International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.

Sunday, May 4, 2008

١٢ مئی کو ججز کی بحالی کا امکان نہیں ہے ، موجودہ اور معزول دونوں ججز کو فارغ ہونا چاہیے ۔ مولانا فضل الرحمان


عدلیہ کی بحالی کے مسئلے کو دنوں میں بند کرکے دونوں بڑی جماعتوں نے سیاسی غلطی کی ہےموجودہ اور معزول دونوں ججز کو فارغ ہونا چاہیے کوئی فرق نہیں پڑے گاججز کو متنازعہ نہیں ہونا چاہیے اور فوج اور سیاستدانوں کی حمایت کا تاثر درست نہیں ہےامریکہ نے سی ٹی بی ٹی پر دستخط نہیں کیے اسے پاکستان پر دباؤ کا حق اور اختیار حاصل نہیں ہو گاجمعیت علماء اسلام (ف ) کے سربراہ کی جے ٹی آئی کی شوریٰ کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب

اسلام آباد ۔ جمعیت علماء اسلام (ف ) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ 12مئی کو ججز کی بحالی کا کوئی امکان نہیں ہے ۔ موجودہ اور معزول دونوں ججز کو فارغ ہونا چاہیے ۔30دنوں میں عدلیہ کی بحالی کا جو ہدف حاصل نہیں کیا جا سکا وہ 10دنوں میں کیسے حاصل ہو گا ۔ آئینی و قانونی مسائل کے حل کے لئے دن مقرر نہیں کرنے چاہیں ۔ نواز شریف کی ا نتخابات سے بائیکاٹ اور ان کے وفاقی وزاراء کے صدر پرویز مشرف سے حلف کے معاملے پر قلابازیوں اور یو ٹرن کو بھی اجاگر ہونا چاہیے ۔ سی ٹی بی ٹی کی پر امریکہ نے دستخط نہیں کیے اسے پاکستان پر دباؤ کا حق اور اختیار حاصل نہیں ہے ۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے اتوار کو اسلام آباد میں جمعیت طلبا اسلام کی مرکزی مجلس شوری سے خطاب کے بعد پولیس کانفرنس سے خطاب کرتے ہؤے کیا ۔ پارٹی کے مرکزی سیکریٹری جنرل سینیٹر مولانا عبد الغفور حیدری بھی اس موقع پر موجود تھے ۔ مولانا فضل الرحمان جے یو آئی کی شوریٰ کے فیصلوں کے حوالے سے 13،14،15اکتوبر کو مینار پاکستان لاہور پر ملگیر طلبا کنونشن اور مفتی محمود کانفرنس کے انعقاد کی اعلان کیا ۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ طلباء یونیز کے انتخابات کے حوالے سے حکومت طلباء تنظیموں کو کو اعتماد میں لیں ۔مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ طلبا یونیز کے ذریعے طلبا کے منتخب نمائندوں کو تعلیمی نظام کی مدد رنی چاہیے ۔ اپنے اداروں کے لئے مشکلات پیدا نہیں کرنی چاہیں ۔ تعلیمی اداروں کو جنگ و جدل اور نعرہ بازی کا میدان نہ بنایا جائے ۔ طلبہ یونینز کے انتخابات سے طلبا میں فیصلہ سازی کی قوت بڑھے گی ۔ انہوں نے کہا کہ جے یو آئی کی شوریٰ میں طالبات کی تنظیمیں قائم کی تجویز کا بھی جائزہ لیا گیا موجودہ ماحول سے کیسے الگ تھلگ رہے سکتے ہیں ۔ مختلف سوالات کا جواب دیتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ مذاکرات اور مشاورت کے لئے دونوں بڑی جماعتوں نے جس طرز عمل کا مظاہرہ کیا اس پر ہمیں تحفظات ہیں ۔ 30دنوں میں ججز کو بحال نہ کیا جا سکا 10دنوں میں یہ ہدف کیسے حاصل ہو گا ۔ انہوں نے کہا کہ اہم آئینی اور قانونی معاملات کو دنوں میں بند نہیں کرنا چاہیے ۔ یہ درست سیاسی انداز نہیں ہے ۔10دنوں میں معاملے کو بند کرنا سیاسی غلطی ہے ۔ مولانا فضل الرحمان نے پاکستان پر سی ٹی بی ٹی اور این پی ٹی کے حوالے سے بیرونی دباؤ کی مذمت کی اور کہا کہ عالمی قوتیں پسماندہ ممالک کو عالمی معاہدات کے شکنجے میں جکڑنا چاہتی ہیں جو کہ قوموں کی آزادی و خود مختاری کے منافی ہے ۔ داخلی اقتدار اعلیٰ کی بھی خلاف ورزی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ نے خود سی ٹی بی ٹی پر دستخط نہیں کیے وہ کس طرح پاکستان پر دباؤ ڈال رہا ہے۔ایک سوال کے جواب میں مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری ہمارے لیے قابل احترام ہے جب ریفرنس کا معاملہ اٹھا تو پوری قوم سڑکوں پر بھی کی یہ نا انصافی ہوئی تھی ۔ لیکن جب پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے ججز کی بات کی جاتی ہے تو میثاق جمہویرت کو کیوں فراموش کردیا جاتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اسے اس انداز میں بھلا دیا جائے گا ۔ اس کا ہم شعو ر بھی نہیں کر سکتے ۔ موقع پرستی نہیں ہونی چاہیے ۔ معاملات کو اصول کے تابع ہونا چاہیے ۔ انہوں نے کہا کہ ججز کو متنازعہ نہیں ہونا چاہیے یہ بات نہیں ہونی چاہیے کہ فلاں ججز آئے اور فلاں ججز کسی اور کے حامی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ اس سے تو یہی تاثر پیدا ہوتا ہے ۔ کہ کچھ ججز کی پشت پر فوج کچھ کو سیاستدانوں کی حمایت حاصل ہے ۔ ایک سوال کے جواب میں مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ملک میں یہ دو تاثر پائے جاتے ہیں کہ یا تو دونوں ججز کو باقی رکھنا چاہیے یا معزول اور موجود دنوں کو فارغ ہونا چاہیے ہم یہی کہتے ہیں کہ معزول اور موجودہ دونوں ججز کو فارغ ہونا چاہیے ۔ آئینی اور قانونی معاملات کا ماہرین ہی حل تجویز کر سکتے ہیں ۔ طاہر کوئی قانونی اور آئینی رکاوٹیں ہو نگی تو اسے کے لئے آئینی پیکج آئے گا ۔ ایک سوال کے جواب میں مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ جنرل پرویز مشرف کے مستقبل کا فیصلہ دونوں بڑی جماعتوں نے کرنا ہے ۔ ہم نے اپنی پارلیمانی طاقت اورحجم کے مطابق بات کرنی ہے ۔ صدر کے بارے میں طاقتور جماعتو ں کی بات سامنے آنے پر بات کر سکیں گے تاہم ملک کو آمریت سے پاک کرنے اور جمہوریت کے ہدف کو مسلسل جدوجہد سے حاصل کیا جا تا ہے ۔ مرحلہ وار آگے بڑھنا ہو گا ۔ ایک سوال کے جواب میں مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ 12مئی کو ججز بحال ہوتے نظر نہیں آرہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ آئینی اور قانونی تنازعات کے لیے عوامل کو بھی دور کرنا ضروری ہے اگر آج وقتی طور پر فیصلے کو حل کرلیا گیا کل کو بھی اس طرح کی مشکل آئی تو کیا ہو گا ۔ معاملات کا مستقل حل تلاش کرنا ہو گا تاکہ آئندہ یہ بحران پیدا نہ ہوں ۔ اختیارات میں عدم توازن نہ ہو۔ اور اختیارات کا غلط اور نا جائز استعمال نہ کیا جائے ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ 17ویں ترمیم پر ہم نے معاہدہ کیا تو ہمیں طعنے دئیے گئے ۔ آج 17ویں ترمیم کو برقرار رکھنے کی بات کیوں کی جارہی ہے اور صرف اپنی پسند کی شق لانے کی باتیں گردش کررہی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ نوازشریف نے انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کیا تو اسے جرات مندانہ اقدام قراردیا اسے واپس یا تو دانشورانہ فیصلہ قرار دیا گیا ۔ نواز شریف نے وزراء کے صدر مشرف سے حلف نہ لینے کی بات کی تو اس جرات مندی قرار دیا گیا ۔ ان کے وزراء کی جانب سے حلف لے لیا گیا تو اس دانشمندی قرار دیا گیا ۔ میڈیا نواز شریف کی پلابازیوں اور یو ٹرن کو اجاگر کیوں نہیں کرتا ۔ یہ ہمارے ساتھ نا انصافی ہے غریب اور پسماندہ ملا کی اذان پر بھی کلمہ پڑھ لینا چاہیے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

No comments: