پاکستان کو ایٹمی قوت بنانا میری پہلی خواہش تھی ، دوسری اور آخری خواہش زندگی کے بقیہ دن آزادی سے گزارنا ہےعوام سے مجھے کوئی ڈر نہیں بلکہ اللہ تعالی کے بعد عوام ہی میرے محافظ ہیںزندگی اور موت اللہ کے اختیار میں ہے ،مجھے بکتر بند گاڑیوں کی ضرورت نہیںنامور ایٹمی سائنسدان کی نجی ٹی وی سے انٹرویو
اسلام آباد ۔ نامور ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبد القدیر خان نے حکومت سے کہا ہے کہ مجھے فوری طور پر آزاد کردیا جائے ۔ میں اپنی زندگی کے بقہ دن آزادی سے گزارنا چاہتا ہوں ۔ پاکستان کو ایٹمی قوت بنانا میری پہلی خواہش تھی اور اب دوسری اور آخری خواہش زندگی کے بقیہ دن آزادی سے گزارنا ہے ۔ اللہ سب سے بڑا نگہبان ہے مجھے کسی شخص کی سیکورٹی کی ضرورت نہیں 16 کروڑ عوام مجھ سے بے پناہ محبت کرتے ہیں ان سے مجھے کوئی ڈر نہیں بلکہ اللہ تعالی کے بعد عوام ہی میرے محافظ ہیں ۔ زندگی اور موت اللہ کے اختیار میں ہے مجھے بکتر بند گاڑیوں کی ضرورت نہیں ۔ بے نظیر بھٹو بھی بلٹ پروف گاڑی میں ہی شہید ہوئیں ۔ قاضی حسین احمد محب وطن ہیں وہ ہمیشہ ملکی مفاد کی بات کرتے ہیں جبکہ دیگر لوگ امریکہ کی بات کرتے ہیں ۔ ایک نجی ٹی وی کے پروگرام میں اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مجھے پاکستان میں آئے ہوئے 32سال ہوئے اور میں نے 25سال ایٹمی منصوبے کی سربراہی کی اس دوران کئی آرمی چیف آئے مگر مجھے مرزا اسلم بیگ کی دوستی اور فرض شناسی پر فخر ہے ۔ مرزا اسلم بیگ ہی صرف ایسے آرمی چیف تھے جن پر نہ صرف پاکستانی فوج بلکہ پوری قوم کو فخر ہے مرزا اسلم بیگ ہی وہ شخص ہیں جنہوں نے اقتدار کو ٹھکرایا اور ملک میں جمہوریت لے کر آئے ۔ اگر وہ چاہتے تو 17اگست کو اقتدار پر قبضہ کر لیتے مگر انہوں نے ایسا نہ کیا اور غلام اسحاق خان کو بل کر اقتدار ان کے حوالے کردیا اور فوج کو اس چکر سے نکال لیا مرزا اسلم بیگ انتہائی ذہین اور سمجھدار شخص ہیں دنیا کے معاملات پر ان کی گہری نظر ہے اور انتہائی بہادر انسان تھے ۔ امریکی دھمکیاں انہیں مرغوب نہ کر سکیں ۔ ایٹمی پروگرام کی تکمیل میں مرزا اسلم بیگ اور جنرل وحید کاکڑ نے میری بہت مدد کی اور کام میں ہاتھا بٹایا ۔ ڈاکٹر قدیر نے کہا کہ جو شخص پاکستان کے مفاد کو عزیز رکھتا ہے وہ کبھی کسی کے دباؤ سے مرغوب نہیں ہوتا ۔ ڈاکٹر قدیر خان نے کہا کہ امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد ہمیشہ ملک کے مفاد کی بات کرتے ہیں مگر دوسرے امریکہ کو خوش کرنے کی باتیں کرتے ہیں ۔ جنرل چشتی بھی بہادر شخص ہیں جب ہم نے ایٹمی منصوبہ شروع کیا یہ اس وقت راولپنڈی کے کور کمانڈر تھے ۔ انہوں نے اس منصوبے کی تکمیل میں ہماری بہت مدد کی اور ہر قسم کا تعاون فراہم کیا ۔ اس پروگرام کے لئے ہر قسم کی سہولیات فراہم کیں ۔ کرنل عبد الرحمان نے بھی اچھے انسان ہیں یہ تمام لوگ بڑے محب وطن ہیں ان کے میرے متعلق جو بیانات اور ہمدردیاں ہیں میں ان کا تہہ دل سے شکر گزار ہوں ۔ ڈاکٹر قدیر نے کہا کہ دھیر ے دھیرے حالات ٹھیک ہوتے جارہے ہیں ۔ لوگوں کو اصل حقائق کا پتہ چلتا جارہا ہے ۔ جنرل (ر ) مرزا اسلم لیگ اور جنرل (ر ) جمشید کیانی ، جنرل (ر ) حمید گل نے تمام باتیں بتا دی ہیں ۔ واقعات کبھی چھپتے نہیں ۔ ڈاکٹر قدیر نے کہا کہ ہمیشہ ایمانداری اور سچی بات ہی کرنی چاہیے ۔ سٹیل ملز کے سابق چیئر مین جنرل (ر ) عبدالقیوم نے اپنے انٹرویو میں بتایا کہ سٹیل ملز کی نجکاری میں کیسے بے ایمانی ہوئی اور اسے کتنا نقصان پہنچایا جارہا تھا ۔ ڈاکٹر قدیر نے کہا کہ ایماندار لوگوں کی کمی نہیں ۔ حق و سچ کی بات کرنے والے بہت سے موجود ہیں ۔ دوسرے کئی قومی اثاثوں کو اونے پونے بیچا جارہا تھا مگر انہیں روک لیا گیا ۔ ڈاکٹر قدیر خان نے کہا کہ جن لوگوں کی ملک کیلئے خدمات ہیں وہ لوگوں کو پتہ چلنا چاہیں ۔ ڈاکٹر قدیر نے کہا کہ میں نے بہت صبر کرلیا ہے اب مزید صبر کی گنجائش نہیں ہے ۔ یہ بات میں نے حکومت کو بھی بتا دی ہے ۔ جنرل چشتی اور دیگر کے دوست اگر مجھے ملنے کے لئے آنا چاہتے ہیں میں ان کو خوش آمدید کہتا ہوں وہ ضرور آئیں میں انہیں اپنے ہاتھوں سے چائے کافی پلاؤں گا اور پکوڑے اور سموسے کھلاؤں گا ۔ ڈاکٹر قدیر خان نے کہا کہ مجھے 1971ء کی اپنی فوجیوں کی شکست دیکھ کر بہت دکھ ہوا اور اس کے بعد میں نے ایٹم بم بنانے کا تہیہ کیا اور اس سلسلے میں ذوالفقار علی بھٹو کو خط لکھا اور انہوں نے مجھے فوراً ہی بلا لیا ۔ یہ کریڈٹ ذوالفقار علی بھٹو کو جاتا ہے وہ بہت دور اندیش تھے کہ انہوں نے میرا خط ملتے ہیں مجھے فوراً بلا لیا اور اس پروگرام کے لئے مجھے دنیا بھر کی سہولتیں فراہم کیں ۔ پروگرام کی تکمیل کا کریڈیٹ بھٹو اور میرے ساتھیوں کو جاتا ہے جنہوں نے بڑی محنت اور لگن سے اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں میری معاونت کی ۔ڈاکٹر قدیر نے کہا کہ پیپلز پارٹی جس کے کہنے پر میں نے لبیک کی ان میں سے کسی نے بھی میرے متعلق ہمدردی کا کوئی ایک لفظ نہیں بولا اور اب مجھے امید ہے کہ وہ ضرور بولیں گے ۔ ڈاکٹر قدیر نے کہا کہ مجھے پذیرائی نہیں ملی ۔ لوگوں کو میری آزادی کے بارے میں خواہ مخواہ غلط فہمی میں ڈال دیا گیا ہے ۔ میں آزاد نہیں ہوں ۔ ڈاکٹر قدیر نے کہا کہ امید کرتا ہوں مجھے آزادی ملے اور میں آزادی نے ادھر ادھر آجا سکوں اور اپنے دوستوں اور عزیز و اقارب سے مل سکوں ۔ موجود ہ حکومت کا فرض بنتا ہے کہ مجھے مکمل طور پر آزاد کردے جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ مجھے سیکورٹی رسک کے لئے حفاظت میں رکھا گیا ہے ۔یہ بالکل بکواس ہے ۔ لوگ میرے ساتھ محبت کرتے ہیں مجھے اپنے ملک میں کوئی خطرہ نہیں ہے ۔ سب سے بڑا محافظ اللہ کی ذات ہے اور اس کی بعد 16کروڑ عوام میرے محافظ ہیں ۔ مجھے اس ملک میں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ میرا ایمان ہے کہ موت کا ایک دن مقرر ہے ۔بکتر بند گاڑی میں بیٹھ کر اپنے آپ کو بچانا ایمان کی کمزور ی اور اپنے آپ کو دھوکا دینے والی بات ہے ۔ ڈاکٹر قدیر خان نے کہا کہ مجھے کوئی خطرہ نہیں ہے میں نے اپنے آپ اور اپنے اہل خانہ کو اللہ رب العزت کے سپرد کیا ہوا ہے مجھے پاکستانی قوم سے قطعی کوئی خطرہ نہیں بلکہ وہ خود میری محافظ ہے میں آزادی چاہتا ہوں میری حکومت سے درخواست ہے کہ وہ بہادری کا قدم دکھائے اور میرے معاملے پر سنجیدگی سے غور کرے ۔ ایک ڈکٹیٹر نے پچھلے 8سالوں میں چیف جسٹس اور مجھ سمیت جسے چاہا اٹھا کر اندر بند کردیا کوئی پوچھنے والا ہی نہیں ہے ۔
No comments:
Post a Comment