اسلام آباد ۔ پاک فوج نے صدر پرویز مشرف سے ’’آرمی ہاؤس ‘‘خالی کرانے کے لیے ان کے قریبی ساتھیوں کے ذریعے دباؤ بڑھا دیا ہے ۔پاک فوج کی طرف سے یہ فیصلہ وکلاء کے 10 جون کے لانگ مارچ کے اعلان اور ’’آرمی ہاؤس ‘‘ کے باہر ممکنہ دھرنے کے خطرے کے پیش نظر اعلیٰ سطح کی مشاورت میں کیا گیا ہے تا ہم اس سلسلے میں پاک فوج کے محکمہ تعلقات عامہ اور ایوانِ صدر سے رابطہ کیا گیا تو وہاں سے اس کی تصدیق یا تردیدنہیں ہو سکی۔ذرائع کے مطابق وکلاء کی طرف سے 10 جون کو لانگ مارچ کے اعلان اور آرمی ہاؤس راولپنڈی کے سامنے ممکنہ دھرنے کے خطرے کے پیش نظر پاک فوج نے اپنی حکمت عملی طے کرنے کے لیے اعلیٰ سطح پر مشاورت کی ہے ،جس میں یہ طے کیا گیا ہے کہ چونکہ یہ ایک سیاسی مسئلہ ہے اور پاک فوج خود کو اس میں ملوث نہیں کرنا چاہتی اس کے علاوہ ’’آرمی ہاؤس ‘‘ کا علاقہ انتہائی حساس ہے اورپنجاب حکومت بھی وکلاء تحریک کی بھرپور حمایت کر رہی ہے ۔مشاورت کے دوران یہ بات نوٹ کی گئی کہ راولپنڈی پولیس حکومتِ پنجاب کے ما تحت کام کر رہی ہے اس لیے وہ وکلاء کو روکنے کی کوئی کوشش نہیں کرے گی اورایسے میں جب وکلاء کی تحریک کو پنجاب حکومت کی بھرپور حمایت بھی حاصل ہواور پاک فوج بھی عوام کے ساتھ کسی طرح کا کوئی تصادم نہیں چاہتی ’’آرمی ہاؤس ‘‘ روالپنڈی کے سامنے وکلاء کا دھرنا اور اسے روکنے کی کوئی بھی کوشش انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ اس ساری صورت حال کے جائزے اور مشاورت کے بعد پاک فوج کی اعلیٰ قیادت نے یہ طے کیا کہ بہتر ہو گا کہ صدر پرویز مشرف سے کہا جائے کہ وہ10 جون کو وکلاء کے لانگ مارچ سے قبل ہی ’’آرمی ہاؤس ‘‘ چھوڑ کر ایوان صدر منتقل ہو جائیں جہاں انھیں بھرپور سیکورٹی بھی فراہم کی جائے گی اور یہی کسی بھی طرح کے تصادم سے بچنے کے لیے ایک محفوظ راستہ ہو گا ۔ذرائع کے مطابق اس تمام صورت حال کے جائزے اور مشاورت کے بعد پاک فوج کی اعلیٰ قیادت نے صدر پرویز مشرف کے قریبی ساتھیوں بریگیڈئیر (ر) نیاز احمدصدر کے پرنسپل سیکرٹری طارق عزیز ، دیگر ساتھیوں اور بہی خواہ ریٹائرڈ فوجی افسران کے ذریعے دباؤ بڑھانا شروع کر دیا ہے کہ وہ 10 جون سے قبل’’ایوانِ صدر‘‘ اسلام آباد منتقل ہو جائیں،ذرائع نے یہ بھی بتایا ہے کہ گزشتہ دنوں صدر پرویز مشرف اور چیف آف آرمی سٹاف کے درمیان ہونے والی غیر رسمی ملاقاتوں میں بھی فوج کے سربراہ نے انھیں ’’آرمی ہاؤس‘‘ سے ’’ایوانِ صدر‘‘ منتقل ہونے کا مشورہ دیا تھا جس پر وہ رضا مند بھی ہو گئے تھے تاہم اچانک 30 مئی کو امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کے ٹیلی فون کے بعد صدر پرویز مشرف نے یہ ارادہ بدل دیا ۔اب ’’آرمی ہاؤس ‘‘ روالپنڈی کے باہر ’’آرمی ہاؤس ‘‘ کے نام کا سائن بورڈ ہٹا کر’’ پریذیڈنٹ لاج ‘‘کے نام کا سائن بورڈ لگا دیا گیا ہے لیکن پاک فوج نے اس پر بھی تحفظات کا اظہار کیا ہے کہ اس سے خطرہ ٹلنے والا نہیں ، اس سلسلے میں جب پاک فوج کے محکمہ تعلقات عامہ سے دو مرتبہ رابطہ کیا گیا تو ایک مرتبہ ڈی جی آئی ایس پی آر کے دفتر کی جانب سے یہ کہا گیاکہ اس خبر پر کوئی تبصرہ ڈی جی آئی ایس پی آر ہی کر سکتے ہیں جبکہ دوسری مرتبہ رابطہ کرنے پر بتایا گیا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر اس وقت ایک اہم میٹنگ میں مصروف ہیں اس لیے دستیاب نہیں ہو سکتے جونہی وہ میٹنگ سے فارغ ہوں گے خود ان کا رابطہ کر لیا جائے گا۔دوسری طرف آرمی ہاؤس خالی کرانے کے لیے دباؤ اور آرمی ہاؤس کے سائن بورڈ ہٹا کر پریذیڈنٹ لاج کا سائن بورڈ لگانے کے بارے میں ایوان صدر کا موقف بھی جاننے کی کوشش کی گئی تاہم صدارتی ترجمان میجر جنرل(ر) راشد قریشی سے رابطہ نہ ہو سکا ان کے پی اے محمد شیراز نے کہاکہ ’’ صاحب ‘‘ موجود نہیں ہیں ، جب صدارتی ترجمان کے موبائل پر بار بار کال کرنے کی کوشش کی گئی تو ان کا سیلیا تو بند ملایا پھر اسے اٹنڈ نہیں کیا گیا ۔اس تمام صورت حال کے بعد ا ب امکان ہے کہ بڑھتے ہوئے اس دباؤ کے نتیجے میں صدر پرویز مشرف کسی بھی وقت ’’ایوانِ صدر‘‘ اسلام آباد منتقل ہو سکتے ہیں تاہم اگر پھر بھی انھوں نے ایسا نہ کیا تو آنے والے دنوں میں صورت حال انتہائی خطرناک ہو سکتی ہے ۔
International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.
Thursday, June 5, 2008
پاک فوج نے ’’آرمی ہاؤس ‘‘خالی کرانے کے لیے صدر پرویز مشرف پر دباؤ بڑھانا شروع کر دیا
اسلام آباد ۔ پاک فوج نے صدر پرویز مشرف سے ’’آرمی ہاؤس ‘‘خالی کرانے کے لیے ان کے قریبی ساتھیوں کے ذریعے دباؤ بڑھا دیا ہے ۔پاک فوج کی طرف سے یہ فیصلہ وکلاء کے 10 جون کے لانگ مارچ کے اعلان اور ’’آرمی ہاؤس ‘‘ کے باہر ممکنہ دھرنے کے خطرے کے پیش نظر اعلیٰ سطح کی مشاورت میں کیا گیا ہے تا ہم اس سلسلے میں پاک فوج کے محکمہ تعلقات عامہ اور ایوانِ صدر سے رابطہ کیا گیا تو وہاں سے اس کی تصدیق یا تردیدنہیں ہو سکی۔ذرائع کے مطابق وکلاء کی طرف سے 10 جون کو لانگ مارچ کے اعلان اور آرمی ہاؤس راولپنڈی کے سامنے ممکنہ دھرنے کے خطرے کے پیش نظر پاک فوج نے اپنی حکمت عملی طے کرنے کے لیے اعلیٰ سطح پر مشاورت کی ہے ،جس میں یہ طے کیا گیا ہے کہ چونکہ یہ ایک سیاسی مسئلہ ہے اور پاک فوج خود کو اس میں ملوث نہیں کرنا چاہتی اس کے علاوہ ’’آرمی ہاؤس ‘‘ کا علاقہ انتہائی حساس ہے اورپنجاب حکومت بھی وکلاء تحریک کی بھرپور حمایت کر رہی ہے ۔مشاورت کے دوران یہ بات نوٹ کی گئی کہ راولپنڈی پولیس حکومتِ پنجاب کے ما تحت کام کر رہی ہے اس لیے وہ وکلاء کو روکنے کی کوئی کوشش نہیں کرے گی اورایسے میں جب وکلاء کی تحریک کو پنجاب حکومت کی بھرپور حمایت بھی حاصل ہواور پاک فوج بھی عوام کے ساتھ کسی طرح کا کوئی تصادم نہیں چاہتی ’’آرمی ہاؤس ‘‘ روالپنڈی کے سامنے وکلاء کا دھرنا اور اسے روکنے کی کوئی بھی کوشش انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ اس ساری صورت حال کے جائزے اور مشاورت کے بعد پاک فوج کی اعلیٰ قیادت نے یہ طے کیا کہ بہتر ہو گا کہ صدر پرویز مشرف سے کہا جائے کہ وہ10 جون کو وکلاء کے لانگ مارچ سے قبل ہی ’’آرمی ہاؤس ‘‘ چھوڑ کر ایوان صدر منتقل ہو جائیں جہاں انھیں بھرپور سیکورٹی بھی فراہم کی جائے گی اور یہی کسی بھی طرح کے تصادم سے بچنے کے لیے ایک محفوظ راستہ ہو گا ۔ذرائع کے مطابق اس تمام صورت حال کے جائزے اور مشاورت کے بعد پاک فوج کی اعلیٰ قیادت نے صدر پرویز مشرف کے قریبی ساتھیوں بریگیڈئیر (ر) نیاز احمدصدر کے پرنسپل سیکرٹری طارق عزیز ، دیگر ساتھیوں اور بہی خواہ ریٹائرڈ فوجی افسران کے ذریعے دباؤ بڑھانا شروع کر دیا ہے کہ وہ 10 جون سے قبل’’ایوانِ صدر‘‘ اسلام آباد منتقل ہو جائیں،ذرائع نے یہ بھی بتایا ہے کہ گزشتہ دنوں صدر پرویز مشرف اور چیف آف آرمی سٹاف کے درمیان ہونے والی غیر رسمی ملاقاتوں میں بھی فوج کے سربراہ نے انھیں ’’آرمی ہاؤس‘‘ سے ’’ایوانِ صدر‘‘ منتقل ہونے کا مشورہ دیا تھا جس پر وہ رضا مند بھی ہو گئے تھے تاہم اچانک 30 مئی کو امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کے ٹیلی فون کے بعد صدر پرویز مشرف نے یہ ارادہ بدل دیا ۔اب ’’آرمی ہاؤس ‘‘ روالپنڈی کے باہر ’’آرمی ہاؤس ‘‘ کے نام کا سائن بورڈ ہٹا کر’’ پریذیڈنٹ لاج ‘‘کے نام کا سائن بورڈ لگا دیا گیا ہے لیکن پاک فوج نے اس پر بھی تحفظات کا اظہار کیا ہے کہ اس سے خطرہ ٹلنے والا نہیں ، اس سلسلے میں جب پاک فوج کے محکمہ تعلقات عامہ سے دو مرتبہ رابطہ کیا گیا تو ایک مرتبہ ڈی جی آئی ایس پی آر کے دفتر کی جانب سے یہ کہا گیاکہ اس خبر پر کوئی تبصرہ ڈی جی آئی ایس پی آر ہی کر سکتے ہیں جبکہ دوسری مرتبہ رابطہ کرنے پر بتایا گیا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر اس وقت ایک اہم میٹنگ میں مصروف ہیں اس لیے دستیاب نہیں ہو سکتے جونہی وہ میٹنگ سے فارغ ہوں گے خود ان کا رابطہ کر لیا جائے گا۔دوسری طرف آرمی ہاؤس خالی کرانے کے لیے دباؤ اور آرمی ہاؤس کے سائن بورڈ ہٹا کر پریذیڈنٹ لاج کا سائن بورڈ لگانے کے بارے میں ایوان صدر کا موقف بھی جاننے کی کوشش کی گئی تاہم صدارتی ترجمان میجر جنرل(ر) راشد قریشی سے رابطہ نہ ہو سکا ان کے پی اے محمد شیراز نے کہاکہ ’’ صاحب ‘‘ موجود نہیں ہیں ، جب صدارتی ترجمان کے موبائل پر بار بار کال کرنے کی کوشش کی گئی تو ان کا سیلیا تو بند ملایا پھر اسے اٹنڈ نہیں کیا گیا ۔اس تمام صورت حال کے بعد ا ب امکان ہے کہ بڑھتے ہوئے اس دباؤ کے نتیجے میں صدر پرویز مشرف کسی بھی وقت ’’ایوانِ صدر‘‘ اسلام آباد منتقل ہو سکتے ہیں تاہم اگر پھر بھی انھوں نے ایسا نہ کیا تو آنے والے دنوں میں صورت حال انتہائی خطرناک ہو سکتی ہے ۔
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment