International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.

Tuesday, June 10, 2008

ایگزیکٹو آرڈر سے جج بحال ہو سکتے ہیں تو پہلے ایسے آرڈر کے ذریعے نواز شریف کی ٩٩ء کی حکومت بحال کردینی چاہیے ۔مولانا فضل الرحمن




رحیم یار خان ۔ حکومت میں شامل جماعتوں نے پرویز مشرف کے مواخذہ کی تحریک قومی اسمبلی میں پیش کی تو جمعیت علماء اسلامی اس کی مکمل حمایت کرے گی ۔ جے یو آئی (ف) حکومتی اتحادی ہونے کے ناطے مشرف کے خلاف کسی بھی فیصلہ پر لبیک کہے گی ۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعیت علماء اسلام (ف) کے مرکزی امیر مولانا فضل الرحمن نے منگل کے روز رحیم یار خان میں جے یو آئی (ف) کی سینٹری ایگزیکٹو کمیٹی کے ممبر مولانا رشید احمد لدھیانوی کے گھر پریسکانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ اس موقع پر سینٹ میں چیف وہیب مولانا عبدالغفور حیدری سمیت دیگر بھی موجود تھے ۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ قومی اسمبلی میں اگر ایک ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے ججز اور عدلیہ کو 2 نومبر 07ء والی ہو سکتی ہے ۔ تو بہتر ہے کہ ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے 12 اکتوبر 99 ء کی حکومت کو بحال کر کے اقتدار نواز شریف کے حوالے کیا جائے ۔ کیونکہ یہ اقدام 3 نومبر 07ء سے زیادہ بڑا تھا ۔ انہوں نے کہا کہ پچھلی قومی اسمبلی اور ملک کی دیگر اسمبلیوں نے سخت ترین آمریت کے دور میں اپنی آہنی مدت کو پورا کر کے ریکارڈ قائم کیا ہے اور اب بھی ملک میں کمزور ترین آمریت ہے ۔ لہذا حکومتی اتحاد میں شامل بڑی سیاسی جماعتوں کو ملک میں جمہوریت کے استحکام کیلئے چاہیئے کہ اسمبلیاں اپنی آئینی مدت کو پورا کریں ۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ حکومت میں شامل جماعتیں زبانی طور پر ایک دوسرے سے محبت کا اظہار نہ کریں بلکہ دل سے مخلص ہو کر کام کریں ۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ پاکستان میں 1958ء میں لگنے والا مارشل لاء تھا ۔ اس کے بعد جتنے فوجی آمر آئے انہوں نے جزوی مارشل لاء لگا کر اپنا کام چلا یا ۔ سابقہ فوجی جرنیلوں کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ (ر) جرنیل ملازمت سے فار غ ہو کر سچ بولنا شروع کردیتے ہیں اور ان کی سیاست فعال ہو جاتی ہے لیکن جب وردی میں ہوتے ہیں تو اپنے کمانڈر کے ساتھ مل کر وہ تمام کام کرتے ہیں جو ان کا لیڈر کرتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ وہ وکلاء کے لانگ مارچ کی حمایت نہیں بلکہ حکومت میں شامل ہونے کی وجہ سے مخالفت کرتے ہیں ۔

No comments: