International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.

Saturday, July 5, 2008

ملک کی قیادت بودے لوگوں کے ہاتھ میں ہے جنہوں نے ذاتی مفادات کیلئے قوم کو یرغمال بنا رکھا ہے ۔ قاضی حسین احمد



لاہور ۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان قاضی حسین احمد نے کہاہے کہ اس وقت سیاسی قیادت بودے لوگوں کے ہاتھ میں ہے جنہوں نے اپنی چھوٹی چھوٹی اغراض کے لیے قوم کو یرغمال بنا رکھاہے ۔ ان کی موجودگی میں ہم آزاد قوم کی حیثیت سے فیصلے نہیں کر سکتے ۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ ہماری نہیں امریکہ کی جنگ ہے جس کا منصوبہ نائن الیون سے بھی پہلے بنایا گیا تھا ۔ وزیراعظم کا 100 دن کا منصوبہ فریب کے سوا کچھ نہیں تھا ۔ پیپلز پارٹی کی حکومت عوام کو ریلیف دینے کے بجائے انہیں دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہی ہے ۔ بجلی ، گیس اور پٹرول کی قیمتوں میں ظالمانہ اضافے نے عوام کی زندگی اجیرن بنا دی ہے ۔ موجودہ حکمران کشمیر کے بارے میں پرویز مشرف کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں اور امریکہ اور بھارت کی مرضی کے مطابق کشمیر سے دست بردار ہونا چاہتے ہیں ۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے آج منصورہ میں مختلف وفود سے باتیں کرتے ہوئے کیا۔ قاضی حسین احمد نے کہاکہ ہمارے لیے اس وقت اہم ترین مسئلہ امریکہ سے آزادی حاصل کرنا ہے ۔ جب تک ہم آزاد قوم کی حیثیت سے اپنی پالیسیاں خود نہیں بنائیں گے ، ہمارے مسائل بڑھتے جائیں گے ۔ انہوںنے کہاکہ قبائلی علاقوں میں کوئی مسئلہ نہیں تھا ۔ پشاور میں جان بوجھ کر اضطراب پیدا کیاگیا ۔ وہاں نارمل حالات چل رہے تھے ۔ کوئی خدشہ نہیں تھا لیکن وہاں جان بوجھ کر بے چینی اور مصنوعی صورتحال پیدا کی گئی ہے ۔ صرف امریکہ کو یہ باور کرانے کے لیے ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مصروف ہیں ۔ ایک سوال کے جواب میں قاضی حسین احمد نے کہاکہ روس کے خاتمے کے بعد امریکہ نے تہذیبی جنگ کے نام سے ایک پلان تیار کیا ۔ ہر جگہ اسلامی تحریکوں کو خطرہ بنا کر پیش کیا گیا اور مغربی میڈیا ان کو دہشت گردقرار دینے میں مصروف ہو گیا ۔ نائن الیون سے پہلے سارا نقشہ تیار کیا گیا ۔ انہوں نے کہاکہ یہ کیسے ممکن ہے کہ امریکہ کے چار ایئر پورٹس سے بیک وقت ہوائی جہاز اڑتے ہیں اور وہ دو اہم عمارتوں اور پینٹاگون سے ٹکراتے ہیں اور امریکی فوج اور فضائیہ اس سے غافل رہتی ہے ؟ یہ سب کچھ یہودیوں کا کھیل ہے جنہوں نے امریکہ کو بھی اس میں ملوث کیا ۔ انہوں نے کہاکہ اس واقعہ کو بنیاد بناکر افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی اور اب پاکستان کو میدان جنگ بنایا جارہاہے ۔ اس جنگ میں ہمارے حکمران امریکہ کے ساتھ برابر کے شریک ہیں ۔ ہمیں اس طرح کے حکمرانوں سے جان چھڑانا ہو گی اور اس کے لیے عوام کو سڑکوں پر نکلنا ہو گا ۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ موجودہ پارلیمنٹ کی حیثیت قابل رحم ہے ۔ تمام فیصلے حسب سابق فرد واحد کر رہاہے ۔ رچرڈ باؤچر بار بار ڈکٹیٹ کرانے یہاں آ جاتاہے ۔ انہوںنے کہاکہ ہم نے انتخابات میں اس لیے حصہ نہیں لیا کیونکہ ہمیں معلوم تھاکہ امریکی سیٹ اپ میں سکیم تیار کی گئی تھی ۔ ترکی کے صدر کو ہم پر دباؤ ڈالنے کے لیے بلایا گیا تھا کہ ہم اس شکنجے میں سر دے دیں ۔ ہمارا موقف یہ تھاکہ پرویز مشرف کے زیر انتظام اور موجودہ الیکشن کمیشن کی موجودگی میں انتخابات میں حصہ لینے سے کوئی تبدیلی نہیں آ سکتی اور آج یہ بات ثابت بھی ہو چکی ہے ۔ پیپلز پارٹی کی حکومت صدر کے آگے بے بس ہے اور مشرف دن بدن مضبوط ہو رہاہے اور اسی کی پالیسیوں کا تسلسل جاری ہے ۔اب مشرف کھلم کھلا کہہ رہے ہیں کہ اس کی پالیسی چل رہی ہے اور چلتی رہے گی۔ایک اور سوال پر قاضی حسین احمد نے کہاکہ عوام لوڈ شیڈنگ ،مہنگائی ، ڈاکہ زنی اور قتل و غارت گری سے تنگ ہیں ۔ کسی کی جان و مال محفوظ نہیں ۔ ہم فی الحال فوری طور پر حکومت کے خلاف تحریک نہیں چلا رہے اور منتخب نمائندوں کو موقع دینا چاہتے ہیں لیکن ہم یہ چاہتے ہیں کہ امریکہ سے آزادی حاصل کی جائے ۔ انہو ں نے کہاکہ موجودہ شکل میں یہ نظام نہیں چل سکتا کیونکہ موجودہ حکمران آمرانہ نظام کے ساتھ ڈیل کے تحت آئے ہیں اور امریکن بار بار یہاں آ کر انھیں باور کراتے ہیں کہ تمہارا مسئلہ جمہوریت اور مشرف نہیں بلکہ دہشت گردی ہے ۔ تم فوج کو عوام کے ساتھ لڑاؤ اور اس پر یلغار کرو اور مشرف کو نہ چھیڑو اس کے رہنے سے تمہارے تمام مسائل حل ہو جائیں گے ۔ قاضی حسین احمد نے کہاکہ موجودہ حکمرانوںکے پاس حوصلہ ہے اورنہ کوئی پروگرام ہے ۔ وہ یہ کہہ کر جان چھڑانے کے کوشش کرتے ہیں کہ ’’ موجودہ مسائل انھیں ورثے میں ملے ہیں ‘‘ ۔ انہوں نے کہاکہ حکمران آزاد قوم کی حیثیت سے فیصلے کریں ، عدلیہ کو بحال کریں ،١٩٩٩ء والی شکل میں دستور کو بحال کریں ، امریکی گرفت سے نکل آئیں اور اپنے ہمسائے چین اور ایران کے ساتھ مل کر اپنی آزادی کو یقینی بنا لیں تو کسی حد تک مسائل پر قابو پایا جاسکتاہے ۔

No comments: