آج جنگیں اسلحہ اور سپاہیوں کے ذریعے نہیں لڑی جارہی ہیں بلکہ میڈیا کے ذریعے دیگر اقوام پر حملے ہورہے ہیں۔ آج ثقافتی، تہذیبی اور نفسیاتی جنگ کی منصوبہ بندی صحافت، ریڈیو اور ٹی وی کے ماہرین کرتے ہیں، آج دنیا میں برتری اور غلبہ اسی کو حاصل ہے، جس کے پلڑے میں پروپیگنڈہ کا وزن ہے...... ایسا وزن! جس کے مقابلے میں اعلیٰ اخلاقی، تہذیبی اور سماجی قدروں، خوبیوں اور افضل ترین آرائ وافکار کی ادنیٰ اہمیت اور ذرّہ برابر قدر و قیمت نہیں..... یہ اطلاعات کے نشریاتی جال کی گرفت ہی تو ہے کہ آج پڑھے لکھے باشعور افراد بھی کسی نظرئیے، سوچ یا تصورات کی اہمیت اور قدر و قیمت کا اندازہ کرنے کے لئے ذرائع ابلاغ کے پروپیگنڈے پر انحصار کرتے ہیں..... آج ناصرف سیاسی و اقتصادی زندگی بلکہ عامِانسانوں کی زندگی بھی خاصی حدتک اس نشریاتی جال کے تابع ہوچکی ہے..... ٹونی شوارٹز کی کتاب کے مذکورہ مختصر ترین اقتباس سے ہی اندازہ لگایا جاسکتا ہے عالمی سرمایہ داروں کو میڈیا کے غیر معمولی اور ہمہ گیر اثرات پر اس قدر بھروسہ اور اعتماد ہے کہ وہ جب چاہتے ہیں اپنے متعین مقاصد کے حصول کے لئے کسی ملک و قوم کی اخلاقی و سیاسی قدروں کو تہہ وبالا کردیتے ہیں..... اور اس دوران انہیں مستحکم یقین ہوتا ہے کہ ا±س قوم کے افراد ا±ن کے جال میں ا±ن کی توقع کے مطابق پھنس کر وہی ردّ عمل کا مظاہرہ کریں گے، جسے وہ بہت پہلے ہی متعین کرچکے ہیں.....عام افراد کی حیثیت تو شاید جال میں پھنسے ہوئے بے بس پرندے کی مانند ہوچکی ہے..... اطلاعات کے عالمی نشریاتی جال میں جیسے جیسے حرکت ہوتی ہے..... عام افراد بھی ا±سی طرح حرکت کرتے ہیں..... میڈیا کے دباو¿ سے ہی آج اجتماعی زندگی کی تعمیر و تشکیل ہورہی ہے..... میڈیا کے اندر اتنی طاقت ہے کہ وہ حقائق کو ناصرف مسخ کرسکتا ہے بلکہ ا±سے یکسر تبدیل بھی کردیتا ہے..... اس طرح کہ حقائق پسِ پردہ چلے جاتے ہیں اور مفروضات سامنے آجاتے ہیں..... چونکہ مفروضات کو اس انداز سے بیان کیا جاتا ہے کہ لوگ ا±سے حقیقت سمجھ کر قبول کرلیتے ہیں اور اس پر کسی درجے کی بھی تنقید سننا گوارا نہیں کرتے..... یہ میڈیا امپیریل ازم یا میڈیا کی شہنشاہیت اور مطلق العنانی ہی تو ہے کہ اس کا پورا نظام ون وے ٹریفک کے اصول پر چل رہا ہے..... آیئے اس نکتے کو ایک دلچسپ حکایت سے سمجھتے ہیں.....ایک دیہاتی نے کہیں سے ایک بکرا خریدا..... راستے میں چند دھوکے بازوں نے دیکھا کہ ایک سیدھا سادا آدمی ایک موٹا تازہ صحتمند بکرا لئے جارہا ہے..... چنانچہ اِن لوگوں نے ا±سے بے وقوف بنانے کا منصوبہ بنایا تاکہ اس کی آنکھوں میں دھول جھونک کر ا±س سے بکرا ہتھیاسکیں..... طے شدہ منصوبے کے مطابق پہلے ایک آدمی ا±س دیہاتی کے پاس پہنچا اور مسکین سی صورت بنا کر بولا..... محترم! پہلے یہ بتایئے کہ یہ کتا آپ نے کتنے میں خریدا؟..... کیا کھیت وغیرہ کی دیکھ بھال کےِلئے لے جارہے ہیں؟..... دیہاتی نے حیرت سے اس کی شکل دیکھی اور بولا..... بھائی! یہ تمہیں کتا نظر آرہا ہے؟...... یہ کتا تھوڑا ہی ہے...... یہ تو بکرا ہے..... ذرا غور سے تو دیکھو..... یہ کہہ کر دیہاتی آگے بڑھ گیا..... تھوڑی دور جاکر ا±سے ایک دوسرا شاطر ملا..... اس نے نہایت عاجزی کے ساتھ دیہاتی کو سلام کیا اور پورے اعتماد کے ساتھ بولا..... جناب! یہ کتا تو بہت خوبصورت اور اچھی نسل کا ہے..... یہ آپ کے مویشیوں کی دیکھ بھال کے لئے بہت موزوں رہے گا.....دیہاتی سیدھا سادا انسان تھا..... کبھی وہ اپنے بکرے کو دیکھتا کبھی ا±س فریبی انسان کی عاجز و مسکین صورت کو..... وہ سوچ میں پڑ گیا..... اور سوچتے ہوئے آگے بڑھا..... آگے چل کر ا±سے یکے بعد دیگرے دھوکے بازوں کے مزید چار ساتھی ملے..... انہوں نے بھی اِسی طرح ا±س سے بات کی..... معصوم دیہاتی ا±ن فریبیوں کے مسلسل پروپیگنڈہ کی زد میں اس طرح آگیا کہ خود بھی یہ یقین کر بیٹھا کہ بکرے والے نے ا±س کے ساتھ دھوکہ کیا ہے اور ا±سے بکرے کے بجائے کتا فروخت کردیا ہے..... جب ا±س کے ذہن میں یہ یقین پختہ ہوگیا...... تو ا±س نے بکرے کی رسّی چھوڑ دی اور آگے بڑھ گیا..... جب وہ خاصی دور چلا گیا تو تمام شاطر اپنے اپنے ٹھکانوں سے باہر نکل آئے اور بکرے پر قبضہ کرلیا.....ترقی یافتہ معاشروں کی نظریاتی اساس کی تشکیل کرنے والے بعض اہم مغربی مفکروں نے بھی اسی قسم کے اصول وضع کئے ہیں..... مثلاً ایک مغربی دانشور گوئبلز کا کہنا ہے کہ ''جھوٹ اس قدر بولو کہ وہ سچ ہوجائے''.....مذکورہ حکایت میں دھوکے بازوں نے چالاکی اور عیاری کے ساتھ ایک سادہ لوح دیہاتی سے صرف اس کا بکرا ہی چھینا تھا..... آج دورِ جدید میں سرمایہ پرستوں کے پھیلائے ہوئے اطلاعات کے عالمی نشریاتی جال کی بنائ پر بہت سی قومیں اور ممالک اپنے عقائد، تہذیب، معاشرت، تاریخ اور اعلیٰ اخلاقی قدروں سے ہاتھ دھورہے ہیں اور خوشی خوشی اپنے قومی تشخص سے ہی دستبردار ہورہے ہیں......اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ خبریں تیار کرنے اور اطلاعات کی ترسیل کا منبع بہر صورت ترقی یافتہ ممالک ہیں..... اور ترقی پذیر ممالک، ترقی یافتہ ممالک کی اطلاعات اور خبروں کو ذرائع ابلاغ بالخصوص ٹیلی ویڑن کے ذریعے قبول کرتے ہیں..... یا ایسا کرنے پر مجبور ہوتے ہیں..... عالمی خبروں کا 80 فیصد مواد ترقی یافتہ ممالک کی خبر رساں ایجنسیاں فراہم کرتی ہیں، جب کہ یہ خبر رساں ایجنسیاں ترقی پذیر ممالک کی صرف 20 سے 30 فیصد کوریج کرتی ہیں..... حالانکہ ترقی پذیر ممالک دنیا کا تین تہائی حصہ ہیں...... یونیسکو کی ایک رپورٹ کے مطابق شمال سے جنوب کی جانب اطلاعات کے بہاو¿ کا تناسب 5:1 ہے...... اس کا واضح مطلب یہ ہوا کہ ہمارا شمار اطلاع فراہم کرنے کے بجائے اطلاع وصول کرنے والوں میں ہوتا ہے...... دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ پر ترقی یافتہ ممالک کی پانچ خبررساں ایجنسیوں کی اجارہ داری ہے، جب کہ بہت سے ترقیپذیر یا غریب ممالک کی اپنی ایک بھی قومی خبررساں ایجنسی نہیں ہے...... جہاں تک ٹیلی ویڑن چینلز کا تعلق ہے تو آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ اس ترقی یافتہ دور میں بھی دنیا کے 45 فیصد ترقی پذیر ممالک کا اپنا کوئی ٹیلی ویڑن چینل نہیںہے..... اور وہاں ترقی یافتہ ممالک کے چینلز ہی دیکھے جاتے ہیں..... ترقی یافتہ ممالک کے واقعات اور خبروں کو میڈیا اپنے خاص نکتہ نظر کے ساتھ پیش کرتا ہے..... یعنی سب اچھا ہے..... یوں جائز بھی ناجائز اور ناجائز بھی جائز ہوجاتا ہے..... جب کہ ترقی پذیر ممالک کے واقعات کو عموماً عالمی میڈیا منفی رنگ دے کر سامنے لاتا ہے.....یہ بات طے ہے کہ سرمایہ پرستوں کے افکار ونظریات اقتصادی مفادات کے تابع ہوتے ہیں..... چنانچہ وہ میڈیا کے ذریعے یہ بات دنیا بھر کے عوام میں سرائیت کررہے ہیں کہ ا±ن کے بین الاقوامی اداروں کی تیار کردہ مصنوعات زندگی کی بنیادی ضرورت ہیں..... اِن مصنوعات کے بغیر ہر انسان کی زندگی ادھوری ہے..... یا پھر کوئی بھی فرد ان مصنوعات کے بغیر ترقی اور کامیابی حاصل نہیں کرسکتا..... بعض اوقات ایسی مصنوعات جن پر ترقی یافتہ ممالک میں پابندی عائد ہوتی ہے، ترقی پذیر ممالک میں میڈیا کے ذریعے ا±ن کے اِس قدر فوائد گنوائے جاتے ہیں تاکہ ا±ن کی بآسانی کھپت کی راہ نکالی جاسکے..... یہ میڈیا کی یلغار ہی تو ہے کہ آج ہمارے معاشرہ کی اکثریت غیرضروری مصنوعات کی خریداری کے بخار میں کچھ اس طرح مبتلا ہے کہ ا±نہیں اِن مصنوعات کی نوعیت اور معیار کو پرکھنے اور اپنے ماحول اور حالات میں ا±ن کے مفید یا مضر ہونے کا تجزیہ کرنے کا بھی شاید ہوش نہیں رہا ہے..... باالفاظ دیگر ایسا لگتا ہے کہ جیسے ہمارے اور ہمارے جیسے دیگر معاشروں کو شاید ہپناٹائز کردیاگیا ہے..... ایک انجانی کشش کے تحت افراد معاشرہ کھنچے چلے جارہے ہیں..... اور اِس میں ا±ن کے ذاتی ارادے کا کوئی دخل نہیں...... شاید اکثر کی اپنی ذاتی خوبیاں، عقل اور اچھے ب±رے میں تمیز کرنے کی صلاحیت شَل ہو کر رہ گئی ہے.....دراصل عالمی میڈیا کا جال ہر انسان کے اندر نفسیاتی خواہشات کو ا±بھارتا ہے اور ا±سے خود پرست بنا کر سرمایہ پرستوں کا آلہ? کار بنا دیتا ہے..... اٹھارویں صّدی سے بیسوی صدّی کے ابتدائی سالوں تک کے درمیانی عرصے میں مغربی مفکروں نے فرد کو مخاطب کرکے کہا تھا کہ وہ آزاد پیدا ہوا ہے..... صدیوں سے کلیسائی اداروں کے ہاتھوں جکڑے ہوئے مغربی معاشروں کے افراد کے لئے یہ بہت ہی دلکش نعرہ تھا..... چنانچہ اسے مغرب میں خوب پذیرائی ملی..... لیکن یہ آزادی روحانی آزادی تو تھی نہیں کہ کسی فرد کو اپنے خالق کی قربت سے آشنا کرسکے بلکہ اس کا مقصد تو یہ تھا کہ اسے اپنے نفس کا غلام بنا دیا جائے..... اِس ''آزادی'' کا ایک اہم تقاضہ یہ بھی تھا کہ خاندان کے ادارے پر ضرب لگائی جائے.....کیونکہ یہ ادارہ مطلق آزادی جسے ہم نفس کی غلامی کا نام دے رہے ہیں، پر بعض کڑی پابندیاں عائد کرتا ہے..... چنانچہ اس معاشرتی یونٹ یا ادارے کے قیام کو ہر ممکن حربوں سے روکا گیا..... ظاہر ہے اس کام میں بھی میڈیا کو بھرپور طریقے سے استعمال کیا گیا اور کیا جارہا ہے..... خاندان کے قیام کی صورت میں فرد کو بہت سے معاملات میں ماں اور باپ کا لحاظ کرنا پڑے گا...... بیوی اور شوہر میں تعلقات کی نوعیت طے کرنا پڑے گی.....لہٰذا خاندان کو یہ کہہ کر رَد کیا گیا کہ خاندان فرد کی آزادی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے..... خاندان سے ج±ڑا فرد اپنی بے لگام خواہشات کی تکمیل کرنے سے قاصر رہتا ہے.....مغربی مفکروں نے مذہب اور خاندان کو رَد کرکے صرف سرمایہ پرستوں کے مفادات کی تکمیل کی ہے..... صدیوں سے ہی بہت سے لوگ پیغمبرانہ تعلیمات سے اغماض برتتے آرہے تھے، لیکن ا±ن کی اکثریت کا ضمیر ا±نہیں مسلسل ملامت کرتا رہتا تھا..... بے دین مغربی مفکروں نے آسمانی ہدایت سے بے نیازی کو مستحسن عمل قرار دے کر انسانی ضمیر کو خاموش کردیا..... نفسانی ہوس پر کنٹرول حاصل کرنے کے لئے مذہب مختلف پابندیاں عائد کرتا ہے..... لیکن مغربی مفکروں نے ''ہوس'' کو Self Interst، Competition اور Accumulation کے خوبصورت نام دے کر اسے سند اور جواز فراہم کیا......یہی نہیں بلکہ سرمایہ پرستوں کے پروردہ بعض مغربی مفکروں نے انسان کو حیوانِ محض سے تشبیہ دی اورکہا کہ انسان کی زندگی کا مقصد اپنی خواہشات کی تکمیل اور حصولِ لذّات کے سوا اور کچھ نہیں..... اس نظریئے کے لئے ابتدائی تجربہ گاہ مغربی ممالک کے عوام بنے تھے..... اب یہی تجربات میڈیا کے جال کو وسیع کرنے کے بعد مشرق میں بھی د±ہرائے جارہے ہیں۔آج اطلاعات کے اسی عالمی نشریاتی جال نے دنیا کے اکثر انسانوں کو معاشرے سے کاٹ کر الگ تھلگ کردیا ہے..... معاشرے کا ہر فرد اپنے افکار وخیالات، مشکلات و مسائل اور بحران کی وجہ سے ایک دوسرے کے لئے بیگانہ اور اجنبی بن کررہ گیا ہے، اس لئے کہ ا±س کے اردگرد جتنے لوگ ہیں ان کی اکثریت ایسے ہی ماحول میں سانس لے رہی ہے..... فرد کی تنہائی اگر اسی طرح بڑھتی رہی تو ذہنی و اعصابی امراض میں بے پناہ اضافہ بھی ہوسکتا ہے.....خدانخوانستہ ایسی صورتحال واقع ہوگئی تو دَم توڑتی ہوئی تہذیبی و اخلاقی قدروں پر بہت ب±را اثر پڑے گا.....
،اب وہ دور گزر چکا ہے کہ ہم یہ سوال ا±ٹھائیں کہ کیا میڈیا عام انسانوں کی زندگیوں پر اثر انداز ہورہا ہے یا نہیں؟..... بلکہ اب تو ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ میڈیا کی ڈوریں کن ہاتھوں میں ہیں، یعنی عالمی اطلاعاتی نظام کے اِس مضبوط نشریاتی جال کا منبع و مصدر کہاں ہے؟..... اور کس کی دسترس میں ہے؟..... اور جس کی دسترس میں ہے، ا±سے کیا کیا فوائد حاصل ہورہے ہیں؟..... یا ا±س کے کون کون سے مفادات کی تکمیل ہورہی ہے؟..... آج ہمیں میڈیا کے ہمہ جہت اور گہرے اثرات کو سامنے رکھ کر اس نکتے پر غور و فکر کرنا چاہیے کہ مستقبل میں ہمارے معاشرے کے اندر انفرادی و اجتماعی طور پر روےّوں، روابط اور طرزِمعاشرت کے حوالے سے ایسی کون سی تبدیلیاں رونما ہوسکتی ہیں، جس سے روحانی اور اخلاقی قدروں کو سخت نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے؟..... اور یہ بھی کہ اب تک اس ضمن میں کس قدر نقصان پہنچ چکا ہے؟.....ہم عالمی میڈیا کی یلغار کی زد میں ہیں!..... یہ جملہ اکثر ہمارے ہاں سننے اور پڑھنے میں آتا رہتا ہے..... اہم سوال یہ ہے کہ کیا اس یلغار سے بچاو¿ کے لئے ایسی کوئی حکمتِعملی بھی تیار کی جارہی ہے جس کے ذریعے ہم اپنے معاشرتی تشخص، اخلاقی و روحانی اقدار کا تحفظ کرسکیں؟..... ہم اس بات سے انکار نہیں کررہے ہیں کہ اس حوالے سے بہت سے مکتبہ فکر اپنے اپنے انداز میں کوششیں کررہے ہیں...... لیکن آج ضرورت اس بات کی ہے کہ اجتماعی طور پر منظم اور مربوط حکمتِ عملی اختیار کی جائے..... ہم نے گزشتہ مضمون '' دماغی تطہیر کے ذریعے ذہنی غلامی '' میں اس جانب اشارہ کیاتھا کہ عالمیمیڈیا کے ذریعے دنیا بھر کے انسانوں کی دماغی تطہیر عالمی ساہوکاروں کے منصوبے کی ایک اہم کڑی ہے..... دماغی تطہیر ایک ایسا موضوع ہے، جس پر مغرب میں سینکڑوں ماہرینِ نفسیات نے کتابیں تحریر کیں اور برسوں اس پر ریسرچ کی جاتی رہی..... اس موضوع کے حوالے سے ماہرین کے دومکتبہ فکر نمایاں ہیں..... ایک مکتبہ فکر انگلینڈ کے ماہرینِ نفسیات کا ہے جنہوں نے انسانی تعلقات کی نفسیات کا مطالعہ کیا..... ماہرینِ نفسیات کا دوسرا مکتبہ فکر فرینکفرٹ جرمنی سے تعلق رکھتا ہے..... ان لوگوں نے سماجی نفسیات پر اپنی توجہ مرکوز کی..... اس مکتبہ فکر نے دماغی تطہیر کے وسائل اور ذرائع کا مطالعہ و تجزیہ کیا اور ان کو بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش کی..... مثال کے طور پر پرنسٹن پلان کے تحت اس مکتبہ فکر نے ریڈیو کے اثرات کا جائزہ لے کر جو نتائج نکالے وہ آج ٹیلی ویڑن کے پروگرام تیار کرنے والے ماہرین کے لئے رہنما اصول کا درجہ رکھتے ہیں..... پہلی جنگِ عظیم میں برطانیہ اور جرمنی نے ماہرینِنفسیات کی خدمات حاصل کررکھی تھیں، جن کے مرتب کردہ اصولوں اور طے کردہ حکمت عملی کے تحت دونوں ملکوں نے ریڈیو کے ذریعے زبردست نفسیاتی جنگ ایک دوسرے کے خلاف لڑی..... بعد میں دونوں ملکوں کے ماہرین نفسیات نے ایک دوسرے کے حاصل کردہ نتائج کو سامنے رکھ کر ایک وسیع اور ہمہ جہت عملی پروگرام تشکیل دیا۔دماغی تطہیر Brain Washing کے عمل میں بنیادی اہمیت اس نکتے کو حاصل ہوتی ہے کہ فرد کی نفسیات کو کسی نہ کسی صورت مسلسل اور متواتر اعصابیکشمکش اور اضطرابی کیفیت میں مبتلا رکھا جائے..... اِسحد تک کہ وہ اپنے کرب کے اظہار کا راستہ تلاش کرنے کے لئے جدوجہد کرے..... اکثر ایسی صورتحال سے دوچار فرد یہ سوچنے کے قابل بھی نہیں رہتا کہ ا±س نے اپنے کرب کے اظہار کے لئے منفی ذریعہ اختیار کیا ہے یا مثبت!..... یا پھر ایسا بھی ہوتا ہے کہ نفسیاتی کشمکش کے ماحول سے متاثر ہو کر کوئی فرد جمود کا شکار ہوجاتا ہے..... اور اگر یہ اضطرابی کیفیت ہر لمحہ مسلط ہوجائے یا کردی جائے تو ایسے جمود زدہ فرد کے اندر ماحول کے ساتھ مثبت طور پر خود کو ہم آہنگ کرنے کی صلاحیت ہی ختم ہوجاتی ہے..... بعض حالات میں ایسی اجتماعی و انفرادی مثالیں بھی سامنے آئی ہیں کہ انسان حیوانات کی سطح سے بھی نیچے گرجاتا ہے..... ایسے ماحول میں اخلاقی قدریں ب±ری طرح پامال ہوجاتی ہیں..... خصوصاً نوجوانوں کی شخصیت اور کردار میں منفی تبدیلیاں نمایاں طور پر رونما ہونے لگتی ہیں.....اور اکثر کسی کو خبر بھی نہیں ہوتی کہ یہ سب کچھ اس بات کا نتیجہ ہے کہ بیرونی یا اندرونی طور پر دماغی تطہیر کے پروگرام پر منظم طریقے سے عمل کیا جارہا ہے۔جس معاشرے کے افراد میں مذکورہ کیفیات پیدا کرنی ہوتی ہیں اور ان کیفیات کے ذریعے اپنے مطلوبہ اہداف حاصل کرنے ہوتے ہیں..... وہاں افرادِ معاشرہ کی نفسیات کو کشمکش میں مبتلا کرنے کے لئے ایسے طریقے استعمال کئے جاتے ہیں، جن پر برسوں غور وخوض کرنے کے بعد تجربات بھی کئے جاچکے ہوتے ہیں.....ہمارے ہاں میڈیا کی یلغار کے حوالے سے زیادہ تر اس بات پر ہی تشویش کا اظہار کیا جاتا ہے کہ اس کے ذریعے فحاشی و عریانی پھیل رہی ہے..... یقینا ایسا ہورہا ہے اور اس کی وجہ سے ہماری اخلاقی قدریں متاثر ہورہی ہیں..... لیکن معذرت کے ساتھ اسے بھی ایک محدود تجزیہ ہی کہا جائے گا..... عالمی طاقتیں اور عالمی سرمایہ پرست افراد و ادارے اطلاعات کے نشریاتی جال کے ذریعے پسماندہ اقوام میں دماغی تطہیر کا جو عمل جاری رکھے ہوئے ہیں..... یہ ا±سی ہمہ جہت عمل کے نتائج ہی تو ہیں کہ ہماری اجتماعی پسماندگی میں روزبروز اضافہ ہورہا ہے..... تشدّد پسند طرزِفکر عام ہوتی جارہی ہے..... عدم برداشت کے ذہنی روےّے اور طرزِعمل کے مظاہرے ہم اپنے ہاں آئے دن ہر س±و دیکھتے رہتے ہیں..... یہی نہیں ایسی بہت سی تبدیلیاں ہیں جو مسلسل واقع ہورہی ہیں لیکن شاید اکثریت نے بے حسی کی چادر اوڑھ لی ہے..... دماغی تطہیر کے ہمہ جہت پروگرام کے خوفناک اثرات کا شاید کہیں کسی کے ذہن میں کوئی تصور ہو تو ہو..... لیکن عام طور پر اس حوالے سے محدود تصورات پر مبنی خیالات کا ہی اظہار کیا جاتا ہے..... جو بجائے خود ایک المیہ ہے..... اور ہمیں افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ جب اس حوالے سے کوئی واضح تصور ہی نہیں ہے تو اس خوفناک عمل سے بچاو¿ کی حکمتِ عملی پر کیوں کر غور وفکر کیا جائے گا؟..... اگر ہم یہاں عالمی میڈیا کے ذریعہ دماغی تطہیر Brain washing کے عمل کے ہمہ جہت اثرات اور ان کے خوفناک نتائج کی تفصیل بیان کرنے بیٹھ جائیں تو پھر شاید ہم اسے ایک ضخیم کتاب میں بھی سمیٹ نہ سکیں..... اتنا جان لیجئے کہ عالمی ذرائع ابلاغ کے نشریاتی جال کے ذریعے افرادِ معاشرہ کی دماغی تطہیر کے خوفناک عمل سے بے دھیانی اور محدود طرزوں میں محض عالمی میڈیا کے حوالے سے فحاشی و عریانی کے خلاف چند بے اثر بیانات..... بھی ممکن ہے کہ ا±سی دماغی تطہیر کے عمل کا ہی نتیجہ ہو!.....مشہور مغربی ماہر اشتہاریات ٹونی شوارٹز اپنی کتاب The Second God میں تحریر کرتا ہے ''خدا کی طرح میڈیا بھی جنگوں کا ر±خ تبدیل کرسکتا ہے..... کسی صدر یا بادشاہ کو منصبِ اقتدار سے ا±تار سکتا ہے...... اور رائے عامّہ کو غلط یا صحیح طور پر استوار کرسکتا ہے''..... ٹونی شوارٹز کا یہ بیان بلکہ ا±س کی کتاب کا عنوان ہی یہ ظاہر کررہا ہے کہ سرمایہ پرستوں نے دنیا بھر کے وسائل پر قبضہ کرنے اور اِس قبضے کے لئے ہر قسم کی مزاحمت اور رکاوٹوں کو ناصرف دور کرنے بلکہ مزاحمت کرنے والوں اور رکاوٹ پیدا کرنے والوں کی رائے کو اپنے حق میں استوار کرنے کے لئے میڈیا کے ذریعے دیگر اقوام کو اپنی نوآبادی میں تبدیل کردیا ہے..... یوں میڈیا امپیریلِازم کا ایک واضح خاکہ ہمارے سامنے آجاتا ہے۔
International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.
Friday, May 16, 2008
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment