International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.
Friday, May 16, 2008
عوام کی بڑی اکثریت اس وقت گھٹن میں ہے . ملک پر امریکی حملہ، ججز کی بحالی اور مہنگائی کی لہر بلند ترین سطح ُپر۔۔۔۔۔ تحریر: اے پی ایس،اسلام آباد
ملک میں غذائی اجناس کی قیمتوں میں تیزی کے ساتھ اضافہ جاری ہے اور حساس اعشاریوں میں افراط زر کی شرح تقریبا 30 فیصد کے قریب پہنچ رہا ہے ۔ یہ اضافہ ملک کی تاریخ کا سب سے زیادہ اضافہ ، 15 مئی 2008 ء کوختم ہونے والے ہفتے کے دورا ن گزشتہ سال کے اسی ہفتے کی نسبت تین ہزار روپے ماہانہ آمدنی والے ملک کے غریب ترین طبقے کے لیے حساس اعشاریوں میں مہنگائی میں29.89 فیصد 5 ہزار روپے آمدنی والے طبقے کے لیے مہنگائی میں 29.16 فیصد 12 ہزار روپے کے آمدنی و الے متوسط طبقے کے لیے مہنگائی میں26.28 فیصد ،12 ہزارسے زائدآمدنی والے طبقے کے لیے مہنگائی کی شرح میں 23.22 فیصد اضافہ جبکہ مجموعی طورپر تمام طبقوں کے مہنگائی کی شرح میں 26.25 فیصداضافہ ریکارڈکیا گیا ہے زیادہ تر بنیادی ضرورت کی اشیاء میں اضافہ ہوا جوغریب کے استعمال کے لیے ہیںاوریہ اضافہ ملکی تاریخ کا سب سے زیادہ اضافہ بتایا جاتا ہے ۔ 15 مئی 2008 ءکو ختم ہونے والے ہفتے کے دوران گزشتہ مالی سال کے اس ہفتے کی نسبت موٹے چاول کی قیمت میں 146 فیصد ، دال مسور کی قیمت میں 119 فیصد ، چاول بناستی کی قیمت میں 94 فیصد ، گھی ویجیٹل (ڈبہ ) کی قیمت میں 59 فیصد ،گندم کی قیمت میں 67 فیصد ، گندم کے آٹے کی قیمت میں 66 فیصد ، دال چنا کی قیمت میں55 فیصد ،تیل سرسوں کی قیمت میں 72 فیصد ، کوکنگ آئل کی قیمت میں 59 فیصد ، سمیت 49 اشیائ خریداری کی قیمتوں میں اضافہ جبکہ 4 کی قیمتوں میں معمولی سی کمی ریکارڈکی گئی ہے ۔ ججوں کی بحالی کی تحریک صرف پنجاب کا مسئلہ نہیں۔ تحریک کو روکنا جمہوری حکومت کیلئے ممکن نہیں ہو گا۔ اگر معزول جج بحال نہ ہوئے تو وکلاء سول سوسائٹی اور سیاسی جماعتیں سڑکوں پر آ جائیں گی۔ جس سے جمہوریت کا عمل متاثر ہو گا۔ عدلیہ کی بحالی کے بغیر میڈیا کی آزادی کا دفاع بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ججوں کی عدم بحالی سے ملک میں قانون کی حکمرانی کا تسلسل کبھی قائم نہیں ہو سکے گا۔ اٹھارہ فروری کو عوام نے تبدیلی کے لئے ووٹ دیا تھا تاہم اب بھی وفاق میں صدر مشرف کے احکامات پر عمل ہو رہا ہے۔ گورنر پنجاب کی تقرری ایک متنازع معاملہ ہے۔ اس بارے میں مسلم لیگ ن کو اعتماد میں نہیں لیا گیا سلمان تاثیر کو گورنر لگانا حکمران اتحاد کے خلاف سازش ہے۔اصولوں کی بنیاد پر پاکستان مسلم لیگ (ن) وفاقی کابینہ سے الگ ہوئی ہے اور جب تک جج بحال نہیں ہوتے وہ واپس نہیں آئیں گے پیپلز پارٹی کی جانب سے صدر پرویز مشرف کی نگران حکومت کے متنازع کرداروں کو پاکستان کے عوام پر مسلط کیا جارہاہے جو تبدیلی کیلئے ووٹ دینے والی عوام کے ساتھ بڑی نا انصافی ہے پیپلزپارٹی کا دوہرا معیار ہے کہ سندھ میں ایم کیو ایم کا گورنر نہیں بدلا گیا جبکہ پنجاب میں ان کی حکومت ہے اور پرویز مشرف کا آدمی گورنر لگا دیاگیا جبکہ احسن اقبال نے یہ بھی کہا ہے کہ اٹھارہ فروری کو عوام نے تبدیلی کیلئے ووٹ دیا تھا اگر پیپلز پارٹی صعوبتیں سہنے والے اپنے کسی کارکن کو گورنر لگاتی تو مسلم لیگ (ن) کو کوئی اعتراض نہ ہوتا اسلمان تاثیر کو گورنر پنجاب لگاتے وقت ان کی جماعت سے مشاورت نہیں کی گئی صرف آگاہ کیا گیا تھا ان کا کہنا تھا کہ سلمان تاثیر کو گورنر لگانا حکمران اتحاد کے خلاف سازش ہے مسلم لیگ(ن) کے وزراء اصولوں کی بنیاد پر کابینہ سے الگ ہوئے اور جب تک جج بحال نہیں ہوتے وہ آپس میں نہیں آئیں گے جبکہ گورنر پنجاب سلمان تاثیر نے کہا ہے کہ ہمیں جمہوریت کوئی نہیں سکھا سکتا ، میرے لئے پیپلز پارٹی ، مسلم لیگ ق، مسلم لیگ ن سب برابر ہیں ۔ میں چاہتا ہوں پیپلز پارٹی اور شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے جو مجھے مینڈیٹ دیا ہے اس پر پورا اتروں ۔ اگورنر پنجاب سلمان تاثیر نے زندگی میں سیاست کے نشیب و فراز اور قید بند کی صعوبتیں برداشت کی ہیں جہاں ان کے ساتھ پیپلز پارٹی کے دوسرے رہنما بھی شامل رہے ہیں ۔ انھیں کوئی نہیں سکھا سکتا کہ جمہوریت کیا ہے آج وہ اس گورنر ہاو¿س میں موجود ہیں تو اس کے لئے انھوںنے طویل جدوجہد کی ہے ۔ اٹنہو اتار چڑھا و¿ آتے رہتے ہیں سیاست میں آخری فتح ہوتی ہے اور نہ آخری شکست ہوتی ہے ۔ وفاق میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے جبکہ پنجاب سب سے بڑا صوبہ ہے ان کی حکمت عملی اس احوال پر ہو گی کہ پیپلز پارٹی ، مسلم لیگ ق اور مسلم لیگ ن سب برابر ہیں ۔ وہ چاہتے ہیں وفاق میں جو ہمیں مینڈیٹ ملا ہے اور شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے جو مینڈیٹ دیا ہے اس پر پورا اتریں اور پنجاب میں جمہوری تمل قائم رہے ۔ اب یہ گورنر ہاو¿س عوامی بن چکا ہے اور اس کے دروازے عوام کے لئے کھلے رہیں گے ۔ پنجاب میں اندر اور باہر سے آکر بہت سے لوگ اسے لوٹتے رہے ہیں لیکن جب ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو پنجاب میں آئے تو انہو ںنے عوام کے دل لوٹ لئے جبکہ گورنر پنجاب نے یہ بھی کہا ہے کہ پنجاب کے لوگ غیر مند لوگ ہیں ہم سے کوئی پیار کرے تو اس پر سب کچھ لٹا دیتے ہیں اس موقع پر انہوں نے جیو ے بھٹو سدا جیوے کا نعرہ لگاتے ہوئے کہا کہ بلاول کو بھی ہم پنجاب سے الیکشن لڑائیں گے سارا پنجاب لاڑکانہ ہے ہم بلاول کو پنجاب اسمبلی میں پہنچائیں گے ۔ باجوڑ پر امریکی طیاروں کا میزائل حملہ افسوسناک ہے ابھی تک موجودہ حکومت کی امریکہ اور بھارت کے حوالے سے خارجہ پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی جو پالیسی سابقہ حکومت کی تھی جاری ہے ۔پیپلز پارٹی دو کشتیوں میں سوار ہو کر جمہوریت کو سبوتاڑ کرنے کی جو کشش کر رہی ہے وہ ملک کے لئے انتہائی نقصان دہ ثابت ہو گا ۔ وہ غیر آئینی و غیر قانونی صدر پرویز مشرف کو عملا قبول کر چکی ہے اعلان مری اور اعلان دبئی سمیت کسی بھی معاملے میں پیپلز پارٹی نے اتحادیوں کو اعتماد میں نہیں لیا ۔ اختیارات عملا ایوان صدر کے پاس ہیں جبکہ اس حوالے سے حافظ حسین احمد نے یہ بھی کہا ہے کہ ہم پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کے معزول ججز کی بحالی کی قرار داد کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں پیش کرنے کے بیان کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں تا ہم انہوں نے اس بارے میں اپنی کسی اتحادی جماعت کو اعتماد میں نہیں لیا ۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں صدر کے مواخذے کی تحریک بھی پیش کی جائے کیونکہ ایوان صدر سازشوں کا گڑھ بن چکا ہے ۔مسلم لیگ ن کی طرف سے مرکزی وزارتوں سے استعفوں کے بعد ایک متنازعہ شخصیت کو گورنر پنجاب بنایا جانا ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان دراڑ ڈالنے کی ایوان صدر کی ایک اور سازش ہے ۔ پرویز مشرف کی اتحادی جماعت ق لیگ کو ری کنڈیشن کر کے اور ایم کیو ایم کے ساتھ مذاکرات پیپلز پارٹی ایوان صدر کے اشارے پر کر رہی ہے ۔ آصف زرداری اپنی اتحادی جماعتوںکو اعتماد میں لئے بغیر جو قدم بھی اٹھائیں گے وہ ملک اور جمہوریت کے لئے نقصان دہ ثابت ہو گا ۔ جون کے پہلے ہفتے میں اے پی ڈی ایم کے زیر اہتمام قومی کانفرنس منعقد ہو رہی ہے جس میں معزول ججوں کی بحالی کیلئے بڑی تحریک چلانے کا لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔کانفرنس میں وکلاء اور سول سوسائٹی کے نمائندہ افراد بھی شرکت کریں گے اس نے حکمران اتحاد سے مطالبہ کیا ہے کہ صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کا فوری طور پر مواخذہ کیا جائے کیونکہ ان کی موجودگی میں پاکستان کی آزاد اور خودمختار خارجہ پالیسی ترتیب دینا ممکن نہیں ہے۔ 18فروری کے بعد بھی ملک پر اسی طرح امریکی دباو¿ موجود ہے اور باجوڑ ووزیرستان میں بغیر پائلٹ امریکی جاسوسی طیارے میزائل داغ رہے ہیں۔ جس کے بارے میں ہماری فوج اور حکومت بھی لاعلم رہتی ہے۔ حکمران اتحاد کے پاس پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں کوئی آئینی پیکج منظور کرنے کیلئے ارکان کی مطلوبہ تعداد نہیں ہے تاہم وہ اس پوزیشن میں ہے کہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں صدر کا مواخذہ کرسکے۔ آج بھی امریکہ پاکستان پر گذشتہ آٹھ سالوں کی طرح حاوی ہے۔ امریکی صدر بش کہہ رہے ہیں کہ آئندہ امریکہ پر حملہ ہوا تو اس کی منصوبہ بندی پاکستان کے قبائلی علاقوں میں کی جائے گی جبکہ امریکی کانگریس کے اپوزیشن لیڈر کا کہنا ہے کہ اگر انہیںموقع ملے تو ان کی ترجیح عراق یا افغانستان کی بجائے پاکستان کے قبائلی علاقوں پر حملہ کرنا اور وہاں فوج لے جانا ہوگا۔ پاکستان کو عملا امریکی کالونی بنادیا گیا ہے۔ تین روز قبل جو باجوڑ پر بغیر پائلٹ طیارے نے میزائل داغا اس کیلئے ٹارگٹ پاکستان کے اندر سے ہی کسی نے فراہم کیا تھا جس کے نتیجہ میں پرامن عالم دین کے گھر، مسجد اور حجرے کو نشانہ بنایا گیا حیرت کی بات یہ ہے کہ اس حملے کے بعد پاکستان کی افواج اور حکومت نے اس حملہ سے لاعلمی کا اظہار کیا جبکہ تین ماہ سے امریکہ کے یہ بغیر پائلٹ طیارے جنوبی وزیرستان اور باجوڑ پر پرواز کررہے ہیں۔ اب وزیراعظم نے محض یہ بیان دیا ہے کہ وہ مصر میں منعقدہ کانفرنس میں امریکی صدر سے اس بات پر احتجاج کریں گے۔ جبکہ قا ضی حسین احمد نے یہ بھی کہا ہے کہ اس حملہ سے یہ بات بھی ثابت ہوئی ہے کہ افواج پاکستان کو ملک کے دفاع کی کوئی فکر نہیں ہے۔ ججوں کی بحالی بھی اس لئے ابھی تک نہیں ہوسکی کہ انہیں بحال کرنے پر بھی امریکی دباو¿ موجود ہے اور امریکہ پاکستان میں آزاد عدلیہ کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کا سب سے بڑا جرم یہ تھا کہ انہوں نے گمشدہ افراد کے حوالے سے نوٹس لیا جبکہ موجودہ حکمران کہہ رہے ہیں کہ وہ یہ دباو¿ اس لئے قبول کررہے ہیں کہ امریکہ کی ملٹری ودوسری امداد کے بغیر پاکستان کا گزارہ نہیں ہے یہ کیسی پالیسی ہے کہ امریکہ سے فوجی امداد اپنے ہی شہریوں پر استعمال کرنے کیلئے حاصل کی جارہی ہے۔ افتخار محمد چودھری کا دوسرا جرم پرویز مشرف کے الیکشن لڑنے سے متعلق اہلیت کے بارے میں آنے والا فیصلہ تھا اور تیسرا جرم این آر او جس کے تحت اربوں روپے کی کرپشن معاف کی گئی کو عدالت میں ٹرائل کرنا تھا۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی میں اختلافات کی سب سے بڑی وجہ ایوان صدر میں کی جانے والی سازشیں ہیں۔ ملک میں مہنگائی اور غربت میں آئے دن اضافہ ہورہا ہے۔ عوام کی بڑی اکثریت اس وقت گھٹن میں ہے۔ کشمیر پر بھی حکومت کی کوئی پالیسی نہیں ہے۔ پاکستان کے دریا خشک ہوچکے ہیں، عوام کو پانی میسر نہیں ہے لیکن حکومت کو ان معاملات کی کوئی فکر نہیں ہے۔ ا عام شہری حکومت سے سوال کرتا ہوں کہ اس نے عوام کے جان ومال کے تحفظ کیلئے کیا کیا ہے۔ الیکشن کمیشن کے بارے میں اے پی ڈی ایم کا موقف آج بالکل سچ ثابت ہوچکا ہے۔ دو ماہ قبل میاں برادران کو اسی الیکشن کمیشن نے الیکشن کیلئے نااہل قرار دیا تھا اور آج ان کے کاغذات منظور کرلئے گئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کو جو ہدایت دی جاتی ہے وہ اسی پر عمل کرتا ہے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی بحالی کے بغیر عدالتی بحران حل نہیں ہوسکے گا۔ ملکی مسائل کو قومی حکومت کے ذریعے سے ہی حل کیا جاسکتا ہے ملک میں گشتہ جمعہ کو دینی و مذہبی جماعتوں کی جانب سے ڈمہ ڈولہ میں امریکہ کے میزائل حملے کے خلاف شدید احتجاج کیا گیا۔ صوبہ سرحد کے تمام علاقوں میں احتجاجی مظاہرے کیے گئے ۔ دینی و مذہبی جماعتوں نے حکومت سے اس امریکی جارحیت کا سخت نوٹس لینے اور موثر انداز میں اس کا جواب دینے کا مطالبہ کیا ہے ۔ امریکی جارحیت کے خلاف ملک بھر کی مساجد میں مذمتی قرار داد منظور کی گئیں ۔ جبکہ صوبہ سرحد کے تمام چھوٹے بڑے شہروں ضلعی وتحصیل ہیڈ کوارٹرز میں ریلیاں اور جلوس نکالے گئے ۔ احتجاجی مظاہروں کا اہتمام جماعت اسلامی ‘جمعیت علماء اسلام (ف) اور دیگر مذہبی و دینی تنظیموں کی جانب سے کیا گیا تھا جے یو آئی(ف) کی جانب سے جاری بیان کے مطابق جمعیت علمائے اسلام کے امیر مولانافضل الرحمان کی اپیل پر ملک بھر میں باجوڑ کے علاقہ ڈمہ ڈولہ پر امریکی حملے کے خلاف یوم احتجاج منایا گیا ۔ صوبہ سرحد اور ملک بھر میں مختلف مقامات پر احتجاجی مظاہرے ہوئے ملک بھر اور صوبائی دارالحکومت میں اس موقع پر احتجاجی قرار داد منظور کی گئی جس میں باجوڑ پر امریکی حملے کوپاکستان کی سالمیت پر حملہ قرار دیا اور کہا ہے کہ یہ واقعہ انسانیت کے خلاف ہے قرا رداد میں کہاگیا ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی مسلسل انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کررہے ہیں لیکن اقوام متحدہ ا ور عالمی ادارے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں قرا رداد میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ حکومت امریکہ میں باقاعدہ احتجاج کرے ۔ قرار داد میں وزارت خارجہ کی طرف سے مذمتی بیان جاری نہ کرنے کی بھی شدید مذمت کی گئی ۔ حکومت خارجہ پالیسی کوپارلیمنٹ میں زیر بحث لائے اور خارجہ پالیسی کا قبلہ درست کرے اور سابقہ حکومت کی خارجہ پالیسی تبدیل کرے ۔تحریر اے پی ایس،اسلام آباد
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment