International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.

Monday, July 14, 2008

جمہوری ہتھکنڈے اور سیاسی بونے ۔۔۔ تحریر : اے پی ایس ، اسلام آباد

اگر اعلان بھوربن کے مطابق معزول ججوں کی بحالی کی جاتی تو اس سے حکمران اتحاد مزید مضبوط ہو جاتا مگر ججوں کی بحالی کے بغیر( ن ) والے وفاقی کابینہ میں شامل نہیں ہوں گے آئینی پیکج کو منظور کروانے کیلئے سینٹ میں دو تہائی اکثریت موجود نہیں البتہ صدر مشرف کا مواخذہ کرنے کیلئے ان کے پاس مکمل تعداد موجود ہے اٹھارہ فروری کے انتخابات کا عوامی مینڈیٹ بھی یہی ہے کہ معزول جج بحال کئے جائیں قوم میں مایوسی اور بے چینی ہے لہذٰا ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے فیصلے کئے جائیں جس سے عوام کے مسائل حل ہوں اور ملک میں جمہوریت کو استحکام ہو ۔ جبکہ وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں محمد نواز شریف ، عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفند یار ولی خان اور جمعیت علماء اسلام (ف) کے امیر مولانا فضل الرحمن سے رابطوں کے نتیجہ میں آئندہ چند دنوں میں حکمران اتحاد کا مشترکہ اجلاس اور اتحاد کے قائدین کی وزیراعظم سے ملاقاتیں متوقع ہیں وزیراعظم نے حکمران اتحاد کے قائدین کو ملاقات کی دعوت دی ہے آئندہ چند دنوں میں اہم قومی ایشوز کے حوالے سے حکمران اتحاد کے اجلاس کا امکان ہے۔ نواز شریف نے وفاقی کابینہ ، قائمہ کمیٹیوں اور پارلیمانی سیکرٹریز کی تقرری کے حوالے سے امور کے بارے میں چوہدری نثار علی خان کو نمائندہ نامزد کیا ہے وزیراعظم او رحکمران اتحاد کے قائدین کے درمیان ان رابطوں کے نتیجے میں حکمران اتحاد کے مشترکہ جمہوری ایجنڈے میں پیشرفت پر اتفاق ہوا ہے وزیراعظم اور حکمران اتحاد کے قائدین نے سرحدی علاقوں میں امریکی اور نیٹو افواج کے میزائل حملوں کی مذمت کرتے ہوئے اس حوالے سے تشویش کا اظہار کیا ہے ذرائع کے مطابق حکمران اتحاد کے قائدین نے وزیراعظم کو عوامی مسائل کے حل کے حوالے سے تعاون اور مشترکہ جدوجہد جاری رکھنے کی یقین دہانی کرائی ہے ۔ پاکستان پیپلز پارٹی کو یاد رکھنا چاہیے کہ شہید بے نظیر بھٹو نے کہا تھا کہ معزول چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری ان کے اور وزیراعظم کے چیف جسٹس ہیں اور پاکستان پیپلز پارٹی کو چاہیے کہ محترمہ شہید کے ان الفاظ کا پاس رکھے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سمیت تمام ججز ضرور بحال ہونے چاہیے چیف جسٹس کی بحالی پاکستان پیپلز پارٹی پر قرض ہے ججز کے ایشو کے حوالے سے موجودہ حکومت ٹھوکریں کھارہی ہے اسے چاہیے بے نظیر بھٹو کے اعلان کو پورا کرے اگر کسی کو یہ خوش فہمی ہے کہ وکلاءتحریک کمزور پڑے گی تو وہ ذہن سے یہ خوش فہمی نکال دے اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ججز کی بحالی کا مسئلہ ٹھنڈا پڑ جائے گا یہ مسئلہ ججوں کی بحالی تک ٹھنڈانہیں پڑے گا ۔ اگر عوام سے کئے گئے وعدے پورے نہ ہوئے تو نام نہاد سیاسی بونے اپنی مقبولیت کھو بیٹھیں گے آئین کو پامال کرنے اور پارلیمینٹ توڑنے والے آزاد پھر رہے ہیں معزول ججز کی بحالی کا وعدہ پورا نہ کرنے پر پیپلز پارٹی کا گراف عوام میں کم ہو رہا ہے اور عوام نون لیگ کے بارے میں بھی سوال کر رہے ہیں کہ وہ ایسی مخلوط حکومت کا حصہ کیوں ہیں۔ عدلیہ کی آزادی کے بغیر ملک میں حقیقی جمہوریت بحال نہیں ہو سکتی۔ جبکہ قاضی حسین احمد نے کہا ہے کہ اگر امریکہ نے پاکستان میں مداخلت کی یا کوئی کاروائی کی تو اعلان جنگ ہو گا اور پاکستان کا بچہ بچہ امریکہ کے خلاف جنگ لڑے گا ۔ امریکہ پاکستان کے لئے ناسور سے کم نہیں اور حکومت کو پاکستان سے اتحاد ختم کرنا چاہیے ۔انہوں نے کہا کہ پڑوسی ممالک سے بات چیت کی جائے اور تمام تنازعات کو مذاکرات کے ذریعے حل کیا جائے ۔انہوں نے امریکہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ عراق اور افغانستان سے نکل جائے کیونکہ یہ مسلمانوں کی غیرت پر حملہ ہے ۔انہوں نے کہا ہے کہ پاکستان کی نیوکلیئر ٹیکنالوجی ملک کی آزادی اور سالمیت کے لئے ضروری ہے اگر کسی نے اس کو نقصان پہنچایا تو تمام سیاسی اور دینی جماعتیں متحد ہو کر اس کا مقابلہ کریں گی۔انہوں نے کہا کہ ملک خطرات سے دوچار ہے ۔بلوچستان میں ٹارگٹ کلنگ ہو رہی ہے ۔انہوں نے اس تاثر کو غلط قرار دیا کہ پشاور پر طالبان قبضہ کریں گے مغربی میڈیا منفی پروپیگنڈہ کر کے پاکستان کو کمزور کرنا چاہتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ امریکی ایجنٹ دشمنوں سے مل کر پاکستان کی سالمیت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں ہمیں ان کا مقابلہ کرنا ہو گا ۔ جبکہ وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے پاکستان کے عوام کو اس امر کی یقین دہانی کرائی ہے کہ پاکستان ایک خودمختار اور آزاد ملک ہے کسی کو اس پر حملہ کرنے کا کوئی اختیار حاصل نہیں اور نہ ہی ہم کسی کو پاکستان پر حملہ کرنے کی اجازت دیں گے ۔ہمیں اپنے گریبانوں میں جھانکنا چاہیے اگر ہم دہشت گردی کی سرگرمیوں میں ملوث ہونگے تو دنیا ہمیں کیا کہے گی ۔ہمیں ذمہ دارشہریوں کا کردار ادا کرنا چاہیے ۔ہمارے لئے یہ خطہ انتہائی اہم ہے ۔وہ دو روز قبل وفاقی وزیر غلام احمد بلور اور صوبائی سینئر وزیر بشیر احمد بلور کی والدہ کی وفات پر فاتحہ کے بعد بلور ہاو¿س میں میڈیا کے نمائندوں سے بات چیت کر رہے تھے اس موقع پر صوبہ سرحد کے گورنر اویس احمدغنی،وزیراعلیٰ امیر حید ر خان ہوتی،وفاقی وزیر غلام احمد بلور اور سینٹر بابر اعوان بھی موجود تھے ۔وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ ہمیں اس بات کا نہیں سوچنا چاہیے کہ پاکستان پر کوئی حملہ کرے گا کیونکہ ہم اپنے ملک کے دفاع کی بھر پور صلاحیت رکھتے ہیں اور دنیا کی کوئی طاقت اسے میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتی اور پاکستانیوں کو ان پر حملے کے لئے فکر مند نہیں ہونا چاہیے کیونکہ ہم خود مختار اور آزاد ملک ہیں اور پاکستان پر آنچ نہیں آنے دیں گے ۔وزیراعظم نے کہا کہ مٹھی بھر چند عناصر ملک کے امن کو تباہ کرنا چاہتے ہیں ان کی عوام سے اپیل ہے کہ وہ ان مٹھی بھر عناصر کو سمجھائیں کہ وہ ملک کی ترقی کا سوچیں اور ملک کے نقصان کا نہ سوچیں۔صوبہ سرحد میں طالبانائزیشن بڑھنے کے سوال پر وزیراعظم نے کہا کہ اس حوالے سے صوبہ سرحد کے گورنر اور وزیراعلیٰ جو بھی حکمت عملی طے کریں گے اور وہ ان کی حکمت عملی کا ساتھ دیں گے ۔وفاقی کابینہ میں ردوبدل اور توسیع کے حوالے سے وزیراعظم نے کہا کہ موجودہ وفاقی کابینہ کے ورزاء پر کوئی عدم اعتماد نہیں تاہم کابینہ میں توسیع کی جا رہی ہے جب ہم نے کابینہ بنائی تھی تو وہ انتہائی مختصر تھی اور ہم مختصر کابینہ کے ساتھ حکومت چلا رہے تھے ہمارے اتحادی مسلم لیگ ن کے میاں محمد نواز شریف نے اپنے وزراء کو مستعفی کرایا مگر انہوں نے یہ استعفیٰ منظور نہیں کیا اب ہمیں مجبوراً کابینہ میں توسیع کرنا پڑ رہی ہے ۔نئے وزراء کابینہ میں شامل کئے جائیں گے تاکہ ملکی امور کو بہتر انداز میں چلایا جا سکے ۔سید یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ ہمیں پارلیمنٹری سیکرٹری بنانے ہیں اور ہمیں سٹینڈنگ کمیٹیوں کی تشکیل کرنی ہے وہ بھی مشاورت سے ہوگی۔طالبان کے خلاف آپریشن کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ عوام جو چاہیں گے ہم ان کے ساتھ ہیں اور ہم کسی اور کی بات نہیں مانیں گے کیونکہ ہماری حکومت عوامی ہے اور ہم عوام کے ساتھ ہیں ۔امریکی فوجی جرنیل مولن کی پاکستان آمد کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ امریکہ کے ساتھ ہمارے باہمی تعلقات ہیں امریکہ کے ساتھ نہ صرف ہمارا دفاعی بلکہ اقتصادی ،تعلیمی ،صحت ،دفاع اور مختلف مدوں میں تعاون ہے اور ہم ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں ۔صوبہ سرحد میں آٹے کے بحران سے متعلق وزیر اعظم نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ آئندہ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کو شرکت کی دعوت دی گئی ہے اور اس اجلاس میں تمام صوبوں کے مسائل پر بحث ہوگی اور ان کے حل کے لئے کوششیں کی جائیں گی۔انہوں نے کہا کہ ہمیں صوبوں کی مشکلات کا احساس ہے اور آئندہ کے اجلا س میں اس پر غور و خوص کیا جائے گا ۔ہنگو میں ایف سی اہلکاروں کی ہلاکتوں کے بارے میں وزیراعظم نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ یہ ایک افسوسناک واقعہ ہے اور وہ اس کی مذمت کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ سیکورٹی کے اہلکار جس جوانمردی ،ہمت اور سروں پر کفن باندھ کر فرائض انجام دے رہے ہیں اس پر وہ انہیں خراج تحسین و عقیدت پیش کرتے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ سیکورٹی اہلکاروں نے کبھی ہتھیار نہیں پھینکے اور نہ ہی وہ جانوں کا نذرانہ پیش کرنے سے دریغ کرتے ہیں وہ ملک کے دفاع کے لئے جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں ۔وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے بجلی کے خالص منافع کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ وفاقی حکومت صوبوں کو صوبائی خود مختاری دینے اور انہیں ان کے حقوق دینے میں مخلص ہے اور صوبہ سرحد کا بجلی کے خالص منافعے کی مد میں جو حق بنتا ہے وہ اسے دلایا جائے گا۔وزیراعظم نے سو دن کی کارکردگی کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ جب وہ سو دن کے حوالے سے قوم سے خطاب کریں گے تو وہ اس موقع پر اہم اعلانات کریں گے صوبہ سرحد کی ترقی کے لئے بہت کچھ کیا جائے گا انہوں نے کہا کہ گورنر سرحد اور وزیراعلیٰ سرحد اس صوبے کے نمائندے ہیں اور صوبے میں اتحادی جماعت کی حکومت ہے اس لئے ہمیں کوئی پریشانی نہیں ۔ جبکہ پاکستان مسلم لیگ(ق) نے صدر پرویز مشرف کے خلاف ممکنہ مواخذے کی تحریک کی بھرپور مزاحمت اور مخالفت کرنے کا اعلان کرتے ہوئے بیرونی مداخلت ، سرحدی علاقوں میں نیٹو فورسز کے حملوں ، بے نظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات کے لیے اقوام متحدہ سے رابطہ کرنے ، حکومت کی سو روزہ کارکردگی اور اپوزیشن کے خلاف حکومت کی ا نتقامی کارروائیوں کے حوالے سے چار الگ الگ مذمتی قرار دادیں منظور کرلی ہیں ۔ پاکستان مسلم لیگ (ق) کی مرکزی مجلس عاملہ کا اجلاس اتوار کے روز اسلام آباد میں پارٹی کے صدر چوہدری شجاعت حسین کی صدارت میں منعقد ہوا ۔ اجلاس کئی گھنٹوں تک جاری رہا ۔ اجلاس کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چوہدری شجاعت حسین، سید مشاہد حسین اور چوہدری پرویز الہی نے کہا کہ صدر پرویز مشرف کو مسلم لیگ(ق) ا ور اس کی اتحادی جماعتوں نے پانچ سال کے لیے منتخب کیا ہے ۔ حکمران اتحاد ان کے خلاف اصولی نہیں بلکہ ذاتی مخالفت اور مفاد کی خاطر مواخذے کی بات کررہا ہے۔ صدر کے خلاف مواخذے کی تحریک لائی گئی تو پاکستان مسلم لیگ(ق) اس کا ڈٹ کر مقابلہ کرے گی ۔چوہدری شجاعت حسین نے کہا کہ اجلاس میں سارے امور کا جائزہ لیا گیا ۔ ملک کے حالات انتہائی مخدوش اور خطرناک ہے ۔ صوبہ سرحد اور صوبہ بلوچستان کی صور تحال افسوسناک ہے ۔ بدقسمتی سے حکومت کی جانب سے اس افسوس ناک صورت حال کی کوئی نوٹس نہیںلیا جا رہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اگر حکومت کو پروا ہ ہوتی تو وہ ناکام ہو جاتی تو ہم یہ ضرور کہتے کہ چلیں کوشش تو کی گئی تھی ۔ چوہدری شجاعت حسین نے کہا کہ حکمران اتحاد ذاتی مفادات کی طرف گامزن ہے ۔ مشاہد حسین سید نے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ اجلاس میں 40 سے زائد رہنماو¿ںنے اپنے خیالات کا اظہار کیا ، اجلاس میں سرحدی علاقوں میں امریکی حملوں میں جاں بحق سویلین و فوجیوں کے دعائے مغفرت ، اسی طرح ڈاکٹر ارباب غلام رحیم ، حاجی غلام احمد بلور ، اسفند یار ولی خان اور طارق عظیم کے ساتھ ان کے رشتہ اداروں کے انتقال پر دعائے مغفرت کی گئیں۔ انہوں نے بتایا کہ اجلاس میں چار قراردادیں منظور کی گئیں پہلی قرار داد میں بڑھتی وئی بیرونی مداخلت ، امریکہ ونیٹو فورسز کے حملوں کو پاکستان کی سالمیت و خود مختاری کے خلاف قرار دیتے ہوئے ان کی مذمت کی گئی اور فیصلہ کیا گیا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ(ق) بیرونی مداخلت اور ان حملوں کے خلاف سینٹ و قومی اسمبلی میں قرا ردادیں جمع کرائیں گی ۔ دوسری قرار داد میں بے نظیر بھٹو کی شہادت کے حوالے سے اقوام متحدہ سے رابطہ کرنے کی مذمت کی گئی ہے ۔ یہ آ بیل مجھے مار کے مترادف ہے ۔ نیا پنگا لیا گیا ہے ۔ پاکستان کی سلامتی اور سالمیت کمزور ہونے کا خدشہ ہے ۔ حکومت نے سو دنوں میں کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں کی بلکہ ملک کی سلامتی کو داو¿ پر لگایا جا رہا ہے ۔ حکومت کوچا ہیے تھا کہ مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ میں لے کر جاتی ۔ انہوں نے کہا کہ مہنگائی ، اقتصادی وسائل کے خلاف قرار داد منظور کی گئی ، اسی طرح سیاسی انتقام کے حوالے سے حکومتی کارروائیوں کے خلاف بھی مذمتی قرار داد بھی منظور کی گئی ہے انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ق) کے کارکنوں اور رہنماو¿ں کے خلاف جھوٹے مقدمات قائم کیے جا رہے ہیں ۔ خصوصا سندھ اور بلوچستان میں انتقامی کارروائیوں اور غیر جمہوری ہتھکنڈوں کا سلسلہ عروج پر ہے جو آمرانہ ذہن کی عکاسی کرتی ہے ۔ ٹھٹہ میں مسلم لیگ(ق) کے تین کارکنوںکو شہید کردیا گیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ چوتھی قرار داد قومی مفاہمت کے حوالے سے منظور کی گئی ہے ۔ جس میںکہا گیا ہے کہ قومی مفاہمت کے لیے حکومت سنجیدہ ہے تو وہ اس ایشو سیکورٹی و سلامتی ، دہشت گردی کے حوالے سے قومی اتفاق رائے کے لیے پارلیمنٹ سے رجوع کرے ۔ پاکستان مسلم لیگ(ق) نے بھارتی حکام کے ان بیانات جس میں کابل خود کش حملے کا الزام پاکستان پر لگایا گیا ہے کی مذمت کی ہے ۔ اور ان بیانات کی مخالفت کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ کرزئی ، نیٹو یا امریکہ کوئی بھی ہو پاکستا ن کو میلی آنکھ نہیں دیکھ سکتا ۔ حکومت نے اس ایشو پر معذرت خوانہ رویہ اختیار کررکھا ہے بلکہ قومی سلامتی کے ان ایشوز کو نظر انداز کرتے ہوئے حکومت نے بے نظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات کے لیے اقوام متحدہ سے رابطہ کرکے پاکستان کی ایجنسیوں اور اداروں پر عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے ۔ان ایشوز کو بے نقاب کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ حزب اختلاف اپنا متحرک اور فعال کردار ادا جاری رکھے گی ۔ ایک سوال کے جواب میں چوہدری شجاعت حسین نے کہا کہ حکومت رہے یا نہ رہے یا وہ کمزور ہو ہمارا فیصلہ ہے کہ ہم اپوزیشن میں رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اب تو دن دیہاڑے سرحد ی علاقوں پر حملے ہو رہے ہیں ۔ مشاہد حسین سید نے کہا کہ بیرونی مداخلت کو نئی حکومت خود دعوت دے رہی ہے ۔ ایک سوال کے جواب میں چوہدری شجاعت حسین نے کہا کہ ججوں کے ایشو کو لیگل کمیٹی دیکھ رہی ہے ۔ ایک سوال کے جواب میں چوہدری پرویز الہی نے کہا کہ قومی مفاہمت کا دعوی کیا جاتا ہے ۔ اس کے برعکس پنجاب میں آدھی جمہوریت ہے ، پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کی تقرری نہیں ہوئی ہے ہمارے دور میں صوبائی کابینہ کی تشکیل سے پہلے اپوزیشن لیڈر کی تقرری ہوئی ۔ ایک سوال کے جواب میں مشاہد حسین سید نے کہا کہ حکومت سرکاری وسائل کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کررہی ہے ۔ وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کو ملائیشیا سے وطن واپسی پر سرکاری جہاز کو دوبئی نہیں لے جاناچاہیے تھا۔ پارٹی اجلاس کے لیے سرکاری وسائل کو استعمال کیا گیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ حکومت خود اپنے خلاف چارج شیٹ تیار کررہی ہے ۔ جبکہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے جوہری معاملے کی مزید تفتیش کے امکان کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان الزامات کی مستقبل میں کوئی تفتیش نہیں کی جائے گی کہ پاکستانی فوج نے ایران اور شمالی کوریا جیسے ممالک کو جوہری ٹیکنالوجی فراہم کرنے میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی مدد کی تھی وزیر خارجہ نے کہا کہ میرا نہیں خیال اور نہ ہی مجھے یقین ہے کہ اسامہ بن لادن پاکستان میں ہے پاکستان امریکی یا کسی دوسرے بیرونی ممالک کی فوج کو اسامہ کی گرفتاری یا القاعدہ کے دیگر سرکرہ رہنماو¿وں کی تلاش کے لیے اپنے ملک میں کارروائی کی اجازت دے گا امریکہ ہمارے سرحد عبور کرنے سے باز رہے پاکستان ایک آزاد اور خود مختار ملک ہے اور وہ اپنی آزادی اور خود مختاری پر آنچ نہیں آنے دے گا واشنگٹن میں امریکی خبر رساں ادارے کو دیئے گئے انٹرویو میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ جوہری معاملے کاکیس اب داخل دفتر کر دیا گیا ہے اور اب سلسلے میں مزید تفتیش نہیں ہو گی جو کچھ معلوم کیا جا سکتا تھا کیا جا چکا ہے جو اقدامات کیے جانے تھے کئے جا چکے ہیں انہوں نے کہا کہ مقصدیہ تھا کہ دنیا کو محفوظ رکھا جائے اور جوہری آلات کو محفوظ رکھا جائے اور یہ کہ جو کچھ ماضی میں ہوا وہ مستقبل میں نہ ہو اور یہ مقاصد حاصل کیے جا چکے ہیں شاہ محمود قریشی نے کہا کہ جہاں تک ہمارا نظریہ ہے ڈاکٹر اے کیو خان اب تاریخ کا حصہ ہیں ان کا کوئی سرکاری رتبہ نہیں ہے جو نیٹ ورک انہوں نے تیار کیا تھا وہ توڑا جا چکا ہے وزیر خارجہ نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے قتل کے بارے میں وثوق سے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس میں طالبان کے رہنما بیت اللہ محسود کا ہاتھ ہے ، انہوں نے کہا کہ ہم تفتیش سے پہلے ہی الزام نہیں لگانا چاہتے ہم ایک غیر جانبدار اور آزادانہ انکوائری کرانا چاہتے ہیں میں کہہ رہا ہوں کہ نہ تو ہم اس امکان کو خارج کر سکتے ہیںاور نہ ہی یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ بے نظیر بھٹو کے قتل میں بیت اللہ محسود کا ہاتھ تھا وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ پاکستان ایک خود مختار ملک ہے اور امریکہ ہماری سرحدوں کی خلاف وزری سے باز رہے انہوں نے کہا کہ ہماری حکومت کی پالیسی یہ ہے کہ ہماری فوج، پیرا ملٹری فورسز اور ریگولر فورسز کی بڑی تعداد سرحدوں پر تعینات ہے وہ موثر کارروائی کر رہی ہے انہوں نے کہا کہ کسی بھی بیرونی مداخلت سے افراتفری اور انتشار پھیلے گا پاکستان عوام اس کو کسی صورت قبول نہیں کریں گے اور یہ ہماری خود مختاری پر ایک سوالیہ نشان ہو گا وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ گزشتہ جمعہ کے روزانہوں نے اپنے امریکی ہم منصب کو نڈولیزرائس سے ملاقات میں ان پر واضح کر دیا ہے کہ حکومت پاکستان افغانستان کی سرحد کے ساتھ ملحقہ قبائلی علاقوں میں شدت پسندوں سے نمٹ رہی ہے اورضرورت پڑنے پر خود کارروائی کرے گی شاہ محمود قریشی نے اعتراف کیاکہ دراندازی کے بعض واقعات رونما ہو رہے ہیں لیکن امریکی فوج القاعدہ کے سربراہ دیگر سرکردہ رہنماو¿وں ، طالبان ارکان یا کسی دوسرے مشتبہ عسکریت پسندوں کی گرفتاری کے لیے آپریشن نہیں کر رہی انہوں نے کہا کہ پاکستان اپنی سرزمین پر اسامہ بن لادن یا القاعدہ کے دیگر سرکردہ رہنماو¿ں کی تلاش یا گرفتاری کے لیے امریکہ یہ کسی دوسرے ممالک کی افواج کو کارروائی کی اجازت نہیں دے گا ایک سوال پر شاہ محمود قریشی نے کہا کہ میرا نہیں خیال اور نہ ہی مجھے یقین ہے کہ اسامہ بن لادن پاکستان میں ہے اور نہ ہی کوئی اس بارے میں جانتا ہے اور نہ ہی وہ یہ یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ اسامہ بن دلان پاکستان میں ہے لیکن ہماری پالیسی بالکل واضح ہے ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اتحادی ہیں اور اگر پاکستان کو اسامہ یا کسی دوسرے ہائی ویلیو ٹارگٹ کے بارے میں ٹھوس شواہد ملے تو پاکستان خود فوری کارروائی کرے گا اس سلسلے میں کسی کی مدد کی ضرورت ہے اور نہ ہی پاکستان کسی کو مداخلت کی اجازت دے گا کیونکہ پاکستانی سیکورٹی فورسز کسی بھی صورتحال سے نمٹنے کی بھر پور صلاحیت رکھتی ہیں انہوں نے کہا کہ امریکی مداخلت سے پاکستان میں امریکہ مخالف جذبات ابھر یں گے میںتو یہ کہوں گا ہمیں موجود باہمی تعاون کی فضاءکو تقویت دینا ہو گا انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کی اصل وجہ تلاش کر نا ضروری ہے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہماری حکمت عملی یہ ہے کہ دہشت گردی سے نمٹنے کا واحد حل ملٹری آپشن نہیں یہ جنگ فوجی کارروائی کے علاوہ عوام کے دل اور دماغ جیت کر بھی لڑی جا سکتی ہے ۔اے پی ایس

No comments: