International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.

Wednesday, May 21, 2008

سرحد حکومت اور سوات کے عسکریت پسندوں کے درمیان پندرہ نکاتی معاہدہ طے پا گیا

پشاور۔ سرحد حکومت اور سوات کیعسکریت پسندوں کے درمیان پندرہ نکاتی معاہدہ طے پا گیا۔حکومت 1999 ء والی شریعت بحال،عسکریت پسند خود کش حملے بند کرنے پر رضا مند ہو گئے ۔حالات بہتر ہوتے ہی فوج کی واپسی پر بھی اتفاق۔ معاہدے کا باقاعدہ اعلان بدھ کو صوبہ سرحد کے سینئر وزیر بشیر احمد بلور نے کیا۔انہوں نے بتایا کہ تین ادوار کی ملاقات کے بعد طے پانے والے اس معاہدے میں دونوں فریقین کے امام ڈھیری کو مرکز اسلامی یونیورسٹی میں تبدیل کرنے پر متفق ہوئے ہیں جو کہ پہلے طالبان کا گڑھ تھی۔ ڈکیتوں اور کار چوروں کو حکومت پکڑے گی اور طالبان بیچ میں روڑے نہیں اٹکائیں گے۔ ایف ایم ریڈیو پیمرا کے مطابق چلے گا۔ مالاکنڈ ڈویڑن میں1999 ء والی شریعت نافذ کی جائے گی۔ جبکہ عسکریت پسندوں نے منادی کرائی ہے کہ آئندہ کوئی خود کش حملہ نہیں ہوگا اس کے علاوہ اگر وہاں کوئی غیر ملکی موجود ہوا تو اس کو حکومت کے حوالے کر دیا جائے گا فوج کی سوات میں موجودگی کے حوالے سے یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ جوں ہی سوات میں حالات بہتر ہوئے فوج کی واپسی بتدریج شروع کر دی جائے گی اور فوجی کارروائی کے دوران جن لوگوں کے نقصانات ہوئے ہیں ان کا ازالہ کیا جائے گا اس کے علاوہ سوات میں اسلحہ کی نمائش پر بھی پاپندی عائد کر دی گئی ہے ۔مقامی طالبان حکومت کی عمل داری تسلیم کریں گے وہ حکومت کی رٹ کو چیلنج نہیں کریں گے دوسری طرف مقامی طالبان کے رہنما علی بخت نے بتایا ہے کہ حکومت کے ساتھ تمام نکات پر اتفاق ہو گیا ہے ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے یقین دہانی کرائی ہے کہ ایک ہفتہ کے اندر اندر تمام عسکریت پسندوں کو رہا کیا جائے گا دونوں فریقوں کے درمیان متنازع معاملات کے حل کے لئے مشترکہ کمیٹی کے قیام پر بھی اتفاق ہوا۔ اس کمیٹی میں حکومت کی طرف سے صوبائی وزیر جنگلات واجد علی خان، شمشیر خان ،ڈی آئی جی سمیع الحق سفرا، ڈی سی او اور سی اور شامل ہوں گے جبکہ مقامی عسکریت پسندوں کی جانب سے مولانا امین، مولانا عزیز ذوق،مولانا مسلم خان ، محمود خان اور لدار خان شامل ہوں گے
۔۔۔۔مزید تفصیل ۔۔۔
سرحد حکومت اور تحریک طالبان سوات کے مابین معاہدہ طے پا گیا
سوات میں متعین فوج بتدریج بیرکوں میں واپس جائے گی،امام ڈھیری کو اسلامی یونیورسٹی میں تبدیل کر دیا جائے گا
خود کش اور ریموٹ حملوں کی کسی کو اجازت نہیں ہو گی غیر ملکی افراد کو پاکستان حکومت کے حوالے کیا جائے گا،پولیو مہم کی مخالفت نہیں کی جائے گی
ایف ایم ریڈیو حکومتی اجازت اور قوانین کے نیچے ہی استعمال ہو گا،مقامی طالبان جرائم پیشہ عناصر سے علاقے کو خالی کرانے میں حکومت کی مدد کریں گے

پشاور۔ صوبہ سرحد کی حکومت اور تحریک طالبان سوات کے مابین معاہدہ طے پا گیا ہے جس کے تحت سوات میں متعین فوج بتدریج بیرکوں میں واپس جائے گی جبکہ تحریک کے ہیڈ کوارٹر مدرسہ امام ڈھیری کو اسلامی یونیورسٹی میں تبدیل کر دیا جائے گا ۔بدھ کو یہاں طویل مذاکرات کے بعد میڈیا کو تفصیلات بتاتے ہوئے صوبہ سرحد کے سینئر وزیر بشیر احمد بلور نے کہا کہ مذاکرات کا یہ تیسرا دور کٹھن اور کسی حد تک مشکل تھا تاہم دونوں طرف کے لوگ پندرہ نکات پر متفق ہو گئے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ معاہدے کی رو سے سوات میں تعینات فوج بتدریج بیرکوں میں واپس چلی جائے گی اور امام ڈھیری کے مدرسے کو اسلامی یونیورسٹی بنایا جائے گا ۔انہوں نے کہا کہ معاہدے کی رو سے اس کے بعد طالبان حکومت کی مشینری ،فوج،ایف سی ،پولیس اور حکومتی عمارتوں پر حملے نہیں کریں گے ۔خود کش اور ریموٹ حملوں کی کسی کو اجازت نہیں ہو گی غیر ملکی افراد کو پاکستان حکومت کے حوالے کیا جائے گا ۔خواتین کے بازاروں اور مراکز پر حملے نہیں کئے جائیں گے ۔صرف وہ اسلحہ رکھنے کی اجازت ہو گی جس کا لائسنس ہو گا وہ تمام مراکز فوری طور پر بند کرنے ہونگے جہاں پر خود کش بمبار اور بم تیار کرنے کی تربیت دی جاتی ہے ۔معاہدے کی رو سے مقامی طالبان اور مولانا فضل اللہ پولیو ویکسین کے ساتھ کسی مہم کی مخالفت نہیں کریں گے اور نہ ہی خواتین کی تعلیم میں رکاوٹ ڈالیں گے ۔ایف ایم ریڈیو کے حوالے سے فیصلہ ہوا کہ یہ ریڈیو صرف حکومتی اجازت اور قوانین کے نیچے ہی استعمال ہو گا ۔مقامی طالبان جرائم پیشہ عناصر سے علاقے کو خالی کرانے میں حکومت کی مدد کریں گے ۔حکومت کی جانب سے قائم کئے گئے مقدمات کو ختم کرنے کے لئے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جبکہ معاہدے پر عمل درآمد کے لئے حکومت اور مقامی طالبان کی ایک مشترکہ کمیٹی تشکیل دی گئی جس میں صوبائی وزیر واجد علی خان،ایم پی اے ڈاکٹر شمشیر ،ڈی آئی جی سوات ،ڈی سی او سوات جبکہ دوسری جانب سے مولانا محمد امین ،علی بخت خان اور مسلم خان ممبران ہونگے ۔معاہدے کی رو سے کسی بھی پرائیویٹ ملیشیاء پر پابندی ہو گی ۔مذاکرات کے اس تیسرے دور میں صوبائی حکومت کی نمائندگی بشیر احمد بلور،رحیم داد خان،افراسیاب خٹک،واجد علی خان،ڈاکٹر شمشیر علی خان جبکہ طالبان کی نمائندگی مولانا محمد امین،علی بخت خان ، حاجی علم خان اور محمود خان وغیرہ نے کی ۔

No comments: