چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری پیر کو ایک سال سے زائد عرصہ کے بعد اپنے دیگر ساتھی وکلاء بیرسٹر اعتزاز احسن ، بیرسٹر منیر اے ملک حامد خان ایڈووکیٹ کے ہمراہ اسلام آباد سے اپنے آبائی شہر کوئٹہ پہنچے تو ایئر پورٹ سے ہائی کورٹ بار تک شہریوں،سیاسی کارکنوں اور وکلاءکی بڑی تعداد نے ان کا تاریخی استقبال کیا،چیف جسٹس جلسہ گاہ تک 10گھنٹے میں پہنچے۔کوئٹہ میں وکلاءکنونشن سے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا کہ 18 فروری 2008 ء کے عام انتخابات میں عوام نے آئین کی عمل داری کے حق میں ووٹ دے دیا ہے ۔ ملک میں کسی آمر یا آئین توڑنے والے شخص کے لیے کوئی جگہ نہیں۔کوئی فرد واحد آئین میں دخل اندازی یا تحریف نہیں کر سکتا ،آئین میں ترمیم کا حق صرف پارلیمنٹ کو حاصل ہے۔ ملک و قوم کی بقاءآئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی میں پوشیدہ ہے، ججوں نے اس مقصد کیلئے کیریئر کی قربانی دی، اب وہ دن دور نہیں جب آزاد اور غیر جانبدار عدلیہ کا قیام عمل میں آئے گا۔ کا بینہ کے حلف اٹھا نے کے بعدسے الٹی گنتی شروع ہوچکی ہے، عدلیہ کی آزادی پر تحریک ختم ہو جا ئے گی تمام لاپتہ افراد کو بھی بازیاب کرا یا جا ئے گا۔ چیف جسٹس کی بحالی میں چند دن باقی رہ گئے ہیں۔کوئٹہ ایئر پورٹ سے لیکر ہائی کورٹ بار تک فضا چیف جسٹس زندہ باد چیف تیرے جانثار بے شمار بے شمار کے نعروں سے گونج اٹھی وکلاء کے 12 رکنی جانثار ونگ کے دستے نے افتخار چوہدری کو اپنے گھیرے میں لے لیا۔ ایئر پورٹ کے وی آئی پی لانج میں وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل علی احمد کرد، بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے صدر باز محمد کاکڑ ایڈووکیٹ، بلوچستان ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر ہادی شکیل ایڈووکیٹ اور مسلم لیگ (ن) کے صوبائی صدر اور سابق وفاقی وزیر بر ائے ریلویز سردار یعقوب ناصر، پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی کے صوبائی صدر عثمان کاکڑ ، وکلاء اور سیاسی رہنماو¿ں نے ان کا استقبال کیا۔کوئٹہ ائیرپورٹ پر سیکورٹی کے فول پروف انتظامات کئے گئے تھے اور پولیس سمیت اے ٹی ایف کے کمانڈوز کو خصوصی طور پر تعینات کیا گیا تھا جبکہ معزول چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور ان کے ساتھیوں کوائیرپورٹ سے شہر لانے کے لئے وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ کی ایک بلٹ پروف سیاہ رنگ کی جیپ پہلے سے ائیرپورٹ پر موجود تھی جس کے بعد ازاں خراب ہوجانے کے بعد دو گاڑیوں نے کھینچ کر ہائی کورٹ تک کا فیصلہ طے کیا۔ 18 فروری 2008 ء کے عام انتخابات میں عوام نے آئین کی عمل داری کے حق میں ووٹ دے دیا ہے ۔ ملک میں کسی آمر یا آئین توڑنے والے شخص کے لیے کوئی جگہ نہیں۔کوئی فرد واحد آئین میں دخل اندازی یا تحریف نہیں کر سکتا ۔ آئین کو توڑنا یا تہہ وبالا کرنا ایک جرم بلکہ سنگین جرم ہے ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے جن جراتمند اور باضمیر جج صاحبان نے پی ۔ سی ۔ او کے تحت حلف نہ لے کر جو اسٹینڈ لیا ہے ، ان کا یہ کارنامہ قابل ستائش ہے وکلاء کی جدوجہد اب کسی خاص طبقے یا علاقے تک محدود نہیں رہی ہے بلکہ اس جدوجہد نے اب ملکی سرحدوں کو عبور کرکے بین الاقوامی حیثیت اختیار کرلی ہے ۔یہ وہی مقصد ہے جو چیف جسٹس کے مقا لے کا عنوان تھا یعنی ( پاکستان کے آئین کا دفاع اور اس کا تحفظ ) یہ مقصد ہے آئین کے نفاذ ، ایک آزاد عدلیہ کے قیام اور قانون کی بالادستی کو یقینی بنانے کا ۔ چیف جسٹس نے کافی سار ے سوموٹو ایکشن لیے اور انسانی حقوق سے متعلق درخواستوں کی سماعت کی۔ سپریم کورٹ میں قائم انسانی حقوق کے سیل نے پورے ملک سے ہزاروں کی تعداد میں د رخواستیں وصول کیں ۔ یہ درخواستیں زیادہ تر غریب اور کمزور طبقے کے لوگوں کی طرف سے موصول ہوئیں ۔سپریم کورٹ میں سٹیل ملز ،اشیائے خوردونوش کی قیمتوں کا اتار چڑھاو¿، فارم ہاو¿سز کی الاٹمنٹ ، سیکرٹریوں کو پلاٹس کی الاٹمنٹ ا ور لاپتہ افراد اور دیگر بے شمار اہم معاملات اس لیے اٹھائے گئے تاکہ قومی خزانے کی لوٹ مار روکی جائے ، بنیادی حقوق نافذ کیے جائیں ، ضرورت مند کو انصاف ملے اور ملک کو آئین وقانون کے مطابق چلایا جائے ۔ یہ وہ اقدامات تھے جوجمہوریت کے قیام اور ملک و قوم کی بہتری کے لیے ضروری تھے۔ آئین وقانون کا مقصد شہریوں کا مفاد ہوتا ہے ۔ قانون صرف مراعات یافتہ طبقے کے لوگوں کے مفاد کے لیے نہیں ہوتا بلکہ یہ معاشرے کے نچلے اورمتوسط طبقے کے لوگوں کی حفاظت کے لیے بھی ہوتا ہے ۔ چاہتی ہے‘ تاہم ایوان صدر میں اب بھی ججز کے خلاف سازشیں ہو رہی ہیں‘ اگر نئی حکومت 30 روز کے اندر ججز بحال کرتی ہے تو وکلائ برادری اپنی تحریک ختم کر دے گی تمام بار ایسوسی ایشنز خاموش ہو جائیں گی تاہم ملک بھر میں ججز کی بحالی پر خوشیوں کا جشن منایا جائے وکلاءکو اعلان مری پر کوئی تحفظات نہیں مگر موجودہ حکومت ججوں کی بحالی کا وعدہ پورا کرے اور یگر سیاسی قیدیوں کو رہا کیا جائے وکلاءتحریک نے ثابت کردیا کہ اب کوئی مائی کا لال آئین کو روند نہیں سکتا اب تمام لاپتہ افراد کو بھی بازیاب کرا یا جا ئے۔ چیف جسٹس کی بلو چستان آمد اور بلوچستان کے عوام کے والہانہ استقبال نے یہ بھی ثابت کردیا ہے کہ انہیں اب ایک دن بھی صدر پرویز مشرف برداشت نہیں۔ بلوچستان کے عوام نے جس طرح چیف جسٹس کا استقبال کیا ہے اس سے یہ بات صاف واضح ہوگئی ہے کہ عدلیہ کی آزادی میں اور چیف جسٹس کی بحالی میں چند دن باقی رہ گئے ہیں اور اگر کسی آمر نے اس میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی تو ملک کے عوام اور وکلاء برداشت نہیں کریں گے۔ کیو نکہ عوام کے اس تاریخی استقبال سے یہ بات اب بالکل واضح ہوگئی ہے کہ غیر آئینی اور فوجی آمروں کے دن گنے جاچکے ہیں اور ان کو چاہئے کہ وہ مستعفی ہوجائیں ورنہ ان کو عوام کی طاقت کا سامنا کرنا پڑے گا شاید وہ یہ برداشت نہ کرسکیں ۔ جبکہ موجودہ حکومت مہنگائی پر قابوپانے ‘صنعت ‘زراعت اور دیہی علاقوں کو ترقی دینے، غریب اور متوسط عوام کو خوشحالی سے ہمکنار کرنے کیلئے ایک جامع پروگرام پر بھی عمل کرے تاکہ محنت کشوں کیخلاف استحصالی رویہ ختم کیا جاسکے وفاقی کابینہ نے عدلیہ اور ججوں کی بحالی اور ایف سی آر کے خاتمے کے امورپر کمیٹیاں تشکیل دیتے ہوئے فیصلہ کیا ہے کہ ہر دو ہفتے بعد بدھ کے روز کابینہ کا اجلاس ہوگا جس میں مختلف شعبوں میں پیش رفت کا جائزہ لیا جائے گا۔ کابینہ نے اس امر پر بھی اتفاق کیا کہ عوام کو ہر ممکن ریلیف فراہم کیا جائے گا بجلی کا مسئلہ جنگی بنیادوں پر حل کرنے اور توانائی کی بچت مہم چلانے کا فیصلہ ناگزیر ہے 100 روزہ طے شدہ پروگرام اور اہداف کی تکمیل کیلئے وزراء کو 10 روز میں منصوبہ بندی کرنے کا حکم دیا گیاہے اور آٹے کی فراہمی یقینی بنانے کی بھی ہدایت کی ہے۔ تمام وفاقی وزراء100 دن کے پروگرام پر عملدرآمد کیلئے اپنی توانائیاں وقف کریں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ حکومت عوام کی خدمت کیلئے پرعزم ہے۔ اس حقیقت کے باوجود کہ حکومت کو بے پناہ چیلنجز کا سامنا اور وسائل محدود ہیں، قوم کیلئے نئی حکومت کے عزم میں کوئی کمی نہیں لائی جاسکتی، یوسف رضا گیلانی کا عزم چیلنجز سے زیادہ پختہ ہے حکومت کو پاکستانی عوام کی طرف سے دیئے گئے مینڈیٹ سے صرفِ نظر نہیں کرنا چاہیے، عوام کی امنگوں اور خواہشات کا احترام کیا جائے اور عام آدمی کی زندگی میں بہتری لانے کیلئے تمام کوششیں کی جائیں وزارت خزانہ بھی عوام کو ریلیف دینے اور ان کے مسائل کے حل کیلئے اقدامات عملی طور پر کر ے بجلی کی لوڈ شیڈنگ اور آٹے کے بحران پر بھی با توں کی حد سے آ گے نکلنا ہو گا۔نیزیوٹیلٹی اسٹورز وا لوں کا د ماغ بھی درست کر نا ہو گا تا کہ عوام کو آٹے کی فراہمی یقینی ہو سکے۔ اگرچہ گندم کی امدادی قیمت بڑھانے اور کم سے کم اجرت 6 ہزار کرنے کے وزیراعظم کے اعلانات کو سراہا گیا ہے اور کم سے کم اجرت 6 ہزار کرنے کیلئے لیبر قوانین میں ترمیم کی جائے گی۔ عوامی حلقوں نے وزیر اعظم سے پر زور مطالبہ کیا ہے کہ سا بقہ دور میں آ ٹے کا بحران کے ذمہ دا روں کو بھی منظر عام پر لا یا جا ئے تا کہ عوام بھی ان سماج دشمن عناصر کے چہروں سے واقف ہو سکیں جبکہ حکومت نے ججوں کی بحالی کا طریقہ کار طے کرنے کیلئے وفاقی وزیر قانون کی سربراہی میں دو کمیٹیاں تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے جمہوری حکومت سے عوام کی بڑی توقعات وابستہ ہیں، اس منزل تک پہنچنے کیلئے پی پی نے خون کا دریا عبور کیا اور محترمہ بینظیر بھٹو نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا، وزارت اطلاعات و نشریات میڈیا کو دبانے کیلئے نہیں بلکہ میڈیا کو ترقی دینے اور سہولتیں فراہم کرنے کیلئے بنایا گیا ہے نئی حکومت نے میڈیا کی آزادی پر قدغن لگانے والے امتیازی قوانین ختم کرنے کا اعلان کیا ہے نئی حکومت کے اس علان کو سراہا گیا ہے پیمرا امتیازی کردار ادا کر رہا ہے اس لئے اسے ختم کرنیکا فیصلہ کیا گیا ہے، وزارت اطلاعات و نشریات میڈیا کے ساتھ ہم آہنگی سے کام کرے گی اور میڈیا کی ترقی اور اس سے وابستہ افراد کی فلاح و بہبود کیلئے اقدامات کئے جائیں گے، صحافیوں کے تحفظ کیلئے کمیٹی بنائی جائے گی جمہوری حکومت سے عوام کی بہت توقعات وابستہ ہیں،
International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.
Tuesday, April 1, 2008
پا کستا ن کے آئین کا دفاع۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تحریر چودھری احسن پریمی
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری پیر کو ایک سال سے زائد عرصہ کے بعد اپنے دیگر ساتھی وکلاء بیرسٹر اعتزاز احسن ، بیرسٹر منیر اے ملک حامد خان ایڈووکیٹ کے ہمراہ اسلام آباد سے اپنے آبائی شہر کوئٹہ پہنچے تو ایئر پورٹ سے ہائی کورٹ بار تک شہریوں،سیاسی کارکنوں اور وکلاءکی بڑی تعداد نے ان کا تاریخی استقبال کیا،چیف جسٹس جلسہ گاہ تک 10گھنٹے میں پہنچے۔کوئٹہ میں وکلاءکنونشن سے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا کہ 18 فروری 2008 ء کے عام انتخابات میں عوام نے آئین کی عمل داری کے حق میں ووٹ دے دیا ہے ۔ ملک میں کسی آمر یا آئین توڑنے والے شخص کے لیے کوئی جگہ نہیں۔کوئی فرد واحد آئین میں دخل اندازی یا تحریف نہیں کر سکتا ،آئین میں ترمیم کا حق صرف پارلیمنٹ کو حاصل ہے۔ ملک و قوم کی بقاءآئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی میں پوشیدہ ہے، ججوں نے اس مقصد کیلئے کیریئر کی قربانی دی، اب وہ دن دور نہیں جب آزاد اور غیر جانبدار عدلیہ کا قیام عمل میں آئے گا۔ کا بینہ کے حلف اٹھا نے کے بعدسے الٹی گنتی شروع ہوچکی ہے، عدلیہ کی آزادی پر تحریک ختم ہو جا ئے گی تمام لاپتہ افراد کو بھی بازیاب کرا یا جا ئے گا۔ چیف جسٹس کی بحالی میں چند دن باقی رہ گئے ہیں۔کوئٹہ ایئر پورٹ سے لیکر ہائی کورٹ بار تک فضا چیف جسٹس زندہ باد چیف تیرے جانثار بے شمار بے شمار کے نعروں سے گونج اٹھی وکلاء کے 12 رکنی جانثار ونگ کے دستے نے افتخار چوہدری کو اپنے گھیرے میں لے لیا۔ ایئر پورٹ کے وی آئی پی لانج میں وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل علی احمد کرد، بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے صدر باز محمد کاکڑ ایڈووکیٹ، بلوچستان ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر ہادی شکیل ایڈووکیٹ اور مسلم لیگ (ن) کے صوبائی صدر اور سابق وفاقی وزیر بر ائے ریلویز سردار یعقوب ناصر، پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی کے صوبائی صدر عثمان کاکڑ ، وکلاء اور سیاسی رہنماو¿ں نے ان کا استقبال کیا۔کوئٹہ ائیرپورٹ پر سیکورٹی کے فول پروف انتظامات کئے گئے تھے اور پولیس سمیت اے ٹی ایف کے کمانڈوز کو خصوصی طور پر تعینات کیا گیا تھا جبکہ معزول چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور ان کے ساتھیوں کوائیرپورٹ سے شہر لانے کے لئے وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ کی ایک بلٹ پروف سیاہ رنگ کی جیپ پہلے سے ائیرپورٹ پر موجود تھی جس کے بعد ازاں خراب ہوجانے کے بعد دو گاڑیوں نے کھینچ کر ہائی کورٹ تک کا فیصلہ طے کیا۔ 18 فروری 2008 ء کے عام انتخابات میں عوام نے آئین کی عمل داری کے حق میں ووٹ دے دیا ہے ۔ ملک میں کسی آمر یا آئین توڑنے والے شخص کے لیے کوئی جگہ نہیں۔کوئی فرد واحد آئین میں دخل اندازی یا تحریف نہیں کر سکتا ۔ آئین کو توڑنا یا تہہ وبالا کرنا ایک جرم بلکہ سنگین جرم ہے ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے جن جراتمند اور باضمیر جج صاحبان نے پی ۔ سی ۔ او کے تحت حلف نہ لے کر جو اسٹینڈ لیا ہے ، ان کا یہ کارنامہ قابل ستائش ہے وکلاء کی جدوجہد اب کسی خاص طبقے یا علاقے تک محدود نہیں رہی ہے بلکہ اس جدوجہد نے اب ملکی سرحدوں کو عبور کرکے بین الاقوامی حیثیت اختیار کرلی ہے ۔یہ وہی مقصد ہے جو چیف جسٹس کے مقا لے کا عنوان تھا یعنی ( پاکستان کے آئین کا دفاع اور اس کا تحفظ ) یہ مقصد ہے آئین کے نفاذ ، ایک آزاد عدلیہ کے قیام اور قانون کی بالادستی کو یقینی بنانے کا ۔ چیف جسٹس نے کافی سار ے سوموٹو ایکشن لیے اور انسانی حقوق سے متعلق درخواستوں کی سماعت کی۔ سپریم کورٹ میں قائم انسانی حقوق کے سیل نے پورے ملک سے ہزاروں کی تعداد میں د رخواستیں وصول کیں ۔ یہ درخواستیں زیادہ تر غریب اور کمزور طبقے کے لوگوں کی طرف سے موصول ہوئیں ۔سپریم کورٹ میں سٹیل ملز ،اشیائے خوردونوش کی قیمتوں کا اتار چڑھاو¿، فارم ہاو¿سز کی الاٹمنٹ ، سیکرٹریوں کو پلاٹس کی الاٹمنٹ ا ور لاپتہ افراد اور دیگر بے شمار اہم معاملات اس لیے اٹھائے گئے تاکہ قومی خزانے کی لوٹ مار روکی جائے ، بنیادی حقوق نافذ کیے جائیں ، ضرورت مند کو انصاف ملے اور ملک کو آئین وقانون کے مطابق چلایا جائے ۔ یہ وہ اقدامات تھے جوجمہوریت کے قیام اور ملک و قوم کی بہتری کے لیے ضروری تھے۔ آئین وقانون کا مقصد شہریوں کا مفاد ہوتا ہے ۔ قانون صرف مراعات یافتہ طبقے کے لوگوں کے مفاد کے لیے نہیں ہوتا بلکہ یہ معاشرے کے نچلے اورمتوسط طبقے کے لوگوں کی حفاظت کے لیے بھی ہوتا ہے ۔ چاہتی ہے‘ تاہم ایوان صدر میں اب بھی ججز کے خلاف سازشیں ہو رہی ہیں‘ اگر نئی حکومت 30 روز کے اندر ججز بحال کرتی ہے تو وکلائ برادری اپنی تحریک ختم کر دے گی تمام بار ایسوسی ایشنز خاموش ہو جائیں گی تاہم ملک بھر میں ججز کی بحالی پر خوشیوں کا جشن منایا جائے وکلاءکو اعلان مری پر کوئی تحفظات نہیں مگر موجودہ حکومت ججوں کی بحالی کا وعدہ پورا کرے اور یگر سیاسی قیدیوں کو رہا کیا جائے وکلاءتحریک نے ثابت کردیا کہ اب کوئی مائی کا لال آئین کو روند نہیں سکتا اب تمام لاپتہ افراد کو بھی بازیاب کرا یا جا ئے۔ چیف جسٹس کی بلو چستان آمد اور بلوچستان کے عوام کے والہانہ استقبال نے یہ بھی ثابت کردیا ہے کہ انہیں اب ایک دن بھی صدر پرویز مشرف برداشت نہیں۔ بلوچستان کے عوام نے جس طرح چیف جسٹس کا استقبال کیا ہے اس سے یہ بات صاف واضح ہوگئی ہے کہ عدلیہ کی آزادی میں اور چیف جسٹس کی بحالی میں چند دن باقی رہ گئے ہیں اور اگر کسی آمر نے اس میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی تو ملک کے عوام اور وکلاء برداشت نہیں کریں گے۔ کیو نکہ عوام کے اس تاریخی استقبال سے یہ بات اب بالکل واضح ہوگئی ہے کہ غیر آئینی اور فوجی آمروں کے دن گنے جاچکے ہیں اور ان کو چاہئے کہ وہ مستعفی ہوجائیں ورنہ ان کو عوام کی طاقت کا سامنا کرنا پڑے گا شاید وہ یہ برداشت نہ کرسکیں ۔ جبکہ موجودہ حکومت مہنگائی پر قابوپانے ‘صنعت ‘زراعت اور دیہی علاقوں کو ترقی دینے، غریب اور متوسط عوام کو خوشحالی سے ہمکنار کرنے کیلئے ایک جامع پروگرام پر بھی عمل کرے تاکہ محنت کشوں کیخلاف استحصالی رویہ ختم کیا جاسکے وفاقی کابینہ نے عدلیہ اور ججوں کی بحالی اور ایف سی آر کے خاتمے کے امورپر کمیٹیاں تشکیل دیتے ہوئے فیصلہ کیا ہے کہ ہر دو ہفتے بعد بدھ کے روز کابینہ کا اجلاس ہوگا جس میں مختلف شعبوں میں پیش رفت کا جائزہ لیا جائے گا۔ کابینہ نے اس امر پر بھی اتفاق کیا کہ عوام کو ہر ممکن ریلیف فراہم کیا جائے گا بجلی کا مسئلہ جنگی بنیادوں پر حل کرنے اور توانائی کی بچت مہم چلانے کا فیصلہ ناگزیر ہے 100 روزہ طے شدہ پروگرام اور اہداف کی تکمیل کیلئے وزراء کو 10 روز میں منصوبہ بندی کرنے کا حکم دیا گیاہے اور آٹے کی فراہمی یقینی بنانے کی بھی ہدایت کی ہے۔ تمام وفاقی وزراء100 دن کے پروگرام پر عملدرآمد کیلئے اپنی توانائیاں وقف کریں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ حکومت عوام کی خدمت کیلئے پرعزم ہے۔ اس حقیقت کے باوجود کہ حکومت کو بے پناہ چیلنجز کا سامنا اور وسائل محدود ہیں، قوم کیلئے نئی حکومت کے عزم میں کوئی کمی نہیں لائی جاسکتی، یوسف رضا گیلانی کا عزم چیلنجز سے زیادہ پختہ ہے حکومت کو پاکستانی عوام کی طرف سے دیئے گئے مینڈیٹ سے صرفِ نظر نہیں کرنا چاہیے، عوام کی امنگوں اور خواہشات کا احترام کیا جائے اور عام آدمی کی زندگی میں بہتری لانے کیلئے تمام کوششیں کی جائیں وزارت خزانہ بھی عوام کو ریلیف دینے اور ان کے مسائل کے حل کیلئے اقدامات عملی طور پر کر ے بجلی کی لوڈ شیڈنگ اور آٹے کے بحران پر بھی با توں کی حد سے آ گے نکلنا ہو گا۔نیزیوٹیلٹی اسٹورز وا لوں کا د ماغ بھی درست کر نا ہو گا تا کہ عوام کو آٹے کی فراہمی یقینی ہو سکے۔ اگرچہ گندم کی امدادی قیمت بڑھانے اور کم سے کم اجرت 6 ہزار کرنے کے وزیراعظم کے اعلانات کو سراہا گیا ہے اور کم سے کم اجرت 6 ہزار کرنے کیلئے لیبر قوانین میں ترمیم کی جائے گی۔ عوامی حلقوں نے وزیر اعظم سے پر زور مطالبہ کیا ہے کہ سا بقہ دور میں آ ٹے کا بحران کے ذمہ دا روں کو بھی منظر عام پر لا یا جا ئے تا کہ عوام بھی ان سماج دشمن عناصر کے چہروں سے واقف ہو سکیں جبکہ حکومت نے ججوں کی بحالی کا طریقہ کار طے کرنے کیلئے وفاقی وزیر قانون کی سربراہی میں دو کمیٹیاں تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے جمہوری حکومت سے عوام کی بڑی توقعات وابستہ ہیں، اس منزل تک پہنچنے کیلئے پی پی نے خون کا دریا عبور کیا اور محترمہ بینظیر بھٹو نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا، وزارت اطلاعات و نشریات میڈیا کو دبانے کیلئے نہیں بلکہ میڈیا کو ترقی دینے اور سہولتیں فراہم کرنے کیلئے بنایا گیا ہے نئی حکومت نے میڈیا کی آزادی پر قدغن لگانے والے امتیازی قوانین ختم کرنے کا اعلان کیا ہے نئی حکومت کے اس علان کو سراہا گیا ہے پیمرا امتیازی کردار ادا کر رہا ہے اس لئے اسے ختم کرنیکا فیصلہ کیا گیا ہے، وزارت اطلاعات و نشریات میڈیا کے ساتھ ہم آہنگی سے کام کرے گی اور میڈیا کی ترقی اور اس سے وابستہ افراد کی فلاح و بہبود کیلئے اقدامات کئے جائیں گے، صحافیوں کے تحفظ کیلئے کمیٹی بنائی جائے گی جمہوری حکومت سے عوام کی بہت توقعات وابستہ ہیں،
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment