International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.

Sunday, July 20, 2008

صدر پرویز مشرف نے ٨ سالہ دور میں پولیس کو سیاسی مخالفین کے خلاف کھلے عام استعمال کیا۔پولیس کے نظام پر رپورٹ



اسلام آباد ۔انٹرنیشنل کرائسز گروپ نے پاکستان کے اندر پولیس کے نظام کے حوالے سے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ صدر پرویز مشرف نے اپنے آٹھ سالہ دور کے اندر مخالفین کو دبانے کے لیے پولیس کو کھلے عام استعمال کیا ہے ۔ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے امریکہ اور یورپی ممالک پاکستانی پولیس کو جدید ہتھیاروں و تربیت کی فراہمی کے لیے فنڈز فراہم کریں پاکستان میں پولیس سے سیاسی مداخلت کا خاتمہ کر کے ہی پولیس کو عوام دوست بنایا جا سکتا ہے ۔ پولیس سے متعلقہ خفیہ اداروں کو جدید آلات سے لیس کر کے اندرونی سیکورٹی کے معاملات ان کے سپر د کیے جائیں ۔ انٹرنیشنل کرائسز گروپ کی طرف سے جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے پاکستان میں پولیس کے نظام کو عوام دوست بنانے کے لیے سیاسی بھرتیوں اور تبادلوں کا خاتمہ کرنا انتہائی ضروری ہے اگرچہ پولیس آرڈیننس 2002 جاری کیا گیا ہے کہ لیکن ابھی تک اس پر عمل درآمد ممکن نہیں بنایا جا سکا ہے ۔ ملک میں بہت کم تعداد میں پبلک سیفٹی کمیشن قائم کیے گئے ہیں پولیس کو حکمران طبقہ اپنے ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کرتا رہا ہے اور جو لوگ حکمرانوں کی بات مانتے رہے ہیں ان کی تقرریاں ، تبادلے اور ترقیاں سیاسی بنیادوں پر ہوتی رہی ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں سزائیں صرف ان پولیس افسروں کو ملی ہیں جنہوں نے فوجی آقاؤں کی بات ماننے سے انکار کیا ہے رپورٹ کے مطابق گزشتہ آٹھ سالوں میں صدر پرویز مشرف نے پولیس کو اپنے ذاتی مقاصد کے لیے کھلے عام استعمال کیا ہے نئی سیاسی حکومت کو بدعنوان اور انسانی حقوق کو پامال کرنے والی پولیس ورثے میں ملی ہے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پولیس آٹھ سالوں سے فوج کی خدمت کرتی رہی ہے اور صدر پرویز مشرف کے مخالفوں کے خلاف استعمال ہوتی اور انہیں دبانے کے فرائض سرانجام دیتی رہی ہے۔ اس دورن پولیس نے ماروائے عدالت اقدامات سے بھی گریز نہیں کیا اور انتخابات میں دھاندلی میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا ہے کیونکہ پولیس کو فوجی آمروں کی بھرپور آشیر باد حاصل تھی ۔ اس روئیے کی وجہ سے عوام میں پولیس کا اعتماد بحال نہیں ہو سکا ہے رپورٹ میں واضح طورپر کہا گیاہ ے کہ پاکستانی پولیس عسکریت پسندی اور دہشت گردی کے خاتمے کی صلاحیت نہیں رکھتی جیسا کہ فوج میں بیرونی جارحیت کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے رپورٹ میں کہا گیاہے کہ پولیس کے زیر انتظام خفیہ اداروں کو اندرونی خطرات اور جرائم کی روک تھام کے لیے مزید وسائل دینے کی ضرورت ہے اور اس حوالے سے بین الاقوامی برادری خصوصا امریکی اور یورپی یونین کوچاہیے کہ وہ سویلین خفیہ ایجنسیوں کو جدید تربیت اور ٹیکنیکل مدد دیں تاکہ وہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے اپنا کردار ادا کر سکیں ۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی حکومت کو صرف پولیس کے مالی بجٹ اورتعداد کو ہی نہیں بڑھانا چاہیے بلکہ پولیس میں انتظامی لحاظ سے بھی تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے جس کے تحت سیاسی بھرتیاں بند ہوں ‘ تقرریاں ‘تبادلے ‘ بھرتیاں اور ترقیاتی میرٹ پر ہونی چاہئیں ۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پولیس کے انتظامی اداروں کی تجاویز کواہمیت دی جانی چاہیئے اور پولیس کو عوام د وست اور شہریوں کا محافظ بنانے پر توجہ دی جانی چاہیئے ۔ اور عوامی نمائندوں پریہ بات واضح کرنی چاہیئے کہ ایک اچھی پیشہ وارانہ صلاحیتوں کی مالک ‘تربیت یافتہ اور اچھی تنخواہ دار پولیس ہی عوام کے مسائل حل کر سکتی ہے ۔ انٹرنیشنل کرائسسز گروپ نے حکومت کو دی گئی اپنی تجاویز میںکہا ہے کہ ملک کی اندرونی سیکورٹی کی زمہ داریاں پولیس اور اس کی متعلقہ خفیہ ایجنسیوں کو دی جائیں۔ پولیس اہلکاروں کی تعداد میں اضافہ ‘ جرائم کے خاتمے کے لیے ان کی تربیت کی جائے ۔ ملک کی خفیہ ایجنسیوں ایف آئی ایاور آئی بی کو مضبوط کیا جائے ۔ پاکستان کی اندرونی سیکورٹی کے لیے تعینات رینجرز اور دیگر پیرا ملٹری فورسز کو ہٹا کر پولیس کو لگایا جائے ۔ پولیس کے محکمے سے بدعنوانی ختم کرکے ان کی اخلاقی تربیت کے حوالے سے اپنی سفارشات میں انٹرنیشنل کرائسسز گروپ نے کہا ہے کہ بدعنوان اور سیاسی حمایت یافتہ پولیس افسران کو اعلی عہدوں سے ہٹایاجائے ۔ پولیس میں نچلی سطح کے ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کیا جائے ۔ اسی طرح پولیس کے ملازمین کو مزید سہولتیںفراہم کرتے ہوئے ان کے ویلفیئر اور انکے اہل خانہ کی فلاح وبہبود کے لیے اقدامات کیے جائیں ۔ اسی طرح ڈیوٹی کے دوران جاں بحق ہونے والے پولیس اہلکار کے اہل خانہ کے لیے مراعات میں اضافہ کرتے ہوئے عوامی سطح پر اس کی خدمات کا اعتراف کیا جائے ۔ سینٹ کی سیٹینڈنگ کمیٹی کے تحت پولیسنگ کے حوالے سے ذیلی کمیٹی تشکیل دی جائے ۔ پبلک سیفٹی کمیشن کو مزید اختیارات دئیے جائین اور کمیشن کے ممبران کا انتخاب شفاف طریقے سے کیا جائے جس پر حکومت اور اپوزیشن کے دریان اتفاق رائے ہو ۔ اپنی سفارشات مین آئی سی جی نے کہا ہے کہ پولیس میںسیاسی مداخلت کو ختم کرتے ہوئے بھرتیوں ‘ تبادلوں کو خالصتا ادارے کی سطح پر کیا جائے اور ضلعی ناظم سے ڈی پی او کی سالانہ کارکردگی رپورٹ کے حوالے سے اختیار واپس لیا جائے ۔ سفارشات میں مزید کہا گیا ہے کہ پبلک سیفٹی کمیشن ‘ نیشنل پولیس مینجمنٹ بورڈ اوروفاقی اورصوبائی کمپلینٹس بورڈز کو بااختیار بنایا جائے ۔ مقدمات کی تحقیقات کے لیے آزاد وخود مختار آفیسرز تعینات ہونے چاہئیںاور پولیس میں خواتین اہلکاروں کی تعداد کو بڑھایاجائے اسی طرح سے پولیس کے معاملات میں فوج کی مداخلت ختم کی جائے آئی سی جی نے اپنی سفارشات مین بین الاقوامی برادری پرزور دیا ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پاکستان میں پولیس کی استعداد کار بڑھانے کے لیے امداد میں اضافہ کیا جائے اور ا مریکہ اور یورپی ممالک پولیس افسران کی تربیت کے لیے کام کریں ۔

No comments: