نئی دہلی ۔ بھارت میں سپریم کورٹ نے بابری مسجد کی شہادت کے بعد فرقہ وارانہ فسادات کے دوران قتل کے ایک مقدمے میں 5 افراد کی سزا کی توثیق کے بارے میں منقسم فیصلہ دیا ہے ۔ ایک جج نے اقلیتوں کے خلاف ملکی پولیس کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے 5 ملزمان کی عمر قید کی سزا کی توثیق کی جبکہ دوسرے جج نے پانچویں ملزم کو بری کرنے کا حکم دیا ۔ ملزموں کو ٹرائل کورٹ نے بابری مسجد کی شہادت کے ایک ہفتے کے بعد 14 دسمبر 1992 ء کو آسام میں ایک مسلمان خاتون اور اس کی دو کمسن بیٹیوں کو مبینہ طور پر قتل کرنے کے الزام میں سزا سنائی تھی ۔ بابری مسجد کی شہادت کے بعد پھوٹ پڑنے والے فسادات کے ایک معاملے کا فیصلہ کرتے وقت سپریم کورٹ کے ججوں میں اختلاف پیدا ہو گیا جس کے بعد اس معاملے کو چیف جسٹس کے سپرد کر دیا گیا ۔ یہ اختلاف جسٹس ایس بی سنہا اور جسٹس ایچ ایس بیدی کے درمیان فسادات کے دوران ایک قتل کے معاملے کے 5 ملزمین کو بری کئے جانے اور مجرم قرار دیئے جانے پر ہوا ایک طرف جہاں جسٹس ایس بی سنہا نے 5 ملزمان کو بری کئے جانے کا حق میں فیصلہ سنایا وہیں دوسری جانب ایچ ایس بیدی نے پولیس مشنری پر ’’ اقلیت مخالف ‘‘ ہونے کا الزام لگاتے ہوئے ملزم ہریندر سرکار سمیت 5 ملزمان کی عمر قید کی سزا پر مہر تصدیق ثبت کر دی ۔ واضح رہے کہ بابری مسجد کی شہادت کے بعد مسلم کش فسادات کے دوران آسام کے ڈبو کا ضلع کے چنگمازی پٹھار گاؤں میں ساحرہ خاتون اور ان کی 2 کمسن بچیوں بملا خاتون ( 3 سال ) اورہاجرہ خاتون ( 7 سال ) کو قتل کر دیا گیا تھا ذیلی عدالت نے اس قتل کے 5 ملزمان کو مجرم ٹھہرایا تھا ۔ جس کے خلاف ملزمان نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا جسٹس بیدی نے فیصلہ سناتے وقت پولیس کو آڑے ہاتھوں لیا اور الزام لگایا کہ وہ فرقہ وارانہ معاملات میں ’’ اقلیت مخالف ‘‘ ہو جاتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ فی الحقیقت یہ بڑی المناک بات ہے کہ فسادات کو روکنے کے لئے درجنوں مشٰرے دیئے گئے اور بے انتہا کاغذات برباد کئے گئے مگر مختلف وجوہات کی بناء پر یہ کینسر پھیلتا ہی جا رہا ہے انہوں نے متعدد کمیشنوں کی رپورٹوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان تمام کمیشنوں کی رپورٹ میں یہی نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ پولیس اس بلا سے نمٹنے میں ناکام رہی ۔ جسٹس بیدی نے مزید کہا کہ مقامی سطح پر بڑی شخصیات کے ذریعہ نامی غنڈوں اور سماج دشمن عناصر کے خلاف کارروائی نہ ہونے دینے کا تشویشناک رحجان پیدا ہو رہا ہے ۔ ہم سب جانتے ہیں کہ پولیس اس معاملے میں پوری طرح الزامات سے پاک نہیں ہے ‘‘ انہو نے عرضی گزاروں کی اس دلیل کو مسترد کر دیا کہ انہیں غلط طریقے سے پھنسایا گیا ہے ۔ ذیلی عدالت نے ملزمان کو ساحرہ کے شوہر اور واقعے کے چشم دید گواہ محمد طاہر الدین کی گواہی کی بنیاد پر مجرم ٹھہرایا تھا دوسری جانب جسٹس سنہا نے ملزمان کو بری کئے جانے کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ چونکہ ایف آئی آر درج کئے جانے میں کافی تاخیر ہو گئی تھی اور اصل ملزم کوبری کر دیا گیا ہے اس لئے دیگر ملزمان کو بھی مجرم نہیں ٹھہرایا جا سکتا ۔
International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment