مسلم لیگ (ن) کو خیبر ایجنسی میں آپریشن کے بارے میں اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ فی الحال وہ علیحدہ نہیں ہو رہے جولائی کا پورا مہینہ وہ دیکھیں گے تاکہ یہ نہ کہا جائے کہ مہلت نہیں دی۔ انھیں 15مئی کے بعد سے سرحد میں آپریشن سمیت کسی بھی معاملے اور فیصلے پر اعتماد میں نہیں لیا جا ر ہا اگر معاملات حل نہ ہوئے تو مرکزی مجلس عاملہ سے رہنمائی اور پھر ان سے بات کی جائے گی۔ پنجاب میں ان کی پوزیشن مستحکم ہے۔ فوری طور پر قومی اسمبلی کا اجلاس بلا کر آپریشن پر بحث اور اتحادی جماعتوں کو اعتماد میں ناگزیر ہے۔ آج بھی خارجہ پالیسی وہی ہے جو 18فروری سے پہلے پرویز مشرف کے دور میں تھی ‘ قبائلی علاقوں اوردیگر مسائل کے حل کیلئے قومی پالیسی بنانے کی ضرورت ہے قبائلی علاقوں میں آپریشن کرنے کا اختیار فوج یا کسی جماعت کے لیڈر کے پاس نہیں ہونا چاہیے بلکہ تمام فیصلے پارلیمنٹ میں ہونے چاہئیں ‘قبائلی علاقوں میں جاری آپریشن اصل میں فوج کشی ہے اور آج ضرورت اس بات کی ہے کہ قبائلیوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کی بجائے مرہم رکھا جائے، صرف قبائلی علاقوں ہی نہیں پورے ملک کے حالات انتہائی خراب ہو چکے ہیں ‘ بہت سی بیرونی طاقتیں پاکستان کے خلاف سرگرم ہیں اور یہاں پر امن نہیں چاہتیں ‘حکومتی اتحاد کا مستقبل اعلان مری پر عملدرآمد سے وابستہ ہے اس میں کسی کو شکو ک وشبہات کا شکار نہیں ہونا چاہیے ‘ حکومتی اتحاد سے علیحدگی انتہائی خطرناک ہو سکتی ہے لیکن جب ن والے سمجھیں گے کہ اتحاد میں رہنے کا کوئی فائدہ نہیں باہر آجائینگے ۔ جبکہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں محمد نوازشریف نے امریکہ پر واضح کیا ہے کہ پاکستان کی داخلی پالیسی میڈ ان پاکستان ہوگی اس بارے میں غیر ملکی دباو¿ کو قبول نہیں کیا جائے گا۔ ا مسلم لیگ (ن) نے امریکی عہدیداروں پر قبائلی علاقوں میں آپریشن ، معزول ججوں کی بحالی اور خطہ کی صورتحال سمیت دیگر باہمی دلچسپی کے امور پر اپنا موقف واضح کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان اپنی داخلی پالیسی کے حوالے سے کسی بھی غیر ملکی دباو¿ کا متحدمل نہیں ہے۔ پاکستان کی داخلہ پالیسی میڈ ان پاکستان ہوگی۔ امریکہ اب جنرل (ر) پرویز مشرف کی حمایت چھوڑ دے جنرل (ر) پرویز مشرف پاکستان کے عوام کی ترقی اور روشن مستقبل ، معزول ججوں کی بحالی اور پاکستان کے سیاسی استحکام کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ اور کانٹا ہیں جب تک یہ کانٹا دور نہیں ہوتا پاکستان میں استحکام نہیں آسکتا اور نہ ہی پاکستان میں جمہوری اور عدالتی معاملات کو آگے بڑھایا جاسکتا ہے۔ میاں نوازشریف نے امریکہ پر یہ بھی واضح کیا ہے کہ گذشتہ آٹھ سال کے دوران بندوق کے زور پر مسلط کی جانے والی مشرف کی پالیسی بری طرح ناکام رہی ہے۔ انہوں نے امریکی عہدیداروں پر اپنے اس موقف کا بھی اعادہ کیا ہے کہ غیر ملکی پاکستان کی دوست طاقتیں اگر پاکستان کے داخلی استحکام میں سہولت فراہم نہیں کرسکتیں تو انہیں اس میں مداخلت بھی نہیں کرنی چاہئے۔ دہشت گردی کی جنگ اور قبائلی علاقوں میں آپریشن سے متعلق اگرچہ امریکی عہدیداروں کا موقف مسلم لیگ (ن) کے موقف کے قریب نہ تھا لیکن ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ وہ کسی فرد واحد کی بجائے پاکستان کے عوام سے دوستی چاہتا ہے اور پاکستان میں ایک نئے دور کا آغاز کرنا چاہتا ہے۔ وزیراعظم سے ملاقات میں مسلم لیگ ن اپنے مطالبات سامنے ر کھنے والی ہے مسلم لیگ (ن) نے رچرڈ باو¿چر پر واضح کیا ہے کہ وہ قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن کے حق میں نہیں ہے اور مسائل کا حل مذاکرات کے ذریعے چاہتی ہے۔ دہشت گردی کی جنگ ہو یا پاکستان کے داخلی استحکام کا مسئلہ ان تمام معاملات پر پالیسی پارلیمنٹ میں بحث کے بعد وضع کی جانی چاہئے آصف علی زرداری وطن واپس آئیں تو ان تمام معاملات کو ان کے سامنے اٹھایا جائے مسلم لیگ (ن) کو خیبر ایجنسی میں آپریشن سے متعلق سب سے بڑی اتحادی جماعت ہونے کے باوجود مسلم لیگ (ن) کو اعتماد میں نہیں لیا گیا اور نہ ہی حکومت اور قبائل کے درمیان ہونے والے کسی معاہدہ یا اس کی خلاف ورزی سے متعلق کچھ علم ہے کہ کیا معاہدہ کیا گی اور خلاف ورزی کیا ہوئی۔ یہ بات بھی کہی گئی کہ پشاور پر بھی قبضہ ہوسکتا ہے لیکن تین روز گزر جانے کے باوجود کہیں بھی کوئی مزاحمت دیکھنے میں نہیں آئی پھر آخر وہ لوگ کہاں غائب ہوگئے اور سلحہ کہاں چلا گیا ہے۔ امریکی نائب وزیر خارجہ کوئی خاص پیغام لے کر نوازشریف کے پاس نہیں آئے بلکہ یہ ایک معمول کی ملاقات تھی ماضی میں جب بھی کوئی امریکی عہدیدار پاکستان آیا اس سے قبل قبائل یا بلوچستان میں آپریشن کرکے انہیں لاشوں کے تحفے دیئے گئے۔ بدقسمتی سے جمہوری حکومت کے قیام کے بعد بھی ایسا ہی ہوا ہے اور ان کے پاکستان آنے سے 24گھنٹے پہلے خیبر ایجنسی میں آپریشن شروع کردیا گیا جس کی ذمہ داری مسلم لیگ (ن) قبول نہیں کرتی۔
International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.
Tuesday, July 1, 2008
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment