پاکستا ن کے عوام آٹا ، بجلی،پانی، مہنگائی،بے روز گاری اور نا انصافی سے تنگ آ چکے ہیں اور اس وقت بے بس اور مجبور عوام کا جانوروں سے بھی برا حال ہے۔ عوام حکمرانوں کے بارے اندازے لگاتے ہیں کہ سابقہ حکمراں تو عوام کے حق میں تھے برے لیکن مو جودہ بھی مشکوک ہیں عوام کے خیال میں کہ اگر حکومت چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کوبحال نہیں کر سکی تو با قی اس نے کیا تیر چلا لئے ہیں موجودہ حکومت نگراں حکومت سے بھی گئی گزری ہے عوام نے جناب آصف زرداری سے بھی گزارش کی ہے کہ آپ کے نزدیک ججز سے زیادہ بے چاری اور بھوکی ننگی عوام کیلئے روٹی ، کپڑا ور مکان زیادہ ضروری ہے تو اس ضمن میں فی الفور آپ نے عوام کیلئے کیا کیا ہے۔ عوام تو یہی سمجھ رہے ہیں کہ مشرف،زرداری اور نواز شریف ملے ہوئے ہیں اور عوام کو بے و قوف بنا رہے ہیں ۔جبکہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما وسینئر وفاقی وزیر چودھری نثار علی خان نے سلمان تاثیر کی بطور گورنر پنجاب تعیناتی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے پنجاب حکومت کو ہارس ٹرینگ کے ذریعے غیر مستحکم کرنے کی سازش قرار دیا ہے اور اپنی اتحادی جماعت پیپلز پارٹی سے استفسار کیا ہے کہ وہ بتائے کہ اس تقرری میں اس کی کس حد تک رضامندی شامل ہے۔ انہوں نے یہ بھی مطالبہ کیا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے جن وفاقی وزراء نے استعفے دیئے ہیں وزیراعظم ان پر کاروائی کرتے ہوئے آگے فارورڈ کریں تاکہ ان کو منطقی انجام تک پہنچایا جاسکے۔ جنرل (ر) پرویز مشرف کی آمریت کا مسلم لیگ (ن) آٹھ سال سے مقابلہ کررہی ہے۔ میاں نوازشریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو وطن واپس نہیں آسکتے وہ انہیں واپس آنے سے تو نہ روک سکے لیکن 18فروری کو دیئے جانے والے عوامی مینڈیٹ کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں۔ فی الحال سلمان تاثیر کی بطور گورنر تقرری کا مقصد یہاں گورنر راج قائم کرنا نظر نہیں آرہا تاہم پنجاب حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی سازش ضرور ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) پیپلز پارٹی کی اتحادی ہے لیکن ہمیں اس تعیناتی میں اعتماد میں نہیں لیا گیا جس پر نہ صرف ہم احتجاج کرتے ہیں بلکہ پیپلز پارٹی سے وضاحت بھی چاہتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) اس قدر کمزور نہیں ہے کہ ایک متنازع شخص گورنر بن کر سب سے بڑے صوبے پنجاب کے عوام کے مینڈیٹ کو روند سکے ۔ ہم اس کا بھرپور مقابلہ کریں گے اور ہمارے نزدیک سلمان تاثیر کا بھی وہی سٹیٹس ہوگا جو اس کے پیش رو کا تھا۔ ایسے اقدامات پر مسلم لیگ (ن) اشتعال میں نہیں آئے گی کیونکہ ہم ملک میں غیر یقینی کیفیت پیدا نہیں کرنا چاہتے اور چھوٹی چھوٹی باتوں کو اتحاد کے ٹوٹنے کی وجہ نہیں بنائیں گے۔ اس سوال پر کہ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین معزول ججوں کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں قرار داد پیش کرکے بحال کرنے کی بات کررہے ہیں کیا یہ مسلم لیگ (ن) کیلئے قابل قبول ہوگا انہوں نے کہا کہ جب یہ بات ٹیبل پر آئے گی تو دیکھیں گے اور گورنر پنجاب کی تعیناتی سے متعلق بھی پیپلز پارٹی کا موقف سامنے آنے کے بعد اپنے موقف کی مزید وضاحت کریں گے۔ اگر پیپلز پارٹی سمیت اتحادی جماعتوں کے تحفظات دور ہوجائیں جنرل (ر) پرویز مشرف ایک دن کیلئے بھی صدر نہیں رہ سکتے 18فروری کو مشرف کے خلاف عوامی مینڈیٹ کے باوجود ابھی تک 18فروری سے پہلے والی پالیسیاں ہی جاری ہیں۔ باجوڑ اور وزیرستان پر اسی طرح بمباری ہورہی ہے۔ گمشدہ افراد، ڈاکٹر قدیر خان کے حوالے سے بھی وہی پالیسی موجود ہے۔ جس پر مسلم لیگ (ن) کا واضح موقف ہے جس سے سب آگاہ ہیں۔ جنرل (ر) پرویز مشرف کی رخصتی کے بغیر پاکستان میں استحکام پیدا نہیں ہوسکتا اور نہ ہی غیر ملکی دباو¿ میں کمی آسکتی ہے۔ ا پرویز مشرف سلمان تاثیر جیسے متنازع شخص کو جو کسی بھی بڑے عہدے پر فائز ہونے کا اہل نہیں ہے کو گورنر پنجاب بنا کر ایک تیر سے دو شکار کرنا چاہتے ہیں۔ ایک جانب وہ پنجاب حکومت کو غیر مستحکم کرنا چاہتے ہیں تو دوسری طرف پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان دوریاں پیدا کرنا چاہتے ہیں لیکن مسلم لیگ (ن) اشتعال میں نہیں آئے گی اور اتحاد میں رہتے ہوئے ججوں کی بحالی کیلئے تحریک بھی چلائے گی اور ملکی اداروں اور وفاقی حکومت کو غیر مستحکم بھی نہیں ہونے دے گی۔ پرویز مشرف ایک بار پھر سر اٹھانے لگے ہیں اور ق لیگ کی قیادت تبدیل کرکے نئے منصوبے بنا رہے ہیں جنہیں کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا۔ جبکہ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات شیری رحمان نے کہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی جانب سے استعفوں کے بعد خالی وزارتوں پر بعض وزراء کو اضافی چارج اپنے اور سلیمان تاثیر کی بطور گورنر پنجاب نامزدگی سے قبل مسلم لیگ (ن) کو باقاعدہ اعتماد میں لیا گیا تھا اور چوہدری نثار علی خان کو شاید اس بارے میں معلومات نہ ہوں اس لئے انہوں نے تحفظات کا اظہار کیاہے شریں رحمان نے کہاکہ سینیٹر آصف علی زرداری نے میاں شہباز شریف سے رابطہ کر کے اس بارے میں باقاعدہ اعتماد میں لیا تھا اور مسلم لیگ (ن) کی خالی نشستوں پر دیا جانے والا اضافی چارج بجٹ تک ہے ہماری مسلم لیگ (ن) سے ورکنگ ریلیشن شپ چل رہی ہے اور امید ہے کہ وہ بہت جلد یہ تمام وزارتیں واپس لے لے گی۔حکومت نے پاکستان مسلم لیگ(ن) کے مستعفی و زراء کے محکمے پاکستان پیپلزپارٹی کے وزراءکو سونپ دئیے ہیں ۔ وزیراعظم کے لیے اقتصادی امور اور سماجی بہبود کے حوالے سے دو خاتون معاون خصوصی کی حیثیت سے تعینات کی گئی ہیں۔ کابینہ ڈویڑن کی جانب سے گزشتہ جمعرات کو جاری نوٹیفکیشن کے مطابق حکومت پاکستا ن نے مسلم لیگ(ن) کے وزراء کے استعفوں سے خالی ہونے والی وزارتوں کے اضافی چارج اپنے بعض وزراء کو دے دئیے ہیں ۔جن میں وزیر نجکاری وسرمایہ کاری کمیشن نوید قمر کو وزارت خزانہ ، وزیر دفاع احمد مختار کو تجارت، وفاقی وزیر اطلاعات شیری رحمان کو ترقی نسواں ، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو پٹرولیم وقدرتی وسائل ، وزیر محنت وافرادی قوت سید خورشید شاہ کو وزارت تعلیم جبکہ وزیر انسدادمنشیات نذیر گوندل کو خوراک وزراعت کی وزارت کا اضافی چارج دیا گیا ہے۔ حکومت نے خاتون ایم این اے حنا ربانی کھر کو اقتصادی امور جبکہ شہناز وزیر علی کو سماجی بہبود کے لیے وزیراعظم کا معاون خصوصی مقرر کیا ہے۔اعتزاز احسن نے کہا ہے کہ افتخار محمد چوہدری کے بغیر آزاد عدلیہ کا وجود نا ممکن ہے نہ ہی عدلیہ کو آزاد وخود مختار تصور کیا جاسکتا ہے ۔ صدر پرویز مشرف کے تین نومبر کے اقدامات قطعی غیر قانونی و غیر آئینی تھے کسی ایک شخص کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ عدلیہ کے امور میں مداخلت کر ے کہ چیف جسٹس کو محبوس کرے اسے حراست میں رکھے ۔ یہ پرویز مشرف کے یہ تمام مجرمانہ اقدامات تھے ان کے خلاف وکلاء نے اپنی تحریک جاری رکھی ہے اس تحریک کا پہلا مرحلہ 9مارچ20جولائی 2007 تک تھا جس میں کامیابی ہوئی جس میں 7ججوں کے پینل نے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے حق میں فیصلہ دیا ۔ تحریک کا دوسرا مرحلہ بھی کامیاب رہا۔ وکلاء نے اس تحریک میں اپنے سرتڑوائے18فروری کو صدر پرویز مشرف کو عوام نے مسترد کر دیا اس مرحلے میں صدر پرویز مشرف کو 270کے ایوان سے صرف 40سیٹیں ملیں۔ اب ہم تیسری کامیابی کی طرف گامزن ہیں اس تیسرے سفر پر بھوربن کا معاہدہ ہماری کامیابی تھی جس میں عدلیہ کی بحالی کا وعدہ کیا تاہم بدقسمتی سے یہ پورا نہ ہو سکا جس میں پارلیمانی قرار داد سے ججز کو بحال ہونا تھا وکلاء کی کمیٹی نے 24 اپریل کو متفقہ طور پر مجھے کہا کہ میں ضمنی انتخاب میں حصہ لوں یہ میرے دوستوں ، ساتھیوں کی خواہش تھی راولپنڈی بار نے بھی قرار داد منظور کی کہ میں الیکشن میں حصہ لوں اور وہ میری سپورٹ کریں گے دیگر بار نے بھی میری حمایت کی ۔ میں نے پہلے بھی کہا کہ میں نے الیکشن میں حصہ لیا تو پیپلز پارٹی کے پلیٹ فارم سے لوں گا ۔ نواز شریف کا بھی شکر گزار ہوں کہ انہوں نے مجھے یہ سیٹ فراہم کی میری کلاء کے ساتھ وابستگی اٹل اور کسی قسم کی لچک کے بغیر رہے گی اس میں کوئی مصلحت دخل انداز نہیں ہو گی وکلاءکی تحریک میں شامل ہونا بھی پڑا تو الیکشن کی وجہ سے فرصت لے کر تحریک میں پہنچوں گا میں شرم الیشخ جانا تھا مجھے اس میں ذاتی حیثیت سے مجھے بلایا گیا تھا پاکستان میں سرکاری حیثیت سے بلایا گیا تھا لیکن سترہ تاریخ کی ” لائرز کانفرنس“ کی وجہ سے شرم الشیخ نہیں جارہا کیونکہ یہ اہم کانفرنس ہے بنکاک میں مجھے اورمنیر اے ملک کو ایوارڈ دیا گیا ہے وہ بھی لینے کیلئے نہیں جارہا۔وکلاء اور ججوں کی بحالی کے حوالے سے وکلاء کے ساتھ میری وابستگتی مکمل رہے گی انتخابات کے ساتھ ساتھ وکلاء تحریک بھی میرے لئے نہات اہم ہے عدلیہ کی بحالی سے متعلق میرے خیالات و وابستگی واضح ہے ۔9مارچ 2007ء کے بعد میں اس تحریک کے ساتھ ہوں ۔وکلاء کی تحریک اور چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری کی بحالی لئے پر عزم ہوں ۔ اس وقت تک یہ تحریک جاری رہے گی جب تک ججز بحال نہیں ہوتے میرے انتخابات لڑنے یا نہ لڑنے کافیصلہ 17 مئی کی آل لائئرز ری پریذینٹڈ فورم میں ہو گا میں اس کانفرنس کے کسی بھی فیصلے کا پابند ہوں گا۔ مجھ پر وکلاء کی ترجمانی کرنے کی ذمہ داری ہے جس سے کسی صورت سبکدوش نہیں ہوں گا یہاں ججوں کی بحالی کے کاز کا حلف اٹھا کر الیکشن میں حصہ لوں گا ۔ پارٹی سے چالیس سال سے وابستگی ہے اسے نہیں چھوڑوں گااختلاف ضرور ہیں لیکن پارٹی کے کارکنوں کے ساتھ زمین پر سویا ہوں ، لاٹھیاں کھائی ہیں ، جیلو ںمیں قید رہا ہوں ، رضا ربانی کے ساتھ ڈنڈے کھائے ہیں پیپلز پارٹی کا کارکن سونے کے مانندہے ان کارکنوں کو نہیں چھوڑ گا آج تک حلقہ 124کے و رکروں کا احسان نہیں بھول سکا اب حلقہ 55سے الیکشن میں حصہ لے رہا ہوں وفادار رہوں گا۔9مارچ اور تیرہ مارچ کو جب چیف جسٹس کے ساتھ چلا تھا اس وقت بھی پیپلز پارٹی کا کارکن تھا جب 88گھنٹے چیف جسٹس کیس کی سماعت میں حصہ لیا اس وقت بھی پیپلز پارٹی کا کارکن تھا جب پرویز مشرف کی طرف سے مائنس ون کے فارمولے کی آفر آتی رہیں اس وقت بھی پیپلز پارٹی کا کارکن تھا انہوں نے کہاکہ وکلاء کوئی پارٹی نہیں ہیں جماعت سے تعلق رکھتے ہیں ۔ پیپلز پارٹی مسلم لیگ (ن) سے بھی تعلق رکھتے ہیں ۔ امریکن سول سوسائٹی نے چیف جسٹس کا بھرپور ساتھ دیا ہے دس امریکن یونیورسٹیوں نے چیف جسٹس کو اعزازی ڈگری دی ہے جبکہ امریکن بار ایسوسی ایشن نے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے وکلاء سمیت ججز کو ایوارڈ دئیے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ بار ایسوسی ایشن اور وکلاء کی تحریک میں کسی بھی بیرونی ملک کا جھنڈا نہیں جلنا چاہیے تمام بیرونی ممالک نے ہماری تحریک کا ساتھ دیا ہے امریکہ کی عوام ہمارے ساتھ ہے تاہم صدر بش انتظامیہ ہمارے خلاف ہے کیونکہ یہ پرویز مشرف کی حمایتی ہے یورپ کے 7لاکھ وکلاء نے چیف جسٹس کے ساتھ اظہار ہمدردی کیلئے عدالتوں کا بائیکاٹ کیا میڈیا نے ہماری تحریک کا بھرپور ساتھ دیا اس حوالے سے امریکن سوسائٹی اور وکلاء کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں ۔میری استدعا ہے کہ ججز کی بحالی کے حوالے سے وکلاء کی تحریک میں کسی بھی بیرونی ملک کا پرچم نہیں جلنا چاہیے۔ایوان صدر نے 3 نومبر 2007 کو معزول کئے گئے ججوں کی از سر نو تقرری کی تجاویز کو حتمی شکل دے دی ہے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو بحال نہ کرنے کا فیصلہ کر لیاگیا ہے۔ایک نجی ٹی وی چینل نے اپنے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ صدر پرویز مشرف نے آج ایوان صدر میں ججوں کی از سر نو تقرری کے حوالے سے معاملات کو حتمی شکل دی ہے۔ وہاں موجودہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر، جسٹس فقیر محمد کھوکھر، شریف الدین پیرزادہ، اٹارنی جنرل ملک قیوم موجود تھے۔ صدر مشرف نے ان شرکاء کی مشاورت سے معاملات طے کئے۔ ذرائع کے مطابق نیشنل سیکورٹی کونسل کے سیکریٹری طارق عزیز اور گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد بھی وہاں موجود تھے۔ٹی وی چینل نے اپنی رپورٹ میں مزید بتایا ہے کہ ایوان صدر کے ترجمان سے بارہا رابطہ کیا لیکن ان کی جانب سے کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ سپریم کورٹ کے رجسٹرار نے اس کے بارے میں لاعلمی کا اظہار کیا اور چیف جسٹس کے سیکریٹری کا کہنا تھا کہ رجسٹرار کے بیان پر اکتفا کیا جائے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان اختلاف رائے ضرور ہے تاہم دونوں جماعتیں ججز کی بحالی چاہتی ہیں ججز ضرور بحال ہو نے چاہیے تاکہ قوم جلد خوشخبری سنے اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے خدشات کو دور کیاجائے ۔ ان کے وزراء کی حکومت کے ساتھ بہتر ورکنگ ریلیشن شپ تھی جناب آصف زرداری کو بھرپورکوشش کرنی ہوگی کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے وزراء جلد وفاقی کابینہ میں واپس آجائیں اگرچہ ان کا نواز شریف سے مسلسل رابطہ ہے صرف ججز کی بحالی کے حوالے سے طریقے کار پر اختلاف ہے۔58ٹو بی کے حوالے سے 58ٹوبی کو ضرور ختم کریں تاہم جب تک یہ آرٹیکل ختم نہیں ہوتا صدر کے ساتھ تلخ تعلقات مہنگے پڑ سکتے ہیں صدر پرویز مشرف کے ساتھ ورکنگ ریلیشن بھی ضروری ہے۔ تاکہ فوری طور پر عوام کو درپیش مسائل کا حل نکا لا جائے۔ جب بھی دو تہائی اکثریت حاصل ہو گی اٹھاون ٹو بی کو ختم کر د یا جائے ۔ گزشتہ شب صوبہ سرحد کے قبائلی علاقے ڈاما ڈولا میں ہونے والے حملے کی عوام نے مزمت کی ہے کہ پاکستان کی خود مختاری کے خلاف کئی معصوم جانیں ضائع ہوئی ہیں ۔ بحرانو ںکے حوالے سے عوام اس بات کو جانتی ہے کہ یہ بحران ورثے میں ملے ہیں لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ سابقہ دور حکومت میں غیر ملکی قرضے سے جیبیں بھر نے والے حکمرانوں کا احتساب کیا جائے۔ ہمیں ملک سے کرپشن کو جڑ سے اکھاڑ پھیکنا ہوگا اور اس حوالے سے نیب کے مو جودہ چیئر مین نوید احسن بھی انتہائی دیانت دار اور تجربہ کار سول سرونٹ ہیں۔ پچھلے د نوں کچھ و جوہات سے این آ ر او کا قا نون آیا اس سے نیب کی کر یڈیبلٹی متاثر ہوئی لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ این آر او نیب سے با لا تر ایک چیز ہے اور اس کی ایک حثیت کمپرو مائز کی ہے جو کہ اوپر کی سطح پر ایک سیاسی سیٹل منٹ کے طور پر وجود میں آیا اور اب ملک کے اعلی پالیسی سازوں پر ہے کہ کرپشن کے خلاف موجودہ نیب کو کتنا مضبوط کرتے ہیں اور یہ بات با لکل واضح ہے کہ اگر پو لٹیکل ول موجود ہو تو کرپشن کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ بات ہو رہی تھی عوامی مسائل کی جب عوام موجود ہ حکمرانوں کو ووٹ دے رہے تھے انہیں معلوم تھاکہ یہ بحران سابق حکومت کے پیداکردہ ہیں بحرانوں سے نکلنے کیلئے اب انھیںبھرپور کام کرنا ہوگا باتوں سے عوام کا پیٹ نہیں بھر ا جا سکتا اس کےلئے ضروری ہے کہ حکومت کی تمام تر کوششیں عوامی مسائل کے حل کیلئے ہوں بجٹ میں عوام کو ضرور ریلیف فراہم کیا جا ئے ۔وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی جیل میں رہ چکے ہیں اور وہ بھی بجلی کی بچت کے حامی ہیں گرمی اگر عوام براشت کرسکتے ہیں تو حکمران کیوںنہیں برداشت کر سکتے۔ وفاقی کابینہ کے فیصلے پر سب کو یکساںعملدر آمد کرنا ہوگا وزیراعظم ہاو¿س اور وزیراعظم سیکرٹریٹ میں بھی ایئر کنڈیشنڈ بند ر کھنا ہوں گے وزیر اعظم جیل کاٹ چکے ہیں اور گرمی برداشت کرنے کے ویسے بھی عادی ہیں۔امریکی طیاروں کی جانب سے بدھ کی شام باجوڑ کے علاقے ڈمہ ڈولا میں میزائل حملے میں 20افراد اور مسجد کی شہادت کے خلاف اسٹوڈنٹس الائنس جامعہ اردو گلشن اقبال کیمپس کے تحت احتجاجی مظاہرہ کیا گیاطلبہ رہنماو¿ں نے کہا کہ باجوڑ پر حملہ امت مسلمہ کی بقا و سالمیت پر حملہ ہے۔ہم حکمرانوں کو جھنجھوڑ کر جگانا چاہتے ہیں اور انہیں یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ملک میں امریکی مداخلت کو ختم کیا جائے ورنہ یہ ہمارے ملک کی سودے بازی کے ساتھ ساتھ پوری امت کے ساتھ غداری تصورکی جائے گی ۔مقررین نے کہا کہ امریکہ پاکستان کو اپنی کالونی نہ سمجھے طلبہ پاکستان اور امت مسلمہ کے تحفظ کیلئے تیار ہیں اور اس مقصد کی خاطر جانوں کے نذرانے پیش کرنے کیلئے تیار ہیں ۔مقررین نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ امریکہ کی اس مذموم حرکت کا فی الفور جواب دیا جائے ۔ جبکہ جماعت اسلامی نے باجوڑ ایجنسی ڈمہ ڈولہ میں امریکی حملے کے خلاف کل پشاور سمیت صوبہ سرحد میں احتجاجی مظاہروں اور ہڑتال کا اعلان کر تے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا ہے یہ باجوڑ پر امریکہ کا تیسرا حملہ ہے اور تیسرے حملے میں مولانا عبید اللہ کے گھر پر حملہ کر کے مسلمانوں کا قتل عام کیاگیا حکمران امریکہ سے باجوڑ حملے کے خلاف احتجاج کریں اور خون کے ایک ایک قطرے کا حساب لیا جائے حکمران طبقہ خود بلٹ پروف گاڑیوں میں سفر کرتا ہے اور ان کو سیکورٹی کی تمام تر سہولیات مہیا ہیں لیکن بے گناہ عوام کا کوئی تحفظ نہیں ہے دوسری جانب بازاروں میں آٹا دستیاب نہیں ،لوڈ شیڈنگ کا بحران ہے اور مجموعی طور پر قوم ایک عذاب میں مبتلا ہو چکی ہے ۔حکومت کے پاس گیارہ لاکھ فوج موجود ہے اور ایٹمی طاقت بھی ہے لیکن یہ سب ہمارے کس وقت کام آئیں گے پچھلے حملے میں 83بچے شہید ہوئے تھے ان بے گناہ بچوں کے قتل عام کے خلاف عدالت میں کیس جمع کئے لیکن آج تک ہماری عدلیہ نے جواب نہیںد یا سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ قوم کے اندر جذبہ پیدا کریں کیونکہ حکمران عوام کا تحفظ نہیں کر سکتے حکمرانوں کو بحرانوں سے نکلنے کے لئے ایک واضح لائحہ عمل اختیار کرنا چاہیے اور اگر حکمرانوں کے پاس مسائل کا حل نہیں تو وہ مستعفی ہو جائیں ۔ جبکہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں محمد نواز شریف اور ان کے بھتیجے و میاں شہباز شریف کے صاحبزادے حمزہ شہباز کے قومی اسمبلی کے حلقہ 123 سے ضمنی الیکشن لڑنے کیلئے کاغذات نامزدگی منظور کرلئے گئے ہیں مخالفین نے جو الزامات لگائے تھے بدنیتی پر مبنی اور جھوٹے تھے جسے ریٹرننگ آفیسر نے مسترد کردیا ہے۔ عدالت کا یہ فیصلہ تاریخی اہمیت کا حامل ہے ۔ جبکہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہبازشریف کے صوبائی اسمبلی کے حلقہ 154سے ضمنی الیکشن لڑنے کیلئے کاغذات نامزدگی منظور کرلئے گئے۔ ریٹرننگ آفیسر ابراہیم اصغر نے مخالف امیدواروں کے تمام اعتراضات مسترد کرتے ہوئے میاں شہبازشریف کو الیکشن لڑنے کا اہل قرار دے دیا ہے ۔ تفصیلات کے مطابق میاں شہبازشریف جو وزیراعلی پنجاب کے بھی امیدوار ہیں کے پی پی 154سے کاغذات نامزدگر پر مسلم لیگ (ق) کے اخلاق گڈو اور نور الہی نے اعتراضات داخل کئے تھے اور الزام لگایا تھا کہ میاں شہبازشریف بینک نادہندہ ہیں۔ سپریم کورٹ حملہ کیس میں ملوث ہونے کے علاوہ وہ 14اپریل کو رائے ونڈ میں پریس کانفرنس میں بھی توہین عدالت کے مرتکب ہوئے جس کی ویڈیو عدالت کو فراہم کی گئی لیکن عدالت نے یہ تمام الزامات مسترد کرتے ہوئے محفوظ کیا گیا اپنا فیصلہ سنایا اور میاں شہبازشریف کو الیکشن لڑنے کا اہل قرار دیدیا۔ دیکھتے ہیں آگے آگے ہوتا ہے کیا فاضل تجزیہ کاروں کے مطابق اس ملک میں اچھی بھلی مثبت اصطلاحات کے ساتھ جو سلوک ہوا وہ سکندر نے پورس کے ساتھ بھی نہیں کیا ہوگا۔مثلاً ایوب خان نے جو حشر صنعتی انقلاب کی اصطلاح کا کیا، یحیٰی خان نے جو سلوک نظر یہ پاکستان کے ساتھ کیا، ضیاء الحق نے جو ہاتھ اسلامی نظام کے نام پر کیا، پرویز مشرف نے جو کچھ اعتدال پسندی اور روشن خیالی کے ساتھ کیا کم و بیش ویسا ہی کچھ آج کل قومی مفاہمت کی اصطلاح کے ساتھ ہو رہا ہے۔ اے پی ایس
International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.
Friday, May 16, 2008
بے بس عوام اور بے بس حکمراں ۔۔۔ تحریر : اے پی ایس،اسلام آباد
پاکستا ن کے عوام آٹا ، بجلی،پانی، مہنگائی،بے روز گاری اور نا انصافی سے تنگ آ چکے ہیں اور اس وقت بے بس اور مجبور عوام کا جانوروں سے بھی برا حال ہے۔ عوام حکمرانوں کے بارے اندازے لگاتے ہیں کہ سابقہ حکمراں تو عوام کے حق میں تھے برے لیکن مو جودہ بھی مشکوک ہیں عوام کے خیال میں کہ اگر حکومت چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کوبحال نہیں کر سکی تو با قی اس نے کیا تیر چلا لئے ہیں موجودہ حکومت نگراں حکومت سے بھی گئی گزری ہے عوام نے جناب آصف زرداری سے بھی گزارش کی ہے کہ آپ کے نزدیک ججز سے زیادہ بے چاری اور بھوکی ننگی عوام کیلئے روٹی ، کپڑا ور مکان زیادہ ضروری ہے تو اس ضمن میں فی الفور آپ نے عوام کیلئے کیا کیا ہے۔ عوام تو یہی سمجھ رہے ہیں کہ مشرف،زرداری اور نواز شریف ملے ہوئے ہیں اور عوام کو بے و قوف بنا رہے ہیں ۔جبکہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما وسینئر وفاقی وزیر چودھری نثار علی خان نے سلمان تاثیر کی بطور گورنر پنجاب تعیناتی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے پنجاب حکومت کو ہارس ٹرینگ کے ذریعے غیر مستحکم کرنے کی سازش قرار دیا ہے اور اپنی اتحادی جماعت پیپلز پارٹی سے استفسار کیا ہے کہ وہ بتائے کہ اس تقرری میں اس کی کس حد تک رضامندی شامل ہے۔ انہوں نے یہ بھی مطالبہ کیا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے جن وفاقی وزراء نے استعفے دیئے ہیں وزیراعظم ان پر کاروائی کرتے ہوئے آگے فارورڈ کریں تاکہ ان کو منطقی انجام تک پہنچایا جاسکے۔ جنرل (ر) پرویز مشرف کی آمریت کا مسلم لیگ (ن) آٹھ سال سے مقابلہ کررہی ہے۔ میاں نوازشریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو وطن واپس نہیں آسکتے وہ انہیں واپس آنے سے تو نہ روک سکے لیکن 18فروری کو دیئے جانے والے عوامی مینڈیٹ کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں۔ فی الحال سلمان تاثیر کی بطور گورنر تقرری کا مقصد یہاں گورنر راج قائم کرنا نظر نہیں آرہا تاہم پنجاب حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی سازش ضرور ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) پیپلز پارٹی کی اتحادی ہے لیکن ہمیں اس تعیناتی میں اعتماد میں نہیں لیا گیا جس پر نہ صرف ہم احتجاج کرتے ہیں بلکہ پیپلز پارٹی سے وضاحت بھی چاہتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) اس قدر کمزور نہیں ہے کہ ایک متنازع شخص گورنر بن کر سب سے بڑے صوبے پنجاب کے عوام کے مینڈیٹ کو روند سکے ۔ ہم اس کا بھرپور مقابلہ کریں گے اور ہمارے نزدیک سلمان تاثیر کا بھی وہی سٹیٹس ہوگا جو اس کے پیش رو کا تھا۔ ایسے اقدامات پر مسلم لیگ (ن) اشتعال میں نہیں آئے گی کیونکہ ہم ملک میں غیر یقینی کیفیت پیدا نہیں کرنا چاہتے اور چھوٹی چھوٹی باتوں کو اتحاد کے ٹوٹنے کی وجہ نہیں بنائیں گے۔ اس سوال پر کہ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین معزول ججوں کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں قرار داد پیش کرکے بحال کرنے کی بات کررہے ہیں کیا یہ مسلم لیگ (ن) کیلئے قابل قبول ہوگا انہوں نے کہا کہ جب یہ بات ٹیبل پر آئے گی تو دیکھیں گے اور گورنر پنجاب کی تعیناتی سے متعلق بھی پیپلز پارٹی کا موقف سامنے آنے کے بعد اپنے موقف کی مزید وضاحت کریں گے۔ اگر پیپلز پارٹی سمیت اتحادی جماعتوں کے تحفظات دور ہوجائیں جنرل (ر) پرویز مشرف ایک دن کیلئے بھی صدر نہیں رہ سکتے 18فروری کو مشرف کے خلاف عوامی مینڈیٹ کے باوجود ابھی تک 18فروری سے پہلے والی پالیسیاں ہی جاری ہیں۔ باجوڑ اور وزیرستان پر اسی طرح بمباری ہورہی ہے۔ گمشدہ افراد، ڈاکٹر قدیر خان کے حوالے سے بھی وہی پالیسی موجود ہے۔ جس پر مسلم لیگ (ن) کا واضح موقف ہے جس سے سب آگاہ ہیں۔ جنرل (ر) پرویز مشرف کی رخصتی کے بغیر پاکستان میں استحکام پیدا نہیں ہوسکتا اور نہ ہی غیر ملکی دباو¿ میں کمی آسکتی ہے۔ ا پرویز مشرف سلمان تاثیر جیسے متنازع شخص کو جو کسی بھی بڑے عہدے پر فائز ہونے کا اہل نہیں ہے کو گورنر پنجاب بنا کر ایک تیر سے دو شکار کرنا چاہتے ہیں۔ ایک جانب وہ پنجاب حکومت کو غیر مستحکم کرنا چاہتے ہیں تو دوسری طرف پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان دوریاں پیدا کرنا چاہتے ہیں لیکن مسلم لیگ (ن) اشتعال میں نہیں آئے گی اور اتحاد میں رہتے ہوئے ججوں کی بحالی کیلئے تحریک بھی چلائے گی اور ملکی اداروں اور وفاقی حکومت کو غیر مستحکم بھی نہیں ہونے دے گی۔ پرویز مشرف ایک بار پھر سر اٹھانے لگے ہیں اور ق لیگ کی قیادت تبدیل کرکے نئے منصوبے بنا رہے ہیں جنہیں کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا۔ جبکہ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات شیری رحمان نے کہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی جانب سے استعفوں کے بعد خالی وزارتوں پر بعض وزراء کو اضافی چارج اپنے اور سلیمان تاثیر کی بطور گورنر پنجاب نامزدگی سے قبل مسلم لیگ (ن) کو باقاعدہ اعتماد میں لیا گیا تھا اور چوہدری نثار علی خان کو شاید اس بارے میں معلومات نہ ہوں اس لئے انہوں نے تحفظات کا اظہار کیاہے شریں رحمان نے کہاکہ سینیٹر آصف علی زرداری نے میاں شہباز شریف سے رابطہ کر کے اس بارے میں باقاعدہ اعتماد میں لیا تھا اور مسلم لیگ (ن) کی خالی نشستوں پر دیا جانے والا اضافی چارج بجٹ تک ہے ہماری مسلم لیگ (ن) سے ورکنگ ریلیشن شپ چل رہی ہے اور امید ہے کہ وہ بہت جلد یہ تمام وزارتیں واپس لے لے گی۔حکومت نے پاکستان مسلم لیگ(ن) کے مستعفی و زراء کے محکمے پاکستان پیپلزپارٹی کے وزراءکو سونپ دئیے ہیں ۔ وزیراعظم کے لیے اقتصادی امور اور سماجی بہبود کے حوالے سے دو خاتون معاون خصوصی کی حیثیت سے تعینات کی گئی ہیں۔ کابینہ ڈویڑن کی جانب سے گزشتہ جمعرات کو جاری نوٹیفکیشن کے مطابق حکومت پاکستا ن نے مسلم لیگ(ن) کے وزراء کے استعفوں سے خالی ہونے والی وزارتوں کے اضافی چارج اپنے بعض وزراء کو دے دئیے ہیں ۔جن میں وزیر نجکاری وسرمایہ کاری کمیشن نوید قمر کو وزارت خزانہ ، وزیر دفاع احمد مختار کو تجارت، وفاقی وزیر اطلاعات شیری رحمان کو ترقی نسواں ، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو پٹرولیم وقدرتی وسائل ، وزیر محنت وافرادی قوت سید خورشید شاہ کو وزارت تعلیم جبکہ وزیر انسدادمنشیات نذیر گوندل کو خوراک وزراعت کی وزارت کا اضافی چارج دیا گیا ہے۔ حکومت نے خاتون ایم این اے حنا ربانی کھر کو اقتصادی امور جبکہ شہناز وزیر علی کو سماجی بہبود کے لیے وزیراعظم کا معاون خصوصی مقرر کیا ہے۔اعتزاز احسن نے کہا ہے کہ افتخار محمد چوہدری کے بغیر آزاد عدلیہ کا وجود نا ممکن ہے نہ ہی عدلیہ کو آزاد وخود مختار تصور کیا جاسکتا ہے ۔ صدر پرویز مشرف کے تین نومبر کے اقدامات قطعی غیر قانونی و غیر آئینی تھے کسی ایک شخص کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ عدلیہ کے امور میں مداخلت کر ے کہ چیف جسٹس کو محبوس کرے اسے حراست میں رکھے ۔ یہ پرویز مشرف کے یہ تمام مجرمانہ اقدامات تھے ان کے خلاف وکلاء نے اپنی تحریک جاری رکھی ہے اس تحریک کا پہلا مرحلہ 9مارچ20جولائی 2007 تک تھا جس میں کامیابی ہوئی جس میں 7ججوں کے پینل نے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے حق میں فیصلہ دیا ۔ تحریک کا دوسرا مرحلہ بھی کامیاب رہا۔ وکلاء نے اس تحریک میں اپنے سرتڑوائے18فروری کو صدر پرویز مشرف کو عوام نے مسترد کر دیا اس مرحلے میں صدر پرویز مشرف کو 270کے ایوان سے صرف 40سیٹیں ملیں۔ اب ہم تیسری کامیابی کی طرف گامزن ہیں اس تیسرے سفر پر بھوربن کا معاہدہ ہماری کامیابی تھی جس میں عدلیہ کی بحالی کا وعدہ کیا تاہم بدقسمتی سے یہ پورا نہ ہو سکا جس میں پارلیمانی قرار داد سے ججز کو بحال ہونا تھا وکلاء کی کمیٹی نے 24 اپریل کو متفقہ طور پر مجھے کہا کہ میں ضمنی انتخاب میں حصہ لوں یہ میرے دوستوں ، ساتھیوں کی خواہش تھی راولپنڈی بار نے بھی قرار داد منظور کی کہ میں الیکشن میں حصہ لوں اور وہ میری سپورٹ کریں گے دیگر بار نے بھی میری حمایت کی ۔ میں نے پہلے بھی کہا کہ میں نے الیکشن میں حصہ لیا تو پیپلز پارٹی کے پلیٹ فارم سے لوں گا ۔ نواز شریف کا بھی شکر گزار ہوں کہ انہوں نے مجھے یہ سیٹ فراہم کی میری کلاء کے ساتھ وابستگی اٹل اور کسی قسم کی لچک کے بغیر رہے گی اس میں کوئی مصلحت دخل انداز نہیں ہو گی وکلاءکی تحریک میں شامل ہونا بھی پڑا تو الیکشن کی وجہ سے فرصت لے کر تحریک میں پہنچوں گا میں شرم الیشخ جانا تھا مجھے اس میں ذاتی حیثیت سے مجھے بلایا گیا تھا پاکستان میں سرکاری حیثیت سے بلایا گیا تھا لیکن سترہ تاریخ کی ” لائرز کانفرنس“ کی وجہ سے شرم الشیخ نہیں جارہا کیونکہ یہ اہم کانفرنس ہے بنکاک میں مجھے اورمنیر اے ملک کو ایوارڈ دیا گیا ہے وہ بھی لینے کیلئے نہیں جارہا۔وکلاء اور ججوں کی بحالی کے حوالے سے وکلاء کے ساتھ میری وابستگتی مکمل رہے گی انتخابات کے ساتھ ساتھ وکلاء تحریک بھی میرے لئے نہات اہم ہے عدلیہ کی بحالی سے متعلق میرے خیالات و وابستگی واضح ہے ۔9مارچ 2007ء کے بعد میں اس تحریک کے ساتھ ہوں ۔وکلاء کی تحریک اور چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری کی بحالی لئے پر عزم ہوں ۔ اس وقت تک یہ تحریک جاری رہے گی جب تک ججز بحال نہیں ہوتے میرے انتخابات لڑنے یا نہ لڑنے کافیصلہ 17 مئی کی آل لائئرز ری پریذینٹڈ فورم میں ہو گا میں اس کانفرنس کے کسی بھی فیصلے کا پابند ہوں گا۔ مجھ پر وکلاء کی ترجمانی کرنے کی ذمہ داری ہے جس سے کسی صورت سبکدوش نہیں ہوں گا یہاں ججوں کی بحالی کے کاز کا حلف اٹھا کر الیکشن میں حصہ لوں گا ۔ پارٹی سے چالیس سال سے وابستگی ہے اسے نہیں چھوڑوں گااختلاف ضرور ہیں لیکن پارٹی کے کارکنوں کے ساتھ زمین پر سویا ہوں ، لاٹھیاں کھائی ہیں ، جیلو ںمیں قید رہا ہوں ، رضا ربانی کے ساتھ ڈنڈے کھائے ہیں پیپلز پارٹی کا کارکن سونے کے مانندہے ان کارکنوں کو نہیں چھوڑ گا آج تک حلقہ 124کے و رکروں کا احسان نہیں بھول سکا اب حلقہ 55سے الیکشن میں حصہ لے رہا ہوں وفادار رہوں گا۔9مارچ اور تیرہ مارچ کو جب چیف جسٹس کے ساتھ چلا تھا اس وقت بھی پیپلز پارٹی کا کارکن تھا جب 88گھنٹے چیف جسٹس کیس کی سماعت میں حصہ لیا اس وقت بھی پیپلز پارٹی کا کارکن تھا جب پرویز مشرف کی طرف سے مائنس ون کے فارمولے کی آفر آتی رہیں اس وقت بھی پیپلز پارٹی کا کارکن تھا انہوں نے کہاکہ وکلاء کوئی پارٹی نہیں ہیں جماعت سے تعلق رکھتے ہیں ۔ پیپلز پارٹی مسلم لیگ (ن) سے بھی تعلق رکھتے ہیں ۔ امریکن سول سوسائٹی نے چیف جسٹس کا بھرپور ساتھ دیا ہے دس امریکن یونیورسٹیوں نے چیف جسٹس کو اعزازی ڈگری دی ہے جبکہ امریکن بار ایسوسی ایشن نے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے وکلاء سمیت ججز کو ایوارڈ دئیے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ بار ایسوسی ایشن اور وکلاء کی تحریک میں کسی بھی بیرونی ملک کا جھنڈا نہیں جلنا چاہیے تمام بیرونی ممالک نے ہماری تحریک کا ساتھ دیا ہے امریکہ کی عوام ہمارے ساتھ ہے تاہم صدر بش انتظامیہ ہمارے خلاف ہے کیونکہ یہ پرویز مشرف کی حمایتی ہے یورپ کے 7لاکھ وکلاء نے چیف جسٹس کے ساتھ اظہار ہمدردی کیلئے عدالتوں کا بائیکاٹ کیا میڈیا نے ہماری تحریک کا بھرپور ساتھ دیا اس حوالے سے امریکن سوسائٹی اور وکلاء کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں ۔میری استدعا ہے کہ ججز کی بحالی کے حوالے سے وکلاء کی تحریک میں کسی بھی بیرونی ملک کا پرچم نہیں جلنا چاہیے۔ایوان صدر نے 3 نومبر 2007 کو معزول کئے گئے ججوں کی از سر نو تقرری کی تجاویز کو حتمی شکل دے دی ہے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو بحال نہ کرنے کا فیصلہ کر لیاگیا ہے۔ایک نجی ٹی وی چینل نے اپنے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ صدر پرویز مشرف نے آج ایوان صدر میں ججوں کی از سر نو تقرری کے حوالے سے معاملات کو حتمی شکل دی ہے۔ وہاں موجودہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر، جسٹس فقیر محمد کھوکھر، شریف الدین پیرزادہ، اٹارنی جنرل ملک قیوم موجود تھے۔ صدر مشرف نے ان شرکاء کی مشاورت سے معاملات طے کئے۔ ذرائع کے مطابق نیشنل سیکورٹی کونسل کے سیکریٹری طارق عزیز اور گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد بھی وہاں موجود تھے۔ٹی وی چینل نے اپنی رپورٹ میں مزید بتایا ہے کہ ایوان صدر کے ترجمان سے بارہا رابطہ کیا لیکن ان کی جانب سے کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ سپریم کورٹ کے رجسٹرار نے اس کے بارے میں لاعلمی کا اظہار کیا اور چیف جسٹس کے سیکریٹری کا کہنا تھا کہ رجسٹرار کے بیان پر اکتفا کیا جائے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان اختلاف رائے ضرور ہے تاہم دونوں جماعتیں ججز کی بحالی چاہتی ہیں ججز ضرور بحال ہو نے چاہیے تاکہ قوم جلد خوشخبری سنے اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے خدشات کو دور کیاجائے ۔ ان کے وزراء کی حکومت کے ساتھ بہتر ورکنگ ریلیشن شپ تھی جناب آصف زرداری کو بھرپورکوشش کرنی ہوگی کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے وزراء جلد وفاقی کابینہ میں واپس آجائیں اگرچہ ان کا نواز شریف سے مسلسل رابطہ ہے صرف ججز کی بحالی کے حوالے سے طریقے کار پر اختلاف ہے۔58ٹو بی کے حوالے سے 58ٹوبی کو ضرور ختم کریں تاہم جب تک یہ آرٹیکل ختم نہیں ہوتا صدر کے ساتھ تلخ تعلقات مہنگے پڑ سکتے ہیں صدر پرویز مشرف کے ساتھ ورکنگ ریلیشن بھی ضروری ہے۔ تاکہ فوری طور پر عوام کو درپیش مسائل کا حل نکا لا جائے۔ جب بھی دو تہائی اکثریت حاصل ہو گی اٹھاون ٹو بی کو ختم کر د یا جائے ۔ گزشتہ شب صوبہ سرحد کے قبائلی علاقے ڈاما ڈولا میں ہونے والے حملے کی عوام نے مزمت کی ہے کہ پاکستان کی خود مختاری کے خلاف کئی معصوم جانیں ضائع ہوئی ہیں ۔ بحرانو ںکے حوالے سے عوام اس بات کو جانتی ہے کہ یہ بحران ورثے میں ملے ہیں لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ سابقہ دور حکومت میں غیر ملکی قرضے سے جیبیں بھر نے والے حکمرانوں کا احتساب کیا جائے۔ ہمیں ملک سے کرپشن کو جڑ سے اکھاڑ پھیکنا ہوگا اور اس حوالے سے نیب کے مو جودہ چیئر مین نوید احسن بھی انتہائی دیانت دار اور تجربہ کار سول سرونٹ ہیں۔ پچھلے د نوں کچھ و جوہات سے این آ ر او کا قا نون آیا اس سے نیب کی کر یڈیبلٹی متاثر ہوئی لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ این آر او نیب سے با لا تر ایک چیز ہے اور اس کی ایک حثیت کمپرو مائز کی ہے جو کہ اوپر کی سطح پر ایک سیاسی سیٹل منٹ کے طور پر وجود میں آیا اور اب ملک کے اعلی پالیسی سازوں پر ہے کہ کرپشن کے خلاف موجودہ نیب کو کتنا مضبوط کرتے ہیں اور یہ بات با لکل واضح ہے کہ اگر پو لٹیکل ول موجود ہو تو کرپشن کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ بات ہو رہی تھی عوامی مسائل کی جب عوام موجود ہ حکمرانوں کو ووٹ دے رہے تھے انہیں معلوم تھاکہ یہ بحران سابق حکومت کے پیداکردہ ہیں بحرانوں سے نکلنے کیلئے اب انھیںبھرپور کام کرنا ہوگا باتوں سے عوام کا پیٹ نہیں بھر ا جا سکتا اس کےلئے ضروری ہے کہ حکومت کی تمام تر کوششیں عوامی مسائل کے حل کیلئے ہوں بجٹ میں عوام کو ضرور ریلیف فراہم کیا جا ئے ۔وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی جیل میں رہ چکے ہیں اور وہ بھی بجلی کی بچت کے حامی ہیں گرمی اگر عوام براشت کرسکتے ہیں تو حکمران کیوںنہیں برداشت کر سکتے۔ وفاقی کابینہ کے فیصلے پر سب کو یکساںعملدر آمد کرنا ہوگا وزیراعظم ہاو¿س اور وزیراعظم سیکرٹریٹ میں بھی ایئر کنڈیشنڈ بند ر کھنا ہوں گے وزیر اعظم جیل کاٹ چکے ہیں اور گرمی برداشت کرنے کے ویسے بھی عادی ہیں۔امریکی طیاروں کی جانب سے بدھ کی شام باجوڑ کے علاقے ڈمہ ڈولا میں میزائل حملے میں 20افراد اور مسجد کی شہادت کے خلاف اسٹوڈنٹس الائنس جامعہ اردو گلشن اقبال کیمپس کے تحت احتجاجی مظاہرہ کیا گیاطلبہ رہنماو¿ں نے کہا کہ باجوڑ پر حملہ امت مسلمہ کی بقا و سالمیت پر حملہ ہے۔ہم حکمرانوں کو جھنجھوڑ کر جگانا چاہتے ہیں اور انہیں یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ملک میں امریکی مداخلت کو ختم کیا جائے ورنہ یہ ہمارے ملک کی سودے بازی کے ساتھ ساتھ پوری امت کے ساتھ غداری تصورکی جائے گی ۔مقررین نے کہا کہ امریکہ پاکستان کو اپنی کالونی نہ سمجھے طلبہ پاکستان اور امت مسلمہ کے تحفظ کیلئے تیار ہیں اور اس مقصد کی خاطر جانوں کے نذرانے پیش کرنے کیلئے تیار ہیں ۔مقررین نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ امریکہ کی اس مذموم حرکت کا فی الفور جواب دیا جائے ۔ جبکہ جماعت اسلامی نے باجوڑ ایجنسی ڈمہ ڈولہ میں امریکی حملے کے خلاف کل پشاور سمیت صوبہ سرحد میں احتجاجی مظاہروں اور ہڑتال کا اعلان کر تے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا ہے یہ باجوڑ پر امریکہ کا تیسرا حملہ ہے اور تیسرے حملے میں مولانا عبید اللہ کے گھر پر حملہ کر کے مسلمانوں کا قتل عام کیاگیا حکمران امریکہ سے باجوڑ حملے کے خلاف احتجاج کریں اور خون کے ایک ایک قطرے کا حساب لیا جائے حکمران طبقہ خود بلٹ پروف گاڑیوں میں سفر کرتا ہے اور ان کو سیکورٹی کی تمام تر سہولیات مہیا ہیں لیکن بے گناہ عوام کا کوئی تحفظ نہیں ہے دوسری جانب بازاروں میں آٹا دستیاب نہیں ،لوڈ شیڈنگ کا بحران ہے اور مجموعی طور پر قوم ایک عذاب میں مبتلا ہو چکی ہے ۔حکومت کے پاس گیارہ لاکھ فوج موجود ہے اور ایٹمی طاقت بھی ہے لیکن یہ سب ہمارے کس وقت کام آئیں گے پچھلے حملے میں 83بچے شہید ہوئے تھے ان بے گناہ بچوں کے قتل عام کے خلاف عدالت میں کیس جمع کئے لیکن آج تک ہماری عدلیہ نے جواب نہیںد یا سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ قوم کے اندر جذبہ پیدا کریں کیونکہ حکمران عوام کا تحفظ نہیں کر سکتے حکمرانوں کو بحرانوں سے نکلنے کے لئے ایک واضح لائحہ عمل اختیار کرنا چاہیے اور اگر حکمرانوں کے پاس مسائل کا حل نہیں تو وہ مستعفی ہو جائیں ۔ جبکہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں محمد نواز شریف اور ان کے بھتیجے و میاں شہباز شریف کے صاحبزادے حمزہ شہباز کے قومی اسمبلی کے حلقہ 123 سے ضمنی الیکشن لڑنے کیلئے کاغذات نامزدگی منظور کرلئے گئے ہیں مخالفین نے جو الزامات لگائے تھے بدنیتی پر مبنی اور جھوٹے تھے جسے ریٹرننگ آفیسر نے مسترد کردیا ہے۔ عدالت کا یہ فیصلہ تاریخی اہمیت کا حامل ہے ۔ جبکہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہبازشریف کے صوبائی اسمبلی کے حلقہ 154سے ضمنی الیکشن لڑنے کیلئے کاغذات نامزدگی منظور کرلئے گئے۔ ریٹرننگ آفیسر ابراہیم اصغر نے مخالف امیدواروں کے تمام اعتراضات مسترد کرتے ہوئے میاں شہبازشریف کو الیکشن لڑنے کا اہل قرار دے دیا ہے ۔ تفصیلات کے مطابق میاں شہبازشریف جو وزیراعلی پنجاب کے بھی امیدوار ہیں کے پی پی 154سے کاغذات نامزدگر پر مسلم لیگ (ق) کے اخلاق گڈو اور نور الہی نے اعتراضات داخل کئے تھے اور الزام لگایا تھا کہ میاں شہبازشریف بینک نادہندہ ہیں۔ سپریم کورٹ حملہ کیس میں ملوث ہونے کے علاوہ وہ 14اپریل کو رائے ونڈ میں پریس کانفرنس میں بھی توہین عدالت کے مرتکب ہوئے جس کی ویڈیو عدالت کو فراہم کی گئی لیکن عدالت نے یہ تمام الزامات مسترد کرتے ہوئے محفوظ کیا گیا اپنا فیصلہ سنایا اور میاں شہبازشریف کو الیکشن لڑنے کا اہل قرار دیدیا۔ دیکھتے ہیں آگے آگے ہوتا ہے کیا فاضل تجزیہ کاروں کے مطابق اس ملک میں اچھی بھلی مثبت اصطلاحات کے ساتھ جو سلوک ہوا وہ سکندر نے پورس کے ساتھ بھی نہیں کیا ہوگا۔مثلاً ایوب خان نے جو حشر صنعتی انقلاب کی اصطلاح کا کیا، یحیٰی خان نے جو سلوک نظر یہ پاکستان کے ساتھ کیا، ضیاء الحق نے جو ہاتھ اسلامی نظام کے نام پر کیا، پرویز مشرف نے جو کچھ اعتدال پسندی اور روشن خیالی کے ساتھ کیا کم و بیش ویسا ہی کچھ آج کل قومی مفاہمت کی اصطلاح کے ساتھ ہو رہا ہے۔ اے پی ایس
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment