International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.

Sunday, June 8, 2008

اور پھر صدر کونیند آگئی





ابراھم لنکن اپنے ایک دوست کے ہمراہ چہل قدمی کررہے تھے۔ دونوں میں جو گفتگو ہورہی تھی اس کا موضوع تھا ”انسان کوئی کام بھی بغیر غرض کے نہیں کرتا “ دوست کا موقف تھا کہ انسان بہت سے کام بے لوث ہو کر بھی کرتا ہے جبکہ لنکن اس کے قائل نہیں تھے۔ ان کا کہنا تھا انسان ہر کام کسی غرض اور فائدے ہی کیلئے کرتا ہے۔ بحث جاری تھی کہ ایک ”پلے “ کی دردبھری آواز نے دونوں کو چونکا دیا ۔ ادھر ادھر نگاہ دوڑائی تو پلا ایک جھاڑی میں پھنسا نظرآگیا۔ وہ خود کو باہر نکالنے کی کوشش کررہا تھا اور اس کوشش میں جھاڑی کے کانٹے اسے چبھ رہے تھے لنکن سے یہ منظر دیکھا نہیں گیا۔ وہ تیزی سے لپکا اور جھاڑی ہٹا کر ”پلے “ کو باہر نکال دیا۔ ”پلا“ چوں چوں کرتا لنکن کے پیروں میں لوٹنے لگا اور پھر دور بھاگ گیا ۔ اب لنکن کے چہرے پر طمانیت تھی وہ دوست کی طرف پلٹے تو وہ مسکرا رہا تھا۔ لنکن دوبارہ موضوع کی طرف آتے ہوئے بولے ”میرے خیال میں انسان اپنے فائدے کے بغیر کوئی کام نہیں کرتا اور میں اس بات پر قائم ہوں “۔ دوست نے جواب دیا ”مگر صدر صاحب ! آپ نے ابھی ابھی بذات خود اپنے اس موقف کی نفی کردی “۔ لنکن نے پوچھا ”وہ کیسے ؟“ دوست بولا ”آپ نے ابھی ابھی ایک ”پلے “ کو مصیبت سے نجات دلائی ۔ بھلا ایک ”پلے“ سے آپ کو کیا فائدہ ہوسکتا ہے ؟“ اب مسکرانے کی باری لنکن کی تھی وہ زیرلب مسکرائے اور بولے ”اس میں بھی میرا فائدہ اور غرض شامل تھی“۔ دوست نے حیران ہو کر دریافت کیا ”اس میں آپ کی کیا غرض ہوسکتی ہے ؟“ لنکن کا جواب تھا ”اگر میں اس کو جھاڑی سے نہ نکالتا اور وہ پھنسا رہتا تو مجھے دن بھر چین آتا نہ رات کو نیند ۔ میں نے اپنا چین اور نیند بچالی “۔اپنے اپنے مزاج کی بات ہے۔ کسی کو کتے کے بچے کی مصیبت پر نیند نہیں آتی اور کوئی انسانوں کے سیکڑوں بچے اپنے ہاتھوں مار کر بھی چین کی نیند سو جاتا ہے 10 جولائی 2007ءکی رات کیسے بھلائی جا سکتی ہے۔ وفاقی دارالحکومت میں سپیشل سروسز گروپ کے کمانڈوز اور رینجرز کے شیر جوانوں نے لال مسجد اور جامعہ حفصہ کا محاصرہ کیا ہوا تھا ۔ صدر پرویز مشرف کے مطابق اندر ”دہشتگرد“ چھپے ہوئے تھے۔ ملک خطرے میں تھا۔ قوم کی آزادی خطرے میں تھی ۔ اس لئے انہوں نے فوج کے بہترین لڑاکے یہاں بھیجے تھے جو ”دہشتگردوں ”پر دن رات آگ اور لوہے کی بارش کررہے تھے۔ ایک ہفتے سے آپریشن جاری تھا دارالحکومت بالخصوص اور ملک بھر کو بالعموم ایک خبر کا انتظار تھا۔”غازی برادران اور صدر پرویز مشرف کے درمیان مذاکرات کامیاب ¾آپریشن ختم ¾مسلح افراد گرفتار ¾ خواتین ¾طالبات اور بچوں کو بحفاظت بازیاب کرکے ورثاءکے حوالے کردیا گیا۔“29جون2007ءکو صدر مشرف نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے ایک پروگرام میں مہمان خصوصی تھے۔ وہاں صحافیوں کو بھی بلوایا گیا تھا جس کا مقصد2جولائی کو لال مسجد پر فوجی حملے کے بعد سمجھ میں آیا ۔صدر نے صحافیوں سے کافی باتیں کیں مگر فوکس لال مسجد ہی تھا۔ صدر کا کہنا تھا کہ ان پر لال مسجد والوں کے خلاف آپریشن کیلئے بہت دبائو ہے۔صدر نے سول سوسائٹی کے مظاہروں اور مطالبات کا حوالہ بھی دیا کہ ان لوگوں کو روکا جائے جو جب جی چاہئے مسجد سے لاٹھیاں لے کر باہر نکلتے ہیں اور مسلمانوں کو مسلمان بنانے لگتے ہیں۔ کبھی پولیس والوں کو اٹھا کر لے جاتے ہیں اور کبھی غیر ملکی عورتوں کو ۔ ان لوگوں نے اسلام آباد میں خوف وہراس پھیلا دیا ہے۔ ان سب باتوں کے باوجود صدر کا یہ بھی کہنا تھاکہ ”وہ جانتے ہیں مسجد اور جامعہ میں سیکڑوں بچے اور بچیاں بھی ہیں۔ اس لئے ہم آپریشن نہیں کرنا چاہتے۔ ہم چاہتے ہیں مسئلہ خونریزی کے بغیر حل ہوجائے“۔ اس گھڑی تمام تر باقی اختلافات کے باوجود صدر مشرف مجھے بہت اچھے لگے مگر یہ کیفیت زیادہ دیر برقرار نہیں رہی۔ چند روز بعد ہی فوجیں آگئیں اور لاشیں گرنے لگیں۔2جولائی کی وہ منحوس سہ پہر مجھے آج بھی یاد ہے۔ فوجیں آنے کی اطلاع پر لال مسجد روانہ ہوا تو میلوڈی چوک میں کمانڈوز نے روک لیا۔ چوک میں خاردارتاریں بچھا کر مسجد کی طرف جانے والا راستہ بند کردیا گیا تھا ابھی گولی نہیں چلی تھی ۔ صحافیوں کی بڑی تعد اد میلوڈی چوک اور لال مسجد چوک میں جمع تھی۔ کمانڈوز نے پوچھنے پر بتایا کہ آپ گلیوں سے ہو کر لال مسجد چوک تک جاسکتے ہیں۔ گلیوں میں ہو کا عالم تھا۔ لوگ آنے والی قیامت کے خوف سے گھروں میں دبک گئے تھے یا فوجیوں کے گشت کی وجہ سے باہر نہیں نکلے۔ لال مسجد چوک پہنچا تو کچھ فوجی مسجد اور جامعہ کے عین سامنے موجود میدان میں پوزیشنیں سنبھالے نظر آئے۔ مسجد اور جامعہ کی چھت پر مزاحمت یا نقل وحرکت کے کوئی آثار نظر نہیں آئے۔ چند روز قبل بھی میں اسی چوک سے گزرا۔ رات10بجے کا عمل تھا اور بارش ہورہی تھی۔ مسجد کی چھت پر ہلکی ہلکی عمر کے چند لڑکے ڈنڈے تو نہیں کہہ سکتے البتہ چھڑیاں سی اٹھائے کھڑے تھے۔ گھر جاتے میں سوچ رہا تھا نہ جانے کن کے بچے ہیں۔ ان کو خبر بھی ہے کہ نہیں کہ ان کے لخت جگر کن حالات میں گھر چکے ہیں۔ موت ان کے سروں پر منڈلا رہی ہے۔ آپریشن کے روز بھی چوک میں ایک سکول کی دیوار سے ٹیک لگائے یہی سوچے جارہا تھا کہ یہ کیسا آپریشن ہے؟ ایک طرف دنیا کی بہترین فوج کے بہترین تربیت یافتہ کمانڈو اور دوسری طرف چھڑیاں اٹھائے چودہ چودہ ¾پندرہ پندرہ سال اور اس سے بھی ہلکی عمر کے بچے اور بچیاں۔ ایک طرف بھی مسلمان دوسری طرف بھی مسلمان۔ ایک طرف بھی پاکستانی اور دوسری طرف بھی پاکستانی۔ اور جو مارنے آئے ہیں دراصل ان کا کام دشمن سے بچانا ہے اور جو مرنے والے ہیں درحقیقت وہ تحفظ کے حقدار ہیں۔ اس سے قبل کہ سوچوں کے دھارے میں بہتے بہتے دور نکل جاتا میرے سر کے اوپر جیسے کسی نے ہتھوڑا دے مارا ۔ مجھے نہیں پتہ تھا کہ جس سکول کی دیوار کے ساتھ کھڑا ہوں اس کی اوپری منزل میں بھی مورچہ ہے۔ اس کی کھڑکی سے ایک کمانڈو نے پہلی گولی چلا دی تھی۔ پہلی لاش گر چکی تھی۔غازی برادران کے سول سوسائٹی اور قانون کے خلاف تمام اقدامات کے باوجود جوں جوں آپریشن آگے بڑھتا اور لاشیں گرتی رہیں توں توں لوگوں کو احساس ہوتا گیا کہ انہوں نے یہ تو ہرگز نہیں چاہا تھا اور یہ بات درست تھی۔ غازی برادران اور ان کے چند ساتھی مسلح تھے۔ باقی اکثریت خواتین معلمات ¾ طالبات ¾ طلباءاور بچوں کی تھی جو معصوم تھے۔ جن کا دہشتگردی ¾ قانون شکنی یا ملک دشمنی سے دور دور تک کوئی واسطہ نہ تھا۔ لہٰذا چند مسلح افراد پر قابو پانے کیلئے وفاقی پولیس کے تھانہ آبپارہ کی پولیس ہی کافی تھی۔وہ سب لوگ جو لال مسجد والوں کے خلاف کارروائی کیلئے شور مچاتے رہے انہیں محسوس ہوا کہ ان کے کندھے پر بندوق رکھ کر چلائی جارہی ہے۔ یقینا وہ اس قسم کی وحشیانہ کارروائی نہیں چاہتے تھے۔ یقینا ً یہی وجہ رہی ہوگی کہ صدر کو پھر مذاکرات کی طرف آنا پڑا حالانکہ گولی چل چکی تھی اور گولی تبھی چلتی ہے جب بولی رک جاتی ہے۔پھر10جولائی کی وہ رات آپہنچی۔ لال مسجد آپریشن کے ڈراپ سین کی رات ¾ بہت سی لاشیں گرچکی تھیں مسجد کے اندر بھی اور مسجد کے باہر بھی۔ اندر نہ جانے کون کون مرا ؟ باہر لیفٹیننٹ کرنل ہارون السلام کی جان گئی ¾ وہ تو ہونا ہی تھا۔ ایک فوٹو گرافر ¾ایک تاجر ¾ایک مزدور مفت میںمارے گئے۔ پتہ نہیں ان کو کن کی گولیاں چاٹ گئیں۔ ”دہشتگردوں ” کی یا قوم کے ”محافظوں “ کی ۔ پتہ نہیں ان میں کون شہید ہوا اور کون صرف کام آیا۔ بہت نقصان ہوچکا تھا مگر پھر بھی ابھی ایک المیہ ہونا باقی تھا۔ اسے روکا جاسکتا تھا۔ اسی لئے ایک طرف میڈیا غازی عبدالرشید اور صدر کے ساتھیوں میں رابطے کرانے میں مصروف تھا اور دوسری طرف چوہدری شجاعت حسین رات گئے تک صدر اور غازی عبدالرشید کے بیچ کسی مفاہمت کی کوشش میں لگے ہوئے تھے۔اس دوران وقفے وقفے سے طلباءاور طالبات مسجد سے باہر آتے رہے۔غازی عبدالعزیز کو پہلے ہی زندہ گرفتار کیا جاچکا تھا۔ پیچھے صرف غازی عبدالرشید رہ گئے تھے جنہیں قائل کرکے باقی معصوموں کی جان بچائی جاسکتی تھی جو اب بھی سیکڑوں کی تعد اد میں اندر موجود تھے اور ایک ہفتے سے بھوک اور پیاس کے علاوہ آگ اور لوہے کی بارش کا بھی سامنا کررہے تھے۔ نیند کا تو کوئی سوال ہی نہیں اٹھتا تھا۔ شاید انہیں احساس ہوچکا تھا کہ بس تھوڑی دیر کی بات ہے اس کے بعد تو سونا ہی ہے۔ ایک ایسی نیند جو بہت میٹھی ہے ¾ بہت پرسکون ¾پھر چاہے گولے برسیں یا پہاڑ ٹوٹیں۔ ان کی آنکھ نہیں کھلنی رات گزرتی جارہی تھی مذاکرات جاری تھے ¾مذاکراتی ٹیم ایک کال غازی عبدالرشید کو اور دوسری صدر کو کررہی تھی۔ میڈیا سے پتہ چل رہا تھا بات آگے بڑھ رہی ہے ۔غازی صاحب نرم پڑرہے ہیں امید بندھ رہی تھی کہ شاید معاملہ سلجھ جائے۔ سیکڑوں بے گناہ انسان اور انسانوں کے بچے بچ جائیں مگر ایوان صدر کو کچھ اور ہی مقصود تھا ۔ مذاکراتی ٹیم اور غازی عبدالرشید کے درمیان مذاکرات تقریباً کامیاب ہوچکے تھے۔ ٹیم لیڈر نے آپریشن روکنے کیلئے حتمی منظوری کی خاطر صدرکے موبائل فون پر رابطہ کیا تو وہ بند ہوچکا تھا۔ صدر مملکت سونے کیلئے جاچکے تھے ۔ ان کو نیند آگئی تھی۔

No comments: