International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.

Sunday, May 4, 2008

تین مئی آزادی ٍصحافت کاعالمی دن ڈاکٹر نگہت نسیم، سڈنی




پاکستان سمیت دنیا بھر میں صحافت کو آزاد کہا جاتا ھے لیکن آزاد پسند لوگ ایک سوال ھر ایک سے پوچھتے ھیں کہ جہاں کرپشن ، غریبی اور خوف کے بادل ھر سو چھائے ھوں وہاں لوگ آزاد نہیں ھوتے تو یہ صحافت کیسے اور کب آزاد ھوسکتی ھے ؟ ۔ اور تو اور کچھ لوگ یہ بھی کہتے ھیں کہ خدا را ھمیں کوئی بتائے گا کہ صحافت ھوتی کیا ھے ؟ ۔ یقین جانیئے یہ وہ اٍس لیئے نہیں پوچھ رھے کہ انہیں معلوم نہیں ھے کہ صحافت کیا ھے ؟ بلکہ وہ صحافت کی نئی اصطلاح اور تعریف چاھتے ھیں جو آج ھر طرف نظر آتی ھے ۔ کہ یہ تو وہ بھی اچھی طرح سے جانتے ھیں کہ یہ صحافت وہ نہیں ھے جس کو تین مختلف پہلوؤں ( مندرجات ، پروڈکشن اور کام ) کے تناظر میں دیکھا جاتا تھا ۔ اور صحافت کو ابلاغ یعنی ماس کمیونیکیشن سے علیحدہ نہیں بلکہ اُس کا ایک حصہ سمجھا جاتا تھا ۔ کیوں نہ آج صحافت کی تاریخ کو زرا سا دھراتے ھوئے دیکھتے ھیں کہ صحافی کہاں تک صحافت میں آزاد ھیں ۔ صحافت ابلاغ کی نسبت اطلاعات اور معلومات پہنچانے کا ایک سُست زریعہ ھے کہ اٍس سے ایک وقت میں لاکھوں کڑوڑوں تک پیغام نہیں پہنچ سکتا ۔ صحافت میں براہ راست نشریات پیش کرنا بھی ممکن نہیں ھے کہ صحافت میں صرف تحریر سے کام لیا جاتا ھے اور ایک مسلسل عمل کی طرح تمام معلومات ایک تواتر سے ایک وقفے سے لوگوں تک پہنچائی جاتی ھے ۔ مزید یہ بھی کہ صحافت میں نہ رواں تبصرے پیش ھوسکتے ھیں اور نہ متحرک تصاویر پیش کی جا سکتی ھیں جس کی وجہ سے اصل مقامات جہاں واقعہ ھوا ھوتا ھے اُس کو دیکھانا ممکن نہیں ھوتا ۔یہی وجہ ھے صحافت کا دائرہ کار محدود ھوتا ھے اور ابلاغ کا دائرہ کار بہت وسیع ھوتا ھے کہ اُس میں صحافت کے دائرہ کار میں آنے والے اخبارات و جرائد ، ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے علاوہ جلسہ عام ، انٹرنٹ ، ویڈیو ، کتابیں اور پوسٹرز بھی آتے ھیں ۔ مطبوعہ صحافت ، اخبارات و رسائل کی قوت اور اہمیت ھر دور میں یقینی رھی ھے خواہ مارشل لاء کاتاریک دور رھا ھو یا نام نہاد سی جمہوریت کے دن رھے ھو ، تاھم کسی بھی ملک میں جب کبھی صحافت پر پابندیاں لگی ھیں تب تب قلمکاروں نے اپنے خون ٍ جگرسے آزادی کی شمع روشن کی ھے ۔ مطبوعہ صحافت یعنی پرنٹڈڈ جرنلزم ایک نہایت موثر اور طاقتور ہتھیار ھے کیونکہ اُن کے کندھوں پر ملکی اور قومی استحکام و سالمیت کے نقطہ نظر سے اہم زمہ داریاں عائد ھوتی ھیں ۔ صحافت کی تمام اقسام میں مسایل کے بارے میں حقائق ثبوت کے ساتھ پیش کیئے جاتے ھیں جس کی وجہ سے قبولٍ عام کی سند رکھتے ھیں ۔ ویسے بھی انسان فطری طور پر تجسس کا مادہ رکھتا ھے اور اٍسی بنا پر خود کو باخبر رکھنے کے لیئے اخبار پڑھنا زیادہ پسند کرتا ھے۔ ابتدا میں صحافت صرف خبروں تک ھی محدود تھی جس میں آہستہ آہستہ اپنے اپنے دور کے تقاضوں کے مطابق تبصرے ، تجزیے، تجاویز اور آرا بھی شامل ھوتی گئیں ۔ اٍسی وجہ سے صحافت کو سرکار(executive ) ، عدلیہ (judiciary) اور انتظامیہ (legislature) کے بعد ریاست کا چوتھا ستون بھی کہتے ھیں ۔ اگر کوئی ایک بھی اپنے فرائض کی بجا آوری میں کوتاھی کرے تو ریاست کا وجود خطرے میں پڑ سکتا ھے ۔ اٍسی وجہ سے صحافت کی آزادی ایک آئینی حق ھے اور صحافت کے تمام زرائع کو حق ھے کہ وہ حقائق کی پاسداری کے لیئے کسی دباؤ کے بغیر کام کریں کیونکہ جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنا بھی جہاد ھے ۔صحافت جہاں رائے عامہ کہ تشکیل اور قومی شعور کے لیئے انتہائی اھم زریعہ ھے وہی پر حکومت اور عوام کے درمیان ایک رابطہ بھی ھے جس کے زریعے لوگ اپنےحکمرانوں اور انتظامیہ کا احتساب بھی کرتے ھیں اور فکری رہنمائی کے زریعے بین ا لاقوامی سطح پر ملکی یکجہتی سے اپنے دینی اور اخلاقی اقدار کے ساتھ ثقافت اور جمہوریت کو غیر جانباداری سے پیش بھی کرتے ھیں ۔یہ کہنا بلکل غلط نہ ھو گا کہ تخلیق ٍ آدم کے ساتھ ھی ابلاغ کا آغاز ھو گیا تھا ۔ مسلمان ھونے کے ناطے ھمارا یقین ھے کہ اللہ پاک نے انسان کو قلم کے زریعے علم سکھایا۔ اٍس سلسلے میں حضورٍ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ھونے والی وحی میں “ الذی علم با لقلم “ کے الفاظ سند ھیں ۔ تحقیق بتاتی ھے کہ لکھنے کے لیئے سب سے پرانا رسم الخط چینی اور جاپانی ھے اور اٍس کو لکھنے کے لیئے پہلے چمڑے ، جانوروں کی شانے کی ھڈی ، درخت کی چھال اور پتوں کو تو کبھی موم کے تختوں کو استعمال کیا گیا ۔ محققین کہتے ھیں کہ تقریباً پانچ سو قبل مسیح میں مصریوں نے پانی کے اندر اگنے والے درخت “پے پی رس “ کے پتوں کو تحریر کے لیئے استعمال کیا ۔ چین کے “ سائی لون “ جو ریشم کے کپڑے پر لکھا کرتا تھا بعد میں اُسے نے کاغذ ایجاد کیا اور تحریروں کو محفوظ کرنا سکھایا۔ سو سب اٍس بات کو صیحع جانتے ھیں کہ چھپائی کاآغاز بھی چین میں ھی ھوا ۔ وہاں کے قدیم صوبے “کانسو“ میں دنیا کی قدیم ترین کتاب دریافت ھوئی جو گیارہ مئی 868 ء میں شائع ھوئی تھی ۔مطبوعہ اخبار کا آغاز “ وینس “ سے ھوا اور سب سے پہلے 1566 ء میں Notize Seritte کے نام سے پہلا اخبار شائع ھوا ۔ اُس کے علاوہ 1570 میں Gazzetta کے نام سے ایک اور اخبار جاری ھوا ۔ پھر “کولون“ سے 1594 میں The Mercuius Gallo- Belgicus جاری ھوا ۔ اُس کے بعد سترھویں صدی میں صحافت کا آغاز یورپ میں ھوا۔ اور وہاں 1609 میں جرمنی کے شہر آگس برگ سے Avisa Relation Order Zeitung کے نام سے اخبار جاری ھوا ۔ 1611 میں برطانیہ میں News From Spain کے نام سے اور 1615 ء میں فرینکفرٹ سے Die Frabkfurter Oberpostamts Zeitung سے اخبار نکلا ۔ سب سے اچھا اخبار 23 مئی 1622 میں نتھانیل بٹر اور تھامس آرچر نے ویکلی نیوز کے نام سے جاری کیا۔ برطانیہ کا “ آکسفورڈ گزٹ “ جو 1665 ء میں شائع ھوا تھا آج تک “ لندن گزٹ “ کے نام سے جاری ھے ۔ امریکہ میں سب سے پہلا اخبار 1690 ء میں “ Publick Occurence کے نام سے بنجمن ہیرس نے بوسٹن سے جاری کیا تھا۔ برصغیر میں چندر گپت موریہ کے عہد سے لے کر اسلامی دورٍ حکومت تک ھر دور میں کسی نہ کسی طرح حکومت اطلاعات و معلومات لوگوں تک پہنچاتی رھے ھے ۔مغل دور ٍحکومت میں جہاں دوسرے شعبوں میں مسلمانوں نے ترقی کی ، وہاں مغلوں نے اٍس طرف بھی توجہ دی ۔ اکبر نے خاص طور پر ایک نظام قائم کیا تھا اور حصول ٍ خبر کے لیئے جہاں لوگوں کو خوب مراعات دے رکھی تھی وہی غلط خبر پر سخت ترین سزا بھی رکھی ھوئی تھی ۔ مغلیہ سلطنت کے آخری دور میں انگریزوں میں جیمز آکسٹس ھکی نے “ ھکی گزٹ “ نکالا تھا اور کلکتہ سے “ انڈیا گزٹ پیٹر ریڈ نے نکالا۔ ویسے برصغیر کا پہلا باقائدہ اخبار 29 جنوری 1780 میں “ بنگال گزٹ “ نے نام سی شائع ھوا تھا۔ اردو زبان میں پہلا اخبار 27 مارچ 1823 میں “ جام جہاں نما “ کے نا سے نکلا جو بعد میں فارسی میں جاری ھوا اور اردو کو ضمیمہ کے طور پر ساتھ لگا دیا گیا۔ اُس کے بعد “ دھلی اردو اخبار “ کے نام سے مولانا محمد حسین کے والد محمد باقر کی زیر ادارت 1836 میں شائع ھوا ۔ اٍسی طرح لاھور کا پہلا اردو اخبار “ کوہ نور “ کے نام سے 14 جنوری 1850 میں شائع ھوا۔ پھر تو جیسے اخبارات کاسلسلہ سا چل نکلا جو حکومتوں پر اثر انداز ھوتے رھے اور عوامی رائے عامہ بھی ھموار کرتے رھے۔ انقلاب نہ تو ایک دن میں آتا ھے اور نہ ھی ایک دن میں اُس کے اثرات ختم ھوتے ھیں ۔ لیکن جب بھی کسی ملک میں انقلاب آنا ھوتاھے اُسے فوری ردٍ عمل نہیں کہاجاتا بلکہ ھر ایک کی طویل قربانیوں کاثمر ھوتا ھے اور اُس میں صحافت کا کردار ایک “ پُل ‘ کی طرح ھوتا ھے جو دونوں طرف منشور کے اچھے اور برے نتایج سے ایک سازگار سی فضا بنا دیتے ھے ۔ یہی وجہ تھی ک صحافت ھمیشہ ھی حکومت کے لیئے لٹکتی تلوار رھی ھے اور اُس کے بے داغ کردار کو داغدار کرنے کا کوئی موقعہ ھاتھ سے کبھی جانے نہیں دیا گیا جیسے دھلی اردو اخبار کے مدیر مولوی محمد باقر کو ایک انگریز ٹیلر کے قتل کے الزام میں گولی مار دی گئی اور اُن کے بیٹے کو دیکھتے ھی گولی مار دینے کا حکم جاری کیا گیا صرف اٍس لیئے کہ وہ محمد باقر کے بیٹے تھے اور دھلی اخبار کے پرنٹر اور پبلیشر ھونے کے ساتھ ساتھ اپنی نظموں اور نثر سے مسلمانوں کے بھڑکاتے بھی تھے ۔ جمیل الدین جو“ صادق الاخبار“ کے مدیر تھے اور انگریزوں کے خلاف لکھنے پر تین برس جیل رھے ۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ مسلمانوں کو صحافت سے باھر کر دیا گیا اور اٍس کی وجہ سے 1853 میں نکلنے والے 35 اخباروں میں 1858 میں سرف چھ اخبار رہ گئے ۔ اٍس تاریک دور کے بعد سرسید احمد خان کا شاندار دورٍ صحافت آتا ھے جس کا آ غاز 1840 میں ھوا ۔ اُن کے کہنے کے مطابق مسلمانوں کے زوال کی بڑی وجی علوم و فنون سے عدم واقفیت ھے اور اگر اٍسی طرح مسلامن اپنے احوال سے بے خبر رھے تو اُن کی مکمل تباھی یقینی ھے ۔ انہوں نے کئی مشہور تصانیف کے ساتھ ساتھ تین مارچ 1866 میں علی گڑھ سے اخبار “ علی گڑھ انسٹیوٹ گزٹ“ جاری کیا جو اُن کی موت کے بعد بھی جاری رھا۔ اٍسی طرح ھندوستانی صحافت میں مولانا محمد علی جوہر کا نام جرات اظہار کے حوالے سے ایک منفرد مقام رکھتے ھیں ۔ جنہوں نے 14 جنوری 1911 کو کلکتہ سے اپنا مشہور اخبار “ کامریڈ “ اور 1913 میں اردو اخبار “ ھمدرد“ نکالا ۔ مولانا محمد علی جوہر 1930 میں گول میز کانفرنس کے لیئے لندن گئے تھے ۔ وہاں تقریر کرتے ھوئے انہوں نے کہا کہ “ میں آزادی کا منشور لے کر ھندوستان جانا چاھتے ھوں ۔ میں غلام ھندوستان میں نہیں جاؤنگا ۔ اگر آپ مجھے ھندوستان کی آزادی نہیں دیتے تو پھر آپ کو مجھے یہاں قبر کے لیئے جگی دینی پڑے گی “ چنانچہ 4 جنوری 1931 ء میں لندن ھی میں وفات پا گئے آپ کا یک شعر جو آج بھی اُن کی پہچان ھے قتلٍ حسین اصل میں مرگٍ یزید ھے اسلام زندہ ھوتا ھے ھر کربلا کے بعد بیسویں صدی کے پہلے اور دوسرے عشری کی بے مثال بے باک صحافت کے بعد مولانا ظفر علی خان کی صحافتی خدمات کا سلسلہ شروع ھوتا ھے جنہیں اپنی شعلہ بیانی اور شعری اور نژری ادب میں منفرد اور نمایاں نام رکھنے پر “ بابائے صحافت “ کے لقب سے یاد کیا جاتا ھے ۔ انہوں نے جنگٍ طرابلس کے بعد اپنے والد کے روزنامہ “ زمیندار “ کو پندرہ اکتوبر 1911 میں اخبار کا درجہ دیا۔ مولانا نے اپنے اخبار کے زریعے جو جہاد کیا وہ آزادی تک جاری رھا ۔ 1953 میں تحریک ختمٍ نبوت کے دوران جب لاھور میں مارشل لاء لگا تو “زمیندار “ اشاعت معطل ھو گئی جو اُن کے انتقال کے بعد تک بھی بحال نہ ھو سکا۔ پاکستان کا قیام قائد اعظم محمد علی جناح ، مسلم عوام اور مسلم صحافت کا طویل جدوجہد کا ثمر تھا۔ آزادی کے بعد اخبارات میں تبدیلی صاف نظر آتی ھے ۔ پہلے جہاں صرف آزادی اور تحریک کی باتیں ھوتی تھی بعد میں اُن کی جگہ معاشی ، معاشرتی موضوعات نے لے لی اور اُس کے ساتھ کارٹون ، سفرنامے ، فکاہی کالم ، فیچرز ، ادب و ادیب ، اسپورٹس ۔ طب ، بچوں ، خواتین کے ایڈیشن ، کے ساتھ ساتھ فلمی اور تعلیمی ایڈیشن بھی آ گئے جن میں ھر لحاظ سے عوامی دلچسپی کا خیال رکھا جاتا ھے ۔ اخبارات جسے پہلے صرف دردمند لوگ ھی چلایا کعرتے تھے اب باقائدہ بزنس اختیار کر گئے تھے ۔ اور اُس کے ساتھ ھی مقابلے کی فضا نے ڈائجسٹ جرنلزم کی بنیاد بھی رکھی ، سرخیوں کی بہتات کے ساتھ اشتہارات بھی انگنت ھو گئے ۔ پاکستان کے نمایاں اردو کے اخباروں میں “ نوائے وقت ،جو 22 جولائی 1944 میں پہلی بار شائع ھوا، امروز 4 مارچ 1948 کو نکلا ، کوہستان 1953 میں راولپنڈی سے مشہور ناول نگار نسیم حجازی کی زیر ادارت ھوا، مشرق 1963 میں نکلا ، روزنامہ جنگ کا آغاز دہلی سے 1940 میں شائع ھوا، روزنامہ جسارت 1949 میں ملتان سے جاری ھوا ۔ انگریزی روزناموں میں “ڈان “ جس کے بانی قائدٍ اعظم تھے بارہ اکتوبر 1942 سے جاری ھوا ، پاکستان ٹائمز چار فروری 1947 کو شائع ھوا، فرنٹئر پوسٹ پشاور سے نکلا ، “ دی مسلم“ ، اسلام آباد سے 1978 میں جاری ھوا ۔ “ دی نیشن “ کے بعد “ دی نیوز “ ایک اچھے اخبار کے طور پر سامنے آئے ۔ پاکستان میں اٍس وقت جو روزنامہ اور اخبارت شائع ھو رھے ھیں ، اُن کی تعداد کچھ زیادہ نہیں ھوتی ۔ قومی اخبارات کوچھوڑ کر علاقائی اور مضافاتی اخبارت کی تعداد بہت زیادہ ھے ۔ جن میں زیادہ تر پرچے غیر ھنر مند، کم تعلیم یافتہ افراد نکال رھے ھیں جس کی بنا پر پاکستان کی صحافت بہت متاثر ھو رھی ھے ۔ایسے اخباروں میں عام طور پر چیختی ھوئی آٹھ کالمی سُرخیاں لگاتے ھیں جن کا خبری متن سے کوئی خاص واسطہ نہیں ھوتا ۔ ایسی صحافت سی سنسنی خیزی پھیلتی ھے اور منفی جذبات کو ھوا ملتی ھے ۔ شام اور دوپہر کے اکثر اخبارات میں معمولی خبروں کو اچھالا جاتا ھے اور اندورنی صفحات شو بز کی نیم عریاں ماڈل کی تصاویر سے بھرے ھوتے ھیں جس سے صحافت کا معیار روز بروز گر رھا ھے ۔ ایسے ھی کئی اخبارات میں بلیک میلنگ کا مواد بھی بے دھڑک چھاپا جاتا ھے جس کو سرکاری محکموں میں بیٹھے کرپٹ لوگوں ، قبضہ گروپوں اور دیگر جرائم پیشہ لوگ دوسرے لوگوں کو بلیک میل کر کے خوب پیسے بناتے ھیں ۔ آج بھی درجنوں چھوٹے بڑے اخبار اپنی اخلاقی حدود پار کرتے نظر آتے ھیں جس کی وجہ سے فکری انتشار اور غیر معیاری زبان کو رواج ملا ھے ۔ دوسری طرف کچھ اخبار حکومتی ترجمان بنے رھتے ھیں اور جو تھوڑی بہت تنقید کرنے والے اخبارات ھوتے ھیں اُن کے اشتہار بند کروا دیئے جاتے ھیں ۔اور انہیں سوائے اٍس کے حکومتی راگ الاپے یا اشاعت بند کر دے تیسرا اور کوئی رستہ آسان نہیں ھوتا ۔ صحافت میں ایک اور جدید دور کا آغاز 1987 ًٰ میں کمپیوٹر کی وجہ سے ھوا جسے جنگ اخبار نے پہلی دفعہ استعمال کیا اور پہلا انٹرنٹ اخبار سب نے پڑھا ۔ الیلکٹرانک میڈیا کے مقابل پرنٹ میڈیا ھی اخبار میں واحد میڈیا ھے جو جدید صحافت کا مقابلہ کر رھا ھے ۔ پھر بھی دیکھا جائے تو گزشتہ دس سالوں میں اخبارات کی اشاعت میں جو کمی اور بیشی ھوئی ھے وہ اٍس طرح سے ھے ۔ ١۔ 1995 میں پنجاب میں شائع ھونے والے 3055 اخبارات میں سے صرف 361 رہ گئے ٢۔ سندھ میں مجموعی طور پر 257 سے بڑھ کر 622 ھوئی ٣۔ سرحد میں کم ھو کر 104 سے 102 رہ گئی ٤۔ بلوچستان میں بڑھ کر 1193 ھوئی پاکستان بھی آزادی صحافت پر یقین رکھتا ھے لیکن ایسی آزادی معاشرہ کسی بھی ادارے کو نہیں دیتا جس میں حقوق اور فرائض کی پاسداری نہیں کی جاتی ۔ یعنی دوسروں کا احترام بحرحال ضروری ھے وگرنہ معاشرے میں لاقانونیت اور طرفداریوں کا لامتناھی سلسلہ چل پڑے ،بدنظمی اور افراتفری کاطوفان برپا ھو جائے اور صرف طاقتور ھی آزاد رہ جائے اور کمزور ختم ھو جائے ۔ اگر کئی قسم کی آزادی کو ملایا جائے تو صحافتی آزادی بنتی ھے مثلاً “ فطری آزادی ، معاشی آزادی ، معاشرتی آزادی، سیاسی آزادی اور قومی آزادی ، کیونکہ اگر کسی ملک میں صحافت آزاد ھے تو دوسرو آزادیوں کو تحفظ خود بخود مل جاتا ھے ۔صحافت کی آزادی آمروں کے لیئے ھمیشہ آزمائش رھی ھے اٍس لیئے ابتدا سے لے کر آج تک اُس پر تحریر اور تقریر کی پابندیاں لگتی رھی ھیں ۔ کبھی قوانین کا سہارا لیا گیا تو کبھی طاقت کا لیکن صحافتی آزادی کی جدوجہد متواتر جاری رھی ۔ وقت بدلتا رھا ، انسان اظہار رائے کی آزادی کے لیئے جدوجہد کرتا رھا اور حکمران طبقہ انہیں دباتا رھا اور یہ بھول گیا کہ جہاں بے جا پابندیاں زہن کو زنگ آلود اور انقلاب کی راہ ھموار کرتی ھے وہاں بے جا آزادی اور بے لگامی معاشرتی اقدار کی تباہی و بربادی اور بد نظمی کا سبب بنتی ھے ۔ جو بلکل آج کل ھو رھا ھے ۔ آزادی ٍصحافت کے منفی پہلوؤں کو نظر انداز کیا جارھا ھے جس میں سب سے مہلک احساسات اور خیلات کا ختم ھونا ھے اور اُس کے ساتھ ھی سچ لکھنے پر پابندی معاشرے کی فلاح بہبود کے لیئے جمود بن جاتی ھے ۔ اگر اٍسی آزادی ٍصحافت کو مثبت طور پر استعمال کرنے سے امن و سکون اور ترقی حاصل ھوتی ھے ۔ جیسا کہ ھم سب جانتے ھیں کہ آًمرانہ نظام ٍحکومت ھمیشہ ایک ھی فردٍ واحد کے گرد گھومتا ھے سو وہ پریس پر کنٹڑول کر کے شخصی پالیسی بنا لی جاتی ھے اور پھر اپنی برتری کے لیئے جبروتشدد سے کام لیا جاتا ھے ۔ سو اخبارات کے لیئے سوائے آمرانہ پرچار کے کوئی صورت ٍحال نہیں بچتی اور پھر یہی اخلاقی پستی اچھے برے کی تمیز بھی ختم کر دیتی ھے ۔ جمہوری نظام کو بہتر بنانے کے لیئے 26 اکتوبر 2002 میں PEMRA) Pakistan Electronic Media Regulatory Authority ) بنیاد رکھی گئی جو 2007 میں ترمیم کے ساتھ سامنے آئی ۔ صدر مشرف نے آزادیٍ صحافت کے قوانین کے مطابق اٍس امر کو یقینی بنایا گیا کہ پاکستان کے شہریوں کو سرکاری ریکارڈ تک پہلے سے بہتر رسائی ھو اور اٍس سلسلے میں وفاقی حکومت کو جوابدہ بنایا گیا ، اٍس کے مطابق سرکاری اداروں سے متعلق اطلاعات تک رسائی کے لیئے متعلقہ اداروں کو پابند کیا گیا اور صحافیوں کے پُر زور اصرار پر اٍس ترمیمی بل میں شق تین ختم کر دی گئی جس کے تحت رپورٹرز ، پبلیشرز، ایڈیٹرز، اور ڈستڑی بیوٹرز پر اگر کوئی الزام لگایا گیا اور جرم ثابت بھی ھوگیا تو قابلٍ سزا ھونگے ۔ جس کو وکلاء اور صحافیوں نے مسترد کر دیا تھا۔ اٍس تناظر میں اگر ھم اپنے ملک پاکستان کی صحافی آزادی بات کرے جس کا عالمی دن آج منایا جا رھا ھے تو پاکستان میں جتنی حکومتیں بھی آیئں انہوں نے اخبارات و جرائد کو پابند کرنے کی کوششیں کیں ۔ ایوب خان نے دور میں خصوصی قوانین بنائے گئے ۔ اشتہارات ، کاغذ کا کوٹہ اور ڈیکلیریشن کی منسوخی کو ہتھیار بنایا ۔ ایوب خان کے بعد جنرل ضیاء کا دور ٍصحافت کے لیئے ایک بدترین سیاہ دور تھا۔ جنرل ضیاء نے مخالف سیاست دانوں کے بیانات اور خبروں کی اشاعت پر پابندی لگا رکھی تھی ۔ خبریں باقائدہ سنسر ھوتی تھی ۔ خبروں کی اشاعت روکنے کے لیئے فوجی افسران تعیانات کیئے ھوئے تھے جو کسی خبر کی اشاعت میں نمایاں کردار ادا کرتے تھے ۔ اُن کے زمانے میں بٹھو کی تصویر تک شائع کرنا جرم تھا ۔ اور یہ پابندی صحافت میں گیارہ سال تک رھی ۔ محترمہ بینظیر بھٹو میں صحافت زیادہ آزاد ھی رھی کہ اُن کا کہنا تھا کہ “ میں پرواہ نہیں کرتی کہ اخبارات کیا چھاپ رھے ھیں کیونکہ ووٹرز کی اکثریت پڑھنا نہیں جانتی “ ۔ اب بات کرتے ھیں شجاعت حسین کی وازارت عظمی کے دور کا جب ہتک عزت کے قانون میں ترامیم کر کے تیس جولائی 2004 میں “ ویج بورڈ ایوارڈ “ نے اُسے اور سخت ترین بنا دیا گیا تھا جس کو آزادیٍ صحافت پر شب خون بھی کہا گیا ۔ اور اُس کے تحت ڈیلی ڈان اور نوائے وقت کے اشتہارات بند کر دیئے گئے جو 28 اگست 2004 کو بحال ھوئے تھے ۔ جب پرویز مشرف 12 اکتوبر 1999 میں برسرٍ اقتدار آئے تھے ۔ وہ اپنے دور ٍ حکومت کو صحافی آزادی کا دور کہتے رھے جبکہ تاریخ گواہ ھے جو 2002 کے شروع میں ھونے والے “ وال سٹریٹ جنرل“ کے رپورٹر “ ڈینٹل پرل “ کا قتل فراموش نہیں کر سکتی ۔ جس کے اغواہ سے لے کر موت تک ساری دنیا کا میڈیا پاکستان کی طرف فوکس ھورھا تھا ۔ اٍسی سلسلے میں عمر سعید کو اٍس قتل کا محرک قرار دیا گیا اور 15 مئی 2002 کو سزائے موت سنا دی گئی تھی۔ 20 اکتوبر 2002 میں روزنامہ “کاش“ کے نمائندے شاہد سومرو کو اُن کے گھر کے سامنے گولی مار کر ھلاک کر دیا گیا اور یہ سب جانتے ھیں کہ اُن کے بے باک قلم کی وجہ سے سندھ اسمبلی کے ایک رکن باقائدہ انہیں دھمکیاں دے رھے تھے لیکن حکومت نے کوئی نوٹس نہیں لیا تھا۔ 31 اگست 2002 میں مشرف نے میڈیا کو کسی حد تک کنٹرول میں کرنے کے لیئے چار آرڈینس جاری کیئے ۔ اٍس میں ڈیفریشن آرڈینس ، رجیسٹریشن آرڈینس، پریس آرڈینس اور ہتکٍ عزت قانون کے آرڈینس شامل تھے ۔ یہ وہی قانون تھے جنہیں صحافیوں اور وکلاء نے مسترد کر دیا تھا۔ اُس کے بعد ھونے والی صحافت کی آزادی کی جدوجہد اور اُن کی شہادتیں کون بھول سکتا ھے جو انہوں نے اپنی خدمات انجام دیتے ھوئے دی ۔ اور اب بھی صحافی اپنی آزادی ٍاظہار کی جنگ لڑ رھے ھیں ۔ دنیا بھر کی ترقی پسند قومیں الیکشن سے پہلے ، الیکشن کے درمیان اور بعد تک تبصرے اور تجزیات کسی بھی حوالے سے لکھتی اور سناتی رہتی ھے اور اپنی قوم کو با خبر رکھتی ھے ۔لیکن مشرف کی حکومت نے اتنی قنوطیت دکھائی کہ الیکشن سے 36 گھنٹے پہلے صحافیوں پر اظہار کی پابندی لگا دی گئی تھی ۔جو کہ ابھی تک جاری ھے ۔ آج اگر صحافت کا آزادی کا عالمی دن نہ ھوتا تووزیر اطالاعات شیری رحمان یہ کبھی نہ کہتی کہ پمرا صحافت کو آزادی کے لیئے مزید مراعات دے گی ۔۔۔اور صحافیوں کی انشورنس کی جائے گی اور یہ بھی کہ پابندیاں جلد ختم کر دی جائے گی ۔۔ تو عزیز شیری رحمان جی کیوں نہ ھم آزادیٍ صحافت کا دن بھی پھر کبھی منا لیں گے جب آزاد ھو جا یئنگے ۔ پاکستان کی عوام صیحع ھی تو آپ سے پوچھ رھی ھے کہ جہاں کرپشن ، غریبی اور خوف کا راج ھو وہاں صحافت کیسی اور کب آزاد ھو سکتی ھے ؟؟؟؟؟؟؟ پھر بھی آج چونکہ آزادیٍ صحافت کا عالمی دن ھےاور آپ سب کا اصرار بھی ھے تو ھم دنیا داری کرتے ھوئے مل کر کہہ دیتے ھیں ۔۔ پاکستان میں میڈیا اور آزادیٍ اظہار کی آزادی ۔۔۔زندہ باد ۔۔۔۔

No comments: