International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.

Tuesday, April 1, 2008

کابینہ کے مجرم یا مجرموں کی کابینہ صفدر ھمٰدانی۔۔ لندن










نوید ہو کہ پاکستان کی نئی حکومت کا قیام اب عمل میں آ گیا ہے اور اسکے ساتھ ہی یقین کر لیں کہ ‘‘سرکار والا تبار‘‘ کے کوچ کا نقارہ بھی بج چکا ہے۔ اب سال مہینوں میں اور مہینے دنوں میں اور دن لمحوں میں بدلنے والے ہیں اور یہ کوئی میری اور مجھ جیسوں کی خوش فہمی نہیں بلکہ معروضی حالات کا تجزیہ ہے جس کی صداقت میں کچھ دیر تو شاید لگ سکے لیکن اس سے مفر ممکن نہیں۔آنکھوں نے عجب منظر دیکھا ہے۔ ایوان صدر میں اکثریتی مجرموں کی ایک کابینہ حلف لے رہی تھی ایک ایسے ‘‘مجرم ‘‘سے جس نے پاکستان کے آئین کی خلاف ورزی کی،آئین کو اپنی مرضی کے مطابق نام نہاد شریف،شریف الدین پیر زادہ کے مشوروں سے مسخ کیا،عدلیہ پر شبخون مارا،ججوں کو بے عزت کیا،عوام کے ساتھ مذاق کیا۔
اور حلف لینے والوں میں اکثریت بھی مجرموں کی ہے۔مگر یہ مجرم ذرا‘‘وکھری ٹائپ‘‘ کے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر مجرم ایسے ہیں جنہوں نے آئین توڑنے والے بڑے مجرم کو چیلنج کیا، عدلیہ کی تضحیک کرنے والے کی تضحیک کی پاداش میں جیل کاٹی جرمانے دیئے۔بڑے مجرم نے ججوں کو نکال باہر کیا اور ان ججوں کی واپسی کا جرم کر رہے ہیں۔جنرل ریٹائرڈ مشرف جب وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی کابینہ سے حلف لے رہے تھے تو ایک بہت بڑی واضع بے بسی اور چہرے پر شدید تناؤ واضع تھا۔ اور میں نیدرلینڈ کے شہر‘‘دی ہیگ‘‘ میں بیٹھا یہ منظر دیکھ کر سوچ رہا تھا کہ خالقِ عدل نے اسی کو تو مکافات عمل کہا ہے۔ اس کابینہ میں جنرل ریٹائرڈ مشرف کے سب سے زیادہ مارے اور ستائے ہوئے تو خود قومی اسمبلی کے متفقہ وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی ہیں جنہیں پانچ برس تک جیل میں رکھا اور پھر آخر کار جیل سے رہا کرنا پڑا۔پہلے مرحلے میں بننے والی یہ کابینہ چوبیس رکنی ہے اور دور دور کی کوڑیاں لانے والے بھی کیسے کیسے نکتے نکالتے ہیں ۔ جیسے یہ کہ ان وزرا کی ایک بڑی تعداد سیدوں اور کشمیریوں کی ہے۔اور اسی طرح یہ دور کی کوڑی کہ اب تک بننے والی اس کابینہ میں کوئی شائد ہی کوئی ایسا خوش قسمت وزیر ہو جسے مجرم بنانے میں جنرل ریٹائرڈ مشرف ناکام رہے ہوں۔کیسا کیسا نام ہے جس نے جنرل ریٹائرڈ مشرف کے لگ بھگ نو سال کے دور میں مقدمات ، جرمانوں، قید اور تشدد کے ستارہ امتیاز اور ہلال جرآت حاصل نہیں کیئے ہوںپہلے نمبر تو خود سید بادشاہ وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی ہیں جو 1993 سے1996 کے دوران میں قومی اسمبلی کے سپیکر تھے اور پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔یوسف رضا گیلانی کو قومی اسمبلی سیکریٹریٹ میں تین سو ملازمین غیر قانونی طور پر بھرتی کرنے کے الزام میں راولپنڈی کی ایک احتساب عدالت نے ستمبر 2004میں دس سال قید با مشقت کی سزا سنائی تھی ی تاہم 2006میں یوسف رضا گیلانی کو عدالتی حکم پر رہائی مل گئی .
اسی طرح نئی وفاقی کابینہ وزیرِ نجکاری و سرمایہ کاری اور جہاز رانی سید نوید قمر نے مشرف دور میں ایک برس سے زائد قید کاٹی ہے۔ ان پر نجکاری کے عمل میں بے قاعدگی کاالزام تھا ۔ محنت و افرادی قوت کے وزیر خورشید شاہ کے خلاف نیب میں کئی کیس دائر کئےگئے لیکن کوئی مقدمہ ثابت نہ ہوسکا۔ وزیرِ دفاع چودھری احمد مختار کو نیب نے چاول کی فروخت کے ایک مقدمے میں سترہ ماہ قید رکھا لیکن مقدمہ ثابت نہ ہوسکا۔وزیر برائے مواصلات و خوراک و زراعت چوہدری نثار علی خان کو مشرف حکومت نے بلا کسی فردِ جرم کے ڈیڑھ برس تک قید میں رکھا اور اسی طرح وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار کو مشرف حکومت نےسترہ ماہ تک اٹک کے قلعے اور پھر گھر پر نظربند رکھا ۔ وزیرِ تعلیم احسن اقبال اور وزیر برائے امورِ خواتین تہمینہ دولتانہ کو مشرف مخالف مظاہروں کے دوران کئی بار تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ خواجہ محمد آصف کو نیب نے ایک مقدمے میں ایک برس سے زائد عرصے تک لاہور اور اٹک میں قید رکھا اور مقدمہ ثابت نہ ہونے پر رہا کرنا پڑا۔ وزیرِ ریلوے سردار مہتاب عباسی کو گندم کی غیر قانونی نقل وحمل کے مقدمے میں گرفتار کیا گیا لیکن وہ بری ہوگئے۔ وزیرِ پٹرولیم و قدرتی وسائل خواجہ محمد آصف کو نیب کے طفیل نے ایک مقدمے میں ایک برس سے زائد عرصے تک لاہور اور اٹک جیل میں قید رہنا پڑا۔دفاعی پیداوار کے وزیر رانا تنویر حسین آٹھ ماہ تک جیل میں رہے اور اسی طرح وزیرِ تجارت شاھد خاقان عباسی کو 17ماہ کی قید مشرف طیارہ ہائی جیکنگ کیس کاٹنی پڑی۔نوجوانوں کے امور کے وزیر اور صدر مشرف کی کھل کر مخالفت کرنے والے خواجہ سعد رفیق صدر مشرف کے ہاتھوں متعدد مرتبہ جیل گئے اور انکی سڑکوں پر خوب پٹائی کی گئی۔ چودہ فروری 2006کو خواجہ سعد رفیق کو متنازعہ کارٹونوں کی اشاعت کے خلاف احتجاج کے دروان میں توڑ پھوڑ اور آگ لگانے کے تین واقعات میں ملوث ہونے کےالزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ ان پر انسداد دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ قائم کیے گئے تھے۔
دیکھا آپ نے کہ آسمان نے کیسا رنگ بدلا ہے کہ ایک طرح کے مجرم نے دوسری طرح کے مجرموں سے حلف لیا ہے کہ وہ پاکستان کے آئین کے نگہبان ہوں گے اور اسکے مطابق عمل کریں گے۔ اب جو اس آئین کے مطابق عمل کرنا ہے تو یہ فیصلہ بھی کرنا پڑے گا کہ پاکستان کے آئین میں منتخب حکومت کا تختہ الٹنے والے اور آئین کو توڑنے والے کی کیا سزا ہے؟۔

No comments: