،اسلام آباد امریکی حکام یہ بات یاد رکھیں کہ سابقہ ادوار سے لیکر آج تک ہمارے حکمرانوں نے پاکستان کے عوام کے تحفظات اور خدشات کے بارے میں امریکہ کو آگا ہ نہیں کیا۔ جس کی وجہ ان حکمرانوں کے ما لی مفادات رہے ہیں جس کی وجہ سے امریکی کا نگرس ہو یا کوئی اور امریکی حکمران پاکستان کے عوام کے تحفظات و خدشات ان تک نہیں پہنچ سکے۔ پاکستان کے سولہ کروڑ عوام کی اکثریت ان پڑھ ، بے روز گا ر ہے پاکستان کا یک عام آدمی بھی یہ چاہتا ہے کہ اسے حصول روز گا ر کا تک رسائی حاصل ہو اس کے بچے تعلیم حاصل کریں لیکن ایسا نہیں ہورہا کیو نکہ مہنگائی اتنی زیادہ ہے کہ ایک عام آدمی زندہ رہنے کی جنگ لڑرہا ہے اور عوام میں یہ تاثر دیا جا تا ہے کہ ہمارے حکمرانوں کے پس پردہ امریکی پالیسوں کا ہاتھ ہے جس کی وجہ سے آج عوام کا یہ حال ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ بد عنوان حکمرانوں کے ہر دور میں اس رویے کی وجہ سے عوام باشعور ہوچکے ہیں اور وہ اب جان چکے ہیں کہ وطن عزیز میں انسانی ترقی کیلئے اربوں ڈالرز بیرونی امداد ہر دور میںحکمرانوں کی جیب میں چلی جاتی رہی ہے اور وطن عزیز اور اس کے عوام کی حالت زار جوں کی توں ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ یہ کرپت عناصر قانون کی حکمرانی سے خوف زدہ ہیں۔ اگرچہ کئی دنوں سے مشرف کی بجائے تما م تر موجودہ بحران خاص کر ججز کے حوالے سے عوام میں یہ تاثر دیا جا رہا تھا کہ آصف زرداری مشرف ایک ہیں لیکن گز شتہ دنوں آصف زرداری کے ایک انٹر و یو کے بعد یہ بات کھل کر سامنے آگئی کہ آصف زرداری بھی وہی چاہتے ہیں جو عوام چاہتے ہیں آصف زرداری کے اس بیان کے بعد ملک بھر کے عوام میں ان کو بہت زیادہ پزیرائی ملی اور عوام کا آصف زرداری کے بارے میں یہی رد عمل تھا کہ آصف زرداری بھی جمہوری استحکام کے حوالے سے محترمہ بے نظیر بھٹو شہید جتنا ہی پر عزم ہیں لیکن اچا نک آئینی پیکج کے ردعمل آنے کے بعد عوام کو یہ معلوم ہوا کہ آصف زرداری ایک وقت میں مشرف سمیت چیف جسٹس افتخار محمد چودھری سے بھی چھٹکارہ چاہتے ہیں۔ کیونکہ جناب چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے اس عزم کا اعادہ کیا ہوا ہے کہ بحال ہو کر بھی وہ قانون کی بالا دستی کو قائم رکھیں گے اور یہی وجہ ہے کہ سابقہ اور موجودہ وہ تما م قو می مجرم پریشان ہیں جنہوں نے قومی خزانے کو بے دردی سے لو ٹا ہوا ہے۔ ا خباری خبروں کے مطابق امریکی سینیٹروں نے صدر پرویز مشرف، وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی ، بری فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی ، پیپلز پارٹی کے شریک چیئر مین آصف علی زرداری اور مسلم لیگ (ن) کے رہنماچوہدری نثار سے ملاقاتیں کی ہیں اور ان سے دوطرفہ اور باہمی تعلقات پرتبادلہ خیال بھی کیا ہے۔تفصیلات کے مطابق امریکی سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر کارل لیون اور سینیٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی کے رکن سینیٹر کیسی سے بات کرتے ہوئے صدرپرویز مشرف نے پاکستان اور امریکاکے درمیان وسیع البنیاد اورطویل المدتی تعلقات کی اہمیت اجاگر کرتے ہوئے امریکا میں پاکستانی مصنوعات کیلئے منڈی تک زیادہ رسائی کی اہمیت پر زور دیا ہے تاکہ ٹھوس اقتصادی بنیادوں پر تعلقات استوار کرنے میں مدد مل سکے۔ صدرنے تعمیر نو مواقع زونز، فرنٹیئر کور اور فاٹا کے ترقیاتی منصوبے جیسے اقدامات پر پیش رفت تیز کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا ہے۔ امریکی سینیٹرز نے پاکستان اور امریکا کے درمیان تعاون قریبی تعلقات کیلئے اپنی حمایت کا اعادہ کیا اور طویل المدتی تعلقات قائم کرنے پر تبادلہ خیال بھی کیا ہے۔ امریکی سینیٹرز نے انسداد دہشت گردی کے معاملات پر بھی بات چیت کی ہے۔امریکی سینیٹرز کی وزیر اعظم سے ملاقات میں یوسف رضا گیلانی نے کہاکہ پاکستان امریکا کے ساتھ قریبی اور اسٹریٹجک تعلقات جن میں سفارتی، سیاسی، معاشی ، دفاعی ، سماجی اور سیکورٹی تعلقات شامل ہیں کے عزم کااظہار کرتا ہے ۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان کی نئی جمہوری حکومت کے قیام کے بعد امریکا سے اس کے تعلقات میں مزید استحکام آئے گا۔وزیر اعظم نے امریکی سینیٹروں کی جانب سے ملک میں جمہوریت کی بحالی پر انکی حمایت پر شکریہ ادا کیا ہے۔دریں اثنا امریکی سینیٹ کے وفد نے پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری سے ملاقات کی۔ ملاقات میں امریکی سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کے چیئرمین کارل لیون اور سینیٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی کے رکن سینیٹر رابرٹ کیسی نے کہا کہ امریکا پاکستان کی منتخب جمہوری قیادت کے ساتھ اپنے روابط کو مزید بہتر بنانا چاہتا ہے۔ امریکی سینیٹرز نے کہا کہ پاکستانی عوام کے جذبات سے آگاہی کیلئے جمہوری قیادت سے ملاقاتیں بڑی سودمند ہیں۔ اس موقع پر آصف علی زرداری نے کہا کہ ایک جمہوری پاکستان ہی خطے میں امن اور خوشحالی کے حصول میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔امریکی وفد کی آرمی چیف سے ملاقات میں پاکستان میں امریکی سفیر بھی موجود تھیں علاوہ ازیں امریکی سینیٹرز نے مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما چوہدری نثار علی خان سے ملاقات کی۔ امریکی سینیٹ کی آزمڈ سروسز کمیٹی کے چیئرمین کارل لیون اور رابرٹ کیسی نے چوہدری نثار علی خان کو بتایا کہ امریکا پاکستان میں جمہوریت کا استحکام چاہتا ہے اور نئی جمہوری حکومت کیساتھ خوشگوار تعلقات کا خواہاں ہے۔ چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) امریکا سے بہتر تعلقات کی حامی ہے تاہم امریکا کو بھی اپنی پالیسیاں بناتے وقت پاکستانی عوام کے جذبات اور احساسات کا خیال رکھنا چاہئے۔ پاکستان کے دورے پر آئے امریکی سینیٹرز اور حکام سیاسی رہنماو¿ں سے بڑے نپے تلے انداز میں 60 لاکھ ڈالر کا یہ سوال پوچھ رہے ہیں ”اگر مشرف استعفیٰ دیتے ہیں یا ان کا مواخذہ ہوتاہے تو اگلا صدر کون ہو سکتا ہے؟“ وہ سنجیدگی کے ساتھ ”مائینس 2“ فارمولے کے متعلق بھی استفسار کر رہے ہیں جس کا مطلب ہے کہ مشرف اورمعزول چیف جسٹس افتخار چوہدری دونوں سے چھٹکارا۔ نئے صدر کے نام پر متفق ہونے سے قبل امریکی آخری کوشش کے طور پر سیاسی قوتوں کو قائل کر رہے تھے کہ جارج بش کے پرانے دوست کو ایوان صدر میں رہنے دیا جائے چاہے ان سے اختیارات لے لئے جائیں حالیہ دنوں میں تھنک ٹینکس کے ارکان سمیت بعض امریکی حکام نے پاکستان کی سیاسی قوتوں سے ملاقاتیں کی ہیں تاکہ ان سے کہا جائے کہ مشرف کو ایوان صدر میں اپنی ”دوستی“ کی علامت کے طور پر رکھنا چاہتا ہے۔ امریکی دو سخت حریفوں مشرف اور نواز شریف میں نئی ڈیل کیلئے مذاکرات کر رہے تھے۔نواز شریف کو یقین دلایا جا رہا تھا کہ نئے انتخابات ہونے کی صورت میں وزارت عظمیٰ کی طرف بڑھنے میں ان کی مکمل حمایت کی جائے گی۔ نواز شریف کو یقین دہانی کرائی گئی کہ موجودہ ضمنی انتخابات میں ان کے کاغذات مسترد نہیں کئے جائیں گے اس کے بدلے انہیں مشرف کو ایوان صدر میں رہنے دینا ہو گا۔ لگتا ہے مشرف کو بچانے میں ناکامی کے بعد امریکی اب سنجیدگی کے ساتھ اس جانب توجہ دے رہے ہیں کہ صدر پاکستان کے منصب کے لئے کون بہتر انتخاب ہو سکتا ہے۔ صدارتی اختیارات میں کمی کے بعد چیئرمین سینٹ محمد میاں سومرو بھی ایک آپشن ہیں۔ماضی میں امریکی سومرو کی اعلیٰ عہدوں کیلئے حمایت کرتے رہے ہیں حتیٰ کہ جب ظفراللہ جمالی کو وزارت عظمیٰ سے ہٹایا جا رہا تھا تونئے وزیراعظم کے طور پرسومرو مشرف اور مغربی طاقتوں کیلئے پہلا انتخاب تھے مگر آخری لمحے تیز طرار شوکت عزیز نے کسی طرح پانسہ اپنے حق میں پلٹ دیا تاہم نگران وزیراعظم مقرر کرنے کا وقت آیا تو ایک بار پھرسومرو کو ترجیح دی گئی۔ سومرو کے پانچ سال کے غیر جانبدارانہ کردار کو دیکھتے ہوئے بے نظیر بھٹو بھی سومرو کو نگران وزیراعظم بنانے کے حق میں تھیں نواز شریف کیلئے سومرو کو نئے صدر کے طور پر قبول کرنا مشکل ہو گا۔کیونکہ وہ یہ نہیں چاہیں گے کہ پرویز مشرف کاکوئی قریبی فرد ایوان صدر میں بیٹھا ہو۔ آصف زرداری نے کہا ہے کہ آئینی پیکج حتمی نہیں اس میں تبدیلیاں ممکن ہیں، صدر کے مواخذے کیلئے مطلوبہ تعداد پوری ہو سکتی ہے، عوام چاہیں تو صدر سے ملاقات کر سکتا ہوں، جسٹس افتخار محمد چوہدری سمیت تمام جج بحال ہونگے، مسلم لیگ (ن) کے وزراء بہت جلد وزارتوں میں آ جائیں گے، بجٹ میں عوام کو ریلیف دینا مشکل ہے نا ممکن نہیں، ایک انٹرویو میں آصف زرداری نے کہا ہے کہ آئینی پیکج حتمی نہیں ہے اور اس میں تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔ آئینی پیکیج بجٹ سے پہلے آسکتا ہے لیکن ممکن ہے کہ اس پر بحث بجٹ کے بعد ہو، تاہم آئینی پیکیج کو جولائی میں منظور ہو جانا چاہئے۔ آئینی پیکیج مشکل نہیں ہے، اس حوالے سے صدر پرویز اور نواز شریف سمیت تمام سیاسی رہنماو¿ں سے بات چیت کی جائے گی، جسے آئینی پیکیج کے حوالے سے تحفظات ہیں وہ آکر پیش کرے۔ پیپلز پارٹی ججوں کی بحالی اور عدلیہ کی آزادی چاہتی ہے۔ صدر پرویز مشرف اور پیپلز پارٹی کے تعلقات کے حوالے سے آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ صدر پرویز اور پارٹی کے درمیان بات چیت تھی تاہم ابھی تک صدر مشرف سے ملاقات نہیں ہوئی، عوام چاہیں تو ملاقات کرسکتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ صدر کے اختیارات وزیراعظم کو واپس دلانا چاہتے ہیں، ناممکن کو ممکن بنانا سیاستداتوں کا کام ہے، (ن) لیگ، اے این پی اور ایم کیو ایم کے ساتھ اتحاد کے بارے میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا تاہم اب ان کے ساتھ اتحاد ہے خطے میں مسائل کے بیرونی دنیا پر اثرات ہوسکتے ہیں، اصل مسئلہ معاشی اور سیاسی استحکام ہے۔ گزشتہ حکومت نے گندم کے بحران کو نہیں سمجھا اور وہ ہی اس کی ذمہ دار ہے تاہم پیپلز پارٹی اس بحران کو حل کرنے کیلئے پوری کوشش کر رہی ہے۔ بحران کے خاتمے کیلئے منصوبے بنائے گئے ہیں لیکن منصوبوں کا نتیجہ آنے میں وقت لگتا ہے اگر کوئی پریشر گروپ سرگرم ہوا تو ان سے مذاکرات کا راستہ اختیار کیا جائے گا؛ سڑکوں پر محاذ آرائی نہیں کرینگے بلکہ ہر کسی سے مذاکرات کرینگے۔ اعلان مری موجود ہے اور ججوں کی بحالی کے حوالے سے کوئی شبہات نہیں ہونا چاہئے۔ نواز لیگ اور پیپلز پارٹی حکومتی اتحادی ہیں اور بہت جلد نواز لیگ وزارتوں میں واپس آجائیگی اور افتخار چوہدری سمیت تمام ججز بحال ہونگے اور ہم بھی ابھی تک پنجاب میں حکومت کے ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نواز شریف کی مہربانی سے رحمت شاہ آفریدی کو رہا کروایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ صدر کے مواخذے کیلئے ممبران کی تعداد مکمل ہوسکتی ہے اور صدر کا 58 ٹو بی کا اختیار استعمال کرنا اب ممکن نہیں ہے، اس کیلئے کوئی جواز نہیں۔ نواز لیگ کے بغیر پنجاب میں اور ایم کیو ایم کے بغیر سندھ میں پیپلز پارٹی حکومت بناسکتی ہے۔ ق لیگ کے ساتھ اتحاد بنانا مشکل ہے کیونکہ اس پر عوام کو تحفظات ہیں۔ ق لیگ اور پی پی کے درمیان نورا کشتی کے حوالے سے شائع ہونے والی خبروں کے متعلق انہوں نے کہا کہ پی پی نے نہ پہلے کبھی نورا کشتی کی اور نہ اب کرے گی۔ انہوں نے بھارت کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان معاشی بنیادوں پر تعلقات مستحکم ہونے چاہئیں اور بھارت کے ساتھ کمرشل زون بنانا چاہئے اور اس طرح کے مزید اقدامات کرنا چاہئیں تاکہ تعلقات مضبوط ہوں۔ انہوں نے کہا کہ بجٹ میں عوام کو ریلیف دینا مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں، مہنگائی اور آٹے بجلی کے بحران کو ختم کرنا ہرگز ناممکن نہیں ہے۔ وفاقی وزیراطلاعات و نشریات شیری رحمن نے کہاہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کیجانب سے پیش کردہ آئینی پیکیج پر تمام فریقین کواعتماد اور وکلا کی جانب سے تحفظات کا جائزہ لیاجائیگاجبکہ پیکیج کو مسترد کرنایااس پر اعتراضات کرنا ان کاجمہوری حق ہے۔یہ پیکیج حتمی نہیں تاہم تمام اتحادیوں سے مذاکرات اور انہیں اعتماد میں لینے کے بعد ہی اسے حتمی شکل دی جائیگی۔ مجوزہ آئینی پیکیج جسے پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری نے پریس کانفرنس میں پیش کیاتمام اتحادیوں کو اعتماد میں لیا جائیگا۔ آئینی پیکیج پر وکلا کیجانب سے تحفظات کا بھی جائزہ لیاجائیگا اور پیکیج کو مسترد کرنا یا اس پر اعتراضات کرنا ان کا جمہوری حق ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ تمام مسائل کو احسن طریقے سے حل کرلیاجائیگا تاہم یہ پیکیج حتمی نہیں تاہم تمام اتحادیوں سے مذاکرات اور انہیں اعتماد میں لینے کے بعد ہی اسے آخری شکل دی جائیگی۔ اس سلسلے میں سیاسی جماعتوں، سول سوسائٹی اور وکلا سے بھی بات چیت ہوگی اور معاشرے کے ان طبقات کا ڈائیلاگ میں شامل ہونا ضروری ہے جمہوری ممالک میں حکومتیں عوام کو اعتماد میں لے کر اقدامات کیا کرتی ہیں اور ہماری حکومت بھی تمام طبقات کو ساتھ لے کر چلے گی۔ چیف جسٹس کی تین سال مدت ملازمت اور مائنس ون فارمولے کو مسترد کرتے ہوئے عوام نے کہا ہے کہ جس آئینی پیکیج کو پارلیمنٹ میں لانے کی کوشش کی جا رہی ہے اس کا مقصد عدلیہ کے وقار میں اضافہ نہیں بلکہ ان ججوں کو سزا دینا ہے جنہوں نے عدلیہ کے وقار کو بلند کیا۔ انہیں خدشہ ہے کہ جج دس جون تک بحال نہیں ہوں گے اور وکلا کو لانگ مارچ کی تیاری کرنی چاہیے۔ جبکہ اعتزاز احسن نے کہا ہے کہ اگر چیف جسٹس کے عہدے کی میعاد مقرر کی گئی تو وکلا اسے ’مائنس ون فارمولہ‘ سمجھیں گے جسے وہ پہلے ہی مسترد کر چکے ہیں۔ مجوزہ آئینی پیکیج سے عدلیہ کے وقار کو بڑھایا نہیں جا رہا بلکہ عدلیہ کے وقار کو بڑھانے والوں کو سزا دی جا رہی ہے۔ وکلا پارلیمنٹ کو مضبوط دیکھنا چاہتے ہیں لیکن پارلیمنٹ کو بھی اپنے آپ کو مضبوط کرنا پڑے گا اور پارلیمنٹ عدلیہ کے ملبے پر قائم نہیں رہ سکتی۔ دس جون کو لانگ مارچ ضرور ہوگا جس میں آزاد کشمیر سمیت ملک بھر سے وکلا شریک ہوں گے۔بیرسٹر اعتزاز احسن نے کہا کہ عدلیہ کی بحالی کی جدوجہد منزل کے قریب پہنچ چکی ہے اور جلد جج صاحبان بحال ہوں گے۔ چیف جسٹس کے وکیل حامد خان نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ آصف زرداری کو تاریخ سے سبق حاصل کرنا چاہیے اور انہیں 1996 میں عدلیہ سے لڑائی کو یاد کرنا چاہیے جس کے نتیجے میں پیپلز پارٹی کی حکومت ختم ہو گئی تھی۔ پاکستان کے غریب اور کسانوں نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ ملٹی نیشنل کمپنیوں نے پاکستان کی زراعت پر گہرے پنجے گاڑ لیے ہیں،یہ کمپنیاں ملک کو دست نگر اور پاکستانی عوام کو غلام بنانے کیلئے متحرک ہیں جبکہ کسانوں کو بھی ان کمپنیوں سے نجات دلائی جائے، یہ کسانوں کیلئے زہر قاتل ثابت ہورہی ہیں جو کسانوں سے دودھ سستا خریدتی ہیں اور اپنا پانی مہنگا فروخت کرتی ہیں۔ گزشتہ سال گندم کا مصنوعی بحران پیدا کرنیوالے چہروں کو بے نقاب کیا جائے کسانوں سے زبردستی 625روپے فی من گندم خرید ی جارہی ہے جبکہ بین الاقوامی مارکیٹ میں اس کی قیمت 1200روپے سے 1500روپے ہے۔ اس طرح حکومت نے اپنی غذائی ضروریات پوری کرنے کیلئے 16ارب روپے کی گندم درآمد کی جو غیر ملکی کسانوں کی مدد اور اپنے کسانوں سے زیادتی ہے شوگرمل مالکان نے گنے کے کاشتکاروں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا اور12ارب روپے کسانوں کے دبا لیے ہیں جبکہ ٹریکٹر کمپنیاں کسانوں سے لاکھوں روپے ایڈوانس لے لیتی ہیں تاہم انہیں ٹریکٹربلیک میں فروخت کرتی ہیں اس کا فوری سد باب کیا جائے قرارداد میں مزید کہاکہ ڈی اے پی کھاد کی بوریوں پر قیمت اور ملک میں آمد کی تاریخ درج کی جائے جبکہ چولستان کے صحراو¿ں کو مناسب منصوبہ بندی سے آباد کیا جائے تاکہ زراعت میں یک دم اضافہ ہوسکے ایف ایف سی کراچی کے پلانٹ کو مرمت کرکے فوری طور پر چلایا جائے اور بااثر افراد کے 53ارب کے معاف کیے گئے قرضے واپس لیکر کسانوں کے 2لاکھ روپے تک کے قرضے معاف کیے جائیں۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ معزول چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو صدر پرویز مشرف پسند کرتے ہیں اور نہ ہی آصف زرداری۔ اسلام آباد کے طاقتور مراکز پر قابض دونوں شخصیات سختی سے ان کی بحالی کی مخالف ہیں کیونکہ دونوں کو یہ معلوم ہے کہ بے خوف اور آزاد عدلیہ انکے پس پردہ معاملات میں جھانکنے میں شرم محسوس نہیں کرے گی۔ ایک وقت میں پرویز مشرف کے قریبی ساتھی سمجھے جانے والے پاکستان اسٹیل مل کے سابق چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل (ر) قیوم نے ایک نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے اس بات سے پردہ اٹھایا ہے کہ جب قومی خزانے کے نام نہاد نگہبانوں نے انتہائی اہم قومی اثاثے کو کوڑیوں کے مول بیچ دیا تھا تو ایک آمر نے کس طرح چشم پوشی کی تھی۔ جنرل قیوم نے انکشاف کیا کہ جنرل پرویز مشرف سپریم کورٹ سے من پسند فیصلہ چاہتے تھے اور اس پر وہ جسٹس افتخار محمد چوہدری سے بات بھی کرچکے تھے۔ تاہم سپریم کورٹ کی جانب سے جو فیصلہ انہیں تھمایا گیا وہ ایوانِ صدر اور وزیراعظم کیلئے دھچکا تھا۔ ملک کی تاریخ کے اس سیاہ سودے پر سخت فیصلہ دینے پر پرویز مشرف نے جسٹس افتخار کیخلاف ذاتی اختلافات پیدا کرلیئے۔ گزشتہ 8 سال کے دوران کئے گئے جرائم کی فہرست بہت بڑی ہے۔ لاپتہ افراد کی کہانیاں، لال مسجد کا قتل عام، 2005ء میں اسٹاک ایکسچینج کا کریش ہونا، اسٹیل مل کی نجکاری کا اسکینڈل، 12 مئی کی خونریزی اور 3 نومبر کے غیر آئینی اقدامات تو صرف چند ایسے واقعات ہیں جو مستقبل میں نیب کے حکام مشرف اور ان کے ساتھیوں کیخلاف اٹھا سکتے ہیںطاقتور لوگوں کے سامنے نہ جھکنے اور جوابی لڑائی لڑنے والے جسٹس افتخار اپنی بحالی سے منسلک شرائط قبول کرنے کو تیار نہیں۔ چاہے وہ زرداری کے این آر او کے خوف سے متعلق ہوں یا مشرف کے خطرات میں گھرے ایوانِ صدر سے متعلق۔ جسٹس افتخار اور دیگر معزول ججوں نے وقت کا امتحان پاس کرلیا ہے۔ جسٹس افتخار کی 9 مارچ 2007ء کی ”نہ“ ملک میں عدلیہ کی آزادی کی تحریک کی تمہید بن چکی ہے۔ مشرف کی جانب سے 3 نومبر کے مارشل لاء کا مقصد 60 ججوں کو بندوق کی نوک پر گھر بھیج کر آزاد عدلیہ کو تاریخی سبق سکھانا تھا۔ لیکن اس کے نتیجے میں عدلیہ کے ملبے سے مزید 40 افتخار چوہدری پیدا ہوگئے۔ سول سوسائٹی اور وکلاء برادری نے بہادری کا مظاہرہ کیا اور اب وہ ملک میں آزاد عدلیہ حاصل کرنے کیلئے پرعزم ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو بھی ججوں کی بحالی کے ایشو پر نہ ڈگمگانے کی وجہ سے پورے نمبر ملے ہیں جبکہ اے پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں پہلے ہی اس مقصد کی حامی ہیں۔ اگر عدلیہ کو آزاد کرانے کے موجودہ موقع کو ضایع کردیا گیا تو ہمارا مستقبل تاریک ہوجائیگا۔ آٹے اور بجلی جیسے مصنوعی بحرانوں کو ججوں کی بحالی کے ساتھ جاری رکھ کر لوگوں کو الجھانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس کا انصاف اور قانون کی حکمرانی کے ساتھ کوئی مقابلہ نہیں۔ یہ ملکی تاریخ کے فیصلہ کن لمحے ہیں۔ لوگ تبدیلی چاہتے ہیں؛ ایک ایسا نظام جس میں کسی کا اقتدار جاری رکھنے کیلئے معصوم لوگوں کو قتل نہ کیا جائے، جہاں عوامی خزانے کے لٹیروں اور چوروں کو احتساب سے بے خوف بھاگ نہ سکیں۔ پاکستان میں کھیل کے اصول تبدیل کرنے کا وقت آگیا ہے۔ سابق کور کمانڈر راولپنڈی لیفٹیننٹ جنرل (ر) جمشید گلزار کیانی نے کہا ہے کہ موجودہ حالات میں صدر مشرف 58-2B استعمال کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہے، انہیں فوج سمیت کسی دوسرے ادارے کی حمایت حاصل ہے۔ ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا ہے کہ سابق فوجی افسران کی تنظیم پاکستان ایکس سروس مین سوسائٹی پرویز مشرف کو اقتدار سے ہٹانے کیلئے متحرک ہوچکی ہے اور اس حوالے سے تنظیم نے اپنا لائحہ عمل بھی بنا لیا ہے، ملک بھر میں موجود 25 لاکھ سابق فوجی ملک اور قوم کو پرویز مشرف سے نجات دلانے کیلئے کردار ادا کرنے کیلئے تیار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ”فرد واحد“ کے غلط اور غیرآئینی فیصلوں اور اقدامات سے ملک معاشی اقتصادی تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کردیا گیا ہے، ملک اور قوم کی بہتری اسی میں ہے کہ پرویز مشرف کو اقتدار سے باہر کیا جائے، آرمی ہاو¿س آرمی چیف کے سپرد کیا جائے، مشرف اور اس کی ٹیم کا محاسبہ کیا جائے اور آئین توڑنے اور ملکی مفادات کے منافی فیصلے اوراقدامات کرنے والے پرویز مشرف کا بھی ٹرائل ہونا چاہئے جس نے فوج کو بھی اپنے اقتدار کو طول دینے کیلئے استعمال کیا۔ جنرل جمشید کیانی نے کہا کہ وکلاء کی جانب سے 12 جون کے لانگ مارچ میں ایکس سروس مین سوسائٹی بھرپور طریقے سے اپنی الگ شناخت کے ساتھ شرکت کرے گی اور اب مشرف کو اقتدار چھوڑنا ہوگا۔ ایک اور سوال کے جواب میں سابق کورکمانڈر راولپنڈی نے کہا کہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کی جگہ کسی اور جنرل کو نیا آرمی چیف لگانا مشرف کی غلط فہمی ہے اور اس حوالے سے میڈیا میں ایک دفاعی تجزیہ نگار نے جو بات کی ہے وہ حقائق کے برعکس ہے کیونکہ مشرف 58-2B سمیت سروسز چیفس کی تقرری اور تبدیلی کے فیصلے کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہے ہیں اور نہ ہی ان کے ایسے کسی فیصلے کو قوم تسلیم کرے گی۔ انہوں نے مجوزہ آئینی پیکج کے بعض حصوں کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ 58-2B کا خاتمہ ہونا چاہئے اور سروسز چیفس کی تقرری کا اختیار بھی صدر کی بجائے وزیراعظم کو ہونا چاہئے۔ پاکستان پیپلز پارٹی آج بھی مری معاہدے کی پابند ہے ،انھیں ججز کو بحال کروانا ہوگا لیکن آئینی و قانونی اور باعزت طریقے سے خودداری کے راستے پر چلتے ہوئے،پیپلز پارٹی کی حکومت نے میثاق جمہوریت کی روح کو سامنے رکھتے ہوئے آئین میں 62ترامیم کا مسودہ تیار کیا ہے جو قوم کے سامنے رکھ دیا ہے تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لے کر آئین کو اس کی اصل شکل میں بحال کرنا ہوگا۔ صوبہ سرحد کے نام کی تبدیلی کے بعد انھیں فاٹا میں ایف سی آر کے قوانین میں ترامیم بھی کرنا ہوگی عدلیہ آزاد نہ ہونے کی وجہ سے ملک میں بار بار فوجی مداخلت ہوتی رہی اور آئین کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا گیا اور اس وقت موجودہ آئین آدھا تیتر اور آدھا بٹیر بن چکا ہے اس لئے اس میں اصلاحات از حد ضروری ہیں۔ امریکہ کی طرف سے عوامی حلقوں میں پائے جانے والے خدشات اور عوامی تحفظات کو بھی قو می اخبارات ا پنے اداریوں میں بھی زور دے کر یہ کہہ چکے ہیں کہ امریکی نائب وزیر خارجہ نیگروپونٹے نے امریکی کانگریس پینل میں جمع کرائے گئے تحریری بیان میں کہا تھا کہ پاکستان نے قبائلی علاقوں میں عسکریت پسندوں سے معاہدہ کرتے وقت نہ امریکہ سے مشورہ کیا ہے اور نہ ہی اسے اعتماد میں لیا گیا امریکہ کو ان معاہدوں کا عمل میڈیا کے ذریعے ہوا جس پر امریکہ نے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اپنے اعتراضات پہنچا دیئے ہیں قبائلی علاقوں میں عسکریت پسندوں سے معاہدے کے حوالے سے کسی بھی سینئر امریکی عہدیدار کا یہ پہلا بیان تھا انہوں نے کہا امریکہ پاکستان کی جمہوری حکومت اور اے این پی سمیت تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ ملکر کام کرنا چاہتا ہے اور پاکستان کی معتدل قوتوں کو ساتھ لے کر چلتے ہوئے قبائلی علاقوں میں حکومتی رٹ کے قیام کیلئے مدد کررہا ہے پاکستان سے تعلقات امریکی خارجہ پالیسی کا اہم حصہ ہیں اورنئی جمہوری حکومت سے تعاون جاری رہے گا۔ قبائلی علاقوں میں امن کے قیام کیلئے گفت وشنید اور معاہدوں کا راستہ اختیار کرنے پر امریکہ شروع ہی سے معترض رہا ہے تاہم اس ضمن میں معاہدوں کی مخالفت براہ راست کرنے کے بجائے یا میڈیاغیر اہم امریکی شخصیات کا سہارا لیا جاتا رہا مگر اب اس نے کھل کر اعلیٰ سطحی طور پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے کیونکہ قبائلی علاقوں میں امن کا قیام اس کا مقصد نہیں ماضی میں اگرچہ صدر مشرف اور ان کی حکومت امریکہ کے ہر احکام پر آنکھیں بند کرکے عمل کرتی رہی اور امریکہ کو یہ کھلی چھوٹ دی گئی کہ وہ پاکستانی سرحدوں کی پامالی کے ساتھ ساتھ بے گناہوں پر بمباری کرکے ان کے قتل واستہلاک میں مصروف رہے تاہم اگر کبھی متحارب گروپوں سے معاہدوں کی کوئی سبیل پیدا ہوئی تو امریکہ نے اسے سبوتاڑ کرنے میں لمحہ بھر کی تاخیر نہ کی اور بغیر پائلٹ کے طیاروں کے ذریعے بمباری کرکے معاملات کو حل ہونے سے روکتا رہا۔ موجودہ حکومت ابتداء ہی سے اس امر کا اظہار کرتی چلی آرہی ہے کہ وہ پہاڑوں میں بیٹھے ہوئے افراد سے بھی مذاکرات کو ممکن بناکر ان کے تحفظات دور کرتے ہوئے امن کے قیام کی راہ ہموار کرے گی کیونکہ درپیش صورتحال کا اس کے علاوہ کوئی حل نہیں ہے۔ مذاکرات کے ذریعے معاملات طے نہ کرنے کا نتیجہ گزشتہ ادوار میں انتہائی سنگین برآمد ہوتارہا ہے پورا ملک دہشتگردی کے نرغے میں رہااہم شخصیات سیکیورٹی فورسزپولیس تنصیبات اور سیاسی اجتماعات کو خود کش حملوں کا نشانہ بنایا جارہا تھا جس میں ہزاروں افراد شہید وزخمی ہوئے اور خوف وہراس کا ایک ایسا ماحول پیدا ہواکہ کوئی بھی شخص خود کو محفوظ تصور نہیں کرتا تھا جب امن کا قیام ہی بنیادی مقصد ہے تو اس کیلئے کوئی بھی راستہ اختیار کیا جاسکتا ہے طاقت کے بہیمانہ استعمال سے امریکہ نہ عراق میں اپنے مقاصد حاصل کرسکا ہے اور نہ اسے افغانستان میں امن کے قیام کو یقینی بنانے میں کامیابی ہوئی ہے متحارب فریق بھی محاذ آرائی نہیں چاہتے البتہ آپریشن کے ردعمل میں وہ اپنی کارروائیوں میں تیزی لاکر دہشتگردی کا بازار گرم کردیتے ہیں مردان چھاو¿نی میں جو خود کش دھماکہ ہوا وہ ڈمہ ڈولا میں بغیر پائلٹ کے ذریعے 14 خواتین وبچوں کی ہلاکت کاردعمل تھا کیونکہ مقامی طالبان یہ سمجھتے ہیں کہ امریکہ نے یہ جارحیت حکومت کی اجازت سے کی ہے سوال یہ ہے کہ امریکہ آخر قتل وغارت گری کا سلسلہ ہی کیوں جاری رکھنا چاہتا ہے وہ حالات کے سدھار کیلئے پاکستانی اقدامات کی حمایت کرنے کے بجائے ان پر اعتراضات پہ کیوں کمر باندھے ہوئے ہے۔جس مسئلے کو مذاکرات کے ذریعے حل کیا جاسکتا ہے اسے آتش وآہن کی بارش سے کیوں حل کرنا چاہتا ہے ان سوالات کے جواب حاصل کرنے کیلئے کسی تگ ودو کی ضرورت نہیں اوران کے جواب اسکے عزائم کو بھی آشکار کرتے ہیں وہ اب بھی یہی سمجھتا ہے کہ پاکستان کے حکمران اس کے زرخرید غلام ہیں اور انہیں اس کے ہر حکم پر آنکھیں بند کرکے عمل کرنا چاہئے حالانکہ اسے یہ فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ اب پرانا دور نہیں سابقہ حاکموں کے خلاف عوام اپنا دوٹوک فیصلہ سنا چکے ہیں ان کی پالیسیوں پرعدم اعتماد کا اظہار کرچکے ہیں اور امریکی حکمرانوں سے ان کی نفرت بھی اسی لیے ہے کہ انہوں نے دنیا کو جہنم زار میں بدل کررکھ دیا ہے سرحدی علاقوں پر اس کے حملوں میں بے گناہ افراد کی ایک بڑی تعداد ماری جاچکی ہے اسے یہ حقیقت بھی یاد رکھنی چاہئے کہ پاکستان یہ بہتر طور پر جانتا ہے کہ کونسا قدم اس کیلئے مفید ہے وہ بہتری کیلئے کوئی بھی آپشن استعمال کرنے کا حق بھی رکھتا ہے وہ امریکہ کی نوآبادی نہیں کہ اپنی اندرونی پالیسیاں امریکہ سے مشورہ کرکے تشکیل دے یا پھر اسے ہر معاملے میں اعتماد میں لے امریکہ کو ڈمہ ڈولا میں بے گناہوں کی ہلاکت پر پاکستان کے اعتراض پہ بھی تکلیف ہوئی ہے کیونکہ سابقہ حکمران تو احتجاج نام کے لفظ سے بھی آشنا نہ تھے اور انہوں نے اپنے اقتدار کی طوالت کیلئے امریکہ کا ہر حکم ماننا اپنا فرض سمجھ لیا تھا شاید امریکہ اب بھی یہی سمجھتا ہے کہ نئی حکومت بھی عوامی اعتماد کو ٹھیس پہنچاتے ہوئے امریکی ونیٹو فورسز کو اپنے شہریوں کے قتل سے نہیں روکے گی امریکہ کا مقصد بھی یہی ہے کہ وہ بے گناہوں کی ہلاکتوں کے ذریعے اشتعال انگیزی پھیلاتا رہے تاکہ ردعمل میں دہشتگردی کا سلسلہ جاری رہے امریکہ نے15مئی کو باجوڑ ایجنسی کے مقام ڈمہ ڈولا میں دوسری مرتبہ حملہ کیا اور یہ دعویٰ کیا کہ ہلاک ہونے والوں میں غیر ملکی اور القاعدہ کا ایک اہم رہنما بھی شامل ہے جبکہ مقامی افراد اس کی مکمل تردید کرتے ہیں کیونکہ مرنے والے ان کے عزیز تھے اور انہوں نے انہیں اپنے ہاتھوں نم آنکھوں سے سپرد خاک کیا 13جنوری2006ء کو بھی اسی علاقے میں بغیر پائلٹ طیارکے ذریعے داغے جانے والے میزائل سے 20 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔30اکتوبر 2006ء کو باجوڑ کے ایک گاو¿ں چنیہ کے ایک دینی مدرسے پر بھی حملہ کیا گیا جس میں80افراد جاں بحق ہوئے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ اتنے زیادہ انتہاپسند افراد ایک جگہ اکٹھے ہو کر کوئی حکمت عملی ترتیب دے رہے ہوں یہ سب معصوم اور بے گناہ طالبعلم اور استاد تھے ان حملوں ہی کے نتیجے میں ملک کے طول وعرض میں دہشتگردی کا سلسلہ دراز ہوا حالات وواقعات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ہم اپنی آزادی وخود مختاری کے تحفظ میں بری طرح ناکام ہوچکے ہیں اور قوم یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ اگر ہم اپنے شہریوں کا دفاع نہیں کرسکتے تو ناقابل تسخیر دفاع کی باتیں کیا معنی رکھتی ہیں یہ آوازیں بھی سنائی دے رہی ہیں کہ پاکستانی حدود کے اندر کارروائیاں سابقہ حکومت سے ایک معاہدے کا نتیجہ ہیں حیرت اس بات پہ ہے کہ سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگانے والوں نے ملک وقوم کو انتہائی نازک موڑ پر لاکھڑا کیا ہے مگر اس کے باوجود بھی وہ خود کو ناگزیر گردانتے ہوئے اقتدار سے چمٹے رہنا ضروری سمجھتے ہیں کیونکہ اس حوالے سے انہیں اپنے آقاو¿ں کی بھرپور آشیرباد حاصل ہے جو موجودہ حکومت اورعوام کو یہ باور کراتے ہیں کہ مشرف ہی صدر رہیںگے حالانکہ یہ عوام کا استحقاق ہے کہ وہ جسے چاہیں صدارت اور وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز کردیں یہ بات تو طے ہے کہ امریکہ کے اس خطے میں مفادات ہیں لیکن اپنے مفادات کی تکمیل کیلئے ان سے جو راستہ اختیار کیا ہے وہ قطعی قابل قبول نہیں ہوسکتا اسے اپنے مفادات کے بارے میں آگاہ کرتے ہوئے ان کے تحفظ کیلئے حکومت سے رابطہ کرنا چاہئے نہ کہ دہشتگردانہ حملوں کے ذریعے حکومت کی مشکلات میں اضافہ اس بات میں کوئی ابہام نہیں کہ مغربی ممالک اور میڈیا میں پاکستان کے خلاف جو بھی پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے اسے امریکی حمایت حاصل ہوتی ہے آسٹریلوی اخبار نے حال ہی میں اس زہرآلود پروپیگنڈے کا آغاز کیا ہے کہ طالبان دور کے سابق افغان وزیر دفاع عبیداللہ کو پاکستانی سفیر طارق عزیزالدین کے بدلے میں رہا کیا گیا ہے جبکہ افغان وزیر دفاع رنگین دادفرنسپاتا نے بھی یہ الزام لگایا ہے کہ طالبان کے ساتھ نرمی کی پاکستانی پالیسی خطرناک ہے مذاکرات سے حملوں میںاضافے کا اندیشہ ہے اس منظر نامے میں ضروری ہے کہ پاکستان کی نئی حکومت امریکی عزائم کا گہرائی سے جائزہ لیکر ان کے توڑ کو ممکن بنائے اور کسی قیمت پر بھی پاکستان کے مفادات کو متاثر نہ ہونے دے اگر سرحدی علاقوں میں امریکی پالیسیوں کو جاری رکھا گیا تویہاں امن کے قیام کا خواب کبھی پورا نہیں ہوسکتا۔ گز شتہ دنوں وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے راولپنڈی اور اسلام آباد کے کا لم نگاروں اور ایڈیٹرز سے ملاقات کی تھی اس موقع پر راقم الحروف کو بھی کالمسٹ ایسوسی ایشن آف پاکستان کی طرف سے ایسوسی ایشن کے صدر ممتاز بھٹی اور آصف قریشی کے تین رکنی وفد کے ہمراہ ملاقات کا شرف حاصل ہوا تھا اس موقع پر سید یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم آف پاکستان جو کہ خود ایک صحافت کے طالب علم رہ چکے ہیں اور قو می اور بین الا قوامی حا لات حاضرہ پر عقابی نگا ہ رکھتے ہیں انھوں نے ہمیں اپنے دورہ مصر شرم الشیخ میں امریکی صدر جارج ڈبلیو بش سے ملاقات کی تفصیل سے آگا ہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکی صدر جارج ڈبلیو بش سے ملاقات میں مختلف شعبوں میں اقتصادی تعاون بڑھانے کے طریقوں پر تبادلہ خیال کیا صدر بش نے مجھے پاکستان کے غذائی بحران میں مدد دینے کی پیشکش کی اور کہا کہ امریکی حکومت سٹرٹیجک سطح پر پاکستان کے ساتھ تعلقات مضبوط بنانے کی خواہش مند ہے وزیراعظم گیلانی نے صدر بش سے باجوڑ حملے پر بھی بات کی اور کہا ہماری حکومت نے دہشت گردی ختم کرنے کا عزم کر رکھا ہے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہم دنیا کے ساتھ ہیں انہوں نے انتہا پسندی کے سدباب کے لئے قبائلی علاقوں میں اختیار کی گئی سہہ جہتی حکمت عملی کا بھی حوالہ دیا جبکہ وزیراعظم گیلانی نے عالمی اقتصادی فورم میں بھی زور دیا تھا کہ دہشت گردی وانتہا پسندی پر قابو پانے کے لئے ہمسایہ ممالک سے تعاون بڑھایا جائیگا دہشت گردی سے کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائیگا معاشی پالیسیاں بہتر بنائیں گے اور بھارت کے ساتھ کشمیر سمیت تمام تنازعات پر امن مذاکرات کے ذریعے حل کرنا چاہتے ہیں۔نائن الیون کے بعد ہر معاملے میں امریکہ کو مداخلت کرنے کی اجازت کے نتیجے میں آج پاکستان جن حالات سے دوچار ہے وہ آنے والے وقتوں میں مزید سنگین ہوتے چلے جائیں گے کیونکہ نئی حکومت کی تشکیل کے باوجود صدر مشرف ہنوز ایوان صدر میں براجمان ہیں اور نئی حکومت بھی اپنی پالیسیاں تبدیل کرنے میں آزاد نہیں بلکہ حکومت کے بعض زعما عوام کو یہ باور کرارہے ہیں کہ امریکہ کی مدد واعانت کے بغیر ملک کو نہیں چلایا جاسکتا حالانکہ وہ یہ مدد ہماری آزادی، خود مختاری اور سالمیت کی قیمت پر کررہا ہے اور اس کی خواہش ہے کہ پاکستان کو ایٹمی صلاحیت سے محروم کر دیا جائے حالانکہ اس نے کبھی بھی بھارت اور اسرائیل جیسے انتہا پسند اور جارحانہ مزاج رکھنے والے ممالک کی ایٹمی صلاحیت کے بارے میں تشویش کا اظہار نہیں کیا امریکہ جان بوجھ کر ایسے حالات پیدا کر رہا ہے کہ پاکستان عدم استحکام سے دوچار ہو اور اسے یہ ثابت کرنے کا موقع ملے کہ اس غیر ذمہ دار ریاست کے پاس ایٹمی ہتھیاروں کی موجودگی نہایت خطرناک ہے نامعلوم مصلحتوں کی بنا پر افسوسناک بات یہ ہے کہ ہم اس کے عزائم کو سمجھے بغیر اسی عطار کے لونڈے سے دوالیتے ہیں مملکت خداداد پاکستان پر اب تک حکمرانی کرنے والوں نے محض اپنے مفادات کے تحفظ کو یقینی بنایا اور آنے والے حالات کو نظر انداز کرتے ہوئے ملک عزیز کو معاشی، سماجی سیاسی دفاعی اور دیگر حوالوں سے مضبوط بنانے کی کوئی سعی نہ کی امریکی احکامات پر عملدرآمد کرتے ہوئے یہ خیال رکھنا بھی گوارانہ کیاگیا کہ اس سے ملک وقوم کتنے سنگین نقصانات سے دوچار ہو سکتی ہے یہ درست ہے کہ امریکہ ہمیں امداد دیتا ہے اور امداد کو اپنے مقاصد کے لئے صرف کرنے والوں کا یہ جواز بھی درست ہو سکتا ہے کہ امریکہ سے تعلقات نہیں بگاڑے جاسکتے مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے 60سال کے عرصے میں اپنے پاو¿ں پر کھڑا ہونے کی کوشش کیوں نہیں کی مستقبل کی ضرورتوں سے کیوں صرف نظر کیا جاتا رہا اور اپنی ذمہ داریوں سے انحراف کے باوجود ان کے محاسبے کا اہتمام کیوں نہ کیاگیا کسی جماعت یا ادارے کو خواہ وہ عوام کی نمائندہ جماعت ہی کیوں نہ ہو یہ حق نہیں دیا جاسکتا کہ اسکی پالیسیاں ملک وقوم کے مفادات کے منافی ہوں اور وہ کچھ بھی کرنے میں آزاد ہو اگر ان ناقص پالیسیوں پر محاسبے کا ایک موثر نظام موجود ہوتا تو آج پاکستان بھی ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا ہوتا ہمارے حکمرانوں نے سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ بلند کرنے کے باوجود اپنا اقتدار بچانے کے لئے امریکیوں کو اس سرزمین پر آنے کا موقع فراہم کیا اور وہ اب اپنے پنجے اس علاقے میں مضبوطی سے گاڑنے کی حکمت عملی ترتیب دینے میں مصروف ہیں ہو سکتا ہے کہ وہ عراق سے نکل جائیں لیکن آئندہ کے لئے انہوں نے اس خطے کو اپنا ہدف بنا رکھا ہے تاکہ وہ وسطی ایشیائی ریاستوں کے وسائل کے علاوہ پاکستان اور ایران کو یہاں بیٹھ کر کنٹرول کرسکیں اب تو یہ آوازیں بھی سنائی دینے لگی ہیں کہ انہیں عراق سے بھی پہلے اس خطے میں آجانا چاہیے تھا ستم ظریفی یہ ہے کہ ہمارے حالات سے آگاہی کے باوجود شتر مرغ کی طرح ریت میں سردبانے والے حکمرانوں کو امریکی عزائم کا ادراک ہی نہ ہو سکا اقتدار کی مجبوریوں نے انہیں پاکستانی سرحدوں کی خلاف ورزیوں پر احتجاج کی جرات بھی نہ دی اب بھی اگرچہ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے صدر بش سے باجوڑ حملے پر بات کی ہے اور انہوں نے محض سرہلانے پر اکتفا کر کے یا اپنی ناراضگی کا اظہار کیا یا پھر اس معاملے کو کوئی اہمیت ہی نہیں دی تاہم خوش آئند بات یہ ہے کہ ماضی میں تو اس پر بات کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی جاتی تھی عوام کی نمائندہ حکومت کے سربراہ نے سابقہ حکمرانوں کے آقاو¿ں پر اپنی تشویش کا اظہار تو کیا امریکہ پاکستان کے مسائل حل کرنے میں مدد دینے کا وعدہ کرتا ہے لیکن درحقیقت وہ ہمارے مسائل میں اضافے کے لئے کوشاں ہے کیونکہ اگر وہ خلوص، نیک نیتی اور سنجیدگی سے ہماری مدد کرنے کا خواہاں ہوتا تو پاکستان آج بحرانوں کے نرغے میں نہ ہوتا غذائی بحران کو بھی تقریباً چھ سات ماہ ہو چکے ہیں توانائی کا مسئلہ بھی شدت اختیار کر رہا ہے لیکن امریکہ نے مطالبے کے بغیر بھارت کے ساتھ تو سول نیو کلےئر توانائی کی فراہمی کا معاہدہ کیا لیکن ہمیں اس ضمن میں ٹکا سکا جواب دے دیاگیا پھر بھی ہم یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ہمارا دوست ہے امداد اور تعاون کے ساتھ ساتھ سب سے اہم بات علاقائی خود مختاری کا تحفظ ہے جس پر کوئی توجہ نہیں دی جارہی ہماری سرحدیں غیر محفوظ ہو چکی ہیں امریکی حملوں کا سلسلہ جاری ہے بے گناہ افراد سرحد پار حملوں میں مارے جاتے ہیں اور فوج کے ترجمان ان حملوں کی تصدیق و تردید بھی نہیں کر سکتے امریکی تعاون کے صلے میں پاکستان ایک طویل عرصہ سے بدترین دہشت گردی کی آماجگاہ بنارہا کوئی جگہ بھی دہشت گردوں کے حملوں سے محفوظ نہیں تھی یہ سب امریکی حمایت کے باعث پاکستان کو برداشت کرنا پڑا گزشتہ روز مردان چھاو¿نی میں ہونے والا خود کش دھماکہ جس میں سیکیورٹی فورسز کے 4اہلکاروں سمیت13افراد جاں بحق ہوئے بھی باجوڑ پر امریکی حملے کا ردعمل بتایا جاتا ہے اور تحریک طالبان نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے نہایت افسوس سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ کیا امریکی حملوں کا بدلہ اپنے ہی عوام سے لیا جائیگا یہ جواز کسی صورت بھی قابل قبول نہیں ہو سکتا امریکی حکام تک اپنی بات پہنچانے کے بعد تو یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ مذکورہ حملہ حکومت کی اجازت سے نہیں کیاگیا نہ جانے متحارب گروہ یہ کیوں نہیں سوچتے کہ امریکی حملے میں بھی پاکستانی ہی مارے گئے اور ردعمل کے نتیجے میں بھی پاکستانیوں ہی کو اپنی جانوں سے ہاتھ دھونا پڑے یوں محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کی نئی حکومت کو دباو¿ کا شکار کر نے کیلئے اسکا گھیرا تنگ کیا جارہا ہے تاکہ ماضی کی طرح وہ بھی ہرجائز وناجائز حکم پر آنکھیں بند کر کے عملدرآمد پر مجبور ہو جائے ایک طرف امریکہ مقامی طالبان کے ساتھ مذاکرات کی کوششوں کو سبوتاڑ کررہا ہے اور دوسری طرف اس نے بھارت کو یہ شہ دی ہے کہ وہ پاکستانی سرحدوں پراپنے طیارے پہنچا دے یہی وجہ ہے کہ وہ پاکستان کے ایف سولہ اور جے ایف تھنڈر17 کے بے بنیاد خطرے کی آڑ میں سرحدوں پر اپنے جدید سخوئی 30ایم کے آئی لڑاکا طیارے رکھنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے اگر ہم ہر شعبہ کو منصوبہ بندی کے تحت آگے لے جانے کی کوشش کرتے تو کوئی وجہ نہ تھی ہمیں معاشی حوالے سے کسی کا محتاج نہ ہونا پڑتا بدقسمتی یہ ہے کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ قدرتی وسائل کی دولت سے درست طور پر استفادہ کرنے کی سعی بھی نہیں کی زرخیز زمینوں کی موجودگی میں ہم غذائی بحران سے دوچار ہیں بنیادی ضروریات کے استعمال کی اشیاءکے نرخ آسمان سے باتیں کر رہے ہیں اور گرانی کی لہر نے عوام کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اس پر طرح یہ کہ سیاسی جماعتیں اب بھی حالات کا ادراک کرنے سے قاصر ہیں اور ان کی کوشش ہے کہ وہ جماعتی وذاتی مفادات کے حصول کا سلسلہ ماضی کی طرح جاری رکھیں اسے ایک المیہ ہی کہا جاسکتا ہے کہ سیاستدان ہر عسکری قیادت کو یہ الزام تو دیتے ہیں کہ پاکستان کو جتنے نقصانات اٹھانا پڑے ہیں ان کے ذمہ دار فوجی ادوار ہیں لیکن جب بھی سیاستدانوں کو اقتدار میں آنے کا موقع ملا وہ آپس کے جھگڑوں میں ہی الجھے رہے صدر مشرف نے بھی یہ کہا ہے کہ ملک محاذ آرائی کا متحمل نہیں ہو سکتا جمہوری قوتوں کو متحد ہو کر کام کرنا چاہیے جبکہ سیاسی قوتیں یہ الزام لگا رہی ہیں کہ سازشوں کا گڑھ ایوان صدر ہے واقعتاً ملک نہ محاذ آرائی کا متحمل ہو سکتا ہے اور نہ ہم مزید نقصان برداشت کر سکتے ہیں ایسے میں یہ سوچنے کی ضرورت کیوں محسوس نہیں کی جارہی کہ عوام ان پر اپنے عدم اعتماد کا اظہار کر چکے ہیں اور انہیں درپیش مشکلات کا ذمہ دار سمجھتے ہیں سیاسی جماعتیں بھی بہت سے معاملات میں خوف کا شکار ہیں58 ٹوبی کا خطرہ بھی ان کے سروں پر لٹک رہا ہے اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت کو آزادانہ طور پر کام چلانے کے لئے اسے اپنی مرضی کے صدر کے انتخاب کی اجازت دی جائے ملک کے وسیع تر مفاد میں اقتدار سے علیحدہ ہو کر درپیش خطرات کاخاتمہ کیا جائے جہاں تک صدارتی ترجمان کے اس بیان کا تعلق ہے کہ استحکام آنے پر ہی صدر مشرف خدا حافظ کہیں گے یہ استحکام ان کی موجودگی میں آٹھ سال تک نہ آسکا اور اب بھی یہ طے ہے کہ وہ اگر موجود رہے تو استحکام اک خواب ہی رہے گا۔ اے پی ایس
International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment