قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن مسائل کا حل نہیں ہے قبائلی علاقوں کے مسائل کا حل صرف وہاں پر تعمیر وترقی کے منصوبے شروع کرنے اور عوام کا معیار زندگی بہتر بنانے سے ہی ممکن ہے قبائلی علاقوں کے مسائل کا معاشی حل زیادہ موثر ہو گا قبائلی عوام کئی صدیوں سے قبائلی رسوم ورواج اور روایات کے مطابق رہ رہے ہیں اس لئے ان کا دل اور ذہن فوجی آپریشن کی بجائے صرف اور صرف معاشی حل سے ہی جیتا جا سکتاہے۔ اس مقصد کیلئے حکومت پاکستان کو نرمی دکھاناہو گی اوراپنے رویے میں لچک پیدا کرنا ہو گی کیونکہ نیٹو افواج اور افغان حکومت اس بارے میں کچھ نہیں کر سکتی یہ صرف پاکستانی حکومت ہی کر سکتی ہے قبائلی علاقوںمیں سکول ، ہسپتال تعمیر کرنے اور دوسری سہولیات فراہم کرنے کی ضرورت ہے اور ان منصوبوں کے دوران اس بات کا بھی خاص خیال رکھا جائے کہ قبائلیوں کی عزت نفس مجروح نہ ہو ۔ قبائلی علاقوں سے تمام غیر ملکی ازبک اور عرب باشندوں کو بے دخل کر دیاجائے خیبر رائفلز اور ایف سی کو جدید سہولیات فراہم کی جائیں اور افغانستان میں سرحدی ملیشیاءکو مضبوط کیا جائے اور دونوں اطراف کے دوران کی سیکیورٹی فورسز کے درمیان رابطے سے دہشت گردی کے خلاف بہتر نتائج حاصل کئے جا سکتے ہیں یہی پالیسی بہترین ثابت ہو سکتی ہے کیونکہ ڈیونڈر لائن کے دونوں طرف کے قبائل ایک دوسرے کو بہتر جانتے ہیں۔ جبکہ سیکیورٹی فورسز نے ہفتے کو پشاور سے ملحقہ قبائلی علاقے خیبر ایجنسی کی تحصیل باڑہ میں مذہبی تنظیم لشکر اسلام کے خلاف کاروائی کرتے ہوئے تنظیم کے دفاتر اور مراکز کو بلڈوزروں کے ذریعے مسمار کرنا شروع کردیا۔ کاروائی میں مقامی خاصہ دار فورس اور نیم فوجی دستے شریک ہیں تاہم فوج اس میں شامل نہیں ہے۔ مذہبی تنظیم کے خلاف کاروائی شروع کرنے سے پہلے علاقے میں کرفیو نافذ کردیا گیا اور سڑکوں کو خاردار تاریں لگا کر بند کردیا گیا۔ انتظامیہ نے لوگوں کو متنبہ کیا ہے کہ وہ گھروں سے باہر نہ آئیں۔صوبہ سرحد پولیس کے سربراہ ملک نویدخان کا کہنا ہے کہ اب تک کی کاروائی بغیر کسی مزاحمت کے جاری ہے اورابھی تک کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ادھر تحریک طالبان پاکستان کے کمانڈر بیت اللہ محسود نے کسی نامعلوم مقام سے ذرائع ابلاغ کو فون کر کے بتایا کہ جب تک حکومت یہ آپریشن نہیں روکتی امن مذاکرات کا سلسلہ معطل رہے گااور خیبر ایجنسی میں شروع کی جانے والی کاروائی ان کے بقول بلاجواز ہے۔ ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے بیت اللہ محسود نے کہا کہ جنڈولہ میں ملک ترکستان کے ساتھیوں کے خلاف ان کے حامیوں کی کاروائی ناگزیر تھی کیونکہ جرگے کے ذریعے بار بار فوجی افسران کو انہوں نے بتایا تھا کہ ملک ترکستان مقامی آبادی پر ظلم کررہا ہے اور اس کے ساتھی چوری اورڈاکہ زنی کی وارداتیں کرکے مقامی آبادی کو تنگ کررہے ہیں۔ بیت اللہ امحسود نے الزام لگایا کہ پاکستانی کی نئی حکومت نے انتخابات میں عوام سے وعدہ کیاتھا کہ فوجی طاقت کے استعمال کے بغیر طالبان کے ساتھ معاملات کو طے کیاجائے لیکن اب حکومت بننے کے بعد نئی قیادت نے بھی ان کے بقول بش اور مشرف کی زبان استعمال کرنا شروع کردی ہے، اس لیے طالبان طاقت کا جواب طاقت سے دیں گے۔طالبان کمانڈر کا کہنا تھا کہ ثالثی جرگہ اس بات کی گواہی دے گا کہ امن معاہدوں کی خلاف ورزی انہوں نے نہیں کی اور پشاور میں طالبان کی کاروائیوں ذکر اور دوسرے بہانے دراصل امریکی دباو¿ کے تحت بنائے جارہے ہیں تاکہ طالبان کے خلاف فوجی کاروائی شروع کرنے جواز بنا سکے ۔پشاور سے ملحق قبائلی علاقے خیبر ایجنسی میں مبینہ عسکریت پسند اور جرائم پیشہ افراد کے خلاف فوجی کارروائی اتوار کے روز بھی جاری رہی۔ اس کارروائی کا ہدف خیبر ایجنسی میں سرگرمِ عمل لشکر اسلام اور اس کی حریف تنظیموں کے افراد اور ٹھکانے تھے۔ ان تنظیموں کے درمیان محاذ آرائی کی وجہ سے گذشتہ تین برسوں کے دوران سینکڑوں افراد ہلاک اور زخمی ہو چکے ہیں۔ اب ان شدّت پسندوں کی کارروائیاں پشاور شہر تک پھیل چکی ہیں۔ اتوار کو ہونے والی کارروائی کے نتیجے میں باڑہ اور اس کے نواحی علاقوں میں سیکورٹی فورسز نے کنٹرول سنبھال لیا تھا۔ادھر پشاور میں اعلیٰ وفاقی اور صوبائی حکام کا ایک اہم اجلاس ہوا ۔ اجلاس کے بعد وفاقی وزارتِ داخلہ کے سربراہ رحمٰن ملک نے خیبر ایجنسی میں کی جانے والی کارروائی کی تازہ ترین تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ' جو لوگ جرم کرتے ہوئے خود کو محفوظ سمجھتے تھے ، ان کو اب محفوظ نہیں رہنے دیا جائے گا۔ یہاں پر قائم ریڈیو سٹیشن کو تباہ کر دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ایک ٹارچر سیل پر بھی قبضہ کیا گیا ہے جہاں اچھے خاصے کمرے ہیں، یہاں سے ایسی رسیدیں برآمد ہوئی ہیں، جن سے ثبوت ملا ہے کہ پشاور اور اس کے گرد ونواح سے لوگوں کو اغوا کر کے پیسے بٹورے جاتے تھے۔'رحمٰن ملک نے یہ بتانے سے گریز کیا کہ خیبر ایجنسی میں یہ کارروائی مزید کتنے دن تک جاری رہے گی، تاہم انہوں نے یہ کہا کہ پشاور کے شہری اب اپنے آپ کو محفوظ سمجھ سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ پاکستان سیکورٹی فورسز نے باڑہ میں ہفتہ کے روز یہ فوجی کارروائی شروع کی تھی۔ لیکن مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ کارروائی شروع ہونے سے پیشتر ہی لشکرِ اسلام اور دوسری تنظیموں کے کارکن دور افتادہ پہاڑی علاقوں میں روپوش ہو چکے تھے۔ جبکہ امیر جماعت اسلامی پاکستان قاضی حسین احمد نے خیبر ایجنسی میں فوجی آپریشن کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اربوں ڈالرکی امداد کی تفتیش سے بچنے کے لیے حکومت امریکی جنگ پشاور سمیت سرحد کے شہری علاقوںتک لے آئی ہے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پربے گناہ عوام کاقتل عام کیا جارہاہے۔ مرکزی حکومت کے ساتھ امن معاہدوں کا ڈھونگ رچانے والی صوبائی حکومت بھی اس کی ذمہ دار ہے۔ وزیرستان اور سوات میں فوجی آپریشن کے ناکام تجربوں سے حکومت نے کوئی سبق نہیں سیکھا اور اب صوبائی دارالحکومت کی دہلیز پر میدان جنگ سجایا دیاگیا ہے۔ جنگ میں اصل ٹارگٹ کے بجائے عوام نشانہ بنتے ہیںجس سے فوج کے خلاف عوامی نفرت میں اضافہ ہوتا جارہاہے پشاور اور قبائلی علاقوںکو وار زون بنانا سوچا سمجھا منصوبہ ہے، اوروفاقی حکومت عوام کو ریلیف دینے کے بجائے پختونوںاورقبائلیوں کوبمباری کا نشانہ بنانا چاہتی ہے۔ سرحد حکومت ایک طرف مذاکرات کا ڈرامہ رچا رہی ہے اوردوسری طرف فوج کو آپریشن کی دعوت بھی دے رہی ہے،اس دوغلی پالیسی سے عوام کو زیادہ دیر تک بیوقوف نہیں بنایا جا سکتا۔ انھوں نے کہا کہ وزیر اعظم کاآرمی چیف کوفاٹا میں آپریشن کا اختیار دینا اوریہاںپر غیر ملکیوںکی موجودگی کااعتراف امریکہ اورنیٹو کو اپنے عوام پرحملہ کرنے کی دعوت دینے کے مترادف ہے،یہ انتہائی قبل مذمت اقدام ہے۔ انھوں نے کہا کہ جنرل مشرف اور ان کے ساتھیوں نے اپنے عوام کو مارنے کے لیے امریکہ سے جو اربوں ڈالر لیے تھے، ان کی جانب سے حساب مانگے جانے پر ا ب وہ لاشوں کی صورت میںتوجہ ہٹانا چاہتے ہیں۔قاضی حسین احمد نے یہ بھی کہا ہے قبائلی علاقوں پر امریکی میزائل برس رہے ہیں،اورمعصوم لوگ قتل ہورہے ہیں۔پاکستان کی سالمیت اور خود مختاری کا کھلم کھلا مذاق اڑاتے ہوئے نیٹو فورسز پاکستان کی فوجی تنصیبات اور فوجی جوانوں کو بھی نشانہ بنا رہی ہیں مگر ان کا مقابلہ کرنے کے بجائے قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن شروع کردیا گیا ہے اور پشاورسمیت شہری علاقے کے لوگوں کوطالبان کے نام سے دہشت زدہ کیا جا رہا ہے تاکہ وہ قبائلی علاقوں میں ہونے والے ظلم پر خاموش رہیں پشاور پر طالبان کے قبضے کی افواہیں پھیلا کر خطرناک کھیل کھیلا جارہا ہے جو ملکی سلامتی کے لیے سخت نقصان دہ ہے،اورمستقبل میں اس کے خطرناک نتائج سامنے آسکتے ہیں۔ نئی حکومت کو لوگوں نے تبدیلی کے ووٹ دیا تھاجس میں سرفہرست پرویز مشرف اور اس کی غلط پالیسیوں سے نجات حاصل کرنا تھا، لیکن پرویز مشرف ابھی تک ایوان صدر موجود ہے اور ملک میں اس کی ہی پالیساں چل رہی ہیں۔ اگر حکمران عوام کے غضب سے بچنا چاہتے ہیں توپرویزمشرف کو فوری چلتا کریں اور قبائلی علاقوں میں آپریشن بند کرکے مذاکرات سے معاملات کو حل کیا جائے۔ جبکہ ملک کو درپیش اہم قومی ایشوز کے حوالے سے حکومتی ترجیحات کے بارے میں وزیراعظم کے پہلے 100روزہ پروگرام کے اعلان کو2 9دن مکمل ہو گئے ہیں 100روزہ پروگرام کے تحت کئے گئے حکومتی اعلانات کے حوالے سے مقررہ مدت 9جولائی کو پوری ہو جائے گی اہم حکومتی اعلانات پر تاحال عملدرہونا باقی ہے ان میں عدلیہ کی آزادی اور برطرف کئے گئے ججوں کی بحالی کا معاملہ سرفہرست ہے۔ تفصیلات کے مطابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے 29مارچ کو قومی اسمبلی سے متفقہ طور پر اعتماد کا ووٹ لینے کے بعد پہلے 100روز کیلئے حکومتی ترجیحات کا اعلان کیا تھا ان میں قومی ایشوز کے حوالے سے حکمران اتحاد کے ساتھ ساتھ اے پی ڈی ایم کو ساتھ لے کر چلنے، جمہوریت کے حوالے سے بے نظیر بھٹو کے مشن کو پورا کرنے ، ملک کے تمام علاقوں اور لوگوں کے مفادات کا یکساں خیال رکھنے ، بیروزگاری کے خاتمے ، بے گھر افراد کو چھت کی فراہمی ، ناخواندہ افراد کو خواندہ بنانے ، سماجی معاشرتی انصاف ، ترقی و خوشحالی کے نئے مواقع ، عوام کو ہر قسم کے استحصال سے نجات دلانے ، حقیقی جمہوریت کی بحالی ، بجلی ، پانی ، آٹا ، مہنگائی کے بحرانوں سے عہدہ براہہونے ،رواں سال 22سو میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کے نئے پلانٹس لگانے ، قومی بچت مہم کے ذریعے 500میگا واٹ بجلی کی بچت ، ایک کروڑ انرجی سیور بلب کی فراہمی ، تھرکول سے پہلے فیز میں 5ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کرنے اور گنجائش میں اضافہ کر کے 20ہزار میگا واٹ کرنے ،بڑے ڈیموں کے سلسلے میں ہر قسم کی فزیبلٹی سٹڈیز کی تکمیل اور نقشوں کو حتمی شکل دینے ۔ آبی وسائل سے بجلی کی پیداوار میں اضافے ، نہری کھالوں کو پختہ کرنے ، چھوٹے ڈیموں کی تعمیر ، وزیراعظم ہاو¿س کے بجٹ میں چالیس فیصد کمی ، وفاقی وزراء پر 1600سی سی سے بڑی گاڑیوں کے استعمال پر پابندی ، سرکاری عمارتوں اور رہائش گاہوں کی سرکاری خزانے سے تزیئن و آرائش نہ کرنے، قومی اسمبلی میں وزیراعظم کا وقفہ سوالات شروع کرنے ، روزگار کی فراہمی کیلئے ایمپیلائمنٹ کمیشن کے قیام ، نجی و سرکاری شعبوں میں ملازمتوں کی فراہمی ، لٹریسی اینڈ ہیلتھ کمیشن کارپوریشن کے تحت گریجویشن کے بعد دو سال تک روز گار کی فراہمی ، قومی روز گار سکیم شروع کرنے ہتھیار پھینک کر امن کا راستہ اختیار کرنے والوں سے بات چیت ، فاٹا کی مربوط معاشی سماجی ،سیاسی اصلاحات اور خصوصی پیکج ایف سی آر کے فرسودہ قوانین کے خاتمے پچاس فیصد اضلاع میں ہر غریب خاندان کے ایک فرد کو ملازمت کی فراہمی ، مدرسہ ویلفیئر اتھارٹی کے قیام ، ہر سال دس لاکھ نئے مکانات کی تعمیر ، دیہی علاقوں میں سرکاری زمینوں پر بے گھر لوگوں کیلئے پانچ مرلہ سکیم اور شہریوں میں 80مربع گز کے پلاٹس کی سکیم ، کچی آبادیوں کو ریگولائز کرنے،وی آئی پی کلچر کے خاتمے ، غریب عوام کو مفت شناختی کارڈ کی فراہمی ، ایل ایچ وی کے نظام میں توسیع کے اعلانات کئے گئے تھے ۔ اس طرح پارلیمانی کمیٹیوں تک عوام کی میڈیا کے ذریعے رسائی کا اعلان کیا گیا جبکہ قائمہ کمیٹیوں کے چیئرمینوں کے انتخابات تاحال منعقد ہی نہیں ہو سکے ہیں ۔ اس طرح صوبوں کو خودمختاری دینے کیلئے کنکرنٹ لسٹ کے ایک سال میں خاتمے ، رواداری کو فروغ دینے اور ریاستی جبر کا شکار طبقات کو ریلیف کی فراہمی کیلئے مفاہمتی کمیشن قیام کا اعلان کیاگیا ۔ امن، خیر سگالی پرامن بقائے باہمی کی بنیاد پر آزاد خارجہ پالیسی ، مسئلہ کشمیر کے حوالے سے مذاکرات آگے بڑھانے ، فریڈم آف انفارمیشن کو موثر بنانے، ، پیمرا قوانین کی منسوخی ، مزدوروں کے بارے میں قوانین ILOکے مطابق ڈھالنے ، آئی آر او 2002کی منسوخی ، ٹریڈیونین اور طلبہ یونین کی بحالی، سابقہ دور میں چھانٹی ملازمین کے کیسز پرنظر ثانی ، کم از کم اجرت 6 ہزار روپے مقرر، سیاسی قیدیوں کے مقدمات کے جائزے اور ان کی باعزت رہائی ، ماحولیات کے حوالے سے ملک میں سی این جی بسوں کو عام کرنے ، آٹا کی ذخیرہ اندوزی اور سمگلنگ کے خاتمے کیلئے آہنی اقدامات، گندم کی سپورٹپرائس 625روپے کرنے ، فصلوںکی انشورنس کیلئے سکیم شروع کرنے کا اعلان کیا گیا عدلیہ کی بحالی کے حوالے سے وزیراعظم نے اعلان کیا تھا کہ میثاق جمہوریت اور مری اعلامیہ کی روشنی میں عدلیہ کی آزادی اور برطرف کئے گئے ججوں کی بحالی کیلئے حکومت کردار ادا کرے گی خود احتسابی ، مثبت نظام عدل اور نیب کو عدلیہ کے تابع کرنے کے اعلانات کئے گئے تھے وزیراعظم کی جانب سے پہلے 100 روزہ پروگرام کے حوالے سے بیشتر اعلانات عملدر آمد کے منتظر ہیں ۔ 100 روزہ پروگرام کے اعلان کو 29 جون گزشتہ روز تین ماہ جبکہ نو جولائی کو 100دن پورے ہو جائیں گے۔ دیکھنا اب یہ ہے کہ وزیر اعظم اب اپنے قول و فعل کے پکے ہیں۔پاکستان میں ساڑھے تین ماہ قبل قائم ہونے والی نئی حکومت نے سابق اور نگراں حکومت کے نو ماہ کے دوران اسٹیٹ بینک سے لیے گئے مجموعی قرضوں سے زیادہ قرضہ حاصل کیا جولائی 2007ء سے 14جون 2008ء تک حکومت نے اسٹیٹ بینک سے مجموعی طور پر 651ارب روپے قرضہ لیا، اس میں پیپلز پارٹی کی قیادت میں بننے والی حکومت کا حصہ 355ارب روپے ہے۔ اِس وقت بجٹ خسارہ نو فی صد سے زیادہ ہے اور مرکزی بینک، بینکاری نظام اور دوسرے ذرائع سے حاصل کیے گئے قرضے ایک ہزار ارب سے تجاوز کر چکے ہیں۔نئی حکومت نے اقتدار سنبھالتے ہی اعلان کیا تھا کہ سال ختم ہونے سے قبل بجٹ خسارہ کم کیا جائے گا۔تاہم، مرکزی بینک کے اعداد و شمار دیکھتے ہوئے تجزیہ نگاروں کو تشویش ہے کہ حکومت کی طرف سے بھاری قرضہ لینے کی وجہ سے صورتِ حال میں بہتری کے امکانات نہیں ہیں اور افراطِ زر بھی بڑھنے کا خدشہ ہے۔اسٹیٹ بینک قرضوں پر بڑھتے ہوئے انحصار سے حکومت کو مسلسل آگاہ کررہا ہے، اور مناسب اقدام کی ضرورت کرنے کی ضرورت پر زور دیتا رہا ہے۔تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ملک میں افراطِ زر پر قابو پانے کے لیے سخت مالیاتی پالیسی بھی اختیار کی گئی مگر حکومتی قرضوں میں اضافے کی وجہ سے پالیسی کے بھی مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو رہے۔افراطِ زر کے بارے میں تازہ اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں گذشتہ برس اِسی مدت کے مقابلے میں 26فی صد اضافہ ہو چکا ہے۔ کم آمدنی والے طبقے پر افراطِ زر اور مہنگائی کا سب سے زیادہ اثر پڑ رہا ہے۔پاکستان کے عوام کا مطالبہ ہے کہ جن سرکاری افسران اور سیاسی لوگوں نے گزشتہ آٹھ سالوں میں سرکاری خزانے کو لوٹا ہے ان سے حساب کتاب ہر صورت میں لیا جائے اور انتقامی کارروائیوں کی بھی پوچھ گچھ کی جائے اور نئے حکمران عوام کے مسائل حل کرنے میں خصوصی دلچسپی لیں تاکہ لوگوں کو محسوس ہو کہ اب عوام کی اپنی حکومت آئی ہے۔ جبکہ وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ طالبان نے معاہدہ کی خلاف ورزی کرکے حکومتی رٹ کو چیلنج کیا ہے۔ کسی بھی صورت سکولوں کو آگ لگانے مخالفین کے سرعام سر قلم کرنے اور شہریوں کے اغواء کے واقعات کو برداشت نہیں کرسکتے۔ حکومت پر کوئی دباو¿ نہیں ہے۔ملک کی سلامتی اور عزت پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔ ہم خود دہشت گردی کا شکار ہیں اور اس کے خلاف جنگ لڑرہے ہیں۔ ہم صوبائی خودمختاری پر یقین رکھتے ہیں اور مسائل کے حل کیلئے مذاکرات پر یقین رکھتے ہیں۔وزیراعظم نے کہاکہ قبائلی علاقوں میں جاری آپریشن پر اتحادیوں کو اعتماد میں لیا گیا ہے۔ آرمی چیف نے علاقہ کی صورتحال بارے بریف کیا ہے۔ وفاق آرمی ایکشن کے حق میں نہیں لیکن ہم ملک کی آزادی اور عزت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرسکتے۔ انہوں نے کہاکہ صوبہ سرحد میں امن وامان قائم رکھنے اور عوام کو جان ومال کا تحفظ فراہم کرنے کی ذمہ داری صوبائی حکومت کی ہے۔ امن معاہدے بھی صوبائی حکومت نے کئے تھے اب اگر ان معاہدوں کی کسی نے خلاف ورزی کی ہے تو انہیں کنٹرول کرنا بھی صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے کہاکہ صوبہ میں امن وامان برقرار رکھنے کیلئے صوبہ سرحد کی حکومت ایف سی سمیت کسی بھی وفاقی ایجنسی کو طلب کرسکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ابھی صرف فاٹا، پشاور اور سوات میں آپریشن جاری ہے اگر کسی اور علاقے میں خراب صورتحال کی اطلاع ملی تو صوبائی حکومت فیصلہ کرے گی کہ کیا اقدامات کرنے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے پالیسی تبدیل نہیں کی ہے اور نہ ہی قبائلی علاقوں میں آپریشن کے حق میں ہیں ۔ ہم ابھی بھی مسائل کا حل مذاکرات سے چاہتے ہیں۔ لیکن جب وہاں اقلیتی برادری کے لوگوں کو اغوائ کیا جائے اور بچیوں کے سکولوں کو آگ لگادی جائے حکومت اس پر لچک نہیں دکھا سکتی۔ انہوں نے کہاکہ قبائلی علاقوں میں دہشت گردی میں غیر ملکی ہاتھ بھی ملوث ہوسکتا ہے۔ حکومت وہاں امن کے قیام کیلئے ہر ممکن اقدام کررہی ہے۔ عوام امن چاہتے ہیں اور ہمارے ساتھ ہیں۔ وزیراعظم نے کہاکہ اس وقت کراچی سے خیبر تک اتحادی حکومت قائم ہے چاروں صوبوں میں بھی ہم مل کر حکومت چلا رہے ہیں اور عوام کو ریلیف دینا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ہمیں جمہوری عمل کو مستحکم کرنا ہے جس کیلئے سازگار فضا کا ہونا بہت ضروری ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ مصر میں امریکی صدر بش سے ملاقات میں ان کو اپنی پالیسی سے آگاہ کر دیا تھا کہ ہم قبائلیوں کو ترقی، سیاسی مذاکرات، صحت اور تعلیم کی سہولیات بھی دینا چاہتے ہیں، صدر بش بھی ہماری ان پالیسیوں سے متفق تھے۔ ہم آج بھی اپنے موقف پر قائم ہیں اور ان کو یہ سہولیات دینا چاہتے ہیں لیکن انہوں نے معاہدے کی خلاف ورزی کر کے علاقے میں بدامنی پھیلانے کی کوشش کی ہے اس وجہ سے صوبائی حکومت کو آخری آپشن کے طور پر ملٹری آپریشن کا سہارا لینا پڑا۔ مہنگائی سے متعلق سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہاکہ مہنگائی، لوڈشیڈنگ اور دیگر مسائل ہمیں ورثہ میں ملے ہیں اس وقت بھی حکومت تیل کی مد میں ایک ارب 20کروڑ روپے کی سبسڈی روزانہ دے رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مہنگائی صرف پاکستان کا ہی نہیں پوری دنیا کا مسئلہ ہے جس پر قابو پانے کیلئے اقدامات کئے جارہے ہیں اور حکومت اس مقصد کیلئے تمام وسائل بروئے کار لانے کے علاوہ اپنی تمام توانائیاں صرف کررہی ہے۔ انہوں نے کہاکہ زراعت کی ترقی کیلئے بھی اقدامات کئے جارہے ہیں۔ ہم ملک میں سبز اور سنہری انقلاب لائیں گے۔ معزول ججوں کی بحالی اور مختلف اطراف سے آنے والی فارمولوں سے متعلق سوال پر وزیراعظم نے کہا کہ معزول ججوں کو آزاد ہم نے کیا انہیں تنخواہ بھی دے رہے ہیں اور انہیں بحال بھی ہم ہی کریں گے۔ خودمختار کشمیر کے حوالے سے بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ کی رائے پر انہوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کا حل وہی ہونا چاہئے جو خود کشمیریوں کیلئے قابل قبول ہو۔ من موہن سنگھ پاکستان آئیں گے تو اس پر بات کریں گے۔ قومی ہیرو اور ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان پر پابندیوں سے متعلق وزیراعظم نے کہاکہ ڈاکٹر قدیر خان کا ایشو اب ختم ہوچکا ہے۔ جبکہ عوامی حلقوں نے کہا ہے کہ آصف علی زرداری نے مسئلہ کشمیر کے بارے میں بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ کے موقف کی تائید کرکے قومی موقف اور پی پی کے انتخابی منشور سے انحراف کیا ہے ۔ زردری اور پرویز مشرف مفادات کا کھیل کھیل رہے ہیں خود پیپلزپارٹی اور پارلیمنٹ کو اس کا نوٹس لینا چاہیے ۔ اپنے ردعمل میں انھوں نے کہا ہے کہ ہر حیثیت سے آصف علی زرداری کا بیان قابل مذمت اور ناقابل برداشت اور ناقابل قبول ہے پیپلزپارٹی کے انتخابی منشور سے بھی روگردانی ہے ۔ پی پی نے منشور کے ذریعے واضح طور پر قوم سے وعدہ کیا تھا کہ مسئلہ کشمیر کا حل اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق کشمیری عوام کی مرضی سے اس کا حل ممکن ہے ۔ یہی ہمارا قومی موقف ہے اس کی سب کو تائید اور حمایت کرنی چاہیے انہوں نے کہا کہ زرداری کا بیان کسی پہلو سے درست نہیں ہے انہوں نے من موہن سنگھ کی تائید کرکے قومی موقف سے انحراف اور تحریک مزاحمت کو زک پہنچانے کی کوشش کی ہے ۔ آصف علی زرداری کے اس کھیل کا خود پیپلزپارٹی اور پارلیمنٹ کو نوٹس لینا چاہیے ۔کشمیر کے مسئلے کے حوالے سے آصف علی زرداری میں نہ کوئی دم خم ہے نہ کوئی ویڑن ہے ۔ یہ ہرگز قوم سے وفاداری نہیں ہے مفادات کا کھیل پرویز مشرف کا ہو یا آصف علی زرداری کا عوام اس کی مذمت کرتے ہیں ۔ اے پی ایس
International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.
Monday, June 30, 2008
مزائلوں کی برسات،معصوم لو گوںکا قتل اور حکومت کے بانوے دن ۔۔
قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن مسائل کا حل نہیں ہے قبائلی علاقوں کے مسائل کا حل صرف وہاں پر تعمیر وترقی کے منصوبے شروع کرنے اور عوام کا معیار زندگی بہتر بنانے سے ہی ممکن ہے قبائلی علاقوں کے مسائل کا معاشی حل زیادہ موثر ہو گا قبائلی عوام کئی صدیوں سے قبائلی رسوم ورواج اور روایات کے مطابق رہ رہے ہیں اس لئے ان کا دل اور ذہن فوجی آپریشن کی بجائے صرف اور صرف معاشی حل سے ہی جیتا جا سکتاہے۔ اس مقصد کیلئے حکومت پاکستان کو نرمی دکھاناہو گی اوراپنے رویے میں لچک پیدا کرنا ہو گی کیونکہ نیٹو افواج اور افغان حکومت اس بارے میں کچھ نہیں کر سکتی یہ صرف پاکستانی حکومت ہی کر سکتی ہے قبائلی علاقوںمیں سکول ، ہسپتال تعمیر کرنے اور دوسری سہولیات فراہم کرنے کی ضرورت ہے اور ان منصوبوں کے دوران اس بات کا بھی خاص خیال رکھا جائے کہ قبائلیوں کی عزت نفس مجروح نہ ہو ۔ قبائلی علاقوں سے تمام غیر ملکی ازبک اور عرب باشندوں کو بے دخل کر دیاجائے خیبر رائفلز اور ایف سی کو جدید سہولیات فراہم کی جائیں اور افغانستان میں سرحدی ملیشیاءکو مضبوط کیا جائے اور دونوں اطراف کے دوران کی سیکیورٹی فورسز کے درمیان رابطے سے دہشت گردی کے خلاف بہتر نتائج حاصل کئے جا سکتے ہیں یہی پالیسی بہترین ثابت ہو سکتی ہے کیونکہ ڈیونڈر لائن کے دونوں طرف کے قبائل ایک دوسرے کو بہتر جانتے ہیں۔ جبکہ سیکیورٹی فورسز نے ہفتے کو پشاور سے ملحقہ قبائلی علاقے خیبر ایجنسی کی تحصیل باڑہ میں مذہبی تنظیم لشکر اسلام کے خلاف کاروائی کرتے ہوئے تنظیم کے دفاتر اور مراکز کو بلڈوزروں کے ذریعے مسمار کرنا شروع کردیا۔ کاروائی میں مقامی خاصہ دار فورس اور نیم فوجی دستے شریک ہیں تاہم فوج اس میں شامل نہیں ہے۔ مذہبی تنظیم کے خلاف کاروائی شروع کرنے سے پہلے علاقے میں کرفیو نافذ کردیا گیا اور سڑکوں کو خاردار تاریں لگا کر بند کردیا گیا۔ انتظامیہ نے لوگوں کو متنبہ کیا ہے کہ وہ گھروں سے باہر نہ آئیں۔صوبہ سرحد پولیس کے سربراہ ملک نویدخان کا کہنا ہے کہ اب تک کی کاروائی بغیر کسی مزاحمت کے جاری ہے اورابھی تک کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ادھر تحریک طالبان پاکستان کے کمانڈر بیت اللہ محسود نے کسی نامعلوم مقام سے ذرائع ابلاغ کو فون کر کے بتایا کہ جب تک حکومت یہ آپریشن نہیں روکتی امن مذاکرات کا سلسلہ معطل رہے گااور خیبر ایجنسی میں شروع کی جانے والی کاروائی ان کے بقول بلاجواز ہے۔ ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے بیت اللہ محسود نے کہا کہ جنڈولہ میں ملک ترکستان کے ساتھیوں کے خلاف ان کے حامیوں کی کاروائی ناگزیر تھی کیونکہ جرگے کے ذریعے بار بار فوجی افسران کو انہوں نے بتایا تھا کہ ملک ترکستان مقامی آبادی پر ظلم کررہا ہے اور اس کے ساتھی چوری اورڈاکہ زنی کی وارداتیں کرکے مقامی آبادی کو تنگ کررہے ہیں۔ بیت اللہ امحسود نے الزام لگایا کہ پاکستانی کی نئی حکومت نے انتخابات میں عوام سے وعدہ کیاتھا کہ فوجی طاقت کے استعمال کے بغیر طالبان کے ساتھ معاملات کو طے کیاجائے لیکن اب حکومت بننے کے بعد نئی قیادت نے بھی ان کے بقول بش اور مشرف کی زبان استعمال کرنا شروع کردی ہے، اس لیے طالبان طاقت کا جواب طاقت سے دیں گے۔طالبان کمانڈر کا کہنا تھا کہ ثالثی جرگہ اس بات کی گواہی دے گا کہ امن معاہدوں کی خلاف ورزی انہوں نے نہیں کی اور پشاور میں طالبان کی کاروائیوں ذکر اور دوسرے بہانے دراصل امریکی دباو¿ کے تحت بنائے جارہے ہیں تاکہ طالبان کے خلاف فوجی کاروائی شروع کرنے جواز بنا سکے ۔پشاور سے ملحق قبائلی علاقے خیبر ایجنسی میں مبینہ عسکریت پسند اور جرائم پیشہ افراد کے خلاف فوجی کارروائی اتوار کے روز بھی جاری رہی۔ اس کارروائی کا ہدف خیبر ایجنسی میں سرگرمِ عمل لشکر اسلام اور اس کی حریف تنظیموں کے افراد اور ٹھکانے تھے۔ ان تنظیموں کے درمیان محاذ آرائی کی وجہ سے گذشتہ تین برسوں کے دوران سینکڑوں افراد ہلاک اور زخمی ہو چکے ہیں۔ اب ان شدّت پسندوں کی کارروائیاں پشاور شہر تک پھیل چکی ہیں۔ اتوار کو ہونے والی کارروائی کے نتیجے میں باڑہ اور اس کے نواحی علاقوں میں سیکورٹی فورسز نے کنٹرول سنبھال لیا تھا۔ادھر پشاور میں اعلیٰ وفاقی اور صوبائی حکام کا ایک اہم اجلاس ہوا ۔ اجلاس کے بعد وفاقی وزارتِ داخلہ کے سربراہ رحمٰن ملک نے خیبر ایجنسی میں کی جانے والی کارروائی کی تازہ ترین تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ' جو لوگ جرم کرتے ہوئے خود کو محفوظ سمجھتے تھے ، ان کو اب محفوظ نہیں رہنے دیا جائے گا۔ یہاں پر قائم ریڈیو سٹیشن کو تباہ کر دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ایک ٹارچر سیل پر بھی قبضہ کیا گیا ہے جہاں اچھے خاصے کمرے ہیں، یہاں سے ایسی رسیدیں برآمد ہوئی ہیں، جن سے ثبوت ملا ہے کہ پشاور اور اس کے گرد ونواح سے لوگوں کو اغوا کر کے پیسے بٹورے جاتے تھے۔'رحمٰن ملک نے یہ بتانے سے گریز کیا کہ خیبر ایجنسی میں یہ کارروائی مزید کتنے دن تک جاری رہے گی، تاہم انہوں نے یہ کہا کہ پشاور کے شہری اب اپنے آپ کو محفوظ سمجھ سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ پاکستان سیکورٹی فورسز نے باڑہ میں ہفتہ کے روز یہ فوجی کارروائی شروع کی تھی۔ لیکن مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ کارروائی شروع ہونے سے پیشتر ہی لشکرِ اسلام اور دوسری تنظیموں کے کارکن دور افتادہ پہاڑی علاقوں میں روپوش ہو چکے تھے۔ جبکہ امیر جماعت اسلامی پاکستان قاضی حسین احمد نے خیبر ایجنسی میں فوجی آپریشن کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اربوں ڈالرکی امداد کی تفتیش سے بچنے کے لیے حکومت امریکی جنگ پشاور سمیت سرحد کے شہری علاقوںتک لے آئی ہے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پربے گناہ عوام کاقتل عام کیا جارہاہے۔ مرکزی حکومت کے ساتھ امن معاہدوں کا ڈھونگ رچانے والی صوبائی حکومت بھی اس کی ذمہ دار ہے۔ وزیرستان اور سوات میں فوجی آپریشن کے ناکام تجربوں سے حکومت نے کوئی سبق نہیں سیکھا اور اب صوبائی دارالحکومت کی دہلیز پر میدان جنگ سجایا دیاگیا ہے۔ جنگ میں اصل ٹارگٹ کے بجائے عوام نشانہ بنتے ہیںجس سے فوج کے خلاف عوامی نفرت میں اضافہ ہوتا جارہاہے پشاور اور قبائلی علاقوںکو وار زون بنانا سوچا سمجھا منصوبہ ہے، اوروفاقی حکومت عوام کو ریلیف دینے کے بجائے پختونوںاورقبائلیوں کوبمباری کا نشانہ بنانا چاہتی ہے۔ سرحد حکومت ایک طرف مذاکرات کا ڈرامہ رچا رہی ہے اوردوسری طرف فوج کو آپریشن کی دعوت بھی دے رہی ہے،اس دوغلی پالیسی سے عوام کو زیادہ دیر تک بیوقوف نہیں بنایا جا سکتا۔ انھوں نے کہا کہ وزیر اعظم کاآرمی چیف کوفاٹا میں آپریشن کا اختیار دینا اوریہاںپر غیر ملکیوںکی موجودگی کااعتراف امریکہ اورنیٹو کو اپنے عوام پرحملہ کرنے کی دعوت دینے کے مترادف ہے،یہ انتہائی قبل مذمت اقدام ہے۔ انھوں نے کہا کہ جنرل مشرف اور ان کے ساتھیوں نے اپنے عوام کو مارنے کے لیے امریکہ سے جو اربوں ڈالر لیے تھے، ان کی جانب سے حساب مانگے جانے پر ا ب وہ لاشوں کی صورت میںتوجہ ہٹانا چاہتے ہیں۔قاضی حسین احمد نے یہ بھی کہا ہے قبائلی علاقوں پر امریکی میزائل برس رہے ہیں،اورمعصوم لوگ قتل ہورہے ہیں۔پاکستان کی سالمیت اور خود مختاری کا کھلم کھلا مذاق اڑاتے ہوئے نیٹو فورسز پاکستان کی فوجی تنصیبات اور فوجی جوانوں کو بھی نشانہ بنا رہی ہیں مگر ان کا مقابلہ کرنے کے بجائے قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن شروع کردیا گیا ہے اور پشاورسمیت شہری علاقے کے لوگوں کوطالبان کے نام سے دہشت زدہ کیا جا رہا ہے تاکہ وہ قبائلی علاقوں میں ہونے والے ظلم پر خاموش رہیں پشاور پر طالبان کے قبضے کی افواہیں پھیلا کر خطرناک کھیل کھیلا جارہا ہے جو ملکی سلامتی کے لیے سخت نقصان دہ ہے،اورمستقبل میں اس کے خطرناک نتائج سامنے آسکتے ہیں۔ نئی حکومت کو لوگوں نے تبدیلی کے ووٹ دیا تھاجس میں سرفہرست پرویز مشرف اور اس کی غلط پالیسیوں سے نجات حاصل کرنا تھا، لیکن پرویز مشرف ابھی تک ایوان صدر موجود ہے اور ملک میں اس کی ہی پالیساں چل رہی ہیں۔ اگر حکمران عوام کے غضب سے بچنا چاہتے ہیں توپرویزمشرف کو فوری چلتا کریں اور قبائلی علاقوں میں آپریشن بند کرکے مذاکرات سے معاملات کو حل کیا جائے۔ جبکہ ملک کو درپیش اہم قومی ایشوز کے حوالے سے حکومتی ترجیحات کے بارے میں وزیراعظم کے پہلے 100روزہ پروگرام کے اعلان کو2 9دن مکمل ہو گئے ہیں 100روزہ پروگرام کے تحت کئے گئے حکومتی اعلانات کے حوالے سے مقررہ مدت 9جولائی کو پوری ہو جائے گی اہم حکومتی اعلانات پر تاحال عملدرہونا باقی ہے ان میں عدلیہ کی آزادی اور برطرف کئے گئے ججوں کی بحالی کا معاملہ سرفہرست ہے۔ تفصیلات کے مطابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے 29مارچ کو قومی اسمبلی سے متفقہ طور پر اعتماد کا ووٹ لینے کے بعد پہلے 100روز کیلئے حکومتی ترجیحات کا اعلان کیا تھا ان میں قومی ایشوز کے حوالے سے حکمران اتحاد کے ساتھ ساتھ اے پی ڈی ایم کو ساتھ لے کر چلنے، جمہوریت کے حوالے سے بے نظیر بھٹو کے مشن کو پورا کرنے ، ملک کے تمام علاقوں اور لوگوں کے مفادات کا یکساں خیال رکھنے ، بیروزگاری کے خاتمے ، بے گھر افراد کو چھت کی فراہمی ، ناخواندہ افراد کو خواندہ بنانے ، سماجی معاشرتی انصاف ، ترقی و خوشحالی کے نئے مواقع ، عوام کو ہر قسم کے استحصال سے نجات دلانے ، حقیقی جمہوریت کی بحالی ، بجلی ، پانی ، آٹا ، مہنگائی کے بحرانوں سے عہدہ براہہونے ،رواں سال 22سو میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کے نئے پلانٹس لگانے ، قومی بچت مہم کے ذریعے 500میگا واٹ بجلی کی بچت ، ایک کروڑ انرجی سیور بلب کی فراہمی ، تھرکول سے پہلے فیز میں 5ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کرنے اور گنجائش میں اضافہ کر کے 20ہزار میگا واٹ کرنے ،بڑے ڈیموں کے سلسلے میں ہر قسم کی فزیبلٹی سٹڈیز کی تکمیل اور نقشوں کو حتمی شکل دینے ۔ آبی وسائل سے بجلی کی پیداوار میں اضافے ، نہری کھالوں کو پختہ کرنے ، چھوٹے ڈیموں کی تعمیر ، وزیراعظم ہاو¿س کے بجٹ میں چالیس فیصد کمی ، وفاقی وزراء پر 1600سی سی سے بڑی گاڑیوں کے استعمال پر پابندی ، سرکاری عمارتوں اور رہائش گاہوں کی سرکاری خزانے سے تزیئن و آرائش نہ کرنے، قومی اسمبلی میں وزیراعظم کا وقفہ سوالات شروع کرنے ، روزگار کی فراہمی کیلئے ایمپیلائمنٹ کمیشن کے قیام ، نجی و سرکاری شعبوں میں ملازمتوں کی فراہمی ، لٹریسی اینڈ ہیلتھ کمیشن کارپوریشن کے تحت گریجویشن کے بعد دو سال تک روز گار کی فراہمی ، قومی روز گار سکیم شروع کرنے ہتھیار پھینک کر امن کا راستہ اختیار کرنے والوں سے بات چیت ، فاٹا کی مربوط معاشی سماجی ،سیاسی اصلاحات اور خصوصی پیکج ایف سی آر کے فرسودہ قوانین کے خاتمے پچاس فیصد اضلاع میں ہر غریب خاندان کے ایک فرد کو ملازمت کی فراہمی ، مدرسہ ویلفیئر اتھارٹی کے قیام ، ہر سال دس لاکھ نئے مکانات کی تعمیر ، دیہی علاقوں میں سرکاری زمینوں پر بے گھر لوگوں کیلئے پانچ مرلہ سکیم اور شہریوں میں 80مربع گز کے پلاٹس کی سکیم ، کچی آبادیوں کو ریگولائز کرنے،وی آئی پی کلچر کے خاتمے ، غریب عوام کو مفت شناختی کارڈ کی فراہمی ، ایل ایچ وی کے نظام میں توسیع کے اعلانات کئے گئے تھے ۔ اس طرح پارلیمانی کمیٹیوں تک عوام کی میڈیا کے ذریعے رسائی کا اعلان کیا گیا جبکہ قائمہ کمیٹیوں کے چیئرمینوں کے انتخابات تاحال منعقد ہی نہیں ہو سکے ہیں ۔ اس طرح صوبوں کو خودمختاری دینے کیلئے کنکرنٹ لسٹ کے ایک سال میں خاتمے ، رواداری کو فروغ دینے اور ریاستی جبر کا شکار طبقات کو ریلیف کی فراہمی کیلئے مفاہمتی کمیشن قیام کا اعلان کیاگیا ۔ امن، خیر سگالی پرامن بقائے باہمی کی بنیاد پر آزاد خارجہ پالیسی ، مسئلہ کشمیر کے حوالے سے مذاکرات آگے بڑھانے ، فریڈم آف انفارمیشن کو موثر بنانے، ، پیمرا قوانین کی منسوخی ، مزدوروں کے بارے میں قوانین ILOکے مطابق ڈھالنے ، آئی آر او 2002کی منسوخی ، ٹریڈیونین اور طلبہ یونین کی بحالی، سابقہ دور میں چھانٹی ملازمین کے کیسز پرنظر ثانی ، کم از کم اجرت 6 ہزار روپے مقرر، سیاسی قیدیوں کے مقدمات کے جائزے اور ان کی باعزت رہائی ، ماحولیات کے حوالے سے ملک میں سی این جی بسوں کو عام کرنے ، آٹا کی ذخیرہ اندوزی اور سمگلنگ کے خاتمے کیلئے آہنی اقدامات، گندم کی سپورٹپرائس 625روپے کرنے ، فصلوںکی انشورنس کیلئے سکیم شروع کرنے کا اعلان کیا گیا عدلیہ کی بحالی کے حوالے سے وزیراعظم نے اعلان کیا تھا کہ میثاق جمہوریت اور مری اعلامیہ کی روشنی میں عدلیہ کی آزادی اور برطرف کئے گئے ججوں کی بحالی کیلئے حکومت کردار ادا کرے گی خود احتسابی ، مثبت نظام عدل اور نیب کو عدلیہ کے تابع کرنے کے اعلانات کئے گئے تھے وزیراعظم کی جانب سے پہلے 100 روزہ پروگرام کے حوالے سے بیشتر اعلانات عملدر آمد کے منتظر ہیں ۔ 100 روزہ پروگرام کے اعلان کو 29 جون گزشتہ روز تین ماہ جبکہ نو جولائی کو 100دن پورے ہو جائیں گے۔ دیکھنا اب یہ ہے کہ وزیر اعظم اب اپنے قول و فعل کے پکے ہیں۔پاکستان میں ساڑھے تین ماہ قبل قائم ہونے والی نئی حکومت نے سابق اور نگراں حکومت کے نو ماہ کے دوران اسٹیٹ بینک سے لیے گئے مجموعی قرضوں سے زیادہ قرضہ حاصل کیا جولائی 2007ء سے 14جون 2008ء تک حکومت نے اسٹیٹ بینک سے مجموعی طور پر 651ارب روپے قرضہ لیا، اس میں پیپلز پارٹی کی قیادت میں بننے والی حکومت کا حصہ 355ارب روپے ہے۔ اِس وقت بجٹ خسارہ نو فی صد سے زیادہ ہے اور مرکزی بینک، بینکاری نظام اور دوسرے ذرائع سے حاصل کیے گئے قرضے ایک ہزار ارب سے تجاوز کر چکے ہیں۔نئی حکومت نے اقتدار سنبھالتے ہی اعلان کیا تھا کہ سال ختم ہونے سے قبل بجٹ خسارہ کم کیا جائے گا۔تاہم، مرکزی بینک کے اعداد و شمار دیکھتے ہوئے تجزیہ نگاروں کو تشویش ہے کہ حکومت کی طرف سے بھاری قرضہ لینے کی وجہ سے صورتِ حال میں بہتری کے امکانات نہیں ہیں اور افراطِ زر بھی بڑھنے کا خدشہ ہے۔اسٹیٹ بینک قرضوں پر بڑھتے ہوئے انحصار سے حکومت کو مسلسل آگاہ کررہا ہے، اور مناسب اقدام کی ضرورت کرنے کی ضرورت پر زور دیتا رہا ہے۔تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ملک میں افراطِ زر پر قابو پانے کے لیے سخت مالیاتی پالیسی بھی اختیار کی گئی مگر حکومتی قرضوں میں اضافے کی وجہ سے پالیسی کے بھی مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو رہے۔افراطِ زر کے بارے میں تازہ اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں گذشتہ برس اِسی مدت کے مقابلے میں 26فی صد اضافہ ہو چکا ہے۔ کم آمدنی والے طبقے پر افراطِ زر اور مہنگائی کا سب سے زیادہ اثر پڑ رہا ہے۔پاکستان کے عوام کا مطالبہ ہے کہ جن سرکاری افسران اور سیاسی لوگوں نے گزشتہ آٹھ سالوں میں سرکاری خزانے کو لوٹا ہے ان سے حساب کتاب ہر صورت میں لیا جائے اور انتقامی کارروائیوں کی بھی پوچھ گچھ کی جائے اور نئے حکمران عوام کے مسائل حل کرنے میں خصوصی دلچسپی لیں تاکہ لوگوں کو محسوس ہو کہ اب عوام کی اپنی حکومت آئی ہے۔ جبکہ وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ طالبان نے معاہدہ کی خلاف ورزی کرکے حکومتی رٹ کو چیلنج کیا ہے۔ کسی بھی صورت سکولوں کو آگ لگانے مخالفین کے سرعام سر قلم کرنے اور شہریوں کے اغواء کے واقعات کو برداشت نہیں کرسکتے۔ حکومت پر کوئی دباو¿ نہیں ہے۔ملک کی سلامتی اور عزت پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔ ہم خود دہشت گردی کا شکار ہیں اور اس کے خلاف جنگ لڑرہے ہیں۔ ہم صوبائی خودمختاری پر یقین رکھتے ہیں اور مسائل کے حل کیلئے مذاکرات پر یقین رکھتے ہیں۔وزیراعظم نے کہاکہ قبائلی علاقوں میں جاری آپریشن پر اتحادیوں کو اعتماد میں لیا گیا ہے۔ آرمی چیف نے علاقہ کی صورتحال بارے بریف کیا ہے۔ وفاق آرمی ایکشن کے حق میں نہیں لیکن ہم ملک کی آزادی اور عزت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرسکتے۔ انہوں نے کہاکہ صوبہ سرحد میں امن وامان قائم رکھنے اور عوام کو جان ومال کا تحفظ فراہم کرنے کی ذمہ داری صوبائی حکومت کی ہے۔ امن معاہدے بھی صوبائی حکومت نے کئے تھے اب اگر ان معاہدوں کی کسی نے خلاف ورزی کی ہے تو انہیں کنٹرول کرنا بھی صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے کہاکہ صوبہ میں امن وامان برقرار رکھنے کیلئے صوبہ سرحد کی حکومت ایف سی سمیت کسی بھی وفاقی ایجنسی کو طلب کرسکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ابھی صرف فاٹا، پشاور اور سوات میں آپریشن جاری ہے اگر کسی اور علاقے میں خراب صورتحال کی اطلاع ملی تو صوبائی حکومت فیصلہ کرے گی کہ کیا اقدامات کرنے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے پالیسی تبدیل نہیں کی ہے اور نہ ہی قبائلی علاقوں میں آپریشن کے حق میں ہیں ۔ ہم ابھی بھی مسائل کا حل مذاکرات سے چاہتے ہیں۔ لیکن جب وہاں اقلیتی برادری کے لوگوں کو اغوائ کیا جائے اور بچیوں کے سکولوں کو آگ لگادی جائے حکومت اس پر لچک نہیں دکھا سکتی۔ انہوں نے کہاکہ قبائلی علاقوں میں دہشت گردی میں غیر ملکی ہاتھ بھی ملوث ہوسکتا ہے۔ حکومت وہاں امن کے قیام کیلئے ہر ممکن اقدام کررہی ہے۔ عوام امن چاہتے ہیں اور ہمارے ساتھ ہیں۔ وزیراعظم نے کہاکہ اس وقت کراچی سے خیبر تک اتحادی حکومت قائم ہے چاروں صوبوں میں بھی ہم مل کر حکومت چلا رہے ہیں اور عوام کو ریلیف دینا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ہمیں جمہوری عمل کو مستحکم کرنا ہے جس کیلئے سازگار فضا کا ہونا بہت ضروری ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ مصر میں امریکی صدر بش سے ملاقات میں ان کو اپنی پالیسی سے آگاہ کر دیا تھا کہ ہم قبائلیوں کو ترقی، سیاسی مذاکرات، صحت اور تعلیم کی سہولیات بھی دینا چاہتے ہیں، صدر بش بھی ہماری ان پالیسیوں سے متفق تھے۔ ہم آج بھی اپنے موقف پر قائم ہیں اور ان کو یہ سہولیات دینا چاہتے ہیں لیکن انہوں نے معاہدے کی خلاف ورزی کر کے علاقے میں بدامنی پھیلانے کی کوشش کی ہے اس وجہ سے صوبائی حکومت کو آخری آپشن کے طور پر ملٹری آپریشن کا سہارا لینا پڑا۔ مہنگائی سے متعلق سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہاکہ مہنگائی، لوڈشیڈنگ اور دیگر مسائل ہمیں ورثہ میں ملے ہیں اس وقت بھی حکومت تیل کی مد میں ایک ارب 20کروڑ روپے کی سبسڈی روزانہ دے رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مہنگائی صرف پاکستان کا ہی نہیں پوری دنیا کا مسئلہ ہے جس پر قابو پانے کیلئے اقدامات کئے جارہے ہیں اور حکومت اس مقصد کیلئے تمام وسائل بروئے کار لانے کے علاوہ اپنی تمام توانائیاں صرف کررہی ہے۔ انہوں نے کہاکہ زراعت کی ترقی کیلئے بھی اقدامات کئے جارہے ہیں۔ ہم ملک میں سبز اور سنہری انقلاب لائیں گے۔ معزول ججوں کی بحالی اور مختلف اطراف سے آنے والی فارمولوں سے متعلق سوال پر وزیراعظم نے کہا کہ معزول ججوں کو آزاد ہم نے کیا انہیں تنخواہ بھی دے رہے ہیں اور انہیں بحال بھی ہم ہی کریں گے۔ خودمختار کشمیر کے حوالے سے بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ کی رائے پر انہوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کا حل وہی ہونا چاہئے جو خود کشمیریوں کیلئے قابل قبول ہو۔ من موہن سنگھ پاکستان آئیں گے تو اس پر بات کریں گے۔ قومی ہیرو اور ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان پر پابندیوں سے متعلق وزیراعظم نے کہاکہ ڈاکٹر قدیر خان کا ایشو اب ختم ہوچکا ہے۔ جبکہ عوامی حلقوں نے کہا ہے کہ آصف علی زرداری نے مسئلہ کشمیر کے بارے میں بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ کے موقف کی تائید کرکے قومی موقف اور پی پی کے انتخابی منشور سے انحراف کیا ہے ۔ زردری اور پرویز مشرف مفادات کا کھیل کھیل رہے ہیں خود پیپلزپارٹی اور پارلیمنٹ کو اس کا نوٹس لینا چاہیے ۔ اپنے ردعمل میں انھوں نے کہا ہے کہ ہر حیثیت سے آصف علی زرداری کا بیان قابل مذمت اور ناقابل برداشت اور ناقابل قبول ہے پیپلزپارٹی کے انتخابی منشور سے بھی روگردانی ہے ۔ پی پی نے منشور کے ذریعے واضح طور پر قوم سے وعدہ کیا تھا کہ مسئلہ کشمیر کا حل اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق کشمیری عوام کی مرضی سے اس کا حل ممکن ہے ۔ یہی ہمارا قومی موقف ہے اس کی سب کو تائید اور حمایت کرنی چاہیے انہوں نے کہا کہ زرداری کا بیان کسی پہلو سے درست نہیں ہے انہوں نے من موہن سنگھ کی تائید کرکے قومی موقف سے انحراف اور تحریک مزاحمت کو زک پہنچانے کی کوشش کی ہے ۔ آصف علی زرداری کے اس کھیل کا خود پیپلزپارٹی اور پارلیمنٹ کو نوٹس لینا چاہیے ۔کشمیر کے مسئلے کے حوالے سے آصف علی زرداری میں نہ کوئی دم خم ہے نہ کوئی ویڑن ہے ۔ یہ ہرگز قوم سے وفاداری نہیں ہے مفادات کا کھیل پرویز مشرف کا ہو یا آصف علی زرداری کا عوام اس کی مذمت کرتے ہیں ۔ اے پی ایس
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment