وزیراعظم سیّد یوسف رضا گیلانی نے اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ پیپلز پارٹی شہید ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے فلسفہ اور پارٹی منشور پر عمل کرتے ہوئے عوام کے بنیادی مسائل کو حل کریگی، 1973ء کے آئین اور عدلیہ کی بحالی، اداروں کے استحکام، آزاد صحافت کے فروغ سمیت بنیادی سہولتوں کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے گا۔ اداروں کو مضبوط بنائیں گے،صحافت کو مکمل آزادی میسر ہو گی،شہید بھٹو کے ”روٹی ،کپڑااور مکان “کے منشور پر عملدرآمد ہوگا،عوام کی خدمت کرتے ہوئے ان کی توقعات پر پورا اترینگے،وزیراعظم نے واضح کیا ہے کہ عدلیہ کی آزادی کی جنگ ہم لڑیں گے،وزیر اعظم سے پاکستان کے عوام کا پر زور مطالبہ ہے کہ کسی صورت بھی چیف جسٹس کے سوموٹو ایکشن کو ختم نہ کیا جائے کیونکہ ایک عام آدمی کے پاس منہ زور انتظامہ کے سامنے حصول انصاف کے لئے ایک ہی شاٹ کٹ ہے وزیراعظم اب عوام کی عملی طور پر خدمت اور مختلف منصوبوں کا آغاز کریں جن سے عوام یہ محسوس کریں کہ واقعی حکومت عملی طور پر ان کیلئے کام کر رہی ہے۔ اس وقت عوام جو محسوس کر رہے ہیں وہ یہ ہے کہ ابھی تک نگران حکومت والی کیفیت ہے ۔آٹا،بجلی،مہنگائی، بے روزگاری،ناانصافی جیسے مسائل اور بحرانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔ اگرچہ ان بحرانوں کی کڑیاں سابقہ ادوار سے جا ملتی ہیں لیکن موجودہ حکمرانوں کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ موجودہ بحرانوں کو سابقہ حکومت کے کھاتے میں ڈال کر دن گزارتے جاہیں۔عوام نے آپ کو منتخب کر کے اس لئے بیجھا ہے۔ کہ آپ جنگی بنیادوں پر ان کو حل کریں۔اگر آپ ایسا نہیں کر سکتے تو آپ کو قو می خزانہ پر بو جھ بننے کی کوئی ضرورت نہیں اور اقتدار سے الگ ہوجائیں۔ اس وقت وزیر اعظم پاکستان کو عوام کیلئے کچھ عملی طور پر کرکے ثابت کرنا ہوگا کہ بھٹو کل بھی زندہ تھا اور آج بھی زندہ ہے، اگر آپ نے اور آپ کی حکومت نے ایسا نہ کیا تو پیپلز پارٹی اور اس کے سیا سی جانشین جناب آصف زرداری کی بد نامی کے ذمہ دار آپ ہوں گے۔ کیونکہ انھوں نے وزارت عظمی کا منصب آپ کو سونپا ہے۔ تین مئی پاکستان سمیت دنیابھرمیںصحافت کاعالمی دن منایاگیا۔اسلام آباد اورصوبائی دارالحکومتوں سمیت ملک کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں اس موقع پر صحافتی تنظیموں کے زیر اہتمام سیمینارز،ریلیوں، مباحثوں اور دیگر تقر یبا ت کا انعقاد کیاگیاجن میں ذرائع ابلاغ کی آزادی اور قومی و بین الاقوامی سطح پر ذرائع ابلاغ کے کردار پر روشنی ڈالی گئی۔ صحافیوں نے اس موقع پر جلوس اور ریلیاں بھی نکالیں۔ آزادی صحافت کی بات کرنے والوں کو بھی صحافت میں بھی جمہوریت کو متعارف کرانا ہوگا۔کسی کو بھی یہ حق نہیں پہنچتا کہ ملک بھر کے صحافیوں کے نام پر چند لوگ اپنی صحافتی دوکان چمکائیں۔ اور اس ضمن میں ضروری ہے کہ ملک بھر کے صحافی اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں اور ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم کریں ۔ اور صحافتی تنظیموں اور پریس کلبوں کے عہدیداران سے بھی گزارش ہے کہ وہ صحافیوں کی پیشہ وارانہ تعلیم و تربیت اور آزادی صحافت پر تحقیقی کا موں پر بھی زور دیں۔ تاکہ ایک پروفیشنل صحافی اور صحافتی مزارع،سیاسی مزارع اور حکومتی مزارع میں فرق نظر آئے۔ اور ملک بھر کے پریس کلبوں کے عہدیدیران سے بھی گزارش ہے کہ ممبر شپ کے طریقہ کار کو بھی بین الاقوامی میڈیا کی تنظیموں کے معیار کے برابر لائیں۔ ہمارے ہاں یہ المیہ ہے کہ ہر پریس کلب کی لیبر ونگ پورے پریس کلب پر مسلط ہے۔ پریس کلب تو ایک انسٹی ٹیوٹ یعنی ایک ادارہ ہوتا ہے جس میں پبلشرز، ایڈیٹرز، نیوز پہپرز کے چیف ایگزیکٹو، پبلک ریلیشنز ایکسپرٹ، میڈیا کے طالب علم اور ا خباری اداروں کے کل وقتی ملازم صحافی ہوتے ہیں۔ لیکن ہمارے ہاں ایسا نہیں۔ آپ ملک بھر کے کسی بھی پریس کلب کا جائزہ لے لیں۔ وہا ں آپ کو صرف نام کے اجرتی ملازم صحافی نظر آئیں گے اور اخبارات و جرائد کے پبلشرز اور ایڈیٹرز نہ ہونے کے برابر ہیں۔ صحافت کے تمام شعبوں کی ایک جگہ نمائندگی نہ ہونے کی وجہ سے بھی صحافیوں کے مسائل نہ حل ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔ پاکستانی صحافت اور اس ملک کی سیاست کرنے والوں کے طریقہ کار میں کوئی خاص فرق نہیں۔جس طرح اس ملک کے سیاسی انویسٹرز ساٹھ سال سے کسی عام آدمی کو آگے نہیں آنے دیتے رہے یہی حال پاکستان کی صحافت کا ہے۔چند صحافتی صنعتکاروں نے بھی ایسی اجارہ اداری قائم کی ہوئی ہے کہ ملک بھر کے ایک عام صحافی کا اب خواب ہی رہ گیا ہے کہ وہ ساری زندگی مشقت کرنے کے بعد کوئی اخبار یا میگزین کا اجراءکرکے اپنی سوچ کی آزادی کا اظہار کرسکے۔ جو اسے ان اخباری اداروں میں نہیں ملتی جہاں وہ ساری عمر اخباری مالک کے مفادات کیلئے قلم استعمال کرنے کا پابند ہوتا ہے۔ تمام صحافتی تنظیموں کے عہدیداران سے گزارش ہے کہ کوئی ایسا لائحہ عمل بنائیں۔جس میں ایک اخباری ملازم اور ایک اخباری مالک کو ایک پلیٹ فارم کے نیچے اکٹھا کرنے کا پا بند کیا جائے اور اس کے لئے ضروری ہے کہ ہر شہر کے اخباری پبلشراور اخباری ورکرکو متعلقہ شہر کے پریس کلب کے پلیٹ فارم سے اپنے مسائل اور حقوق کی جنگ لڑنے کا پابند کیا جائے۔اور آل پاکستان کے نام کی تنظیموں کا خاتمہ کیا جائے۔ اخباری مالکان سے درخواست ہے کہ یہ وہی صحافی ہیں جنہوں نے آپ کے اداروںکی سلامتی کیلئے سڑکوں پر آکر ڈنڈے کھائے ہیں۔ کسی اخباری مالک نے ڈنڈا نہیں کھایا خون ورکرز کا نکلا ہے اخباری ورکرز کی عزت کرنا ہوگی۔جبکہ وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا)کاانتظامی کنٹرول اطلاعات ونشریات ڈویڑن کو منتقل کردیا ہے اس سے قبل کابینہ ڈویڑن کے پاس پیمرا کا نتظامی کنٹرول تھا ایک نوٹیفکیشن کے مطابق وزیراعظم نے 1973ء کے رولز آف بزنس کی دفعہ3شق 3کے تحت پیمرا کے انتظامی کنٹرول کی منتقلی کی منظوری دی، یہ نوٹیفکیشن فوری طور پر نافذ العمل ہوگا۔واضح رہے کہ ابتدائی طور پر پیمرا کو کابینہ ڈویڑن کے ماتحت رکھا گیا تھا لیکن بعدازاں جب سید انور محمود کو وزارت اطلاعات کا سیکرٹری مقرر کیاگیا تو ان کے دور میں پیمرا کو وزارت اطلاعات کاماتحت ادارہ بنایا گیا تھا بعدازاں عام انتخابات کے دوران نگران حکومت نے اس ادارہ کو واپس کابینہ ڈویڑن کے ماتحت کردیا ۔ جبکہ فاقی وزیر اطلاعات و نشریات شیری رحمن نے کہا ہے کہ تحریر و تقریر کی آزادی پاکستان پیپلز پارٹی کے منشور میں شامل ہے، موجودہ دورمیں میڈیا مکمل آزاد ہے، حکومت ریگولیٹر کی بجائے معاون کا کردار ادا کریگی تاہم میڈیا کو خود ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہو گا، صحافیوں کیلئے جلد ہی وکٹمزفنڈ کااعلان کیا جائے گاجبکہ حکومت ویج بورڈ کے مسئلہ پر پوری تندہی کے ساتھ کام کر رہی ہے،3نومبرکے پریس ایکٹ کوختم کیاجائے گا۔ حکومت وزارت اطلاعات اور پیمرا کو ریگولیٹر کی بجائے معاون بنائے گی اوراس اہم ترین دن پرہمیں عزم کرنا ہے کہ ہم اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔ انہوں نے یقین دلایا کہ پیمرا کو اطلاعات کنٹرول کرنے کیلئے استعمال نہیں کیا جائے گا،پیمرا سے کوڈ آف کنڈکٹ ختم کر دیا گیا ہے، اب میڈیا پر لازم ہے کہ وہ اپنا کوڈ آف کنڈکٹ خود وضع کرے اورریاست کے اہم ستون کی حیثیت سے ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ذاتی پسند و ناپسندسے گریزکرے۔ رواں ماہ کے وسط میں ایک کانفرنس بلائی جائے گی جس میں فریقین سے میڈیا کی آزادی سے متعلق مشاورت کی جائے گی۔ وزیراطلاعات نے کہاکہ پریس نے ہمیشہ ہرجمہوری قوت کاساتھ دیاہے اور پیپلز پارٹی میڈیا کے اس کردار کو ہمیشہ یاد رکھے گی۔ صحافیوں کی انشورنس اور تحفظ کے حوالہ سے انہوں نے کہا کہ انشورنس فنڈ ہونا چاہئے، حکومت جلد ہی صحافیوں کیلئے وکٹمز فنڈ کا اعلان کرے گی۔شیری رحمن نے کہا کہ حکومت ویج بورڈ کے مسئلہ پر کام کر رہی ہے اور وزیر اعظم کے ساتھ بھی اس مسئلہ پر بات ہوئی ہے۔ سرکاری اشتہارات کے بارے میں انہوں نے بتایا ہے کہ اب وزارت اطلاعات کے پاس صرف 25 فیصداشتہارات رہ گئے ہیں، باقی اشتہارات مختلف محکموں کے اپنے کنٹرول میں ہیں۔ گزشتہ کئی سالوں کی طرح اس سال بھی دنیا بھر میں تین مئی کو آزادی صحافت کا دن منایا گیا ۔صحافیوں کے حقوق کے لئے کام کرنے والی عالمی تنظیم کے مطابق سال 2008ء بھی صحافیوں کے غیر محفوظ سال ثابت ہو رہا ہے ۔پاکستان میں سال 2008ء کے پہلے چار ماہ 3صحافی جاں بحق ہو چکے ہیں ۔صحافتی آزادی کے لئے کام کرنے والے ایک عالمی گروپ نے اپنی رپورٹ میں ان مسائل کی نشاندہی کی ہے جو 2007کے دوران میڈیا کی آزادی کی راہ میں حائل رہے۔رپورٹ کے مطابق دنیا کی 42فی صد آبادی کو اظہار رائے کا حق حاصل نہیں جبکہ اظہار کی آزادی کے اعتبار سے پاکستان دنیامیں چھیاسٹھ ویں نمبر پر ہے۔ دنیا بھر میں آزادء صحافت کی صورتھال کا جائزہ لینے والی غیر سرکاری امریکی تنظیم فریڈم ہاوس نے اپنی سالانہ جائزہ رپورٹ میں 2007کو عالمی طور پر صحافتی تنزلی کا سال قرار دیا ہے۔ سال 2007 ء میڈیا کے لیے بھی بھاری ثابت ہوا ۔ میڈیا کے اعتماد کی بحالی حکومت کے لیے 2008 ء میں اہم چیلنج ہو گا ۔ ملک میں 2007 ء میں میڈیا کو ایوب خان اور ضیاء الحق کے آمرانہ دور سے زیادہ پابندیوں اور سخت حالات کا سامنا کرنا پڑا ۔ 2007 ء میں نہ صرف 9 صحافی اپنے پیشہ وارانہ فرائض کی انجام دہی میں جاں بحق پچاس زخمی نو اغواء اور سو سے زائد گرفتار ہوئے ۔ بلکہ تین نومبر کو ایمرجنسی کے نفاذ اور پی سی او کے نتیجے میں آزادی صحافت سلب کرتے ہوئے نجی ٹی وی چینلز کی نشریات پر پابندی عائد کر دی گئی اور میڈیا سے متعلق پریس نیوز پیپرز ، نیوز ایجنسیز اینڈ بکس رجسٹریشن ترمیمی آرڈیننس 2007 ء اور پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی تیسرا ترمیمی آرڈیننس 2007ء جاری کئے گئے ۔ جن کی ہر سطح پر مذمت اور انہیں پریس کے خلاف کالے قوانین قرار دیا گیا ۔ نجی ٹی وی چینلز کی نشریات بند کر دیں گئیں ۔2007 ء میں دنیا بھر میں اپنے فرائض کے دوران ہلاک ہونے والے 66 صحافیوں میں سے سات کا تعلق پاکستان سے ہے۔ صحافیوں سے متعلق ایک عالمی تنظیم کی رپورٹ کے مطابق 2007 ء میں مرنے والے صحافیوں کی تعداد گزشتہ دس سالوں میں سب سے زیادہ ہے ۔2007 ء میں اپنے فرائض کے دوران ملک میں جاں بحق ہونے والے 9صحافیوں میں چارسدہ کے فری لانس صحافی محبوب خان ، قبائلی علاقے باجوڑ میں روزنامہ پاکستان کے نور حکیم خان ، اسلام آباد میں مرکز اخبار اور برطانوی ٹی وی ایم ڈیجیٹل کے جاوید خان کراچی میں اے آر وائی کے محمد عارف ، میرپور خاص میں روزنامہ جنگ کے زبیر احمد مجاہد ، سندھ میں ڈسٹرکٹ خیر پور کے علاقے پیر جوگوٹھ میں خبرون کے نثار احمد سونگی اور پشاور میں نجی ٹی وی چینل نیوز ون کے سید کامل مشہدی شامل ہیں ۔ سید کامل مشہدی سال ختم سے ایک روز قبل 30 دسمبر کی شام پشاور میں قتل کر دئیے گئے تھے ۔ سی پی جے کی تحقیقات کے مطابق سب پاکستانی صحافی اپنے کام یا تحقیقی رپورٹنگ کی وجہ سے مارے گئے ۔ 2007 ء کے وسط میں اسلام آباد میں ایک خبر رساں ادارے کے چیف ایڈیٹر شکیل احمد ترابی کو ایجنسیوں کی جانب سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا بلکہ ان کے بیٹے حسن شرجیل ترابی پر بھی سکول کے باہر تشدد کیاگیا اس طرح بلوچستان میں ریاض مینگل نامی صحافی کو اغواء کیا گیا ۔2007 ء کے اوائل میں ایک فائیو سٹار ہوٹل کے باہر خود کش دھماکے کی کوریج کے دوران بھی صحافیوں کو پولیس تشدد کا سامنا کرنا پڑا جس میں آٹھ سے زائد صحافی اور کیمرہ مین زخمی ہوئے ۔نومبر 2007 ء میں شمالی وزیرستان میں صحافی حیات اللہ مرحوم کی اہلیہ ایک بم دھماکہ میں جاں بحق ہو گئیں پی ایف یو جے کے مرکزی صدر ہما علی کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دی گئیں ۔ اپریل میں کراچی میں ایک ریلی کے دوران 16 صحافیوں کو زخمی کیا گیا 3 نومبر کو میڈیا پر عائد پابندی کے خلاف کراچی پریس کلب سے نکلنے والی ریلی کو حکومت کی جانب سے روکتے ہوئے 100 سے زآئد صحافیوں کو گرفتار کر لیاگیا ۔29 ستمبر کو الیکشن کمیشن آف پاکستان کے باہر شاہراہ دستور پر سیکیورٹی اہلکاروں کے تشدد کے نتیجے میں 30 سے زائد صحافی زخمی ہوئے اور متعدد کے خلاف تھانہ سیکرٹریٹ میں مقدمہ درج کیا گیا۔ اس طرح دسمبر 2007 ء کے تیسرے ہفتہ میں سول سوسائٹی طلباءاور وکلاء کی معزول چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سے ملاقات کے لیے جانے والی ریلی پر پولیس کے تشدد کے نتیجے میں پانچ صحافی زخمی ہوئے ۔ راقم الحروف کو عالمی میڈیا کی تنظیم ورلڈ ایسوسی ایشن آف نیوز پیپرز WANاور ورلڈ ایڈیٹرز فورم نے جو براہ راست رپورٹ بیھجی ہے وہ بھی قارئین کی نذر ہے۔Nearly 17 percent of journalists jailed worldwide in 2007 were held without any publicly disclosed charge, many for months or years at a time and some in secret locations, the Committee to Protect Journalists has found in a new analysis.CPJ's annual worldwide census of imprisoned journalists found 127 behind bars on December 1, a decrease of seven from the 2006 tally. (Read detailed accounts of each imprisoned journalist..) The drop is due in large part to the release this year of 15 Ethiopian journalists who were either acquitted or pardoned of antistate charges stemming from a broad government crackdown on the press. CPJ and others had waged an intensive advocacy campaign on their behalf.China, which has failed to meet its promises to improve press freedom before the 2008 Olympics, continued to be the world's leading jailer of journalists, a dishonor it has held for nine consecutive years. Cuba, Eritrea, Iran, and Azerbaijan round out the top five jailers among the 24 nations that imprison journalists.Antistate allegations such as subversion, divulging state secrets, and acting against national interests remain the most common charge used to imprison journalists worldwide, CPJ found. About 57 percent of journalists in the census are jailed under these charges, many of them by the Chinese and Cuban governments.The proportion of journalists held without any charge at all increased for the third consecutive year. Eritrea and Iran account for many of these cases, but the United States has used this tactic as well. U.S. authorities have not filed charges or presented evidence against Al-Jazeera cameraman Sami al-Haj, held for more than five years at Guantánamo Bay, or Associated Press photographer Bilal Hussein, held in Iraq for more than 19 months. The U.S. military said in November that Hussein's case would be referred to Iraqi courts for prosecution but continued to withhold details explaining the basis for the detention."Imprisoning journalists on the basis of assertions alone should not be confused with a legal process. This is nothing less than state-sponsored abduction," CPJ Executive Director Joel Simon said. "While we believe every one of these 127 journalists should be released, we are especially concerned for those detained without charge because they're often held in abysmal conditions, cut off from their lawyers and their families."The practice of holding journalists without charge has eroded basic standards of fairness and accountability. Iranian authorities, for example, jailed Mohammad Seddigh Kaboudvand in July, but they have yet to file formal charges or bring the editor before a judge. Kaboudvand's lawyer has not been allowed to see him or review the government's case. Eritrean authorities will not even confirm whether the journalists in its custody are alive or dead. At least 19 journalists worldwide are being held in secret locations, CPJ found, with Eritrea the worst offender in this regard.Continuing a decade-long trend, Internet journalists make up an increasing proportion of CPJ's census. Bloggers, online editors, and Web-based reporters constitute about 39 percent of journalists jailed worldwide. Print journalists make up the largest professional category, accounting for about half of those in jail.The rise of Internet journalism and its risks are evident in China, where 18 of the 29 jailed journalists worked online. China's list includes Shi Tao, an award-winning journalist serving a 10-year sentence for e-mailing details of a government propaganda directive to an overseas Web site. The Internet giant Yahoo supplied account information to Chinese authorities that led to Shi's 2004 arrest and triggered an ongoing debate over corporate responsibility.China continues to rely heavily on the use of vague antistate charges, imprisoning 22 journalists on accusations such as "inciting subversion of state power." Despite China's 2001 promises to the International Olympic Committee that it would ensure "complete media freedom," its leaders continue to jail reporters and operate a vast system of censorship, CPJ found in a special report in August. CPJ has urged the IOC and the Games' corporate sponsors to hold Beijing accountable to its word."China has remained the world's worst jailer of journalists from the day the Games were awarded through today, just months before the Olympics are scheduled to begin," said CPJ's Simon. "China and the IOC have an obligation to make good on the broad promises made when Beijing was selected. For the torch to be lit in Beijing next August as 29 journalists languish in jail would mock the ideals of the Olympic movement."Fidel Castro 's absence from day-to-day power has not led to media reform in Cuba, the world's second-leading jailer. Twenty-four Cuban journalists are imprisoned, CPJ found, most of them swept up in a March 2003 crackdown on the independent press. Eritrea ranks third, with 14 jailed journalists, all held in undisclosed prisons.Two countries--Iran and Azerbaijan--are new to the list of leading jailers. Facing domestic dissent and economic troubles, Iranian authorities are meting out harsher penalties to journalists. Twelve are now in Iranian jails. One of them, Adnan Hassanpour, editor of the now-banned weekly Aso, was sentenced to death after being convicted in January of endangering national security and engaging in propaganda against the state.Imprisonments also spiked in Azerbaijan, where nine journalists are currently in jail. The imprisoned ranks include editor Eynulla Fatullayev, whose April arrest came shortly after he published an in-depth report alleging an official cover-up in the 2005 slaying of fellow Azerbaijani editor Elmar Huseynov.CPJ research shows that journalist imprisonments rose significantly after governments worldwide imposed sweeping national security laws in the wake of the 2001 terrorist attacks on the United States. Imprisonments stood at 81 in 2000 but have since averaged 129 in CPJ's annual surveys. Here are other trends and details that emerged in CPJ's analysis: o In about 12 percent of cases, governments used a variety of charges unrelated to journalism to retaliate against critical writers, editors, and photojournalists. Such charges range from regulatory violations to drug possession. In the cases included in this census, CPJ has determined that the charges were most likely lodged in reprisal for the journalist's work.o Criminal defamation, the next most common charge, was lodged in about 7 percent of cases. Charges of ethnic or religious insult were filed in about 5 percent of cases, while violations of censorship rules account for another 2 percent.o Print and Internet journalists make up the bulk of the census. Television journalists compose the next largest professional category, accounting for 6 percent of cases. Radio journalists account for 4 percent, documentary filmmakers 2 percent. o The longest-serving journalists in CPJ's census are Chen Renjie and Lin Youping, who were jailed in China in July 1983 for publishing a pamphlet titled Ziyou Bao (Freedom Report). Codefendant Chen Biling was later executed.CPJ believes that journalists should not be imprisoned for doing their jobs. The organization has sent letters expressing its serious concerns to each country that has imprisoned a journalist. In addition, CPJ sent requests during the year to Eritrean and U.S. officials seeking details in cases in which journalists were held without publicly disclosed charges. CPJ's list is a snapshot of those incarcerated at midnight on December 1, 2007. It does not include the many journalists imprisoned and released throughout the year; accounts of those cases can be found at http://www.cpj.org/ . Journalists remain on CPJ's list until the organization determines with reasonable certainty that they have been released or have died in custody.Journalists who either disappear or are abducted by nonstate entities, including criminal gangs, rebels, or militant groups, are not included on the imprisoned list. Their cases are classified as "missing" or "abducted." Details of these cases are also available on CPJ's Web site.
مذکورہ رپورٹ کے ساتھ دنیا بھر میں صحا فیوں کی ہلا کتیں اور گرفتاریوں کا گراف بھی موجود ہے۔
No comments:
Post a Comment