صدر مشرف کے مستقبل کا فیصلہ پارلیمنٹ کرے گی
پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ججوں کی بحالی اور صدر پرویز مشرف کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ پارلیمان کرے گی۔
آصف علی زرداری جو ان دنوں دبئی میں ہیںانہوں نے کہا کہ رواں ہفتے کے آخر میں ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں ججوں کی بحالی کے لیے بحث شروع ہوگی اور کمیٹی بنا دی جائےگی جو اس بارے میں فیصلہ کرے گی۔
ان سے جب پوچھا گیا کہ آپ نےحکومت سازی کے تیس روز کے اندر ججوں کی بحالی کا وعدہ کیا تھا اور وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے پچیس مارچ کو حلف اٹھانے کے بعد سے وکلاء برادری نے الٹی گنتی بھی شروع کر دی ہے تو آصف علی زرداری نے کہا کہ ’حکومت سازی محض وزیراعظم کا حلف نہیں بلکہ کابینہ کی تکمیل سے ہوتی ہے۔‘
’دھمکانے کی کوشش نہ کریں‘
’جو قوتیں پارلیمان سے باہر ہیں اور پارلیمان میں جانے سے انکار کیا انہیں میں نہیں سمجھتا کہ حق حاصل ہے کہ وہ الٹی یا سیدھی گنتی کر کے پارلیمان کو دھمکانے کی کوشش کریں۔‘
آصف زداری
انہوں نے بتایا کہ اطلاعات کے مطابق دس اپریل کو قومی اسمبلی کا اجلاس ہو رہا ہے جس میں ججوں کی بحالی کے لیے بحث شروع ہوگی اور کمیٹی بھی بنے گی اور انشاء اللہ انہیں امید ہے کہ تقریباً تیس دن میں ججوں کی بحالی کا فیصلہ آ جانا چاہیے۔
وکلاء برداری کی جانب سے پچیس مارچ کو وزیراعظم کے حلف کے بعد سے تیس روز کے بارے میں گنتی شروع ہونے کے بارے میں سوال پر انہوں نے کہا کہ ’گنتی یا کاؤنٹ ڈؤن‘ کی بات کرنے والوں کو میں منفی قوتیں کہوں گا جو کام وہ ایک سال میں خود نہیں کرسکے وہ حکومت نے کر دیا اور چیف جسٹس سمیت ججوں کو رہائی ملی۔‘
’جو قوتیں پارلیمان سے باہر ہیں اور پارلیمان میں جانے سے انکار کیا انہیں میں نہیں سمجھتا کہ حق حاصل ہے کہ وہ الٹی یا سیدھی گنتی کر کے پارلیمان کو دھمکانے کی کوشش کریں۔‘
آصف زرداری نے کہا کہ وہ جس شخص کو دھمکاتے تھے یا جس ادارے کو دھمکاتے تھے وہ غیر جمہوری تھا اور ان کا رد عمل بھی غیر جمہوری تھا۔’میں انہیں متنبہ کرتا ہوں کہ وہ صبر کریں اور جو کام وہ نہیں کر پائے وہ پارلیمان کرے گی لیکن اپنے وقت پر، ملک کی بہتری کے لیے اور نظام بدلنے کے لیے۔‘
صدر پرویز مشرف کے سیاسی مستقبل کے بارے میں انہوں نے کہا کہ اس بارے میں فیصلہ بھی پارلیمان کرے گا۔’یہ باتیں سب پارلیمان میں طے ہونی ہیں اور وقت سے پہلے یہ بات نہیں کرنا چاہوں گا اور میرا خیال ہے کہ ماضی اور حال کی قوتوں کے درمیان بات کرنے کی گنجائش موجود ہے اور اتفاق رائے سے ہی جمہوریت آگے چلے گی۔‘
اس پر جب ان سے پوچھا کہ کیا آپ کی بات کا مطلب یہ سمجھا جائے کہ صدر پرویز مشرف کی سیاسی زندگی کا سفر ابھی باقی ہے تو آصف علی زرداری نے کہا کہ ’نہیں یہ تو آپ کی تشریح ہے میں تو یہی کہوں گا کہ اس بارے میں پارلیمان ہی فیصلہ کرے گی۔‘
ڈاکٹر قدیر: فیصلہ سکیورٹی فورسز کا ہے
ڈاکٹر قدیر خان کو نہ ہم نےگرفتار کیا ہے اور نہ انہیں ہم کوئی ریلیف دینے کی پوزیشن میں ہیں۔ اس کا فیصلہ سکیورٹی فورسز کو کرنا ہے جو صدر کے ماتحت ہیں اور ان ہی کو فیصلہ کرنا ہے۔‘
ڈاکٹر قدیر خان کو ریلیف دینے کے بارے میں سوال پر پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا کہ ’میں نہیں سمجھتا کہ یہ ہماری حکومت کا بنایا ہوا کوئی معاملہ ہے، نہ ان کو ہم نےگرفتار کیا اور نہ انہیں ہم کوئی ریلیف دینے کی پوزیشن میں ہیں، یہ سوال پچھلی حکومت کا ہے اور پچھلی حکومت کے صدر صاحب موجود ہیں اور یہ سوال ان سے پوچھا جائے، اس بارے میں فیصلہ سکیورٹی فورسز نے کرنا ہے جو صدر کے ماتحت ہیں اور ان ہی کو فیصلہ کرنا ہے۔‘
سندھ میں وزیراعلیٰ کے طور پر سید قائم علی شاہ کی جانب سے حلف اٹھانے اور کابینہ کی حلف برداری تاحال نہ ہونے کے بارے میں انہوں نے کہا کہ سندھ کابینہ کی تشکیل کے بارے میں متحدہ قومی موومنٹ کے ساتھ ان کی جماعت کی بات چیت جاری ہے۔
’میری پارٹی کی خواہش ہے کہ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے وزراء مل کر حلف اٹھائیں۔ظاہر ہے کہ دونوں جماعتوں میں اختلافات کی ایک طویل تاریخ ہے، قریب آنے میں وقت لگے گا، کسی چیز کو بنانے میں وقت لگتا ہے بگاڑنے میں کو دیر نہیں لگتی اس لیے وقت تو لگےگا۔
No comments:
Post a Comment