International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.

Tuesday, April 1, 2008

ایک دیس کی خاطر،عوام کی صورت،چیف کے ساتھی زندہ ہیں۔۔تحریر چودھری احسن پریمی





انسانی حقوق فطری طور پر سیاسی ہوتے ہیں اور انہیں نافذ کرنے کے لئے سیاسی عزم کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ انہیں قائم رکھنے کیلئے عوامی نگرانی درکار ہوتی ہے۔ریاست کا فرض ہے کہ قانون کے مطابق حکومت کریں اور ہر شہری کے حقوق اور آزادیوں کو عزت کی نگاہ سے دیکھیں۔شہریوں کو بھی با خبر رہنا چاہیے اور صاف و شفاف اور جوابدہ حکومت کیلئے زور دیتے رہنا چاہیے۔جمہوریت کا بنیادی اصول یہ ہے کہ اقتدار کی تقسیم ہونی چاہیے یہ ریاست کے کسی ایک ادارے میں مجتمع نہیں ہونا چاہیے۔وہ عدالتیں مقننہ سے علیحدہ اور آزاد ہونی چاہیے اور وہ مقننہ سے علیحدہ اور آزاد ہونی چاہیے اور وہ حکومت کے غہر قا نونی حکام کے خلاف فیصلہ دینے کی مجاز ہوں وہ اس بات کی اہل ہوں کہ حکومت(انتظامیہ) کے خلاف فیصلہ دے سکیں۔ جہاں تک عدلیہ کی آزادی کی بات ہے عدلیہ کی آزادی کی ضمانت ریاست کو دینی چاہیے اور اسے آہین کا حصہ بنا نا چاہیے۔ایک ریاست عدالت کی کاروائی میں مداخلت کرنے کے قابل نہیں ہوگی اور عدالت کسی شہری کے خلاف انتظامیہ کے گماشتہ کے طور پر کام نہیں کرے گی۔(مسودہ اعلامیہ برائے منصفانہ ، عدالتی کارو ائی و دادرسی)عدلیہ اس وقت تک آزاد نہیں ہو گی جب تک جج آزاد منش نہیں ہونگے۔ عدلیہ کا بحران اتنا زیادہ بڑا نہیں ہے جتنا اسے ظاہر کیا جارہا ہے، تصادم پارلیمنٹ کی جانب سے نہیں بلکہ ان کی طرف سے ہورہا ہے جو ملک کے آئینی اداروں کو تسلیم نہیں کرتے۔ قوم کو بتایا جا ئے کہ ملک کے خزانے میں کیا ہے اور ہمیں کیا معاشی چیلنجز درپیش ہیں۔ عوام کے مینڈیٹ کو بھی تسلیم کرنے میں ابھی تک حیل وحجت سے کام لیا جا ریا ہے۔ پنجاب کے سب سے بڑے صوبہ کی اسمبلی کا اجلاس پونے دو ماہ بعد 9اپریل کو طلب کیا گیاہے۔حکومت ، پارلیمنٹ ، ایوان صدر اور سینٹ کو یہ معاملات حل کرنے ہیں اور ان کے تعلقات کا انحصار ان کے اپنے رویوں پر ہے۔ 12مئی 2007ء کو کراچی میں 48ہلاکتوں کے حوالے سے جب عدلیہ آزاد ہوگی تو یہ معاملہ بھی وہی دیکھے گی۔ خارجہ پالیسی اور گمشدہ افراد کی بازیابی کے حوالے سے آصف علی زرداری بلوچستان پر پہلے ہی معافی مانگ چکے ہیں۔ اب کابینہ نے حلف اٹھا لیا ہے تو اس کے بعد اتحادی جماعتوں کے ساتھ مل کر پالیسیاں بنائیں ا وروہی پالیسی اختیار کی جائے جو ملک وقوم کے بہتر مفاد میں ہو۔ ملک میں امن وامان قائم کرنے اور عوام کو ریلیف دینے کے حوالے سے سب سے زیادہ خمیازہ پی پی نے بھگتا ہے۔ پی پی کی لیڈر شہید ہوئیں۔ بھائی اور بچے مارے گئے اس کے علاوہ آ صف زرداری کو سب سے زیادہ یہ تجربہ رہا ہے کہ تھانوں اور عدالتوں میں عوام پر کیا بیتتی ہے اس کا حل عدالتی اور پولیس ریفارمز میں ہے۔ جب تک پولیس کو اس حد تک سہولتیں نہیں دی جاتیں کہ وہ رزلٹ دے سکیں اور عدلیہ کو بھی خودمختار اور آزاد نہیں کیا جاتا اس وقت تک عام آدمی کو ریلیف انصاف کی فراہمی ممکن نہیں ہے۔ اگر چہ آصف زرداری نے کہا ہے کہ تیس دن کے اندر ایسے نظام کیلئے خدوخال واضح کردیں گے ایم کیو ایم کی وفاقی کابینہ میں شمولیت سے متعلق مسلم لیگ (ن) کے تحفظات موجود ہیں اور اس وقت تک موجود رہیں گے جب ان کے سوالات کے جوابات نہیں آجاتے۔ پارلیمنٹ نے کبھی بھی کسی سے محاذ آرائی نہیں کی بلکہ محاذ آرائی انہوں نے کی جنہوں نے پارلیمنٹ کو کچلا اور آئین توڑا اور اب بھی وہ ٹکراو¿ کی باتیں کرتے ہیں اور ابھی تک پارلیمنٹ اور عوامی مینڈیٹ کو تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ پنجاب جو ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے عوام کے مینڈیٹ کو تسلیم کرنے کی بجائے اس کی اسمبلی کا اجلاس پونے دو ماہ بعد 9اپریل کو طلب کیا جارہا ہے۔ ایک بیلنس شیٹ جاری کی جائے جس کے ذریعے قوم کو بتایا جائے کہ جانے والوں نے خزانہ میں کیا چھوڑا ہے۔ ادارے کس طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں اور نئی حکومت ان کی کس طرح تشکیل نو کرتی ہے۔ نئی حکومت کو مشترکہ جمہوری ایجنڈے کو آگے بڑھانے کیلئے کوئی کسر اٹھا نہیںرکھنی ہو گی۔ عوامی مسائل اور مشکلات کے حل کے لئے حکومتی ترجیحات سنگ میل تب ہی ثابت ہوں گی جب وفاقی کابینہ سو روزہ پلان آف ایکشن کی مکمل نگرانی کرے گی تاکہ عوام کو ریلیف کی فراہمی کو جلد ممکن بنایا جا سکے ۔ وفاقی کابینہ کے ہر رکن کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس سو روزہ پروگرام پر عمل درآمد کے حوالے سے اس کی نگرانی کرے گاتاکہ عام آدمی کو فوراً ریلیف فراہم کیاجاسکے پوری قوم کابینہ کی پالیسی کی طرف دیکھ رہی ہے جن کا مقصد عوام کا معیار زندگی بہتر بنانا ہے ۔ قوم اپنی زندگیوں میں بہتری چاہتی ہے حکومتی پالیسیوں کے نتیجے میں عوام کا معیار زندگی بلند کیا جا نا نا گزیر ہے۔ عوام نے انتخابات حکمران اتحاد میں شامل سیاسی جماعتوں کو بے مثال مینڈیٹ دے کر ان کے کندھوں پر بھاری ذمہ داری عائد کی ہے عوام کی معاشی ، اقتصادی اور مسائل کے حل اور ان کے سماجی حالات میں تبدیلی کیلئے نئی حکومت سے بہت زیادہ عوامی توقعات وابستہ ہیں وہ اپنے حالات زندگی میں تبدیلی چاہتے ہیں اس حوالے سے نئی حکومت کو اپنی ذمہ داریاں ادا کر نا ہو نگی۔ توانائی کے شعبے، گندم کی فراہمی و دستیابی اور بیروزگاری کی صورتحال کو بہتر بنانے کو اگرچہ حکومت نے اپنی ترجیحات میں شامل کیا ہے۔ لوگ نظام حکومت میں تبدیلی چاہتے ہیں لوڈ شیڈنگ سے نہ صرف عوام بلکہ صنعتیں بھی متاثر ہو رہی ہیں ۔ ہر وزارت کی صورتحال کے بارے میںعوام کو ایمانداری سے آگاہ کیا جا نا بہت ضروری ہے ۔ امن وامان کو بہتر بنانے کیلئے فوری اقدامات کئے جائیں حکومت امن وامان کی فوری بحالی کیلئے کوشاں ہو اور جس کیلئے موثر اقدامات کئے جائیں حکومت کو۔ مسلسل کام کرنا ہے پوری قوم ترقی اور خوشحالی چاہتی ہے پالیسیوں کو عوام کی امنگوں اور احساسات کے مطابق وضع کیا جائے ۔ اگرچہ وزیر اعظم کی ان کی گزشتہ روز کی قومی اسمبلی میں تقریر کو زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے سراہا ہے نئی حکومت کی پہلی ترجیح -2B 58 کا خاتمہ اور ججز کی بحالی ہونا چاہیے۔ ۔ صدر کے پاس اب دو تہائی اکثریت نہیں رہی ۔ ا احتساب اداروں کے خاتمے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کسی بھی شخص کا اب احتساب نہیں ہوگابلکہ موجودہ عدالتوں میں احتساب کے مقدمات جاری ر ہنے چاہیے اگرچہ نیب کے قیام کی بنیادسیا سی انتقام اور بلیک میلنگ پر رکھی گئی تھی لیکن افسوس کے سا تھ کہنا پڑتا ہے کہ جن لو گوں کیلئے نیب معرض وجود میں آیا نیب نے ان کے خلاف ایک بھی مکمل کا روائی نہ کی اور اس ضمن میں نیب انتظامیہ کا بھی کوئی قصور نہیں کیو نکہ جس ملک کا وزیر اعظم ہی چور ، ڈاکو وزیروں کی سرپرستی کر تا ریا شوکت عزیز کی مثال سب کے سا منے ہے چینی چور اور قرضہ چور وزیروں کی تحیقات ان چوروں کے وزیر اعظم شوکت عزیز نے رکوادی تھیں یہ بات بھی خوش آئند ہے کہ مو جودہ حکومت نے ایف اائی اے کی تنظیم نو کے عزم کا اعادہ کیا ہے اور اس ضمن میں ایف آ ئی اے کے ڈائریکٹر جنرل نے ان تما م افسران و اہلکاروں کی فہرستیں تیار کرانا شروع کردیں ہیں جن کی خد مات نیب کے سپرد کر دی گئی تھیں۔بات شروع ہوئی تھی آئین کی حکمرانی کی تو اس ضمن میں جتنی جلدی ہو سکے نئی حکومت کو ججز کی بحالی کو اپنی اولین تر جیحات میں شامل کر کے ان کو فی الفور بحال کر نا ہو گا۔ اس وقت ملک میں جو جنگل کا قا نون بنا ہوا ہے اس کو لگام دینے کیلئے چیف جسٹس ا فتخار محمد چودھری کا اپنی کرسی پر آ نا بہت ضروری ہے۔ یہ کوئی افتخار محمد چودھری کی ذاتی ضد نہیں بلکہ اس وقت اس ملک کی سلامتی کا مسئلہ ہے۔سولہ کروڑ عوام کی سلامتی ، تحفظ اور انصاف کے ساتھ ساتھ ان ملک دشمن طاقتوں کا منہ بھی توڑ نا ہے۔ جنھوں نے اس پاک دھرتی کو 2015ء تک دنیا کے نقشے سے مٹانے کا عزم کر رکھا ہے اور یہ ساری جنگ عوام نے لڑنی ہے اور عوام عملی طور پر تب ہی یہ سب کچھ کر سکتی ہے۔ جب انھیں اپنے وطن کے اندر مو جود بیرونی طا قتوں کے آلہ کار اور ایجنٹوں سے تحفظ حا صل ہو گا۔ جب کسی پا کستانی کو لا پتہ افراد میں شامل نہیں کیا جا ئے گا۔اور جب ہر پا کستانی اپنے وطن کے اندر اپنے آپ کو محفوظ سمجھے گا اور یہ وقت کب آئے گا جب اس ملک میں قا نون کی حکمرانی ہو گی۔ اور قا نون کی حکمرانی کب ہو گی جب افتخار محمد چودھری جیسے آزاد منش جج ہوں گے۔ اس وقت قا نون کی حکمرانی نہ ہو نے کی وجہ سے امریکہ نے پاکستان کو عقوبت خانہ بنا رکھاہے ۔ بش انتظامیہ ججوں کی بحالی رکوانے کے لیے سرگرم ہے ۔اسے خطرہ ہے کہ جج بحال ہو کر لاپتہ افراد کے بارے میں پوچھیں گے ۔ پاکستان میں امریکیوں کو من مانی کی اجازت نہیں ملے گی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ خطرے میں پڑ جائے گی ۔ بنیادی حقوق اور جمہوری آزادیوں کی پامالی اب بند ہونی چاہیے ۔ وزیراعظم اور نئی حکومت کا امتحان ہے کہ منہ زور ایجنسیوں اور اسٹیبلشمنٹ کو کیسے لگا م د ینی ہے ۔ پرویز مشرف کو ایوان صدر میں دیکھنے اور ججوں کی بحالی رکوانے کی خواہش مند قوتوں نے ہتھیار نہیں ڈالے ۔ گزشتہ دنوں راقم الحروف کو چیف جسٹس افتخار محمد چودھری سے ان کی رہا شگاہ پر ملا قات کا شرف حاصل ہوا۔ میرے ساتھ کا لمسٹ ایسوسی ایشن کے صدر ممتاز بھٹی، جناب تزئین اختر، چودھری شاہد نوازو دیگر ساتھی بھی تھے ہمیں افتخار محمد چودھری کی رہا ئشگا ہ کے ڈرائنگ روم میں بٹھا یا گیا اور کہا گیا کہ چیف صا حب نماز پڑھ رہے ہیں اس کے بعد وہ آپ کے پاس اا جا تے ہیں۔ چند لمحوں بعد افتخار محمد چودھری آ گئے اور راقم الحروف کے ساتھ دائیں طرف کی کرسی پر بیٹھ گئے اس وقت چودھری افتخار محمد چودھری کے لبوں پر خدا کے حضور ایک دعا نکل رہی تھی کہ ©" میرا ملک بچا لے اے مو لا "



No comments: