مخلوط حکومت میں شامل دونوں بڑی جماعتیں معاہدہ مری پر عمل در آمد کرتے ہوئے عدلیہ کو 2 نومبر والی پوزیشن پر لائیں گی
وزیر قانون کے بیانات کہ ججوں کی بحالی تیس دن میں ضروری نہیں اسے وکلاء برادری میں تشویش پائی جاتی ہے
وکیل رہنما کی پاکستان بار کونسل میں وائس چیئر مین کے انتخابات کے بعد صحافیوں سے گفتگو
اسلام آباد ۔ وکلاء نے کہا ہے کہ اگر چھبیس اپریل تک معزول چیف جسٹس افتخار محمد چودھری سمیت پی سی او کے تحت حلف نہ اٹھانے والے ججوں کی بحال کی قرارداد قومی اسمبلی میں پیش نہ کی گئی تو پھر وکلاء برادری تیز ترین تحریک چلائے گی جس میں لانگ مارچ بھی شامل ہے۔ ہفتہ کے روز سپریم کورٹ میں پاکستان بار کونسل میں وائس چیئرمین کے انتخابات کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وکلاء رہنما حامد حان نے کہا کہ حکومت کی طرف سے اور بالخصوص وزیر قانون کی طرف سے ایسے بیانات آ رہے ہیں جن سے وکلاء برادری میں شکوک وشبہات جنم لے رہے ہیں کہ ججوں کی بحالی کے حوالے سے کوئی نئی حکمت عملی طے کی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کے باوجود وکلاء برادری کو یقین ہے کہ مخلوط حکومت میں شامل ’دونوں بڑی سیاسی جماعتیں‘ جن میں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ نون شامل ہیں معاہدہ مری پر عمل درآمد کرتے ہوئے عدلیہ کو دو نومبر سنہ دو ہزار سات کی پوزیشن پر لائیں گی۔ حامد خان نے کہا کہ ججوں کی بحالی کے حوالے سے جو تیس دن کا وقت دیا گیا تھا اس میں سے انیس دن گزر گئے ہیں لیکن ابھی تک قومی اسمبلی میں قرارداد پیش نہیں کی گئی ۔انہوں نے کہا کہ جوں جوں وقت گزر رہا ہے وکلاء کی تشویش میں اضافہ ہو رہا ہے۔ حامد خان نے کہا کہ ابھی قرارداد کو اسمبلی میں بھی پیش ہونا ہے، پھر اس پر بحث بھی ہوگی، اس کے بعد اس کو منظور بھی کیا جائے گا جبکہ ان کی بحالی کے لیے ایگزیکٹو آرڈر جاری ہونا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیر قانون کی طرف سے جو بیانات آ رہے ہیں کہ ججوں کی بحالی تیس دن میں ضروری نہیں اس پر وکلاء برادری میں شدید تشویش پائی جاتی ہے۔ ایک سوال کے جواب میں حامد خان نے کہا کہ انہوں نے اٹارنی جنرل ملک قیوم جو پاکستان بار کونسل کے چیئرمین ہیں کو کبھی بھی اس تنظیم کا چیئرمین قبول نہیں کیا اور نہ ہی انہیں پاکستان بار کونسل کے اجلاس کی صدارت کرنے دی ہے کیونکہ وہ ایک ملٹری ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے قریبی ساتھی ہیں
No comments:
Post a Comment