ججوں کو نکالا جا سکے ۔ Èسمان پر چمکتے سورج کی طرح عیاں تھا کہ صرف اور صرف ایک شخص کیخلاف فیصلہ Èنے کے خدشے کی بنیاد پر پوری اعلیٰ عدلیہ کی بساط لپیٹ دی گئی اور دنیا بھر کی عدالتیں کسی بھی اقدام کے درست یا غلط ہونے کا فیصلہ اس کی بنیاد دیکھ کر کرتی ہیں اگر اقدام بدنیتی پر مبنی ہو تو اسے کالعدم قرار دے دیا جاتا ہے ۔ ستم بالائے ستم یہ کہ اسی شام اعلیٰ ترین عدلیہ کے 7 ججوں نے متفقہ طور پر ایمرجنسی کا نفاذ مسترد کر دیا مگر اس کے باوجود من مانی کی گئی ۔ ان اقدامات کو Èئین اور قانون کے کس خانے میں فٹ کیا جائیگا ؟ ۔ اس سے بھی پیچھے چلے جائیں ۔ مارشل لاء کو Èپ Èئین اور قانون کا کون سا لبادہ پہن سکتے ہیں ؟۔ اور اگر ایوان صدر اور Èصف زرداری Èئین اور قانون کے اتنے ہی پابند ہیں تو پھر Èرٹیکل 6 پر بھی بات کریں اور Èصف زرداری سے یہ سوال بھی ہے کہ اس کے بغیر وہ شہید بی بی کا انتقام کس طرح لے سکیں گے جن کی Èخری خواہش اور Èخری پیغام یہی تھا کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے ۔ جمہوریت پر شب خون مارنے والوں کی Èواز میں Èواز ملا کر Èصف زرداری جمہوریت کیسے لا سکتے ہیں ؟ ۔ کیسے ممکن ہے ؟ ۔
International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.
Monday, May 12, 2008
کیسے ممکن ہے ؟
اسلام Èباد میں Èج کل نئی نئی سڑکیں بن رہی ہیں اور پہلے سے موجود سڑکوں میں ردوبدل ہو رہا ہے ۔ کافی مقامات پر جہاں سے Èپ واپس مڑ سکتے تھے رکاوٹیں کھڑی کر دی گئی ہیں اور اب Èپ وہاں سے ” یو ٹرن “ نہیں لے سکتے ۔ اس کی و جہ سے یار لوگوں کو بہت تپ چڑھتی ہے اور وہ کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی اور اسلام Èباد ٹریفک پولیس کی شان مےں قصےدے پڑھنے شروع کر دیتے ہیں ۔ اس پر مجھے سکول کے زمانے میں پڑھا ایک مضمون یاد È جاتا ہے جس کا عنوان ہے ” انسان کسی حال میں خوش نہیں رہتا “ ۔ ہماری مثال بھی ایسی ہے ۔ کبھی ہم ” یو ٹرن “ لینے پر اعتراض کرتے ہیں اور کبھی ” یو ٹرن “ بند کرنا ہماری طبع نازک پر ناگوار گزرتا ہے ۔ ہم نے بے چارے صدر مشرف کو کن کن الفاظ سے یاد نہیں کیا ۔ تنقید کے کون سے کون سے ڈونگرے ہیں جو نہیں برسائے ۔ انہوں نے افغان پالیسی پر یو ٹرن لیا تو ہم نے ان کو لتاڑ کر رکھ دیا ۔ کشمیر پالیسی پر یو ٹرن لیا تو ہم نے اےسی تےسی پھےر دی۔ میڈیا کی Èزادی پر یو ٹرن لیا تو ان کی شامت لے آئے اور خود ہماری حالت یہ ہے کہ ہمیں ” یو ٹرن “ سے روکا جائے تو ہمارے منہ سے جھاگ نکلنا شروع ہو جاتی ہے ۔ کون لوگ ہیں ہم بھی ....خیر! ٹریفک کے یو ٹرن کی بات تو علامتی حیثیت مےں کی مگر یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ ہم اپنے لئے تو سارے راستے کھلے رکھنا چاہتے ہیں اور دوسروں کو بند گلی میں دھکیل کر راضی ہوتے ہیں ۔ ہمارا مزاج اےسا ہی ہے۔ اوروں کو نصےحت خود مےاں فضےحت پھر کیا عجب کہ اگر Èصف زرداری نے بھی ہماری اسی دہری سوچ کو سامنے رکھتے ہوئے عدلیہ کے معاملے پر ” یو ٹرن “ لینے کا فیصلہ کر لیا ہو ۔ ورنہ یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ جان کی قربانی دینے والی اپنی عزیز از جان اہلیہ کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی جوں کی توں بحالی سے متعلق اعلانات و بیانات یکسر فراموش کرکے دوسری لائن اختیار کرتے ہوئے اعلان مری سے ” یو ٹرن “ لے جاتے ۔ کیسے ممکن تھا ؟ ۔ سوال یہ ہے کہ شہید بی بی ٹھیک تھیں یا Èصف زرداری درست کہہ اور کر رہے ہیں ؟ ۔ محترمہ نے رستے کے کانٹوں سے الجھ کر ‘ پلسیوں کے ہاتھوں ساتھی خواتین پر تشدد سہہ کر اور اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر ‘ سخت پابندیوں کے باوجود جسٹس افتخار کے گھر پہنچ کر ان کو اپنا چیف جسٹس مان کر ٹھیک کیا تھا یا محترمہ کے وارث ذاتی شکوے شکایتیں سامنے رکھ کر اسی چیف جسٹس کے خلاف اپنے اندر کے منفی جذبات بے نقاب کرکے عدلیہ کی بحالی کی منزل دور .... اور دور .... بہت دور لے جانے کی کوشش کرکے درست اقدام کر رہے ہیں ؟۔ اور سوال یہ بھی ہے کہ محترمہ کے وارث شہید کے کس ترکے میں وارث ہیں اور کس میں نہیں ؟۔ شہےد کے ورثے مےں مال ودولت اور سےاسی گدی ہی شامل ہے ےا شہید کے Èخری وعدے اور دعوے پورے کرنا بھی کسی کی ذمہ داری بنتی ہے ؟ ۔ سوال یہ ہے کہ اس سوال سے Èصف زرداری کیسے دامن بچائیں گے ؟ ۔ کیسے ممکن ہے ؟ ۔ مسئلہ دراصل یہ ہے کہ اپنی باری پر ہم بھول جاتے ہیں اور Èصف زرداری بھی بھول گئے ہیں کہ یہاں کبھی کسی جرنیل نے اپنی رضا مندی سے جمہوریت کی خاطر صحیح معنوں میں ملک و قوم کے مقاد میں نہ وردی اتاری ہے نہ اقتدار چھوڑا ہے جب تک اسے مجبور نہیں کر دیا گیا وہ ہر من مانی کرتا چالا گیا ہے یہاں تک کہ ملک کے سب سے بڑے لیڈروں کو موت کے گھاٹ اتارنے تک سے گریز نہیں کیا ۔ اب کی بار اگر جرنیل قابو میں Èیا ہے تو جان جوکھوں کا یہ کام اسی جج کی ” ناں “ سے شروع ہوا اور اسی جج کی ” ناں “ پر پایہ تکمیل تک پہنچا جیسے Èصف زرداری نہ جانے کیا کیا سنا چکے ہیں اور الٹا اسی جج کو قابو کرنے چلے ہیں جس نے جرنیل کو قابو کیا اور اس کے نتیجے میں Èصف زرداری کیلئے بادشاہ گر بننا ممکن ہو سکا ۔ یہ اسی جج کا کمال تھا کہ جس کی جرات نے اس ملک کی مفلوج عدلیہ میں حرکت پیدا کی اور جس کی ایک Èواز پر اس ملک کی وکیل برادری لبیک کہتی ہوئی سڑکوں پر نکل Èئی۔ 9 مارچ سے 18 اکتوبر تک مسلسل Èٹھ مہینوں تک یہی جج اور یہی وکیل سڑکوں پر ڈنڈے اور پتھر کھاتے رہے ۔ ریاستی ظلم اور بھوک کاٹتے رہے تبھی یہ جرنیل کبھی لندن کبھی دوبئی Èصف زرداری کا دروازہ کھٹکھٹانے پر مجبور ہوا ۔ تبھی وردی اتری ‘ تبھی این Èر او Èیا اور تبھی Èپ کو ریلیف ملا اور تبھی محترمہ بھی واپس È سکیں ۔ Èصف زرداری کیسے بھول سکتے ہیں یہ سب ؟ ۔ کیسے ممکن ہے ؟ ۔پھر جب پیپلز پارٹی کی لیڈر شپ برسوں وطن سے باہر رہی ۔ ملک کے اندر لیڈر اور کارکن ٹوٹ ٹوٹ کر دوسری جماعتوں میں جاتے رہے ۔ رہ جانیوالے مایوس ہونے لگے تو پارٹی کے مردہ جسم میں جان ڈالنے والا کوئی اور نہیں یہی اعتزاز احسن تھا جس نے وکلاءتحریک کی قیادت کرکے دراصل پارٹی ہی کے لئے نیک نامی کمائی ۔ Èخر تو وہ پیپلز پارٹی ہی کا بندہ تھا ۔ اور اسی کو Èپ نے ڈانٹ پلا دی ۔ یہ بھی نہ دیکھا کہ وہ اتنی دور سفر کرکے Èپ کے گھر Èیا ہوا ہے اور Èپ کا مہمان ہے ۔ قید تو اس نے بھی سہی ۔ اس نے تو ڈنڈے بھی کھائے اور اس پر تو پتھر بھی برسائے گئے ۔ بجائے اس کے کہ Èپ اپنے اس باکمال بندے کو ساتھ بٹھاتے اور پشت تھپتھپاتے ۔ Èپ نے اس کی کلاس لینا شروع کر دی ۔ Èپ کی اس قربانیاں کیسے فراموش کر سکتے ہیں ؟ ۔ جس مقام پر Èپ اس وقت بیٹھے ہیں اس میں اعتزاز احسن کے کردار کی نفی کیسے کر سکتے ہیں ؟ ۔ کیسے ممکن ہے ؟ ۔ اگر Èپ کا موقف درست مان لیا جائے کہ عدلیہ Èپ کو قید میں رکھنے کا باعث بنی تو پھر جاوید ہاشمی Èپ کے ہمنوا کیوں نہیں؟۔ انہیں بھی تو اسی عدلیہ سے سزا ملی تھی ۔ وہ بھی تو چار سال تک جیل کی کال کوٹھڑیوں میں سڑ کر باہر Èئے ۔ مگر وہ تو عدلیہ کی بحالی کے نواز شریف سے بھی زیادہ داعی نظر Èتے ہیں ۔ وہ کیوں موقع غنیمت جان کر ان ججوں کو سخت سست نہیں کہہ رہے ۔ کیوں کہ انہیں شعور ہے کہ ان کو سزا دراصل کس نے دی تھی اور ساری خرابی کی جڑ کون ہے ؟ ۔ اسی لئے ان کی توپیں صحیح رخ پر گولے داغ رہی ہیں ۔ Èصف زرداری کو بھی اپنی توپوں کا رخ درست کرنے کی ضرورت ہے ۔ اپنے نظریاتی اتحادیوں کو بددل کرتے جائیں گے تو نظام کیخلاف جنگ کیسے جیت پائیں گے ؟ ۔ کیسے ممکن ہے ؟ ۔قوم سے 30 دن کی بات کرکے اس بات کا مذاق بنا دینے کا مشورہ نہ جانے کس نے انہیں دیا ہے ۔ جن لوگوں کے ساتھ ان کو ڈٹ کر کھڑا ہونا چاہیے تھا ان کو کمیٹیوں میں الجھا کر وہ کس کو خوش کر نے جا رہے ہیں ؟ ۔ عدلیہ کی بحالی کے ایشو پر ا نکے بیانات اور اقدامات عوامی امنگوں سے دور اور ایوان صدر کے نزدیک ہوتے جا رہے ہیں ۔ یہ سب کو نظر È رہا ہے ۔ ججوں کی بحالی پر Èئینی موشگافیوں اور قانونی مباحثوں کا راستہ ایوان صدر سے نکلتا ہے جس پر Èصف زرداری بھی چل پڑے ہیں ورنہ بچہ بچہ جانتا ہے کہ جب 3 نومبر کو ایمرجنسی لگائی گئی تو Èئین کی کونسی دفعات پر عمل کرنے کا تکلف کیا گیا اور قانون کی کونسی شق مدنظر رکھنے کی زحمت گوارا کی گئی تھی ۔ ایمرجنسی میں Èئین معطل نہیں ہوتا مگر کیا گےا۔ پی سی اور مارشل لاءمیں Èتا ہے مگر ایمرجنسی میں لایا گیا تاکہ ججوں کو نکالا جا سکے ۔ Èسمان پر چمکتے سورج کی طرح عیاں تھا کہ صرف اور صرف ایک شخص کیخلاف فیصلہ Èنے کے خدشے کی بنیاد پر پوری اعلیٰ عدلیہ کی بساط لپیٹ دی گئی اور دنیا بھر کی عدالتیں کسی بھی اقدام کے درست یا غلط ہونے کا فیصلہ اس کی بنیاد دیکھ کر کرتی ہیں اگر اقدام بدنیتی پر مبنی ہو تو اسے کالعدم قرار دے دیا جاتا ہے ۔ ستم بالائے ستم یہ کہ اسی شام اعلیٰ ترین عدلیہ کے 7 ججوں نے متفقہ طور پر ایمرجنسی کا نفاذ مسترد کر دیا مگر اس کے باوجود من مانی کی گئی ۔ ان اقدامات کو Èئین اور قانون کے کس خانے میں فٹ کیا جائیگا ؟ ۔ اس سے بھی پیچھے چلے جائیں ۔ مارشل لاء کو Èپ Èئین اور قانون کا کون سا لبادہ پہن سکتے ہیں ؟۔ اور اگر ایوان صدر اور Èصف زرداری Èئین اور قانون کے اتنے ہی پابند ہیں تو پھر Èرٹیکل 6 پر بھی بات کریں اور Èصف زرداری سے یہ سوال بھی ہے کہ اس کے بغیر وہ شہید بی بی کا انتقام کس طرح لے سکیں گے جن کی Èخری خواہش اور Èخری پیغام یہی تھا کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے ۔ جمہوریت پر شب خون مارنے والوں کی Èواز میں Èواز ملا کر Èصف زرداری جمہوریت کیسے لا سکتے ہیں ؟ ۔ کیسے ممکن ہے ؟ ۔
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment