تمام برطرف ججوں کو بحال کیا جائے گا۔ججوں کی بحالی کے ساتھ عدلیہ میں اصلاحات کا پیکیج بھی پیش کیا جا رہا ہے
جسٹس فلک شیر کو سینیارٹی کی بنیاد پر چیف جسٹس بنانے کے بارے اخبار میں پڑھا ، حقیقت وزارت قانون کو معلوم ہوگی۔
اسٹیبلشمینٹ صدر مشرف کو اقتدار میں لائی ، یہی قوتیں آج جمہوری حکومت کے خلاف محلاتی سازشیں کر رہی ہیں
صدر پرویز مشرف سے نفرت ہے نا محبت ،فی الحال سٹیسٹکو برقرار رکھیں گے، اگر دو تہائی اکثریت ملی تو ان کے احتساب کا سوچیں گے
پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین کا برطانوی نشریاتی ادارے سے خصوصی انٹرویو
لندن ۔حکمران پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے قومی اسمبلی کے انتخاب میں شرکت کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر ضرورت پڑی تو وہ وزیراعظم کا عہدہ سنبھال سکتے ہیں۔تمام برطرف ججوں کو بحال کیا جائے گا۔ججوں کی بحالی کے ساتھ عدلیہ میں اصلاحات کا پیکیج بھی پیش کیا جا رہا ہے جسٹس فلک شیر کو سینیارٹی کی بنیاد پر چیف جسٹس بنانے کے سوال پر انہوں نے کہا کہ اس بارے میں انہوں نے اخبار میں پڑھا ہے اور حقیقت وزارت قانون کو معلوم ہوگی۔اسٹیبلشمینٹ صدر مشرف کو اقتدار میں لائی اور یہی قوتیں آج جمہوری حکومت کے خلاف محلاتی سازشیں کر رہی ہیں صدر پرویز مشرف سے نفرت ہے نا محبت ،فی الحال سٹیسٹکو برقرار رکھیں گے اور اگر دو تہائی اکثریت ملی تو ان کے احتساب کا سوچیں گے۔برطانوی نشریاتی ادارے کے ساتھ ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ تمام برطرف ججوں کو بحال کیا جائے گا اور اس کے ساتھ ساتھ عدلیہ میں اصلاحات کا پیکیج بھی پارلیمان میں پیش کیا جا رہا ہے۔انہوں نے ا نکشاف کیا کہ بینظیر بھٹو نے وصیت میں اپنے بچوں کاسرپرست اعلیٰ انہیں نامزد نہیں کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسٹیبلشمینٹ صدر مشرف کو اقتدار میں لائی اور یہی قوتیں آج جمہوری حکومت کے خلاف محلاتی سازشیں کر رہی ہیں۔ صدر پرویز مشرف کے بارے میں پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین نے کہا کہ ان کے ساتھ نفرت ہے اور نہ ہی محبت، فی الحال سٹیسٹکو برقرار رکھیں گے اور اگر دو تہائی اکثریت ملی تو ان کے احتساب کا سوچیں گے۔‘ آصف علی زرداری نے ججوں کے بارے میں کہا کہ انہوں نے جنگ کا آغاز اس لیے نہیں کیا کہ جمہوریت کو خطرہ ہے اور یہ نظام خطرے میں ہے، بلکہ شروعات اپنی ذات کی خاطر کی ہے کہ ان کی نوکری کو خطرہ ہے، لیکن ان کے بقول اس کے باوجود بھی وہ عدلیہ کو بحال کر رہے ہیں۔ ہمارے ساتھ کیا ہوا، اللہ شاہ صاحب (سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس سجاد علی شاہ) کو سلامت رکھے، میں آپ کو آج ایک راز کی بات بتاؤں کہ جنگ شروع کہاں سے ہوئی۔ اصل میں ہم نے ان کے بیٹے کو نوکری دیر سے دی، ذاتی بات پر لغاری (سابق صدر سردار فاروق لغاری) اور ایک سید نے بے وقوفی کی سازش کی اور پیپلزپارٹی کی حکومت برطرف ہوئی، جو ملک کو کہاں لے گئی، مارشل لاء لگا۔ سپریم کورٹ کے جج جسٹس فلک شیر کو سینیارٹی کی بنیاد پر چیف جسٹس بنانے کے سوال پر انہوں نے کہا کہ اس بارے میں انہوں نے اخبار میں پڑھا ہے اور حقیقت وزارت قانون کو معلوم ہوگی۔ آصف علی زرداری نے کہا کہ وہ عدلیہ کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں اور ایسی عدلیہ ہونی چاہیے جو انتظامیہ کے دباؤ میں نہ آئے۔ بینظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات اقوام متحدہ سے کرانے کے بارے میں سوال پر انہوں نے بتایا کہ آئندہ دو ہفتوں کے اندر وزیر خارجہ اقوام متحدہ کو باضابطہ خط بھیج دیں گے۔ اقوام متحدہ سے تحقیقات میں بیورو کریسی کی جانب سے رکاوٹ کے بارے میں انہوں نے کہا کہ ’بیورو کریسی کی ایک رائے ضرور ہوتی ہے لیکن وہ سمجھیں کہ مکھی پہ مکھی بٹھا تے ہیں۔ ایک سوال پر انہوں نے بتایا کہ لاڑکانہ سے بینظیر بھٹو کی قومی اسمبلی کی نشست پر وہ خود اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور کاغذات نامزدگی جمع کرائیں گے۔ میں آپ کو بتاؤں کہ بی بی شہید نے وصیت میں بچوں کا گارڈین مجھے نامزد نہیں کیا بلکہ میری بہن فریال کو کیا ہے، شاید بی بی سمجھتی ہوں کہ میں پارٹی چیئرمین بن رہا ہوں اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین کی ذمہ داری بہت بڑی ہے اور جو ابھی تک جو بھی پارٹی چیئرمین بنا اسے شہید کیا گیا، شاید اس لیے انہوں نے فریال کو (گارڈین) مقرر کیا ہے۔ رکن اسمبلی بننے کے بعد ان سے وزیراعظم بننے کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ یہ ضروری نہیں کہ پارٹی چیئرمین وزیراعظم بھی بنے۔ جب پوچھا کہ کیا وہ عہد کرتے ہیں کہ وزیراعظم نہیں بنیں گے تو انہوں نے انکار کیا اور کہا کہ اگر ضروری ہوا تو وہ وزیراعظم بنیں گے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ کہتے ہیں کہ کچھ خفیہ ہاتھ جمہوری حکومت کے خلاف سازش کر رہے ہیں آخر یہ کون ہیں، آپ حکومت میں ہوتے ہوئے بھی ان کی نشاندہی نہیں کرسکتے؟ تو انہوں نے کہا کہ ان کی نشاندہی کرتے ہیں یہ وہی قوتیں ہیں جنہیں آپ اسٹیبلشمینٹ کہتے ہیں۔ان قوتوں نے ہی بی بی شہید سے کہا کہ سن دو ہزار سات کے الیکشن کا بائیکاٹ کریں، بی بی نے ایسا نہیں کیا تو انہوں نے دھمکی دی کہ وہ پیپلز پارٹی کو صرف سندھ تک محدود کردیں گے اور ایسا ہوا بھی لیکن بی بی شہید نے ان قوتوں کا مقابلہ کیا، یہ وہی قوتیں ہیں جو صدر مشرف کو اقتدار میں لائیں اور یہی قوتیں جمہوری حکومت کے خلاف محلاتی سازشیں کر رہی ہیں۔ ان کے اس جواب پر جب پوچھا کہ ایک طرف آپ صدر مشرف کو سازشی قوتیں قرار دے رہے ہیں اور دوسری طرف ان کے ساتھ محبت اور نفرت کا رشتہ بھی ساتھ ساتھ برقرار رکھا ہوا ہے تو آصف علی زرداری نے کہا کہ صدر مشرف سے محبت ہے نہ نفرت، ہم ان کی اسمبلی میں نہیں بلکہ اپنی اسمبلی میں بیٹھے ہیں، ان کا بطور صدر پارلیمان سے ایک تعلق ہے اور فی الحال سٹیٹسکو برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ہم ملک کی خاطر تصادم نہیں چاہتے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم انہیں قبول کرتے ہیں، جب بھی ہمیں دو تہائی اکثریت ملی ہم ان کا محاسبہ کرنے کا سوچیں گے۔جب انہیں یاد دلایا کہ وزیراعظم کے انتخاب میں انہیں ملنے والے ووٹ دو تہائی اکثریت سے زیادہ ہیں تو انہوں نے کہا کہ ہاں یہ ووٹ وزیراعظم بننے کے لیے ملے ہیں محاسبے کے لیے نہیں، ہم اگر کل صدر کا محاسبہ کریں تو یہ سارے ووٹ نہیں ملیں گے۔اس پر جب ان سے پوچھا کہ اس کا مطلب ہے کہ صدر پرویز مشرف کو فی الحال آپ نے نظریۂ ضرورت کے تحت قبول کیا ہوا ہے تو انہوں نے کہا کہ نہیں مطلوبہ سیاسی قوت کے حصول کی خواہش کے تحت ایسا کیا ہے۔سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے اس بیان کے متعلق جس میں انہوں نے کہا تھا کہ صدر کا محاسبہ کرنے پر آصف علی زرداری نے ان سے اتفاق کیا ہے آصف زرداری نے کہا کہ بالکل میاں صاحب سے جمہوریت کی مضبوطی اور پارلیمان کی بالادستی پر اتفاق ہے۔ ہمیں عوام نے ووٹ تبدیلی کے لیے دیا، نظام بدلنے کے لیے دیا ہے اور ہم ایسا ضرور کریں گے لیکن ایسا کب ہوگا اس کا فیصلہ وقت کرے گا۔صدر پرویز مشرف کے تین نومبر دو ہزار سات کو ایمرجنسی لگانے، آئین معطل کرنے اور ججوں کی بحالی سمیت دیگر اقدامات کو قانونی جواز فراہم کرنے کے بارے میں سوال پر آصف علی زرداری نے کہا کہ وہ ایمرجنسی سمیت تمام اقدامات کے خلاف ہیں، حکومت نے میڈیا پر پابندیاں ختم کی ہیں اور اب ججز کو بھی بحال کر رہی ہے لیکن یہ انہیں نہیں معلوم کہ قانونی حیثیت کی ضرورت ہے کہ نہیں۔ جب ان سے متحدہ قومی موومینٹ کے ساتھ ایک دم دوستی اور جلد ہی دوری پیدا ہونے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ’کچھ ان کی مجبوریاں ہیں، کچھ ہماری مجبوریاں ہیں، ہم سوچ رہے کہ کچھ اپنا دل بڑا کریں اور کچھ وہ اپنا بڑا کریں تو امید مثبت رکھنی چاہیے۔اس پر جب انہیں یاد دلایا کہ آپ نے تو اپٹی ٹوپی یعنی پگ اتار کر انہیں دی یہ آپ کا جذباتی فیصلہ نہیں تھا تو انہوں نے کہا کہ ’ان کی بھی ٹوپی میں نے پہنی اور عزیز آباد سے پہلی بار ’جیئے بھٹو‘ اور ’زندہ ہے بی بی زندہ ہے‘ کے نعرے لگے تو بھٹو شہید کے نام پر تو میں گردن دے سکتا ہوں یہ تو پگ تھی۔
No comments:
Post a Comment