کراچی ۔ معزول چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا ہے کہ پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے جج قوم کے سامنے جوابدہ ہیں ۔ کراچی بار سے ٹیلی فونک خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر ماضی میں عدلیہ آمروں کے سامنے نہ جھکتی تو آج حالات کچھ اور ہوتے لیکن ماضی کی طرح اب پاکستان کے ساتھ مذاق نہیں ہونے دیا جائے گا ۔ انہوں نے وکلاء میڈیا اور سول سوسائٹی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہاکہ پہلی مرتبہ سولہ کروڑ عوام قانون کی حکمرانی کی جدوجہد کر رہے ہیں ۔ پاکستانی قوم اب غیور ہو چکی ہے اور اپنا دفاع کرنا جانتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وکلاء کی تحریک چودہ ماہ سے کامیابی کے ساتھ جاری ہے اور مسلم لیگ ن نے عدلیہ کی بحالی کے لیے وزارتوں کی قربانی دی ہے ۔ یہ قدم پاکستان کو اس کی منزل تک پہنچائے گا معزول چیف جسٹس نے کہاکہ اٹھارہ فروری کے بعد پاکستان میں نظام تبدیل ہو چکا ہے ۔ پرویز مشرف خود تسلیم کر چکے ہیں کہ تین نومبر کے اقدامات غیر آئینی تھے ۔ جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہاکہ ساٹھ ججوںنے ان کا ساتھ دیا مگر انیس ججوں نے خود کو حالات کے حوالے کر دیااور پی سی او کے تحت حلف اٹھایا جس کاانہیں بے حد افسوس ہے۔ اس موقع پر انہوںنے 24 مئی کو فیصل آباد بار اور 31 مئی کو پشاور بار سے خطاب کا اعلان بھی کیا۔
۔۔۔۔تفصیلی خبر ۔۔۔۔۔
وکلاء اور ججوں کے پاس سمجھوتے کی کوئی گنجائش باقی نہیں ہے, کسی نے سجھوتا کیا تو قوم اسے معاف نہیں کرے گی
معزول چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری کا جمعرات کو وکلاء تنظیموں کے مشترکہ جنرل باڈی اجلاس سے خطاب
معزول چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری نے کہا ہے کہ اب وکلاء اور ججوں کے پاس سمجھوتے کی کوئی گنجائش باقی نہیں ہے۔ کسی نے سجھوتا کیا تو قوم اسے معاف نہیں کرے گی۔ شخصی حکومت کا حلف اٹھانے سے انکار کرنے والے جج قابل تحسین ہیں جنہوں نے اصولی موقف پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعرات کو وکلاء تنظیموں کے مشترکہ جنرل باڈی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ وکلاء کے ساتھ وہ جج صاحبان مبارکباد کے مستحق ہیں جنہوں نے غیر آئینی اقدامات کو تسلیم کرنے یا شخصی حلف اٹھانے سے انکار کر دیا۔ معزول چیف جسٹس نے کہا کہ ماضی میں آمروں نے ہمیشہ نظریہ ضرورت کے تحت تحفظ حاصل کیا اور بحیثیت چیف جسٹس آف پاکستان میں ان تمام حالات میں عدلیہ کو مبرا نہیں سمجھتا اگر عدلیہ 1952ء سے لے کر 2002ء تک غیر آئینی اقدامات کی حوصلہ افزائی نہ کرتی تو یہ حالات پیدا نہ ہوتے۔ انہوں نے کہا کہ اب 60 سال بعد یہ وقت ایسا آیا ہے جہاں وکلاء، جج صاحبان، سول سوسائٹی اور عوام نے یہ تسلیم کرلیا ہے کہ آئین کی بالادستی کے بغیر مملکت کو چلانا مشکل ہے۔ انہوں نے کہا کہ 3 نومبر 2007ء کو غیر آئینی مارشل لاء لگانے کی کوشش کی گئی مگر اعلیٰ عدالتوں کے اکثر جج صاحبان نے ان غیر آئینی اقدامات کو اٹھا لیا۔ انہوں نے کہا کہ عبوری آئینی حکم نامے کا حلف نہ اٹھانے والے جج صاحبان تمام تکلیف دہ حالات کے باوجود ڈٹے ہوئے ہیں جو قابل تحسین ہے۔ معزول جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا کہ ہائی کورٹ کے ججوں کو دوبارہ تقرری کی پیشکش کی گئی مگر انہوں نے اس لئے انکار کر دیا کہ ایسا کرنا 3 نومبر کے اقدامات کو تسلیم کرنے کے مترادف ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ اب عام آدمی کو معلوم ہو چکا ہے کہ جج آزاد ہوں گے تو مجرموں کو سزا بھی ملے گی اور باقی مسائل حل ہوں گے۔ انھوںنے کہا کہ پی سی او کا حلف اٹھانے والوں کو میں جج نہیں سمجھتا۔معزول چیف جسٹس نے کہا کہ آج پاکستان کے طول و عرض کے عوام معزول چیف جج صاحبان کے ساتھ کھڑے ہیں اب وکلاء کی ذمہ داری ہے کہ وہ خود کو مزید آزمائش کیلئے تیار کریں۔انھوں نے کہا کہ وکلاء تحریک کی کامیابیوںمیں میڈیا کے کردار کو کبھی فرا موش نہیں کیا جاسکتا۔انھوں نے کہا کہ تاریخ میں اتنی بڑی تحریک کی مثال نہیں ملتی۔
No comments:
Post a Comment