حکومت کومعاشی استحکام کے لیے سخت کام کر نا ہوگا تاکہ آئندہ بجٹ عوام دوست ہو جس میں غریب عوام کو ریلیف پیکج فراہم کیا جاسکے۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اشیائے خورد نوش کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے پیش نظر عوام کو کیسے ریلیف دیا جائے۔ عوام کو قومی مجرموں نے مصیبت میں ڈال دیا ہواہے اور دور دور تک دکھائی نہیں دیتا کہ تمام بحرانوں پر قابو پا لیا جائے گا۔ حکمرانوں کو اپنی پڑی ہوئی ہے اور عوام ایک وقت کی روٹی کیلئے بلبلا رہے ہیں۔ملک میں انصاف نا م کی کوئی چیز نہیں اور جس ملک میں انصاف نہ ہو و ہاں چور چکے اور قرضہ چور بد معاش دن دیہاڑے پو لیس اسکواڈ کے پروٹوکول میں سرعام دھند ناتے پھرتے ہیں۔ ججز کی بحالی کے بعد بھی اگرچہ تما م بحران جوں کے توں رہیں گے لیکن یہ فائدہ ضرور ہوگا کہ بحران کے پیدا کرنے کے ذمہ داروں کے خلاف کار وائی ضرور ہوگی۔ اور اس وقت عوام کا تماشا دیکھنے والے سیاسی اور اسٹیبلیشمنٹ کے منہ زور قانون شکن بد معاش جوابدہ ہوں گے۔ اور جب ان سے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری پوچھیں گے کہ یہ کر سی اور اقتدار آپ کو جہیز میں نہیں ملا اور جب انہیں بتا یا جا ئے گا کہ یہ ملک آپ کے باپ کا نہیں کہ آپ جو چاہیں من ما نی کر تے رہیں بلکہ یہ ملک اس سولہ کروڑ عوام کا ہے جس کی خوشحالی اور ترقی کے نا م پر آپ اربوں ڈالرز غیر ملکی قرضے کھا گئے ہیں اور یہ سا را بوجھ مختلف بحرانوں کی شکل میں عوام کے کندھوں پر ڈال پر دیا گیا ہے۔ اور یہی وہ حقیقت ہے کہ تما م قومی مجرم ،ججز کی بحالی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ اس وقت ججز کی بحالی ملک و قو م کی بقا کا مسئلہ ہے۔ عوام اس وقت آٹا،بجلی،پانی،مہنگائی،بے روزگاری اور نا انصافی سے تنگ آ کر چلا رہے ہیں کہ اس کا ذمہ دار کون ہے لیکن کوئی بھی ٹس سے مس نہیں ہو رہا۔ اور نہ ہی کوئی مسئلہ حل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اقتدار کی ہوس نے سب کو اندھا کر کے رکھ دیا ہے کو ئی بھی اقتدار چھوڑنے کو تیا ر نہیں قانون شکن ما فیا بے شرم ہو چکا ہے اور ایک دوسرے کی ٹا نگیں کھیچنے میں لگا ہوا ہے۔ اس وقت جو ملک کے حا لات کا ناک نقشہ ہے وہ یہ ہے کہ سرحد والے اپنی من ما نی کر رہے ہیں، پنجاب والے اپنی من ما نی کر رہے ہیں جبکہ گورنر پنجاب اپنی بیان بازی کر رہے ہیں اور یہی صورت حال مر کز میں ہے کہ پیپلز پا رٹی کس خفیہ ہاتھ سے بلیک میل ہو رہی ہے ؟ جو کہ حیران کن بات ہے حالانکہ پیپلز پا رٹی کی تاریخ گواہ ہے کہ اس کی قیادت ماضی میںکسی حا ضر سروس جر نیل سے بھی بلیک میل نہیں ہوئی ۔جان دے دی لیکن اپنے اصولی موقف پر ڈٹی رہی۔ایوان صدر اپنی جگہ ڈٹا ہوا ہے۔ن کے وفاقی وزراء کے جانے سے وازرتیں خا لی پڑی ہوئی ہیں اگرچہ ان کے اضافی چارج دے دیے ہوئے ہیں لیکن ایک وزیر کے پاس چار چار اضافی چارج ہیں وہ کسی ایک وازرت میں وقت نہیں دے سکتا جس کی وجہ سے عوام کو دقت کا سا منا ہو رہا ہے ۔ پیپلز پا رٹی کے اراکین اسمبلی کی اکثریت ہے لیکن قیادت کو ان پر اعتبار ہی نہیں کہ انھیں کسی وزارت کی ذمہ داری سونپی جا سکے۔ ان وزارتوں کے متعلقہ محکموں اور ڈا ئریکٹورٹ میں طرح طرح کی من مانیاں اور اختیارات کا غلط استعمال کر کے وہاں کے ملازمین اور عوام کو تنگ کیا جا رہا ہے۔ عوام کو وزراءکی گونا گوں مصروفیات کی وجہ سے رسائی حاصل نہیں ہورہی اور آئے روز مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔ وفاقی وزیر تعلیم جناب خورشید شاہ سے بھی گزارش ہے کہ وہ وفاقی نظامت تعلیمات کی بھی خبر لیں وہاں کچھ اساتذہ کو دو دو سال سے مکا نوں کا کرایہ نہیں دیا گیا جس کی وجہ سے انھیں کئی مسائل کا سامنا ہے کرایہ اسلئے نہیں دیا گیا کہ بجٹ شاٹ ہے بلکہ بعض سکولز کی پر نسپل نے بعض ٹیچر کو تنگ کرنے کیلئے اپنے اختیارات کا غلط استعمال کرتے ہوئے ہائرنگ فارمز کی تصدیق ایک سال تک روکے رکھی اور جب ایک سال بعد ان کی فائل جمع ہوئی تو پتہ چلا کہ اب بجٹ شاٹ ہے۔ وفاقی وزیر تعلیم اور قائم مقام ڈی جی ایجوکیشن عتیق الرحمن سے گزارش ہے کہ ان پر نسپلز کے خلاف قانونی کاروائی کی جائے اور اس ضمن میں ایف جی جونئیر ماڈل سکول کی پر نسپل مسرت صادق کے دحونس آمیز رویے کا سکینڈل قومی اخبارات میں آ چکا ہے لیکن اس کے خلاف ابھی تک کو ئی کا روائی عمل میں نہیں آسکی۔ جسکی وجہ وفاقی نظامت تعلیم میں اسے ان کا لی بھیڑوں کی پشت پنائی حاصل ہے جو مسرت صادق جیسی بدکردار پر نسپلز کو استعمال کر کے شریف النفس ٹیچرز کو ذہنی کو فت پہنچا تے ہیں اور ان کے خلاف سوچے سمجھے منصوبے کے تحت سازشیں کر کے اور جھوٹے الزامات لگا کر بد نام کیا جاتا ہے۔ وفاقی وزیر تعلیم سے گزارش ہے کہ وہ اس مسئلے کو اپنی اولین فرصت میں حل کریں اور اس سر کش پر نسپل کے خلاف کا روائی کریں تاکہ اس پتہ چلے کہ اختیارات کا غلط استعمال کا کیا نتیجہ نکلتا ہے۔جبکہ اب عوام عدلیہ کی آزادی اور آئین وقانون کی بالادستی کی جنگ لڑ رہے ہیں جس پر وہ کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ اس وقت ملک میں لاقانونیت کا سیلاب آیا ہوا ہے جس میں عوام خشک تنکوں کی طرح بہہ رے ہیں اور بعض ڈوب کے مر رہے ہیں اگرچہ فوج کو سیاست سے دور کیا جا رہا ہے جو کہ جنرل کیا نی کا ایک خوش آئند اقدام ہے لیکن پاک فوج کی یہ روایت اور شان رہی ہے کہ جب بھی وطن عزیز میں کوئی ناگہانی آفت یا مصیبت آئی ہے اس نے اس عوام کو بچانے کی کوشش کی ہے مثال کے طور پر ملک کے کسی حصے میں جب بھی کوئی سیلاب آیا ہے تو پاک فوج کے جوانوں نے نہ صرف ڈوبتے لوگوں کو بچایا ہے بلکہ ہیلی کاپٹروں سے ان تک خوراک بھی پہنچانے کا اہتمام کیا ہے میرا بات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اس وقت ملک بھر میں قانون شکن اور اقتدار کی ہوس کے بھوکے قومی مجرموں کی وجہ سے مختلف بحرانوں کا سیلاب آیا ہوا ہے اور یہ سیلاب اتنا شدید ہے کہ عوام کو کچھ نظر نہیں آ رہا کہ یہ بحران کسی کنارے بھی لگے گا اور اس کے حل کیلئے عوام کو فوج کی مدد درکار ہے عوام ا پنی پاک فوج سے بے حدمحبت کرتے ہیں یہ الگ بات ہے کہ گزشتہ آٹھ سالوں میں نااہل قیادت کے غلط فیصلوں کی وجہ سے فوج اور عوام میں درا ڑیں ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے لیکن ہمارے عوام با شعور ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ کہ ہماری پاک فوج دنیا کی ایک بہترین منظم فوج ہے اور اسلام دشمن طاقتوں کو پاک فوج کھٹکتی ہے۔ ملک میں اس وقت جو عدلیہ کا بحران ہے اس کو عوامی خواہشات اور قانون کے مطابق حل کرنے میں کوئی بھی تیار نہیں اور بچوں کی طرح ہر کوئی ضد کر رہا ہے کہ میں ئینی صدر ہوں کوئی کہتا ہے کہ ہمیں عوام نے مینڈیٹ دیا ہے کوئی کہتا ہے کہ عوام نے عدلیہ کی بحالی اور مشرف کی پا لیسوں کے خلاف ووٹ دیے ہیں وقت تیزی سے گزر رہا ہے اور عوام کے مسائل حل کر نے کی کسی کو ہوش نہیں ۔عوام کدھر جائیں تو اس نا امیدیں میں بھی عوام ما یوس نہیں کیونکہ ان کی نظریں پاک فوج کے سر براہ پر لگی ہوئی ہیں کہ وہ آئینی بحران کو حل کرنے میں عوام کی مدد کریں گے جبکہ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل اشفاق پرویزکیانی نے یہ بھی کہا ہے کہ پاک فوج قوم کی حمایت سے موجودہ اور ابھرتے ہوئے داخلی اور خارجی خطرات سے نمٹنے کیلئے پوری طرح تیار ہے۔ جبکہ عوام نے خبر دار کیا ہے کہ مائنس ون یا مائنس ٹو کا فارمولہ وکلاء اور عوام کیلئے قابل قبول نہیں ہوسکتا۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو ہر صورت بحال ہونا ہے ان کے بغیر معزول ججوں کی بحالی وکلاءتحریک کے منافی ہوگی جس پر سمجھوتہ ممکن نہیں ہے۔ وکلاء تحریک کو عوام کی مکمل حمایت حاصل ہے اور آئندہ چند روز کے اندر وکلاء تحریک کا فیصلہ کن اور آخری راو¿نڈ شروع ہونے والا ہے۔ جبکہ پنجاب حکومت معزول چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور سپریم کورٹ و ہائیکورٹ کے دیگر معزول جج صاحبان کو 24 مئی کو فیصل آباد اور اس کے بعد لاہور میں وکلاء کنونشن کے موقع پر آئین کے تحت ان جج صاحبان کو مکمل پروٹوکول اور سیکورٹی فراہم کرے گی جبکہ وکلاء تحریک کے دوران لانگ مارچ سمیت ہر ایونٹ کے موقع پر وکلاء کو ہر ممکن سہولت فراہم کی جائے گی ۔ مسلم لیگ (ن) چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور سپریم کورٹ و ہائیکورٹس کے ججوں کے معزولی کے 3 نومبر کے فیصلے کو غیر آئینی اور غیر قانونی سمجھتی ہے اور پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے ججوں کو تسلیم نہیں کرتی ۔ لہذا فیصلہ کیا گیا ہے کہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور معزول کئے جانے والے دیگر تمام ججوںکو آئین کے تحت انہیں سیکورٹی اور پروٹوکول فراہم کیا جائے گا ۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کا وہی پروٹوکول ہو گا جو آئین و قانون کے تحت ایک چیف جسٹس کا ہونا چاہیئے کیونکہ آئین کے تحت انہیں معزول نہیں کیا گیا اور عوام کی نظرمیں وہ آج بھی حقیقی چیف جسٹس ہیں ۔ ججوں کی بحالی کے حوالہ سے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے موقف میں کوئی فرق نہیں ہے تاہم ان کی بحالی کیلئے طریقہ کار پر اختلاف ضرور ہے ۔ وفاقی حکومت تو ان ججوں کو تنخواہ دینے کی پیش کش بھی کر چکی ہے ،تنخواہ صرف حاضر سروس ججوں کو ہی دی جا سکتی ہے ۔ ججوں کی بحالی کوئی غیر آئینی مسئلہ نہیں ہے اس لئے کسی کو بھی اس میں رکاوٹ نہیں ڈالنی چاہیئے ۔پیپلز پارٹی کے ساتھ مسلم لیگ (ن) کے بیشتر اختلافات کو دور کیا جا چکا ہے ۔ باقی ماندہ اختلافات دور کرنے کیلئے دونوں جماعتوں کی جانب سے 3`3 ارکان پر مشتمل سردار ذوالفقار علی خان کھوسہ کی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دی جا چکی ہے ۔ اگر چیف جسٹس کے پروگراموں پر متعلقہ بار ایسوسی ایشن سیاسی رہنماو¿ں کو شرکت کی دعوت دیں تو اسے قبول کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے لیکن ماضی میں ایسے پروگراموں میں سیاسی رہنماو¿ں کو شرکت کی دعوت نہیں دی گئی تاہم مسلم لیگ (ن) کے ورکرز چیف جسٹس اور دیگر معزول جج صاحبان کا بار ایسوسی ایشن کی باو¿نڈری وال کے باہر بھرپور استقبال کریں گے ۔ ایک گورنر پنجاب سلمان تاثیر سے مسلم لیگ (ن) کا کوئی بڑا اختلاف نہیں ہے تاہم جب وہ نگران وزیر تھے اس دوران کچھ مسائل ضرور پیدا ہوئے ۔ پنجاب حکومت کی معزول ججوںکو پروٹوکول دینے کی پالیسی ایوان صدر سے ٹکراو¿ نہیں ہے ۔ جب 3 نومبر کا اقدام ہی غیر آئینی اور غیر قانونی تھا تو پھر ٹکراو¿ کیسا ۔ جبکہ پنجاب کے وزیر قانون نے یہ بھی کہا ہے کہ معزول ججوں کی بحالی کیلئے مسلم لیگ اپنی صوبائی حکومت سمیت کوئی بھی قربانی دینے سے دریغ نہیں کر ے گی ۔ ان سے پوچھا گیا کہ کیا صدر مشرف کو بھی پنجاب حکومت سیکورٹی اور پروٹوکول فراہم کرے گی ۔ انہوں نے کہا کہ جب وہ یہاں آئیں گے تو اس کا فیصلہ بھی کرلیا جائے گا ہماری اپنی سیاسی سوچ اور اپنا منشور ہے جس پر ہم اپنے اپنے طریقے سے عمل پیرا ہیں ۔ ایوان صدر نے 18 فروری کے انتخابات کے نتائج کو ابھی تک تسلیم نہیں کیا حالانکہ جنرل (ر) پرویز مشرف انتخابات سے پہلے اعلان کر چکے تھے کہ اگر ان کی حامی جماعتیں الیکشن ہار گئیں تو وہ مستعفی ہو جائیں گے ۔ قوم مایوس نہ ہو ججز ایک نہ ایک دن ضرور بحال ہوں گے ۔ مسئلہ کشمیر کا ایسا حل ہونا چاہیے جو دونوں ملکوں کو قابل قبول اور کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق ہو۔ ججز کی بحالی کیلئے پیپلز پارٹی سے دوبارہ معاہدہ کر سکتے ہیں۔ دہشت گردی کو گولی سے نہیں بات چیت سے خوش اسلوبی کے ساتھ ختم کیاجا سکتا ہے۔ ڈاکٹر عبدالقد یر کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا ازالہ ہونا چاہیے ۔با اختیار حکومت ہی روٹی کپڑا اور عوام کے دیگر مسائل حل کر سکتی ہے ۔ پنجاب کے گورنر کی تعیناتی پرن کو اعتماد میں نہیں لیاگیا انھیں اقتداد چھوڑنے کا نہیں اتحاد ٹوٹنے کا دکھ ہے ۔ ملک میں عدلیہ اور جمہوریت کی بحالی میں میڈیا کا کردار قابل تحسین ہے قوم کا حکمران اتحاد کے ساتھ اعتماد کا رشتہ ہے مگر ججوں کو بحال نہ کر کے قوم کے اعتماد کو ٹھیس پہنچی ہے ۔ اتحاد ٹوٹنے سے ایوان صدر میں تھوڑی سی جان پڑی ہے۔ لوگوں نے تبدیلی کیلئے ووٹ استعمال کیا مگر ابھی تک تبدیلی نظر نہیں آرہی ابھی تک وہی چہرے اقتدار پر براجمان ہیں ۔ پرویزمشرف کے تمام اقدامات کو ختم کرنے میں کیا امر مانع ہے ۔ لوگ ججز کی بحالی چاہتے ہیں نواز شریف نے آصف علی زرداری سے ایک معاہدہ کیا مگر اس پر تاحال عمل نہیں ہوا مشرف ابھی تک سیٹ پر موجود ہیں اس لئے لوگ مایوس ہیں اتحاد میں دراڑ جس نے بھی ڈالی ہے قوم سب جانتی ہے پہلی مرتبہ دو بڑی جماعتوں نے اتحاد قائم کر کے ایک نئی مثال قائم کی مگر اس میں دراڑ سے قوم مایوس اور پریشان ہے اتحادی جماعتوں کو چاہیے تھا کہ ڈکٹیٹر کے تمام غیر آئینی اقدامات کو فوراً ختم کر دیتی مگر تاحال مسئلہ جوں کا توں ہے دونوں کے درمیان بات چیت ہوئی اسی کے تحت ہی معاہدہ طے پایا مگر اس پر عملد رآمد نہیں ہو سکا جس سے قوم میں مایوسی پھیلی ۔ ججز کی بحالی کیلئے سادہ قرار داد ہی کافی تھی کہ آئینی پیکج کی ضرورت نہ تھی جمہوریت کے دشمن جو مختلف روپ دھار کر بیٹھے ہوئے ہیں وہ نہیں چاہتے کہ مل کر ڈکٹیٹر کے اقدامات کو ختم کریں وہ نہیں چاہتے کہ ملک میں جمہوریت پھلے پھولے ۔ جبکہ نواز شریف نے کہا ہے کہ ہمیں کابینہ سے استعفے دینے پر افسوس ہے ہم نے بیس سال متحارب رہنے کے بعد اتحاد کا راستہ اپنایا تھا مگر یہ زیادہ دیر نہ چلا اس کا ہمیں افسوس ہے انہوں نے کہا ہے کہ اقتدار کی لالچ نہیں اگر ایسا ہوتا تو اتنی وزارتیں نہ چھوڑتے ہمارے سامنے ایک مقصد تھا مگر افسوس کہ وہ پورا نہ ہوا ہم کسی آمر کے ساتھ اپنے آپ کو منسلک نہیں کرنا چاہتے میرے خیال میں آصف علی زرداری نے ایسا نہیں کیا انہوں نے کہاکہ ججز بحال ہونے چاہیے تھا عدلیہ صرف ہماری نہیں پوری قوم کی ہے او رپوری قوم کو اس کی بحالی کی امیدیں ہو چلی تھیں قوم کی محبوب عدلیہ کو مشرف نے نکال کر اپنی من پسند عدلیہ لگائی عدلیہ کو بحال کر کے قوم کی توقعات پر پورا اترنا چاہیے تھا مگر افسوس ہم کامیاب نہیں ہو سکے قوم نے ہمیں ججز کی بحالی کیلئے ہی ووٹ دیا تھا ہم نے ایسا نہ کر کے قوم کو مایوس کیاہے ہم نے اس مقصد کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا لندن گئے دبئی گئے انہوں نے امید ظاہر کیا کہ ججز ایک نہ ایک دن عزت ووقار کے ساتھ ضرور بحال ہوں گے۔ تاہم اس کیلئے ٹائم فریم نہیں دیا جا سکتا کہ وہ کب بحال ہوں گے مگر اتنا ضرور ہے کہ وہ ضرور بحال ہوں گے ۔ میڈیا کی اس سلسلے میں کوششوں کی داد دیتا ہوں ایک سوال پر میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ہمارا اصولی موقف ہے کہ آمر کبھی بھی غیر قانونی طور پر اقتدار میں نہیں رہ سکتا مصمم ارادہ یہی ہونا چاہے کہ عدلیہ آزا دہو میڈیا آزاد ہو فوج کی سیاست میں مداخلت ختم ہو ہمارا ملک ہماری عزت کا سمجھوتہ نہ ہو ہمارے فیصلے ملک کے اندر ہی ہوں باہر نہ ہوں لوگوں نے پارلیمنٹ با اختیار منتخب کی ہے اب ہماری ذمہ داری ہے کہ اس کو بالادست ہی رکھیں اگر ایسا نہیں تو قصور ہمارا ہے کسی اور کا نہیں ہم چاہتے ہیں کہ پارلیمنٹ اپنے اختیارات واپس لے اس کا فائدہ قوم اور ملک کو پہنچے گا سیاسی جماعتوں کو تو پہنچے گا ہی عوام نے ہمیں اختیار دیا ہے ہمیں چاہیے کہ اپنا اختیار استعمال کریں اسی اختیارات سے آٹا ، بجلی اور ضروری اشیاء سستی کریں آج عوام روٹی کی وجہ سے بلبلا اٹھے ہیں بجلی نہیں ہے اگر پیچھے سازشی عناصر بیٹھے ہوں تو یہ کیسے ہو سکتا ہے ۔ ہمیں چائیے کہ ججز بحال کرتے سترہویں ترمیم کرتے آئین بحال کرتے صدر سے غیر قانونی اختیارات واپس لیتے ہم اس سب کو ممکن بنانے کیلئے ساتھ دینے کو اب بھی تیار ہیں نواز شریف نے کہا ہے کہ ہمارے منشور میں ججز ،معیشت کی بحالی کی بات ہے امن وامان کی بات کی ہے عوام کو ریلیف د ینے کی بات ہے ججز کی بحالی ، عدلیہ کی آزادی پر ملک و قوم کا مستقبل وابستہ ہے نواز شریف اس معاہدے کا پابند ہوں جو مری میں ہوا اگر پیپلزپارٹی اس سے ہٹی ہے تو میں نے اسے منانے کی بھرپور کوشش کی ہے عوام کا ہمارے ساتھ اعتماد کا رشتہ ہے مگر عوام کے اعتماد کو ٹھیس پہنچی ہے ہم کبھی بھی پیپلز پارٹی کو غیر مستحکم نہیں کریں گے ہم اس عمل کو چلانے کیلئے ہر ممکن کوشش کریں گے انہوں نے کہاکہ ہم اس وقت حکومت سے باہر آگئے ہیں حکومت کو گرانے کی کوئی بات نہیں کریں گے بلکہ چلانے میں مدد کریں گے ججز کی بحالی اگر اعلان مری کے مطابق ہوتی ہے تو دوبارہ اتحاد کے آپشنز کھلے ہیں انہوں نے کہاکہ ہم اتنے گئے گزرے نہیں ہیں کہ مشرف ہمیں سائیڈ پر کر دیں اگر ہم کابینہ سے باہر ہو گئے ہیں تو کوئی قیامت نہیں آئی مشرف نے آگے ہمیں ملک سے باہر کر دیا تو سیاست اور عوام کے دلوں سے تو باہر نہیں کر سکے ہم الحمد اللہ اب بھی عوام اور سیاست میں موجود ہیں پرویزمشرف سیاسی اور اخلاقی طور پر بہت کمزور ہو گئے ہیں ایوان صدر اٹھارہ فروری کو تو بالکل فارغ ہو گیا ہے ہمارے اتحاد ٹوٹنے سے تھوڑی سے اس میں جان پڑی ہے انہوں نے کہاکہ فوج کو ا پنا کام کرنا چاہیے صدر یا سیاستدانوں کے ساتھ نہیں ہونا چاہیے قوم اور ملک کی ہوتی ہے وہ کسی شخص کی نہیں ہوتی اس وقت فوج اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریاں نبھا رہی ہے اسی طرح ہمیشہ ہونا چاہیے ماضی میں مشرف نے جو کچھ کیا ہے وہ قوم کی طرف سے نہیں کیا ہے اس وقت کے جرنیلوں کو اس کام کیلئے مشرف کا ساتھ نہیں دینا چاہیے تھا ایک سوال پر انہوں نے کہاکہ ہو سکتا ہے کہ صدر بش کی ذاتی حمایت مشرف کے ساتھ ہو مگر انہیں یہ سوچنا چاہیے کہ حالات کیا رخ اختیار کر چکے ہیں ہم پاکستان کی خود مختاری پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرنا چاہتے پاکستان پر کوئی آنچ نہیں آنے دیکھنا چاہتا ہم کسی بیرونی طاقت کی ملک کے اندر مداخلت کو پسند نہیں کر تے ہمارے پاس اتنی طاقت ہے کہ ہم ججز کو اندرونی طورپر بحال کرسکتے ہیں انہوں نے کہاکہ عوام میں مایوسی کی کیفیت ہے تاہم ہم حالات کو بحال ضرور کر لیں گے ہم جمہوری سسٹم کو پٹڑی سے نہیں اترنے دیں گے انہوں نے کہاکہ ججز کی بحالی پاکستان کو مستحکم کرے گی اگر ایسا ہو گا تو ہم بہت خوش ہوں گے ہم پھر سے زرداری کے ساتھ چلنے کو تیار ہوں گے پنجاب میں ہماری مخلوط حکومت ہے پیپلزپارٹی کو ہر فیصلے میں اپنی اتحادی جماعت سے پوچھنا چاہیے ان کے ووٹ ہم سے کوئی بہت زیادہ نہیں اس لئے کوئی فیصلہ کرنا سے پہلے ہم سے ضرور پوچھا جانا چاہیے ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ جن لوگوں نے ہماری پارٹی کو نقصان پہنچایا ان کو واپس لینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ انہوں نے کہاکہ بات چیت کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے طاقت سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوتا طاقت استعمال کر کے دیکھ لیا گیا ہے دہشت گردوں کے حوالے سے انہوں نے کہاکہ بات چیت کا راستہ ہر ایک کیلئے کھلا رکھنا چاہیے ڈاکٹر قدیر کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے اس کا ازالہ ہونا چاہیے انہوں نے کہا کہ بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتے ہیں ہم چاہتے ہیں کہ بات چیت کے ذریعے تمام تنازعات کو حل ہونا چاہے کشمیر کا مسئلہ حل ہونا چاہیے اگر دونوں ممالک کے درمیان ویزہ سسٹم ختم کر دیا جائے تو کوئی حرج نہیں ہے دونوں جانب کی عوام کو آر پار آزادانہ آنا جانا چاہیے میں بھارتی حکام سے بھی صرور بات چیت کروں گا کہ بات چیت جاری رہنی چاہیے ہم چاہتے ہیں کہ کارگل کے مسئلے پر کمیشن قائم ہونا چاہیے۔ جبکہ پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ طے شدہ فارمولے کے تحت ضمنی انتخابات میں پیپلزپارٹی راولپنڈی سمیت کسی جگہ مسلم لیگ (ن) کے مقابلے مین امیدوار کھڑا نہیں کرے گی ۔ 18 فروری کے انتخابات بھی پوری طرح شفاف نہیں تھے تاہم نتائج بطور احتجاج اس لیے قبول کیے کہ ملک کو جمہوریت کی کی فوری ضرورت تھی ۔ ججوں کی بحالی اور عدلیہ کی آزادی کے مکمل حامی ہیں لیکن عجلت میں کوئی کام کرنے کی بجائے عدلیہ کی مستقل آزادی کو یقینی بنانا چاہتے ہیں ۔ گندم کا بحران ان اندرونی سازشوں کی ایک کڑی ہے جس کے ذریعے بعض عناصر پاکستان کو توڑنا چاہتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے گزشتہ آٹھ سال کے دوران راولپنڈی کی احتساب عدالتوں میں اپنے خلاف زیر سماعت ریفرنسز کی کوریج کرنے والے صحافیوں کے اعزاز مین ایک تقریب کے موقع پر غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے کیا ۔ اس موقع پر وفاقی وزیر قانون فاروق ایچ نائیک ‘ پیپلزپارٹی کے جنرل سیکرٹری جہانگیر بدر ‘ سینیٹر ڈاکٹر بابر اعوان بھی موجود تھے۔ گفتگو کے دوران آصف زرداری مزاح سے بھرپور دلچسپ چٹکلے اور جملے بھی چست کرتے رہے ۔ آصف زرداری نے خوشگوار موڈ میںگپ شپ لگاتے ہوئے پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) کے درمیان یہ فارمولہ پہلے سے طے ہے کہ اٹھارہ فروری کے انتخابات میں کسی بھی پارٹی کی جیتی ہوئی سیٹ پر دوسری پارٹی کوئی امیدوار کھڑا نہیں کرے گی جس کی پابندی کرتے ہوئے پیپلزپارٹی نواز شریف اور شہباز شریف کے مقابلے میں کوئی امیدوار کھڑا نہیں کرے گی جبکہ راولپنڈی کے حلقہ این اے 55 سمیت دیگر حلقوں میں بھی مسلم لیگ کے مدمقابل کو ئی امیدوار کھڑا نہیں کیا جائے گا۔ انہوں نے 18 فروری کے نتائج کے حوالہ سے کہا کہ یہ نتائج پوری طرح تسلی بخش نہیں اور نہ ہی میں یہ نتائج تسلیم کرتا ہوں ہم نے حالیہ انتخابات کے نتائج بطور احتجاج اس لیے قبول کیے کہ ملک کوجمہوریت کی فوری ضرورت تھی ۔ انہوں نے کہا کہ میرے سمیت پوری پیپلزپارٹی ججوں کی بحالی اور عدلیہ کی آزادی کی حامی ہے ا ور ہم ہر قیمت پر ججوں کو بحال اور عدلیہ کو آزاد کریں گے ۔ لیکن اس حوالے سے بعض لوگ عجلت میں جو نتائج چاہتے ہیں وہ آسان نہیں ہم سیاستدان ہیں اور سیاست میں ایسا راستہ تلاش کررہے ہیں جس سے عدلیہ کی آزادی ‘ جمہوریت کے استحکام ‘ معیشت کی مضبوط ملک وقوم کی ترقی کے ذریعے عوامی خواہشات پر عمل کیا جا سکے ۔ انہوں نے کہا کہ ججوں کی بحالی کے حوالے سے آئینی پیکج تقریبا تکمیل کے آخری مراحل میں ہے اور نواز شریف کی اسلام آباد آمد پر انہیں اس کے مندر جات سے تفصیلی آگاہ کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ فی الوقت ملک میں پیدا کردہ خوراک کا بحران مصنوعی ہے ۔ کیونکہ بعض عناصر ملک قوم کے خلاف اندرونی سازشوں میںملوث ہیں جس طرح چنگیز خان کوئی علاقہ یا قلع فتح کرنے سے پہلے اپنے ایجنٹ بھیج کر وہاں کی طاقت کو اندرونی طورپر کھوکھلا کرتا تھا اسی طرح آج پاکستان کو تورنے کے لیے بھی سازشیں ہو رہی ہیں ۔ اور اندرونی سازشیں باہر سے مسلط کردہ جنگ سے زیادہ خطرناک ہوتی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ گندم سمیت خوراک کے بحران پر قابو پانے کے لیے مشاورت جاری ہے جلد اس پر قابو پالیا جائے گا انہوں نے گندم کی افغانستان سمگلنگ کے حوالے سے کہا کہ پاکستان کی گندم پالیسی میں ہمیشہ افغانستان کو شامل رکھا جاتا ہے کیونکہ اس کا انحصار ہی پاکستان پر ہے ۔ سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم اب تک ملک وقوم کو پانچ بھٹو دے چکے ہین انہوں نے کہا کہ بے نظیر بھٹو کی سیکورٹی کے لیے خصوصی حفاظتی اقدامات کیے گئے تھے جس کے لیے پنجاب ‘ بلوچستان اور سندھ مین ان کی حفاظت کے لیے الگ الگ گاڑیاں اور سخت سیکورٹی پلان تھا لیکن ہم نے یہ سوچا ہی نہیں تھا کہ بی بی کے ساتھ پنجاب میں اتنا بڑا سانحہ پیش آئے گا ہمارا خیال تھا کہ وہ یہاں محفوظ ہیں اور یہاں انہیں کچھ نہیں ہو گا انہوں نے کہا کہ جیلوں کے نظام میں اصلاحات کے لیے صوبوں کوہدایات جاری کردی گئی ہیں ۔ جبکہ صدارتی ترجمان راشد قریشی نے پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے کسی قسم کے آئینی پیکج کو ایوان صدر میں پیش کرنے کی تردید کرتے ہوئے اس خبر کو بالکل بے بنیاد اور حقیقت کے منافی قرار دیتے ہوئے کہاہے کہ نہ کوئی آئینی پیکج ایوان صدر میں پیش کیاگیا ہے اور نہ ہی اس سلسلے میں ایوان صدر کے پاکستان پیپلز پارٹی سے کوئی رابطے ہیں یہ بالکل لا شعوری بات ہے ایک نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے صدارتی ترجمان نے کہاکہ اس بارے میں خبریں اور تبصرے بالکل غلط ہیں میں نے اس بات کا سختی سے نوٹس لیا ہے انہوں نے واضح کیا کہ ایوان صدر کی آئینی پیکج پر کوئی بات نہیں ہوئی اور نہ ہی کسی سے کوئی رابطہ ہے جبکہ پاکستان بار کونسل نے عدلیہ کی بحالی کے لئے ہونے والے لانگ مارچ اور وکلاء کنونشن کے انتظامات کو حتمی شکل دینے کیلئے عملدرآمد کمیٹی کے قیام اور اس کے عہدیداروں کے ناموں کا اعلان کر دیا ہے ، لانگ مارچ کا نام”جسٹس افتخارمارچ“رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔وکلاء رہنماو¿ں نے جنرل باڈی اجلاسوں میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ این آر او کے خاتمے کے خوف سے ججوں کو بحال نہیں کیا جارہا،لیکن وکلاء اپنی جدوجہد کر رہے ہیں اور ہم بہت کامیابی سے ہمکنار ہوں گے۔سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری منیر الرحمن نے کہا ہے کہ وکلاء تحریک ضرور کامیاب ہوگی‘ وکلاء اتحاد کا مظاہرہ کریں ورنہ 9 مارچ‘ 12 مئی‘ 9 اپریل اور 3 نومبر جیسے واقعات رونما ہوتے رہیں گے۔ جنرل باڈی سے شعاع النبی‘ غفار کاکڑ نے بھی خطاب کیا۔ سندھ بار کونسل کے رکن صلاح الدین نے کہا کہ پی سی او کے تحت حلف لینا غیر آئینی ہے‘ عوام کا حکمرانوں پر سے اعتماد اٹھ چکا ہے۔تفصیلات کے مطابق عملدرآمد کمیٹی کے عہدیداروں میں پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین حاجی سیدالرحمن اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر چوہدری اعتزاز احسن کو عملدرآمد کمیٹی کا معاون کنوینر مقرر کیا گیا ہے جبکہ ارکان میں حاجی سیدالرحمن، چوہدری اعتزازاحسن، رشید اے رضوی، حامد خان، امداد اعوان، علی احمد کرد، چوہدری امین جاوید تمام صوبائی بار کونسلوں کے وائس چیئرمین، تمام ہائی کورٹس بار ایسوسی ایشنوں کے صدر اور لاہور کراچی پشاور اور کوئٹہ بار ایسوسی ایشنوں کے صدر شامل ہیں۔ عملدرآمد کمیٹی کو لاہور میں ہونے والے آل پاکستان وکلاء نمائندہ کنونشن کی قرارداد کی روشنی میں حتمی شکل دی گئی ہے۔ عملدرآمد کمیٹی لانگ مارچ کے روٹس کا تعین کریگی اور وکلائ کنونشن سمیت دیگر تمام معاملات کو بھی حتمی شکل دے گی تاکہ 10 جون سے لانگ مارچ کا آغاز کیا جاسکے۔ حکمت عملی کو حتمی شکل دینے کیلئے اجلاس صدر ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن راولپنڈی سردار عصمت اللہ خان کی زیرصدارت ہوا جس میں کراچی بار کے جنرل سیکرٹری نعیم قریشی نے خصوصی طور پر شرکت کی جبکہ اجلاس میں صحافیوں کو بیٹھنے سے روک دیا گیا تھا نہ ہی اجلاس میں موجود ڈویڑنل نمائندوں کی فہرست جاری کی گئی۔ اجلاس کے بعد پریس بریفنگ میں سردار عصمت اللہ خان نے کہا کہ 10 جون کو جو لانگ مارچ شروع کرنے کا اعلان کیا گیا تھا اس کا نام چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری مارچ رکھا گیا ہے۔ 24 مئی کو فیصل آباد میں وکلاء کنونشن میں شرکت کیلئے معزول چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو وکلاء جلوس کی شکل میں صبح 7 بجے ان کی رہائش گاہ سے لے کر بذریعہ موٹر وے فیصل آباد جائیں گے۔ انہوں نے سول سوسائٹی، طلبہ، تاجر برادری، مزدوروں اور عوام سے اپیل کی کہ وہ 24 مئی کے کاروان میں شرکت کریں کیونکہ ججز کو فنکشنل کرنے کی تحریک اب ہماری زندگی اور موت کا مسئلہ ہے ہمیں کسی سے گلہ نہیں ہماری جنگ جاری رہے گی۔ کراچی بار کے سیکرٹری جنرل نعیم قریشی نے کہا کہ 19 اپریل کو کراچی میں بار اور وکلاء کو جلایا گیا لیکن اس پر راولپنڈی میں جو ردعمل تھا اس نے ہمارا حوصلہ بلند کیا ۔ این آر او کی تلوار معزول چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور دوسرے ججز کی بحالی میں رکاوٹ ہے۔ جبکہ وزیراعظم سیّد یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ معزول ججوں کی بحالی کیلئے اتحادی حکومت پر کوئی دباو¿ نہیں ہے اور نہ ایسا کچھ قبول کیا جائے گا، عوام کو مایوس نہیں کرینگے،انہوں نے واضح کیا کہ مسئلہ حل کرنے کے لئے طریقہ طے کرنا ہے ،کیو نکہ کرسی ایک ہے اور چیف جسٹس دو ہیں ،انہوں نے مزید کہا کہ ایک غلطی کا ارتکاب کیا گیا اسے دہرایا نہیں جا سکتا، ن لیگ کے وزراء جلد کابینہ میں شامل ہو جائیں گے، دہشت گردی و انتہا پسندی سے نمٹنے کیلئے تیار کی گئی 3نکاتی حکمت عملی کو امریکا نے سراہا ہے ۔ اس بارے میں میرے ذہن میں کوئی شبہ نہیں، نواز شریف کے ذہن میں کوئی شبہ نہیں ہے اور کسی سیاسی جماعت کے ذہن میں کوئی شک نہیں ہے کہ ان معزول ججوں کو جلد از جلد بحال کرنا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ اتحادی حکومت کو کوئی خطرہ نہیں ہے کیونکہ یہ وسیع البنیاد ہے اور اس کا مقصد عوام کی خدمت کرنا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ماہرین طریقہ کار پر کام کر رہے ہیں اور جلد سفارشات پیش کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ایک غلطی کا ارتکاب کیا گیا اور اسے دہرایا نہیں جا سکتا۔ گزشتہ دنوں انھوں نے بین الاقوامی فورم پر اس کمٹمنٹ کا اظہاربھی کیاکہ تمام معزول جج صاحبان کو بحال کیا جائے گا۔ جب ان سے طریقہ ہائے کار کے بارے میں استفسار کیا گیا تو وزیراعظم نے کہا کہ ایک موجودہ چیف جسٹس ہے اور ایک دوسرا چیف جسٹس ہے، جسے بحال کرنا ہے، ہمیں ایک چیف جسٹس رکھنا ہے اور آئینی ماہرین اس بارے میں طریقہ کار وضع کر رہے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ انہوں نے مسلم لیگ (ن) کے وزراء کی طرف سے دیئے گئے استعفوں کو قبول نہیں کیا ہے کیونکہ امید کی جاتی ہے کہ وہ ججوں کی بحالی کے بعد بہت جلد کابینہ میں دوبارہ شامل ہو جائیں گے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ ججوں کی بحالی کیلئے لوگوں کو کب تک انتظار کرنا ہو گا تو یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ پاکستان کے عوام بہت بالغ النظر، ذہین اور متحمل مزاج ہیں۔ وہ حکومت کو وقت دینا چاہتے ہیں اور ہم انہیں مایوس نہیں کریں گے۔ ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ انہوں نے صدر بش کو بتایا کہ انتہا پسندی و دہشت گردی کی لعنت سے نمٹنے کیلئے تین نکاتی حکمت عملی کی پیروی کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس میں ان لوگوں کے ساتھ سیاسی بات چیت شامل ہے جو عسکریت پسند نہیں ہیں یا جو ہتھیار ڈال کر دہشت گردی کے انسداد میں حکومت کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت عوام کا معیار زندگی بلند کرنے، مواصلات کو بہتر بنانے، روزگار اور کاروبار کے مواقع پیدا کرنے کیلئے فاٹا میں ترقیاتی سرگرمیاں شروع کرنے کی بھی خواہاں ہے اور آخری چارہ کار کے طور پر اس معاملہ سے نمٹنے کیلئے وہاں فورس موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ حکمت عملی امریکہ کو قابل قبول ہے اور انہوں نے ہماری کوششوں کو سراہا ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ کے اثرات کا سامنا کر رہا ہے۔ ہماری سرزمین پر 30 لاکھ سے زائد افغان مہاجرین ہیں، عالمی غذائی سیکورٹی کا خطرہ بھی ہمارے اوپر منڈلا رہا ہے، ہمیں نہ صرف اپنی ضروریات پوری کرنا ہوتی ہیں بلکہ افغانستان کی بھی اور گندم وسطی ایشیائی ریاستوں کو بھی اسمگل کی جا رہی ہے۔ ایک اور سوال پر وزیراعظم نے کہا کہ ہم افغانستان کی تعمیرنو کیلئے 30 کروڑ ڈالر کی معاونت دے رہے ہیں۔ ہمیں دہشت گردی کے بنیادی اسباب کو جڑ سے اکھاڑنا ہے۔ پاک۔بھارت تعلقات کے بارے میں انہوں نے کہا کہ پاکستان بھارت کے ساتھ شاندار تعلقات برقرار رکھنے کا خواہاں ہے۔ پاکستان بھارت سے اچھی توقعات رکھتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر سمیت تمام تصفیہ طلب بنیادی مسائل کو حل کرنا ہو گا، کشمیر کے عوام اپنا حق خود ارادیت چاہتے ہیں۔ مسلم ممالک کے درمیان تعاون کے بارے میں وزیراعظم نے کہا کہ شرم الشیخ میں مسلم رہنماو¿ں کے ساتھ ملاقاتوں میں انہوں نے بہت اچھی بات چیت کی ہے اور سائنس و ٹیکنالوجی، آئی ٹی، زراعت، دفاع اور انٹیلی جنس شیئرنگ کے بارے میں تجربات کا تبادلہ کیا۔ وزیراعظم نے اس اعتماد کا اظہار کیا کہ پاکستان میں جمہوریت کی بحالی سے سیاسی حمایت کو تقویت دینے اور ملک و قوم کیلئے وسیع تر اقتصادی مواقع پیدا کرنے میں مدد ملے گی، ہم تیز تر اقتصادی ترقی کو یقینی بنانے، سرمایہ کاری کو راغب کرنے، روزگار کے مواقع پیدا کرنے اور سماجی و اقتصادی ترقی کے فروغ کے خواہاں ہیں۔ وکلاء نے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے بیان کہ ایک چیف جسٹس کی موجودگی میں نیا چیف جسٹس نہیں لایا جاسکتا ،پر سخت رد عمل ظاہر کیا ہے انکا خیال ہے کہ اس طرح کے بیانات سے پیپلزپارٹی کی مقبولیت کا گراف مزید گررہاہے اور پارٹی عوامی توقعات پر پورا اترنے میں ناکام ہوگئی ہے ریٹائرڈ جسٹس وجہیہ الدین احمد نے کہا کہ 3نومبر 2007کو جسٹس افتخار چوہدری کی موجودگی میں نیا چیف جسٹس لایاگیا اور پیپلز پارٹی مشرف کے اقدامات کو غیر آئینی قرار دیتی رہی ہے اور یہ واضح نہیں کہ وزیر اعظم 3نومبر کے اقدامات کا حوالہ دے رہے تھے یا کسی اور صورتحال کا۔ انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی اقتدار میں آنے سے اب تک کسی بھی ایشو پر نتائج دینے میں ناکام رہی ہے اور وزیر اعظم کا بیان مری اعلامیہ کے خلاف ہے۔ چاہے ججوں کا معاملہ ہو یا اقتصادی بحران ، سکیورٹی مسائل ہوں یا سیاسی معاملات، پیپلزپارٹی نے عوام کو مایوس کیا ہے پارٹی نے ایک بھی ایشو پر نتائج نہیں دیئے وکلاء رہنماو¿ں کا کہنا ہے کہ جب پیپلز پارٹی کے ترجمانوں سے اس سلسلے میں پوچھا جاتا ہے تو وہ تسلی بخش جواب نہیں دے پاتے انہوں نے مزید کہا پیپلز پارٹی کو موجودہ مسائل حل کرنے ہونگے ورنہ اسکی مقبولیت مزید گرے گی“ انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی آئینی پیکیج تیار کررہی ہے جس سے چاروں مستفید ہوں،پرویز مشرف ، آصف زرداری، پی سی او ججوں کو فائدہ ہو اور کچھ عوامی مطالبات بھی تسلیم ہو جائیں انہوں نے کہا کہ خدشہ ہے کہ اگر ہر ایک کو” خوش“ کرنے کی کوشش کی گئی تو سب کچھ ضائع ہو جائیگا ۔جسٹس وجہیہ الدین نے کہا کہ ”وکلاء تحریک عدلیہ کی آزادی کیلئے شروع ہوئی تھی اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ زرداری یا وزیر اعظم کیا کہتے ہیں ۔جسٹس (ر) طارق محمود نے بتایا ہے کہ پیپلز پارٹی کو واضح اعلان کرنا چاہئے کہ وہ کیا کرنا چاہتی ہے انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے درمیانی راستہ اختیار کرکے معزول عدلیہ کی بحالی پر پوری قوم کو ابہام کا شکار کیا ہوا ہے انہوں نے کہا کہ 3نومبر کو ایک چیف جسٹس کی موجودگی میں گن پوائنٹ پر دوسرا لایا گیا مگر وکلاء یہ معاملہ اٹھاتے رہے ہیں کہ کسی جج کی تعیناتی صرف خالی سیٹ پر ہی کی جاسکتی ہے موجود ججوں کی جگہ پر نہیں انہوں نے کہاکہ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اپنی مرضی سے ایسا بیان نہیں دے سکتے ہیں یہیں سے ”کسی“ نے انکو ایسا کرنے کیلئے کہا ہے ۔انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی قرار داد کے ذریعے ججوں کی بحالی پر واضح نہیں ہے مگر تنخواہوں کی ادائیگیوں کے حکم سے وہ انہیں سپریم کورٹ کا جج تسلیم کرتے ہیں وکیل نے کہا کہ اگر 2نومبر کے مطابق معزول ججوں کو تنخواہیں ادا کی جاتی ہیں تو پیپلز پارٹی جسٹس افتخار چوہدری کو بطور چیف جسٹس آف پاکستان کے خود بخود تسلیم کرتی ہے لیکن انکا وزیر اعظم اصل صورتحال کے برعکس بیان دے رہا ہے ۔سپریم کورٹ کے ایک سینئر وکیل اور معزول چیف جسٹس افتخار چوہدری کے قریبی معاون اطہر من اللہ نے کہا کہ یہ بڑی بد قسمتی ہے کہ شہید ذوالفقار علی بھٹو اور شہید بے نظیر بھٹو کی پارٹی کے منتخب وزیر اعظم نے ایسا بیان جاری کیا جس سے ایک آمر کے غیر آئینی اقدامات کی توثیق ہوتی ہے انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کا بیان بے نظیر بھٹو اور ذوالفقار علی بھٹو کی پالیسیوں اور انکے فلسفے سے انحراف ہے جنہوں نے ملک میں آئین کی بالادستی اور جمہوریت کیلئے اپنی زندگیاں قربان کیں یہ خوفناک بات ہے کہ ایسی پارٹی کا منتخب وزیراعظم مشرف کے غیر آئینی اقدامات کی توثیق کرنیوالے بیانات دے رہا ہے ۔اس طرح ملک کے مستقبل سے کھیلا جا رہا ہے ۔اطہر من اللہ نے کہا ”کسی سپریم کورٹ نے کبھی پی سی او کو معطل نہیں کیا “لیکن اس پی سی او کو سپریم کورٹ کے 7رکنی بنچ نے معطل کیا انہوں نے مزید کہا کہ وزیر اعظم کا بیان میثاق جمہوریت کی بھی واضح نفی ہے ۔ جبکہ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل (ر) اسد درانی نے کہا ہے کہ صدر پرویز مشرف کے ہٹنے تک خود کش حملے ختم نہیں ہوں گے۔ جب تک پرویز مشرف منظر سے نہیں ہٹتے پاکستان میں خود کش حملے ختم نہیں ہوں گے۔ جبکہ وفاقی سیکرٹری برائے انفارمیشن اور براڈ کاسٹنگ محمد اکرم شہیدی نے کہا ہے کہ نئے انفارمیشن ایکٹ میں صحافیوں کو اطلاعات تک بروقت رسائی دینے ، احتساب کا عمل یقینی بنانے میں مدددینے اور شفافیت کو یقینی بنانے کے حوالے سے میڈیا کی تمام ضروریات کا احاطہ کیاجائیگا،شہید ی نے اس موقع پر مزید کہا کہ سی پی این ای، اے پی این ایس اور پی ایف یوجے سمیت تمام فریقین کے ایک اور اجلاس 25 تا26 مئی تک ہوگا جس میں اس پر غور کیاجائیگا جس کے بعد یہ بل منظوری کیلئے قومی اسمبلی میں پیش کر دیاجائیگا۔سیکر ٹری اطلاعات کا کہنا تھا کہ حکومت ایک آزاد فضاپیدا کرنے کیلئے موثر اقدامات کر رہی ہے اور اس حقیقت کا ایک مظہر یہ ہے کہ اب تمام ٹی وی چینلز کے اینکرز مختلف معاملات پر آزادانہ بحث کر رہے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ آج ملک میں60 کے قریب ٹی وی چینلزکام کر رہے ہیں اور میڈیا سے وابستہ اداروں کو ذمہ داری اور بالغ نظر صحافت کا مظاہرہ کرنا چاہئے، انہوں نے مزید کہا کہ میڈیا اور وزارت اطلاعات ایک ہی کشتی کے سوار ہیں اور اس طرح میڈیاکی آزادی کیلئے جدوجہد کر رہے ہیں انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ حکومت میڈیاکو دبانے کیلئے کوئی اقدامات نہیں کریگی ۔ جبکہ سابق آرمی چیف جنرل (ر) مرزا اسلم بیگ نے کہا ہے کہ امریکہ اپنے مقاصد کے حصول تک صدر پرویز مشرف کو اقتدار میں رکھنا چاہتا ہے اور اس مقصد کے لیے وہ(ن) لیگ کو پیپلزپارٹی سے دور کرکے پی پی پی (ق) لیگ اور ایم کیو ایم کی مخلوط حکومت بنانے کی سازشوں میں مصروف ہے اور اس میں وہ کافی کامیاب دکھائی دے رہا ہے۔ ایک انٹرویو میں مرزا اسلم بیگ نے کہا ک ہے ہ جب ذاتی مفادات قومی مفادات پر مقدم ہو جائیں تو کمزور فیصلے ہوتے ہیں این آراو کے تحت جو آصف زرداری کو مفادات حاصل ہوئے ہیں مقدمات ختم ہوئے ہیں اور ایم کیو ایم کے خلاف قتل سمیت 2800 مقدمات تھے سب ختم ہو گئے جب اتنا بڑا احسان مندی کا بوجھ ہو تو پھر ذاتی مفادات قومی مفادات پر غالب آجاتے ہیں اور جب تک یہ غالب رہیں گے یہ لوگ دب کر بات کرتے رہیں گے مگر ایسا کوئی دباو¿ نواز شریف اور اے پی ڈی ایم پر نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج وہ ہمت اور حوصلے کے ساتھ اس ٹکراو¿ کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں جو آج پیدا ہوا ہے اگر یہاں مضبوط قومی حکومت قائم ہوئی تو وہ کشمیر کے مسئلے کو پس پشت نہیں ڈال سکتی بلکہ طاقت کے زور پر ان معاملات کو حل کرنے کی پوزیشن میں ہو گی۔ جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے چےئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستان میں طالبانائزیشن ناکام اور ناقص خارجہ پالیسی کارد عمل ہے۔ پرویز مشرف صرف اپنی کرسی بچانے کے لیے وطن عزیز کے محب وطن اور معصوم شہریوں کو اپنی انا اور نام نہاد دہشت گردی کی جنگ کا ایندھن بنا رہے ہیں ۔ قبائلی علاقوں میں ہونے والے امریکی حملوں اور دیگر دھماکوں میں معصوم شہری اور پاکستانی فوجی ہی مارے جارہے ہیں لیکن حکومت سچ چھپا رہی ہے ۔ عمران خان نے الزام عائد کیا کہ پاک فوج قبائلی علاقو ںمیں ستر ملین ماہانہ لے کر امریکا کی خدمت کررہی ہے اور اس کے کرائے کے گوریلوں کاکردار ادا کر رہے ہیں ۔ طالبانائزیشن کے خاتمے اور پائیدار امن کے لیے ضروری ہے کہ امریکی فوجیں افغانستان اور پاکستانی فوج قبائلی علاقوں سے فوری طور پر نکل جائیں اور سنگین مسئلہ کا حل مذاکرات سے ہی نکالا جائے بصورت دیگر وطن عزیز پر طالبانائزیشن اور دہشت گردی جیسا عذاب مسلط ہی رہے گا۔ ملکی موجودہ صورتحال سے ثابت ہو گیا کہ اے پی ڈی ایم کے الیکشن بائیکاٹ کا فیصلہ درست تھا ۔انہوں نے کہا کہ اٹھارہ فروری کے الیکشن سے قبل پیپلز پارٹی نے بھی الیکشن کا بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا مگر نیگرو پونٹے اور باو¿چر کی پارٹی قیادت سے ملاقاتوں اور امریکی مداخلت پر پیپلز پارٹی الیکشن لڑنے پر مجبور ہوئی تھی لیکن اس وقت ساری سیاسی جماعتیں اے پی ڈی ایم کی کال پر الیکشن کا بائیکاٹ کرتیں تو آج یہ کھچڑی نہ پکتی اور ججز اور عدلیہ کی بحالی کا مسئلہ حل ہو چکا ہوتا ۔ عمران خان نے کہا کہ ملک پر مسلط چور ڈاکو قومی لٹیرے اور الطاف حسین جیسے دہشت گرد معزول ججز کی بحالی اور عدلیہ کی آزادی کو اپنے لیے سب سے بڑا خطرہ سمجھتے ہیں اسی لیے اب آئینی پیکج کے تحت چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے ہاتھ باندھنے کی سازشیں کی جا رہی ہیں لیکن وکلاء سیاستدانوں سمیت پوری پاکستانی قوم چیف جسٹس کی پشت پر ہے اور معزول ججز سمیت عدلیہ کی بحالی کے لیے بڑی سے بڑی قربانی سے بھی دریغ نہیں کرے گی۔ انہوں نے ملک بھر کے وکلاء کی جرات اور تحریک کو سلام پیش کیا کہ شریف الدین پیرزادہ سمیت کئی ایک میر جعفر اور میر صادق ان کی صفوں میں گھسے ہوئے ہیں مگر وکلاء نے ان کی سازشیں ناکام بنا کر ملک کو لیڈر شپ دی ۔عمران خان نے کہاکہ یہ کہاں کا قانون و انصاف ہے کہ مفاہمتی آرڈیننس کے تحت آصف زرداری اور سب سے بڑی دہشت گرد تنظیم ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین سمیت تھوک کے حساب سے کرپشن کیسز والوں کے مقدمات ختم کر کے انہیں این آر او کی گنگا سے نہلا کر پاک صاف کر دیا گیا ۔ انہوں نے کہا کہ پرویز مشرف دور میں 55 ارب سے زائد رقم کے قرضے لے کر معاف کروائے گئے ایک غریب معمولی جرم اور معمولی قرضے کی پاداش میں سالوں جیلوں میں سڑتا رہتا ہے لیکن پرویز مشرف نے اربوں روپے لوٹنے والوں اور کتنے ہی معصوم بے گناہ شہریوں کے قاتلوں کو تحفظ فراہم کر کے انہیں ہر قسم کے احتساب سے بچا لیا ہے ۔عمران خان نے بتایا کہ پرویز مشرف نے آصف زرداری اور بے نظیر بھٹو کے خلاف دائر کیسز کے سلسلے میں صرف ایک وکیل کو بارہ کروڑ روپے دئیے اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ قومی لٹیروں کے خلاف قائم کیسز کے لیے کروڑوں روپے کا کس قدر بے دریغ استعمال کر کے اور خزانہ خالی کر کے ان قومی مجرموں کو مکھن میں سے بال کی طرح نکال باہر کر دیاگیا اس کا احتساب ضروری ہےجبکہ صدر پرویز مشرف نے کہا ہے کہ موجودہ سیاسی سیٹ اپ میں ان کا سیاسی کردار ہے لہذا وہ استعفیٰ نہیں دیں گے آئینی طورپر منتخب صدر ہوں پانچ سالہ مدت پوری کروں گا ۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے آج پاکستان مسلم لیگ (ق) کے صدر چوہدری شجاعت حسین اور حامد ناصر چٹھہ سے ملاقات کے دوران کیا ملاقات میں پاکستان پیپلزپارٹی کے ججز کی بحالی اور صدر ، وزیراعظم کے درمیان اختیارات میں توازن قائم کرنے اور سیکیورٹی کونسل کے خاتمے سے متعلق آئینی پیکج اور حالیہ ملکی سیاسی صورتحال پر بھی تبادلہ خیال ہوا ۔ یہ ملاقات صدر پرویز مشرف کی خواہش پر ہوئی ہے جس میں (ق) لیگ کی طرف سے معزول ججز کو بحال کرنے کا مطالبہ کیا گیا جس پر صدر پرویز مشرف نے عدم اطمینان اور ناخوشی کا اظہار کیا ہے کہ ان کے تین نومبر کے اقدامات کے خلاف( ق) لیگ بھی میدان میں آ گئی ہے صدر مشرف نے یہ بھی واضح کیا کہ انہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی او ر(ن) لیگ سے ایسی کوئی پیشکش نہیں کی کہ ان کے تین نومبر کے اقدامات کو آئینی تحفظ دے دیا جائے تو وہ اپنے عہدے سے اس سال کے آخر تک مستعفی ہو جائیں گے یہ ایک گلے شکوے کی ملاقات تھی جس میں چوہدری شجاعت حسین نے ان کوششوں اور سازشوں پر بھی اپنے تحفظات کا اظہار کیا جس میں مسلم لیگ (ق) کی قیادت نے انہیں ہٹانے کیلئے کوشش کی گئیں اور اس میں کچھ سرکاری ادارے بھی شامل تھے پیپلز پارٹی کی حکومت کی جانب سے تیار کئے جانے والے آئینی پیکیج کے اہم نکات سامنے آ گئے ہیں مجوزہ آئینی پیکیج کے تحت سروسز چیفس اور صوبائی گورنرز سمیت اہم ترین عہدوں پر تقرری کا اختیار وزیراعظم ہو کو ہو گا چیف جسٹس کے عہدے کی میعاد تین سال مقرر کر دی جائے گی۔ پیپلز پارٹی کے مجوزہ آئینی پیکیج کے اہم نکات سامنے آ گئے ہیں اس مجوزہ آئینی پیکیج کے تحت آئین کی دفعہ اٹھاون ٹو بی ختم اور سروسز چیفس سمیت دیگر اہم ترین عہدوں پر تقرری کا اختیار وزیراعظم کو منتقل کیا جائے گا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ آئینی پیکیج میں صدر سے اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار واپس لے لیا جائے گا۔ آرمی چیف سمیت مسلح افواج کے سربراہوں کی تقرری کا اختیار وزیراعظم کو ہو گا جبکہ صوبوں کے گورنروں، چیف الیکشن کمشنر اور اٹارنی جنرل کی تقرری بھی وزیراعظم کریں گے۔ عدلیہ کے حوالے سے آئینی پیکیج میں چیف جسٹس کی میعاد عہدہ تین سال مقرر کرنے کی تجویز ہے جبکہ سپریم کورٹ کے دیگر ججوں کی مدت ملازمت تین سال بڑھائی جائے گی۔صدارتی ترجمان میجر جنرل ریٹائرڈ راشد قریشی نے نجی ٹی وی چینل سے بات چیت میں بتایا کہ آئینی پیکیج کی منظوری پارلیمنٹ کا اختیار ہے تاہم ججوں کی بحالی اور صدر وزیراعظم کے درمیان اختیارات کے توازن کے حوالے سے آئینی پیکیج کا مسودہ دیکھنے کے بعد ہی ردعمل کا اظہار کیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ نہ تو آئینی پیکیج کا کوئی مسودہ ایوان صدر آیا اور نہ ہی یہاں سے کوئی بھیجا گیا ہے ذرائع کے مطابق آئینی پیکیج پر مشاورت کے لئے صدر پرویز مشرف سے چوہدری شجاعت، حامد ناصر چٹھہ، رضا حیات ہراج اور ماروی میمن نے ملاقات کی ہے۔جبکہ حکومت پاکستان نے واضح کیاہے کہ دہشت گردوں سے امن معاہدہ ہوا ہے او رنہ ہی ان سے بات چیت کی جائے گی اسلام آباد میں وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کی صدارت میں ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں فیصلہ کیاگیاہے کہ فاٹا کو پر امن علاقہ بنانے کیلئے کثیر الجہتی حکمت عملی اپنائی گئی ہے آٹے کی قیمتوں کو مستحکم رکھنے کیلئے کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے نجی شعبے کو گندم کی ڈیوٹی فری درآمد کی اجازت دے دی ہے تمام سرکاری محکموں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ واپڈا کے واجبات ایک ماہ کے اندر ادا کر دیں اقتصادی رابطہ کمیٹی اور کابینہ کے اجلاس میں ہونے والے فیصلوں کے بارے میں اطلاعات و نشریات کی وفاقی وزیر شیریں رحمن نے میڈیا کو بریفنگ دی اورکہاکہ اجلاس میں فیصلہ کیاگیاہے کہ کسی دہشت گرد سے بات چیت نہیں ہو گی اور فاٹا کو پر امن علاقہ بنانے کیلئے حکومت کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے ایسے لوگ رہا نہیں ہوں گے جو اسلحہ رکھتے ہوں اور زور و جبر سے عزائم منوانا چاہتے ہوں جنوبی وزیرستان میں جاری فوجی کارروائی میں کمی لائی گئی ہے تاکہ وہاں کے پرامن علاقائی لوگ واپس اپنے گھروں کو جا سکیں مگر اس کا قطعی یہ مطلب نہیں ہے کہ دہشت گردی کے ساتھ کوئی امن معاہدہ طے پا رہا ہے شیریں رحمان نے کہا کہ فوج نے اپنی کوئی بٹالین وہاں سے کم نہیں کی ہے بلکہ وہ سویلین کی مدد کے اپنے آپ کو منظم کر رہے ہیں انہوں نے کہاکہ حکومت ان لوگوں کو معاوضہ دے گی جن کے گھر یا جائیداد کو نقصان پہنچا ہے حکومت وہاں کے متعلقہ لوگوں کے ساتھ امن کے قیام کیلئے مل کر کام کرے گی اجلاس میں یہ بھی فیصلہ ہوا ہے کہ گندم کی برآمد پر پابندی جاری رہے گی تاکہ صارفین تک وافر مقدار میں گندم کی رسائی ہو پاسکو کو کہا گیا ہے کہ وہ بلوچستان اور سرحد کے لئے مقرر کردہ گندم کا ہدف پورا کرے کیونکہ وہاں گندم کی سب سے زیادہ کمی ہے یہ بھی فیصلہ ہوا ہے کہ حکومت نجی شعبے کو گندم کی درآمد کی اجازت دے گی اور اس پر دس فیصد ڈیوٹی وہ بھی ہٹا دی گئی ہے گندم کی سرکاری خریداری کا ہدف پچاس لاکھ ٹن مقرر کیاگیاہے جبکہ گندم کی برآمد پر پابندی برقرار رہے گی آٹے کی سپلائی کو یقینی بنانے کیلئے مخصوص سطح پر گندم کا ذخیرہ سال بھر برقرار رکھا جائے گا آئینی پیکج کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں شیری رحمان نے بتایا کہ تمام فیصلے قومی امنگوں کے مطابق کئے جائیں گے اگر کسی فیصلے پر کسی جانب سے کوئی احتجاج ہوتا ہے تو یہ عوام کا جمہوری حق ہے کابینہ کم از کم اجرت 6 ہزار مقرر کرنے کے فیصلے پر عملدر آمد کو یقینی بنانے کیلئے متعلقہ قانون میں تبدیلی اور اسے بچت کا حصہ بنانے کا فیصلہ کیا قومی مفاہمت کی پالیسی کے تحت کابینہ نے جہیز کی حد مقرر کرنے کا سرکاری بل واپس لینے کا فیصلہ کیاہے سینٹ میں مسلم لیگ (ق) کے انور بھنڈر کا نجی بل پہلے ہی متفقہ طور پر منظور کیا جا چکا ہے بل کے تحت جہیز کی حد 30 ہزار روپے جبکہ تحائف کی حد 50 ہزارروپے مقرر کی گئی ہے وزیراعظم نے وفاقی کابینہ کے اجلاس کے دوران چین میں زلزلے کی وجہ سے اموات اور لا پتہ افراد کی تعداد 70ہزار سے بھی تجاوز کرنے پر گہرے دکھ اور غم کا اظہار کیا ہے انہوں نے کہا کہ بہت زیادہ نقصان کے پیش نظر ہم امدادی سامان میں جائزہ لے رہے ہیں انہوں نے کہاکہ چین ہمارا عظیم دوست ہے اور شرم الشیخ میں انہیں حکومت چین کی جانب سے درخواست کی گئی کہ متاثرین کیلئے خیموں کی اشد ضرورت ہے اس لئے پاکستان کی جانب سے فوری طور پر چار۔130طیاروں اور 30ٹرکوں کے ذریعے خیمے اور دوسرا امدادی سامان چین روانہ کیاگیا چین میں زلزلے سے ہلاک ہونے والوں کی یاد میں ایک منٹ کی خاموشی بھی اختیار کی گئی پاکستان میں 2005ء کے زلزلے کے بعد چین نے امدادی اشیاء کے علاوہ 3کروڑ ڈالر سے زائد مالی امداد فراہم کی تھی۔ تحریر : اے پی ایس اسلام آباد
International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment