International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.

Saturday, April 19, 2008

ملک عوام کا ہے کسی کے باپ کی جاگیر نہیں ۔۔۔۔۔۔ تحریر چودھری احسن پریمی




ُپاکستان کا جو سب سے بڑا المیہ ہے وہ ہر شعبہ زندگی میں ایک مخصوص طبقہ کی اجارہ داری اور انیس کروڑ عوام کی دوری ہے جس کی وجہ نو آبادیاتی نظام کے رائج کا تسلسل ہے۔ قیام پاکستان کے بعد ایک سازش کے تحت انگریز کے ٹائوٹ جا گیرداروں ا ور نو آباد یاتی نظام کی سوچ کے حا مل برٹش ڈاگ بیورو کریٹوں نے ایک آزاد ملک کا نظام وضع کرنے کی بجائے ہر وہ کام کیا جس سے عوام محکوم سے محکوم تر ہوتے چلے گئے اور آج وطن عزیز کا ناک نقشہ یہ ہے کہ ساٹھ سال سے ایک فیصد طبقہ نناوے فیصد عوام کے مقدر سے کھیل رہا ہے۔ یہ مخصوص طبقہ ملکی خزانہ سے اربوں،کھربوں لوٹ بھی لیتا ہے تو اس کی معافی کے قانون بھی بن جاتے ہیں اور غریب آدمی دو ہزار کا بھی سرکار کا نادہندہ ہوجائے تو وہ ساری عمر لاوارث قیدی کی طرح جیل میں پڑا رہتا ہے۔ ہر دور حکومت میں باہر سے ایڈوا ئزر منگوائے جاتے رہے اور عوام کو چکر یہ دیا جاتارہا کہ یہ اپنے شعبہ میں ماہر ہیں اور حکومت کے خاتمہ کے ساتھ ہی انکشاف ہوتا ہے کہ ماہرین نہیں تھے بلکہ ڈاکو تھے اور بریف کیس نوٹوں سے بھر کرفرار ہوگئے ہیں۔ میں آج ان تما م نام نہاد دانشوروں،اور خصو صی طور پر امریکہ اور برطانیہ سے ڈگری ہولڈرزتجزیہ نگا روں پر واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ وہ اس ملک اور عوام کی ترقی کیلئے جو بھی تجزیے اور پالیسی کی بات کرتے ہیں وہ ایک سراب،دھوکہ اور فراڈ کے سوا کچھ نہیں۔ پاکستان اور اس کے عوام کی ترقی کا دارو مدار اردو ذریعہ تعلیم اور سرکاری زبان اردو میں ہے اس کی وجہ اس ملک کی انیس کروڑ عوام میں سے تقریبا سترہ کروڑ ان پڑھ عوام ہیں انگریزی کی بات کرنے والوں نے ساٹھ سال میں عوام کو کیا دیا ہے سوائے دھوکہ کے۔ نظام کی تبدیلی کی بات کرنے والوں کو چاہیے کہ وہ چین،روس،فرانس،جرمنی،جاپان کی طرح فوری طور پر تمام ذریعہ تعلیم بمعہ سائنس و ٹیکنالوجی اپنی زباںمیں کر دیں اگر حکمراں کسی بھی بحران پر قابو نہیں پا سکتے تو عوام پر یہ ایک نیکی ضرور کردیں اور انگریز کی طرز سوچ کے مطابق بنائے گئے پبلک سروس کمیشن کو توڑ دیا جائے۔ عوام کو ایسا کمیشن نہیں چاہیے جو عوام سے دوری یعنی نفرت کی علامت کی تربیت دے۔ اور فر فر انگریزی بول کر عوام کو بیوقوف بنانے والوں کو اوقات میں رکھا جائے اور انھیں حکومتی اداروں میں انٹر پریٹر سے زیادہ کا درجہ نہ دیا جائے۔ اردو ذریعہ تعلیم سے ایک تو شرح خواندگی کی رفتار میں تیزی آگئی اور سرکاری زبان اردو سے وہ آسانی سے سرکاری روزگار کے حصول تک رسائی حاصل کر سکیں گے ۔ جبکہ پاکستان کے عوام کا کہنا ہے کہ حکمران اتحاد پارلیمنٹ میں پرویز مشرف کے مواخذے کی قرار داد پیش کرے اسی لئے قوم نے انہیں ووٹ دئیے ہیں حکومتی جماعتیں آزادی و خود مختاری کیلئے امریکہ کے سامنے ڈٹ گئیں تو وہ ان کا ساتھ دیں گے ۔ پرویز مشرف کا کورٹ مارشل بھی ہونا چاہیے ۔ ججز بحال نہ ہوئے تو قوم کا امتحان ہو گا عدلیہ کی بحالی پر فوج کے سربراہ کا بھی امتحان ہو گا کہ بحال ججز کے ساتھ ان کا کیا رویہ ہو گا ۔ اقتدار کو طول دینے کیلئے قوم کے بیٹوں کو امریکہ کے سپرد کیاگیا لا پتہ افراد کے خاندانوں کے دکھوں کا ضرور مداوا ہو گا اور ان کے مصائب دور ہوں گے لا پتہ افراد کی بازیابی کیلئے پارلیمانی کمیٹی بنائی جائے امریکی فوجیں افغانستان سے نکل جائیں ۔ وزیرستان ، سوات ، بلوچستان میں آپریشن بند کئے جائیں لا پتہ افراد کو بازیاب کیا جائے ، لال مسجد و جامعہ حفصہ آپریشن کے ذمہ داران کو انصاف کے کہٹرے میں لایا جائے ۔ ایجنسیوں کو آئین اور قانون کا پابند بنایاجائے قوم کے سامنے طویل جدوجہد ہے امریکی انتخابات کے نتیجے میں پاکستان کیلئے کوئی خیر برآمد نہیں ہو گی امریکہ کی پالیسی ایک ہی ہوتی ہے امریکہ نے پاکستان کے سرحدی علاقوں میں حملوں اور مداخلت کیلئے افغانستان کی جنگ کو فاٹا میں منتقل کرنے کی پالیسی اپنا ر کھی ہے ۔ بزرگ شہری ، مائیں ، بہنیں ، بچے اپنے پیاروں کی بازیابی کیلئے بے چین ہیں ۔ کیا کوئی ایسی ریاست ہے جو اپنے جوانوں کو بیچ کر جیتی ہے ۔ دشمن کے ہاتھوں میں جوانوں کو دے کر حکمران اپنے عیش و عشرت کیلئے امریکی امداد لے رہے ہیں پوری قوم نے مشرف کی مخالفت میں ووٹ دیا ہے پرویز مشرف کا سب سے بڑا جرم ملکی آزادی و خود مختاری کو بیچنا ہے۔ قومی پالیسیاں بنانے کی خود مختاری حاصل کرنا ہے حکمران جماعتوں میں ہمت ہے تو وہ امریکہ سے آزادی حاصل کریں امریکی سفارت خانے میں جانا ، ڈپٹی سفیر کے ساتھ ملاقاتیں قومی وقار کے خلاف ہے نام نہاد قومی حکومت میں لوگ اغواء ہو رہے ہیں عدل و انصا ف نہیں ہے چیف جسسٹس افتخار محمد چوہدری کی بحالی سب سے بڑا امتحان ہے پی پی مسلم لیگ (ن) اور پارلیمنٹ کا امتحان ہے کہ وہ عدلیہ کو بحال کرتے ہیں کہ نہیں ۔ معزول ججز کی بحالی کے بعد اپنے عہدوں پر آنے کے بعد فوج اور چیف آف آرمی سٹاف کا امتحان ہو گا ان کا رویہ کیا ہو گا امریکی مخالفت کا سامنا کیاجائے گا۔ کہ قوم کا بھی امتحان ہو گا کہ ججز بحال نہ ہوئے تو کیا رد عمل ہو گا ججز کا بھی ان کی بحالی کے بعد امتحان ہو گا کہ قوم کو عدل و انصاف فراہم کرنا ہے کیونکہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کا سب سے بڑا جرم یہ تھا کہ وہ لا پتہ افراد کا پوچھ رہے تھے یورپ مغرب میں ایک شخص لا پتہ ہو جائے پوری قوم بے قرار ہو جاتی ہے ہمارے ہزاروں لوگ غائب کر دئیے جاتے ہیں لوگ مارے جاتے ہیں ہمارے دانشور ، بڑے طبقات ٹس سے مس نہیں ہوتے قوم کا خزانہ بھی لوٹا گیا اور لوگوں کو بھی بیچا گیا ۔ چھتیس دن جنگ لڑی ہے اور فوج نے چھتیس سال حکومت کی ہے بدامنی کی بنیادی وجوہات امریکی پالیسیوں پر عملدر آمد کرنا ہے ۔ غریب طبقہ کو دو وقت کی روٹی میسر نہیں ہے تمام وسائل مراعات یافتہ طبقات کے بچوں کیلئے ہیں موجودہ حکمرانوں کے بارے میں یقین نہیں ہے کہ یہ امریکہ سے آزادی لینے کیلئے تیار ہوں گے اگر یہ اس راستے پر چلتے ہیں عوام ان کا ساتھ دیں گے عوام کو پارلیمنٹ کی رکنیت اور حکومت نہیں چاہیے وہ خزانے پر غریب کا حق مانگتے ہیں غریبوں کا علاج معالجے کی سہولتوں تک رسائی ہو ہم خود اپنی پالیسیاں بنائیں تعلیمی پالیسی بھی امریکہ بناتا ہے اپنی قومی زبان اردو سے محروم ہیں تعلیم کے حوالے سے ریسورس گیئر لگایا ہے جہاں انگریزی نہ تھی وہاں بھی اسے رائج کر دیا گیا اپنی زبان میں علم کا فروغ ہونا چاہیے جب تک اپنی زبان نہ ہو گی اپنا تشخص نہ ہو گا تہذیب کلچر پر حملہ ہوا ہے اپنا تشخص ، خود مختاری برقرار نہیں ہے جن جوانوں نے افغان جنگ میں فوج کا ساتھ دیا ان کی آج گردن زنی ہے عدل مر چکاہے کوئی عدالت نہیں ہے کوئی ایسا دروازہ نہیں ہے کہ انصاف کیلئے اس پر دستک دے سکیں۔ عوام کاعہد ہے کہ مرتے دم تک آزادی و خود مختاری کیلئے جدوجہد کریں گے عوام لا پتہ افراد کے خاندانوں کے ساتھ ہیں قومی آزادی کی جدوجہد میں قوم کے شانہ بشانہ ہیںملک میں گیارہ ستمبر کے بعد سے شرمناک حالات ہیں بڑی تعداد میں لوگوں کو غائب کیاگیا ریاست ماں کا کردار ادا کرتی ہے مگر مائیں ، بہنیں دربدر ہیں ریاست خود ظلم ڈھا رہی ہے غلط اقدامات کے خاتمے کا وقت آنے کو ہے ۔ظلم ، خونریزی ، نا انصافی ، جنگوں ، وسائل پر قبضے کی پالیسی امریکی جمہوریت ختم ہو چکی ہے جامعہ حفصہ کی طالبات توقع کر رہی تھیں کہ فوجی جوان انہیں ریلیف دینے کیلئے آئے ہیں مگر انہیں جلا دیاگیا جبکہ جنرل حمید گل نے کہا ہے کہ پرویز مشرف کے بارے میں پارلیمنٹ کورٹ مارشل کی قرار داد منظور کرے پرویز مشرف کو فوج کی وردی پہنا کر اس کا ٹرائل کیا جائے جس سپہ سالار کی شہریوں کے تحفظ کی ذمہ داری تھی بیرونی فورسز کیلئے دروازے کھول دئیے امریکہ نے چھتیس حملے کئے کورٹ مارشل کے بعد آرٹیکل سکس کے تحت سزا دی جائے دیگر ملوث عناصر کی بھی گرفتار ی کی جائے بڑے بڑے دلخراش واقعات دیکھے اور سنے بارہ مئی کراچی ، لال مسجد جامعہ حفصہ آپریشن ، نو اپریل کے وقعات دیکھے سرکار جس کو بھی گرفتار کرے گی چوبیس گھنٹے میں مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرنے کی پابند ہے ہمارے تھانوں میں بے گناہ لوگوں کو پولیس اہلکار ایف آئی آر کے بغیر لاک اپ میں بندکر دیتے ہیں مگر ان تھانوں اورپولیس والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی اگر ایسا ہوتا تو یہ معاملات آگے نہ بڑھتے عدالتوں کے فرائض مناسب انداز سے ادا کئے ہوتے تو صورتحال اس طرح نہ ہوتی لاپتہ افراد کے واقعات انتہائی شرمناک ہیں شہریوں اور ملکی غیرت و حمیت کے ساتھ چاہئے کچھ بھی ہو حکمرانوں کو کرسی عزیز ہے معاشرتی برائیوں کے خاتمے کیلئے نظام جز ا و سزا قائم کرناہو گا حکمرانوں کیلئے بھی اس نظام کو متحرک کرنا ہو گا حکمران بار بار ملکی آئین پر شب خون مارتے ہیں بار بار ملک پر اس لئے قابض ہوتے ہیں کہ عوام ماضی کو فراموش کر دیتے ہیں وہ تمام لوگ جنہوں نے کسی بھی مرحلہ بھی ملک کی آئینی مشنیری کو پٹڑی سے اتارا اور جمہوریت کا گلا گھونٹا زبردستی قابض ہوئے زندگیوں کے سودے کئے اور قوم کو سستے داموں بیچا پانچ ہزار ڈالر پر تو امریکہ میں نعشیں فروخت نہیں ہوتی جو ان واقعات میں ملوث ہے حساب کا وقت آگیا ہے قوم لا پتہ افراد کے خاندان ان سے حساب سے لیں گے آئین توڑنے والے ایک ایک شخص کی نشاندہی کی جائے سزا ایسی ہو کہ آئندہ کسی کو آئین توڑنے کی ہمت نہ ہو اس کے سوچنے کی بھی جرات نہ ہو ان خاندانوں کے پیارے جلد آئیں گے اس کیلئے کام کی ضرورت ہے موجودہ حکومت کو غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے پرویز مشرف کے جانے کا وقت ہے امریکہ کو بھی احساس ہو گیا ہے کہ پرویز مشرف ایک بوجھ اور زندہ لاش ہے امریکہ صرف نومبرکے انتخابات تک پرویز مشرف کو رکھنا چاہتاہے ۔ ایک سپر طاقت کا مستقبل پاکستانی عوام کے ہاتھوں میں ہے نومبر سے پہلے پرویز مشرف کی رخصتی سے پہلے پرویز مشرف کی رخصتی سے امریکہ میں ری پبلکن کے بجائے ڈیمو کریٹک آئیں گے صرف پرویز مشرف کے خلاف مواخذے کے ارادے کی ضرورت ہے حکمران بدل چکے ہیں لیکن ابھی عوام کا مقدر نہیں بدلہ ملک بھر میں امن و امان کا قیام مہنگائی غربت بے روزگاری کا خاتمہ عوام کو تعلیم و صحت اور انصاف کی فراہمی حکومت کی عملی طور پر ا ولین ترجیحات ہونی چاہیے میثاق جمہوریت اور اعلان مری ملک میں جمہوریت کی بحالی اور عدلیہ کی آزادی کیلئے نسگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ ملک میں جمہوریت کی نئی تاریخ لکھی جارہی ہے ۔ آمریت کی رسوائی تو ہوئی لیکن ابھی پی ڈی اے کا ایجنڈا ادھورا ہے کیونکہ یہاں حکمران تو بدل گئے ہیں لیکن عوام کا مقدمہ بدلنا ابھی باقی ہے ۔ عوام کو مہنگائی امن و امان بے روزگاری بجلی و گیس کی عدم دستیابی اور بہت سے دوسرے مسائل دریش ہیں ۔ اس ضمن میں پورے ملک میں دیانتدار آفسران تعینات کیے جائیں جرائم بڑھنے کی وجہ کرپٹ پولیس آفیسر ہیں پاکستان انیس کروڑ عوام کاملک ہے کسی آمر کے لیے کوئی انہیں دبا نہیں سکتا جب تک اداروں خصوصا عدلیہ پارلیمنٹ اور میڈیا کو مضبوط نہیں کیا جاتا آمروں سے نجات ممکن نہیں ا جب تک عوام اور وکلاء زندہ ہیں آمروں کو برداشت نہیں کر سکتے وکلاء نے اس جدوجہد میں اپنا سب کچھ داو¿ پر لگا کر عوامی عزت حاصل کی ہے ہمیں مل کر اداروں اور ملک کی تعمیر وترقی کرنی ہے تاکہ آنے والی نسلوں کو قانون کی حکمرانی والا ملک دیا جاسکے اگر ہم قانون اصولوں اور ضابطوں پر چلیں تو دنیا کی کوئی طاقت ہمیں شکست نہیں د ے سکتی ہماری قوم کو ترقی کے لیے قانو ن کی حکمرانی کی سب سے زیادہ ضرورت ہے میاں نواز شریف نے عدلیہ کی بحالی کا اپنے اراکین اسمبلی سے حلف لیا ہے ۔ انھوں نے معزول ججز کو رہائی دلائی ہے اور جلد ہی انہیں ان کے عہدوں پر بحال کریں گے آمریت کے سہارے چلنے والی سابق حکومت نے ملک کو آٹے ‘ بجلی پانی دہشت گردی لاقانونیت اور بدترین معاشی بحران سے دو چار کیے رکھا اب ایسے کرپٹ را شی لوٹ مار میں ملوث کام چور افسران و اہلکاروںکو کسی بھی صورت میں تعینات نہ کیا جائے گا بلکہ دیانتدار بااخلاق اچھے کردار اور عوام کی خدمت کا جذبہ رکھنے والے افسران و اہلکاروں کو تعینات کرکے ان کی حوصلہ افزائی کی جائے جبکہ بداخلاق کرپٹ ‘ عوام کی خدمت کا جذبہ نہ رکھنے والے افسران کو برطرف کرکے گھر بھیجنے کے علاوہ لوٹ مار کرنے والوں کا بلا متیاز احتساب ہونا چاہیے کام چور کرپٹ اہلکار افسران اپنا قبلہ درست کرلیں ورنہ وہ سزا کے لیے تیار رہیں ۔ حکمرانوں کو عوام کی خدمت پر یقین ر کھنا ہوگا۔ ملک سے غربت ‘جہالت اور پسماندگاگی کا خاتمہ کر نا ہوگا آئندہ تمام فیصلے اتحادیوں سے باہمی مشاورت اورتقرریاں و تبادلے میرٹ کی بنیاد پر کرنا ہونگے ا ور امن وامان کی ناقص کارکردگی اور جرائم پر کنٹرول نہ کرنے والے پولیس اہلکاروں کے لیے محکمہ میں کوئی جگہ نہیں ہونی چاہیے نئی حکومت نے بھی جمہوریت کو انتشار کی نذر کیا تو عوام اسے بھی مسترد کر دیں گے۔ آج پورے ملک میں (ق ) لیگ اپنے کرتوتوں کی و جہ سے عوامی نفرت کی علامت کا نشان بن چکی ہے اور ان کے ظلم کے ستائے ہوئے لوگ جگہ جگہ ان کا انڈوںا ور ڈنڈوں سے استقبال کرتے ہیں یہ تو مکافات عمل ہے اب پرویز مشرف کے لیے پاکستان اوراقتدار میں کوئی جگہ نہیں(ق) لیگ کی لوٹ مار کو بے نقاب کرکے ایک ایک پائی وصول کی جائے اور اعلان مری پر ہر صورت عملدرآمد کو ممکن بنا یا جائے کیو نکہ یہ ملک عوام کا ہے یہ کسی جاگیر دار،سیاستدان یا کسی فوجی حکمران کے باپ کی جاگیر نہیں۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری کی مدت ملازمت میں کمی کی کوشش کی گئی تو اس کی زبردست عوامی مزاحمت ہو سکتی ہے ۔ امریکہ اپنے صدارتی انتخابات کے حوالے سے پرویز مشرف کو نومبر تک صدر کے عہدے پر برقرار رکھنا چاہتا ہے ۔ ری پبلکن کو خوف ہے کہ پرویز مشرف نکال دئیے گئے تو کانگریس اور صدارتی انتخابات ہار جائے گی ۔ وکلاء تحریک کا میابی کے قریب ہے ۔ کسی سازش کو کامیاب نہ ہونے دیا جائے ۔ عدلیہ کی بحالی کے لئے شروع کی گئی تحریک نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کی تاریخ میں سنہری حروف میں لکھی جائے گی اور اب وہ وقت دور نہیں جب تمام ججز بحال ہوں گے اور ملک میں انصاف کا بول بالا ہو گا ۔ملک کے عوام وکلاء کو خراج تحسین پیش کرتے ہیںجنہوں نے بہت سے مصائب اور مالی مشکلات کے باوجود اپنے مشن کو جاری رکھا اور اب ان کی جدوجہد رنگ لانے والی ہے ۔ ا دنیا میں ہمیشہ وہی قومیں کامیاب ہوتی ہیں جو اپنے عزم پر قائم رہتی ہیں اور اتنے مصائب و الا م کے باوجود ان کے عزم و حوصلے میں ذرا برابر لغزش نہیں آتی۔ وکلاءکی تحریک دنیا کی تاریخ میں اپنی نوعیت کی مستند جدوجہد ہے ۔ یوم شہداء کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ میں نے طاہر پلازہ کراچی کا دورہ کیا جو کچھ دیکھا وکلاء نے ایک بار پھر واضح کیا ہے کہ ہم کسی صورت چیف جسٹس صاحبان کی مدت میں کمی نہیں ہونے دیں گے اور ایسی ترمیم پاکستان میں کسی کے لئے قابل قبول نہیں ہو گی ۔ اب یہ بھی باتیں سامنے آرہی ہیں کہ فلک شیر کو چیف جسٹس بنا دیا جائے ۔ وجیہہ الدین نے کہا کہ یہ انتہائی گھٹیا حرکت ہے یہ غیر آئینی غیر قانونی ہے ہمیں یقین واثق ہے کہ خود شیر فلک بھی ایسی کسی آفر کو قبول نہیں کریں گے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ایسا ہو ہی نہیں سکتا ۔جبکہ سپریم کورٹ کے جسٹس (ر) رانا بھگوان داس نے کہا ہے کہ 3 نومبر کی ایمرجنسی اور پی سی او عدلیہ کا گلا گھونٹنے کیلئے لگائی گئی تھی ۔ اس غیر آئینی حکم سے انکار پر 60 سے زائد ججوں کو گھر جانا پڑا ۔ پرویز مشرف کی جانب سے 3 نومبر کے غیر آئینی اقدام کے اعتراف کے بعد سپریم کورٹ کو یہ حق نہیں پہنچتاکہ وہ اسے کوئی جواز فراہم کرے ۔ چیف جسٹس اور دیگر ججوںکو بغیر کسی تحریر آرڈر کے اپنے اہلخانہ سمیت گھروں میں قید کرنے سے پوری دنیا میں پاکستان کی بدنامی ہوئی ہے ۔ 9 مارچ 2007ء کو غیر آئینی اور غیر قانونی طور پر چیف جسٹس کے خلاف ریفرنس بھیجتے ہوئے انہیں معطل کردیا گیا اور گھر میں ر بند کردیا گیا ۔ یہ عدلیہ کو رسوا کرنے کی کوشش تھی جس کے خلاف وکلاء ،عدلیہ اور پوری سوسائٹی نے مداخلت کی ، لا ہور بار کا اس حوالے سے سب سے اہم کردار رہا ہے ۔ جب چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ بار کے استقبالیہ میں شرکت کیلئے آئے تو چار گھنٹے کا سفر 25 گھنٹے میں طے ہو سکا ۔ جس طرح کا استقبال لاہور میں کیا گیا اس سے پورے ملک کے عوام اور وکلائکو تقویت ملی اور پھر 20جولائی کو عدلیہ کے وقار اور عزت کی بحالی کا فیصلہ ہوا لیکن پھر اڑھائی ماہ بعد ہی عدلیہ پر دوسرا وار کیا گیا جو صریحا بد نیتی پر مبنی تھا اور پوری ڈھٹائی کے ساتھ ایمرجنسی کا نفاذ کرتے ہوئے پی سی او جاری کردیا گیا ۔ اس ایمرجنسی یا پی سی او سے کوئی حکومت یا پارلیمنٹ گھر نہیں گئی بلکہ اس کے ذریعے عدلیہ کا گلا گھونٹنے کی کوشش کی گئی اور 60 سے زائد ججوں کو گھر جانا پڑا ۔ انہوں نے کہا کہ وکلاء اپنی اس تحریک میں ثابت قدم رہیں ان کی منزل نزدیک سے نزدیک تر آتی جارہی ہے ۔ جسٹس (ر) بھگوان داس نے کہا کہ 1981ء2000ء اور 3 نومبر 2007ء کو آنے والے پی سی اوز میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔ 81ء میں جنرل ضیاء الحق کے پی سی او سے بعض ججوں نے انکار کیا لیکن انہوں نے پنشن کی مراعات قبول کرلیں اسی طرح 2000ئمیں جاری ہونے والے پی سی او سے بھی چیف جسٹس سمیت 6 ججوں نے انکار کیا لیکن قبل از وقت ریٹائرمنٹ قبول کرتے ہوئے انہوں نے بھی پنشن وصول کی لیکن 3نومبر 2007ء کو جاری ہونے والے پی سی او سے جن ججوں نے انکار کیا انہوں نے آج تک اسے تسلیم نہیں کیا انہوں نے پنشن کی مراعات قبول نہیں کیں اور وہ آج بھی آئینی جج ہیں اور اس بات کو پوری قوم بھی تسلیم کرتی ہے 23 نومبر 2007ء کی سپریم کورٹ کا فیصلہ خودساختہ سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے جس کی کوئی حیثیت نہیں جب پی سی او جاری کرنے والا شخص خود یہ اعتراف کر چکا ہے کہ اس نے3 نومبر کو غیر آئینی اقدام کیا ہے ۔ تو پھر خودساختہ عدالت کے پاس اس اقدام کو جائز قرار دینے کا کیا جواز تھا ۔ چیف جسٹس کو خاندان سمیت بغیر تحریری آرڈر کے گھر میں قید رکھا گیا کسی کو ملنے کی اجازت نہ دی گئی اس اقدام کی نہ تو قانون اجازت دیتا ہے نہ ہی یہ اخلاقی ہے بلکہ اس سے ہمارے ملک کا عالمی سطح پر وقار مجروح ہوا ہے ۔ پوری دنیا کے سامنے ہم شرمسار ہیں ۔ سب کو چاہیے کہ وہ قانون کی پاسداری کریں اور غیر احکامات کو مسترد کردیں




No comments: