ججز کی بحالی کیلئے وکلاء کے لانگ مارچ میں بھرپور شرکت کا اعلان کردیاسابق سفیروں نے پی پی پی کی سربراہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کی تحقیقات اقوام متحدہ سے کرانے کی مخالفت کردیاس کے ذریعے سلامتی کونسل کی جانب سے پاکستان کی دفاعی تنصیبات کی چیکنگ کاخدشہ ہےامریکہ سے ڈکٹیشن لینا یا اُس کے مفادات کا تحفظ کرنا قومی مفاد کے منافی ہےفرض شناس اور باضمیر سرکاری افسر قومی ایشو کے بارے میں حکومت کو اپنی رائے سے آگاہ کرتے ہیںمارشل لاء کے دور میں اگر ملازمت چھوڑ دیتے تو اس سے آمریت کے مقاصد پورے ہوتےسابق سیکرٹریز خارجہ شمشاد احمد خان ، ریاض کھوکھر ، اکرم ذکی ، ایس ایم قریشی اور دیگر کی مشترکہ پریس کانفرنس
اسلام آباد۔ ملک کے 30سابق سفیروں نے صدر پرویز مشرف کے استعفیٰ اور مواخذے کے مطالبے کی حمایت کرتے ہوئے ججز کی بحالی کیلئے وکلاء کے لانگ مارچ میں بھرپور شرکت کا اعلان کردیا۔سابق سفیروں نے پی پی پی کی سربراہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کی تحقیقات اقوام متحدہ سے کرانے کی مخالفت کرتے ہوئے اسے ملکی مفاد کے منافی قرار دیا ہے اور خدشہ ظاہر کیاہے کہ اس کے نتیجے میں سلامتی کونسل کی جانب سے پاکستان کی دفاعی تنصیبات کی چیکنگ ہو سکتی ہے۔ان سابق سفیروں میں شمشاد احمد خان،ریاض کھوکھر ، اکرم ذکی ،ڈاکٹر ایس ایم قریشی، ڈاکٹر مقبول بھٹی ، نجم الثاقب خان، گل حنیف ، عظمت حسین ،توقیر حسین ،سلیم نوازخان گنڈا پور، اقبال احمد خان،اسلم رضوی ، کامران نیاز، جاوید حفیظ ، نذر عباس ، راشدسلیم خان، ایاز وزیر ،وزارت خارجہ کے سابق اسپیشل سیکرٹری شیر افگن خان شامل ہیں ۔سابق سفیروں نے اعلان کیا ہے کہ لانگ مارچ کے ساتھ بھرپور تعاون کیاجائے گا ۔ صدر پرویزمشرف غیر آئینی صدر ہیں پوری قوم کا مطالبہ ہے وہ مستعفیٰ ہوں انتخابی مینڈیٹ کے مطابق ان کا مواخذہ کیاجائے ۔ اتوار کواسلام آباد پریس کلب میں سابق سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد خان نے سابق سفیروں کے اس تیس رکنی گروپ کی جانب سے وکلاء تحریک کی حمایت میں بیان پڑھا۔ ریاض کھوکھر اور دیگر سابق سفیر بھی اس موقع پر موجود تھے سابق سفیروںکے مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ وکلاء برادری اور سول سوسائٹی کی ججز کی بحالی آئین کی بالادستی ، قانون کی حکمرانی ، آزاد عدلیہ، فریڈم آف پریس ، حقیقی جمہوریت کے حوالے سے جدوجہد کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں ۔ آئین میں واضح طورپر کہا گیا ہے عوام کی مرضی اور رائے کے مطابق حکومت قائم ہو گی ۔10جون سے شروع ہونے والے لانگ مارچ میں سابق سفیر بھرپور طور پر شرکت کریں گے ۔ حکومت ججز کی بحالی میں ناکام ہوئی ہے ۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور دیگر ججز کو غیر آئینی اور غیر قانونی طریقے سے برطرف کیاگیا۔ تین نومبر 2007ء کو ایمر جنسی اور پی سی او غیر آئینی تھا تین نومبر 2007ء کو اس وقت کے چیف آف آرمی سٹاف کی جانب سے جاری ان غیر آئینی ، غیر قانونی اقدامات کی مذمت کرتے ہیں ملک پر غیر اعلانیہ مارشل لاء مسلط کیاگیا۔آئین کی خلاف ورزی کی گئی ، عدلیہ اور میڈیا کی آزادی سلب کی گئی ، بنیادی حقوق پامال کئے گئے ۔پی سی او اور ایمر جنسی کا جواز نہیں تھا۔انہوںنے کہاکہ تین نومبر 2007ء کو سپریم کورٹ کے پی سی او اور ایمر جنسی کے خلاف فیصلے پر عملدر آمد ہونا چاہیے ۔اٹھارہ فروری کو عوام نے پرویزمشرف اور آمریت کے خلاف فیصلہ دیا9مارچ 2008ء کو پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے اعلان مری کے ذریعے ججز کی بحالی کا وعدہ کیا ۔ وفاقی حکومت عوامی مینڈیٹ کو پورا کرنے میں ناکام ہوئی ہے۔سابق سفیروں نے واضح کیاہے کہ آئینی پیکج اور عدلیہ کے بارے میں اصلاحات ججز کی بحالی کے خلاف ہے آئین کی حکمرانی ، آزاد عدلیہ کے خلاف دباؤ کو مسترد کرتے ہیں۔آئین ، جمہوریت ، قانون کی حکمرانی ، شہری آزادیوں ، سیاسی استحکام ، سماجی انصاف ، معاشی ترقی ، قومی سلامتی کیلئے ، آزاد عدلیہ ضروری ہے ۔ مختلف سوالوں کے جواب دیتے ہوئے شمشاد احمد خان نے کہاکہ با ضمیر سرکاری افسران اپنی مدت ملازمت کے دوران جس معاملے کے بارے میں اختلاف رائے ہو حکومت کو اس سے آگاہ کر دیتے ہیں ۔سابق سیکرٹری خارجہ نے بھی ایسے ہی ایشو کے حوالے سے حکومت کو اپنی رائے سے آگاہ کر دیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اختلاف رائے رکھنے والے سرکاری افسران آمریت کے دور میں اگر اپنی ملازمتیں چھوڑ دیں تو اس سے تو آمریت کو تقویت ملتی ہے۔ انہوںنے کہاکہ فرض شناس افسران ہمیشہ قومی مفاد کے مطابق اپنی رائے سے حکومت کو آگاہ کرتے ہیں۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے حوالے سے اقوام متحدہ سے رابطہ کرنا ، ریاست کی جانب سے ناکامی کا اعتراف ہے۔حریری کمیشن والا معاملہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہاکہ ناں اقوام متحدہ کا منشور اور قانون اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ کسی ملک میں ہونے والے جرم کی تحقیقات کی جائے ۔ لبنان میں سیاسی بحران تھا وہاں کے صدر رفیق الحریری کے مخالف تھے لبنان کا مسئلہ اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر بھی تھا اس لئے اس معاملے کی تحقیقات اقوام متحدہ نے کی انہوں نے کہا کہ پاکستان کا اس حوالے سے اقوام متحدہ سے رابطہ کرنا ملکی مفاد کے منافی ہے ریاض کھوکھر نے کہاکہ خارجہ امور ایک مشکل کام ہے ملکی صورتحال میں خارجہ امور کا اہم کردار ہوتا ہے خارجہ پالیسی کے حوالے سے دفتر خارجہ اپنے آپشن سے حکومت کو آگاہ کرتا ہے دفتر خارجہ میں لوگ چوڑیاں پہن کر نہیں بیٹھے ہوتے اپنے کام سے آگاہ ہوتے ہیں ملکی مفاد کے مطابق رائے کا اظہار کیاجاتا ہے اور اپنے تجزیے کے مطابق خارجہ پالیسی کے بارے میں تجاویز دی جاتی ہیں۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ امریکہ سے ڈکٹیشن لینا یا اس کے مفادات کا تحفظ کرنا ملکی مفاد کے خلاف ہے لیکن کیا بھی کیا جا سکتا ہے ۔جب ہماری سیاسی قیادت دن رات امریکہ سے رابطے میں رہے دفتر خارجہ کیاکر سکتا ہے۔اکرم ذکی نے کہا کہ آپ خارجہ پالیسی کی بات کرتے ہیں مجھے ملک میں کوئی حکومت ہی نظر نہیں آرہی ہے ۔ وزیراعظم نے حلف لینے سے پہلے ججز کی رہائی کا حکم جاری کیا مگر حلف اٹھانے کے بعد کوئی اعلانات نہیں کئے۔ایک سوال کے جواب میں شمشاد احمد خان نے بتایا کہ اقوام متحدہ اپنے منشور کے چپٹر سیون کے تحت دہشت گردی کے خلاف جنگ کے تحت بے نظیر بھٹو کی تحقیقات کی درخواست کا جائزہ لے سکتی ہے لیکن اس سے سلامتی کونسل کی جانب سے پاکستان کی اہم تنصیبات کے جائزہ کا خدشہ ہے کیونکہ سلامتی کونسل میں ہمارے ہمدرد ، دوست اور مخلص نہیں بیٹھے ہیں ۔ انہوںنے بتایاکہ سابق سفیر لاہو رسے لانگ مارچ میں شامل ہوں گے ہر طرح کا تعاون کیاجائے گا ایک سوال کے جواب میں شمشاد احمد خان نے کہاکہ پرویز مشرف کا استعفیٰ پوری قوم کا مطالبہ ان کامواخذہ ہونا چاہیے یہی عوامی مینڈیٹ کا تقاضا ہے ۔
No comments:
Post a Comment