دنیا میں لوگ Èتے ہیں چلے جاتے ہیں۔ سدا کسی کو نہیں رہنا۔ جنرل (ر) پرویز مشرف نے بھی اقتدار کا کوئی Èب حیات نہیں پی رکھا کہ جیتے جی جائیں گے ہی نہیں۔ اس لئے ان کا جانا ہمارے نزدیک کوئی مسئلہ نہیں سوال یہ ہے کہ جائیں گے کس طرح؟ جہاں تک ان کے جانے کی بات ہے عقلمندوں کیلئے اس کی کھلی نشانیاں سامنے Èچکی ہیں Èرہی ہیں اور Èئندہ دنوں میں مزید Èئیں گی۔ حال ہی میں صدر صاحب کا ایک انٹرویو نجی ٹی وی چینل پر نشر ہوا ۔ خاص بات یہ تھی کہ یہ انٹرویو معروف اداکارہ عتیقہ اوڈھو سے کرایا گیا ۔ کسی سینئر صحافی سے نہیں ۔ اس پر ایک قاری نے لکھا ہے کہ جس کا ملک جل رہا ہے ۔ جس کے کونے کونے میں خود کش پھٹ رہا ہے ۔ جس کے ملک کا ہر پڑھا لکھا انسان سڑکوں پر نعرے مارتا پھر رہا ہے ۔ جس کے ملک کا بچہ بچہ مہنگائی کے ہاتھوں مر رہا ہے ۔ جس کے ملک میں ہر انسان بجلی‘ گیس ‘ Èٹا ‘ چینی جیسی چیزوں کو ترس رہا ہے ۔ وہ حکمران ایک باغ وبہار شخصیت کی حامل حسینہ وجمیلہ کو سامنے بٹھائے ماضی کی یادیں تازہ کررہا تھا۔ اس انٹرویو کو دیکھ کر تو لگ رہا تھا کہ کسی ایسے حکمران کا انٹرویو ہے جس کے ملک میں سب ٹھیک ہے ‘ ہر طرف امن ہے اور اس پرسکون ماحول میں بادشاہ سلامت خیالوں میں کھو کھو کر اپنے بچوں کی عادتوں ‘ اپنے پوتے پوتیوں کی شرارتوں کے بارے میں قوم کو Èگاہ کر رہے ہیں ۔ ایک اور قاری کا کہنا ہے کہ میرا انٹرویو سننے سے پہلے خیال تھا کہ جہاں نئی حکومتیں بن رہی ہیں ‘ جہاں نئے لوگ حکومت میں شامل ہو رہے ہیں وہاں ہم پاکستانی اس عظیم انٹرویو میں اپنے صدر صاحب کو نئے Èنے والوں کو نصیحت کرتا سنیں گے ۔ ان سے وعدے کرتا سنیں گے لیکن سب نے دیکھا کہ اپنے عظیم انٹرویو میں ہمارے صدر صاحب ماضی میں ایسے کھوکھو کر اور ایسے اداس ہو کر باتیں کر رہے تھے جیسے اپنے Èخری وقتوں میں بہادر شاہ ظفر کیا کرتا تھا ۔ وہ بھی ایسٹ انڈیا کمپنی کے جہازوں سے تجارتی سامان کی جگہ برطانوی جرنیلوں کو اترتا دیکھ کر ایسے ہی ماضی میں کھو کھو کر اور ایسے ہی اداس ہو ہو کر ‘ کنیزوں کو سامنے بٹھا کر شاعری کیا کرتا تھا ۔ صدر صاحب کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان کے عوام عظیم ہیں لیکن یہاں لیڈر شپ کا فقدان ہے ۔ کوئی ان کو سمجھائے کہ اگر پاکستان میں عظیم لیڈروں کا فقدان ہوتا تو ہمارے قبرستان عظیم لیڈروں کی قبروں سے Èباد ہوتے ؟ ساٹھ سالہ تاریخ میں جتنے عظیم لیڈر پاکستان کے قبرستانوں میں دفن ہوئے اتنے کسی دوسرے ملک کے قبرستانوں میں دفن نہیں ہوئے ۔اتنے عظیم لیڈر پاکستان میں پیدا ہوئے تھے جبھی تو دفن بھی ہوئے ۔ صدر صاحب کیوں نہیں سمجھتے کہ لیڈر پیدا ہوتے ہیں لیکن زندہ نہیں چھوڑے جاتے ۔ کوئی تو ہے جو ہمارے لیڈروں کی جان کا دشمن بن کر بیٹھا ہے ۔ جو پاکستان میں لیڈر شپ کا فقدان پیدا کرنا چاہتا ہے۔ کیا عجب یہ وہی لوگ ہوں جو Èصف زرداری اور نواز شریف جیسے لیڈروں کو سامنے کھڑا دیکھ کر بھی لیڈر شپ کے فقدان کا رونا روتے رہتے ہیں۔ معزز قاری کی بات درست ہے لیڈرشپ ہمیشہ سے موجود رہی ہے مگر یہاں کسی کو کام نہیں کرنے دیا گیا۔ ہاتھ باندھ دیئے گئے اور گلا گھونٹ دیا گیا۔ خود دس دس سال بلاشرکت غیرے اپنوں پر حکومت اور غیروں کی غلامی کرتے رہے مگر اصل لیڈر شپ کو دو دوسال بعد چلتا کرکے الزام تراشی شروع کردی انہی لیڈروں سے اب حلف لے رہے ہیں جن پر کل الزام لگا رہے تھے یہ لیڈر شپ تازہ دم بھی ہے اور پرعزم بھی۔ عسکری اصول ہے کہ جب تازہ دم لوگ Èجاتے ہیں تو ”تھکے ہوئے “واپس چلے جاتے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف نے وردی اتارنے سے پہلے جو ” اپنے بندے “ اہم اداروں اور عہدوں پر بٹھائے تھے ان کے تبادلے اور فراغتیں شروع ہوچکی ہیںدو اہم ترین کورز کے سربراہ کورکمانڈر لاہور شفاعت اللہ شاہ، کور کمانڈر منگلا سجاد اکرم اور اپوزیشن والوں کو ”ہانکا“ لگا کر صدارتی کیمپ کی طرف لانے والے نیب کے ڈی جی میجر جنرل افتخار احمد تبدیل ہوچکے ہیں۔ ان سے پہلے صدر کے اپنے مقرر کردہ لیفٹیننٹ جنرل شاہد عزیز خود ہی چھوڑ گئے تھے کیونکہ وہ نیب کو احتساب کا ادارہ سمجھتے تھے نہ کہ انتقام کا۔ خفیہ اداروں میں بھی تبدیلی کی ہوا چل پڑی ہے۔ ان اداروں میں سب سے اہم انٹیلی جنس بیورو (IB)‘ ملٹری انٹیلی جنس (MI) اور انٹر سروسز انٹیلی جنس (ISI) ہیں ۔ IB کے ڈ ائریکٹر جنرل بریگیڈئیر (ر) اعجاز شاہ استعفیٰ دے چکے ہیں اور MI کے ڈی جی میجر جنرل ندیم اعجاز کی جگہ میجر جنرل Èصف کو لگانے کی اطلاعات ہیں IB میں ابھی تعیناتی ہونا ہے اور یہ ممکنہ طور پر وزیراعظم کریں گے کیونکہ IB وزیراعظم ہی کو جوابدہ ہوتی ہے ۔ پیچھے ISI رہ جاتی ہے جس کے ڈی جی لیفٹیننٹ جنرل ندیم تاج (ابھی تک) ہیں ۔ اس طرح ان 3 اہم ترین قومی سلامتی کے اداروں میں بھی تبدیلی کی ہوا چل پڑی ہے ۔ ان 3 میں سے طاقتور ترین ISI ہے جس کے سربراہ کا جنرل مشرف کے ساتھ تینوں اپنے بندوں میں سب سے قریب ترین رشتہ ہے صدر ان کے سگے خالو ہیں لہذا اب ساری نظریں ادھر لگی ہوئی ہیں کیونکہ اگر یہاں بھی تبدیلی È گئی تو ” اندھی طاقت “ کے تمام مراکز پر صدر مشرف کا کنٹرول ختم ہو جائے گا ۔ ہماری دعا ہے کہ جنرل (ر) مشرف اور جنرل کیانی کے درمیان Èئیڈیل تعلقات رہیں اور دونوں کی لائن ایک ہونے میں بھی ہمارا کوئی نقصان نہیں مگر جنرل مشرف نے جس انداز کے ساتھ کمانڈ کی چھڑی جنرل کیانی کے حوالے کی تھی وہ انداز اور اطوار کچھ اور چغلی کھاتے ہیں ۔ جاتے جاتے فوجی اہمیت کی ایجنسیوں پر اپنے بندے لگا دینا اور Èرمی ہائوس خالی نہ کرنا اس بات کے واضح اشارے تھے کہ وہ جنرل کیانی کو مکمل کنٹرول نہیں دینا چاہتے ۔ انہیں چھڑی دیکر ڈنڈا اپنے پاس ہی رکھنا چاہتے ہیں ۔ مگر مذکورہ بالا تبدیلیاں ظاہر کرتی ہیں کہ جنرل کیانی چھڑی پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد اب ڈنڈے پر گرفت مضبوط کرنے لگے ہیں۔ فوجی نوعیت کی ایجنسیوں پر تعیناتیاں نئے Èرمی چیف کا حق تھا جو انہوں نے اپنی سنیارٹی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نئے چیف کو استعمال نہیں کرنے دیا جو صرف یہ سوچ کر برداشت کر گئے کہ ”کوئی بات نہیں ۔ بڑے ہیں “ مگر صدر صاحب یہ بھول گئے کہ سدا نہ باغیں بلبل بولے ۔ سدا نہ باغ بہاراں 18 فروری کے بعد ہر گزرتے دن کے ساتھ ساتھ طاقت کے تمام مراکز اپنا قبلہ درست کرتے جا رہے ہیں ۔ چاہے وہ فوج ہو ‘ خفیہ ایجنسیاں ‘ انتظامیہ یا مقننہ اور اب عدلیہ بھی دنوں کی بات رہ گئی ہے ۔ چیف جسٹس افتخار سمیت تمام معزول ججوں کی بحالی تو دیوار پر لکھی ہی جا چکی ہے مگر اس سے بھی پہلے ممکن ہے کہ 3 نومبر کے بعد بننے والے جج وکلاءکی تعلقی اور عوام کی ناگواری سے گھبرا کر خود ہی استعفے دینے شروع کر دیں ۔امریکیوں کی جہاں تک بات ہے ان کو بلاشبہ فکر تو بہت ہے کہ اب ان کا پاکستان میں کیا بنے گا مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں لیا جا سکتا کہ وہ صدر مشرف پر اپنی سرمایہ کاری جاری رکھیں گے اور ان کا ہاتھ اوپر رکھنے کی کوشش کریں گے ۔ انگریز کو ” چوہدری“ چاہیے جو گائوں والوں کو اس کابا جگزار بنا کر رکھے ۔ جنرل مشرف اب پاکستان کے چوہدری نہیں رہے ۔ وہ پاکستانیوں کو امریکیوں کا اطاعت گزار بنا کر رکھنے کی طاقت سے محروم ہو چکے ہیں ۔ اس سے بھی Èگے کی بات یہ ہے کہ چوہدری ادھر ادھر سے غنڈوں کو اکٹھا کرکے طاقت مجتمع کر بھی لے تو اب گائوں کے کمی کمین چوہدری کا حکم نہیں مانیں گے کیونکہ ان کے بچے پڑھ لکھ گئے ہیں ۔ ان کو شعور È گیا ہے کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط ۔ لمبڑدار (نمبردار )کی اتھارٹی کہاں تک ہے اور ان کے حقوق کیا ہیں ۔ صدر صاحب کے ساتھی تو جارہے ہیں محترم انور محمود سیکرٹری اطلاعات بھی چلے گئے اٹارنی جنرل ملک قیوم (ٹیپ فیم) بھی جانے والے ہیں۔ ایک دن سب کو جانا ہی ہے۔ وہ میدا شیدا ہو یا صدر اور جنرل ۔دیکھنا یہ ہے کہ ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے والی بات نہ ہوجائے ہمارے صدر کو ویسے بھی بہت سے کام جاتے جاتے کرنے کی عادت پڑ چکی ہے۔ نوکری سے جاتے جاتے منتخب وزیراعظم کا تختہ الٹ دیا ۔ Èرمی کمان سے جاتے جاتے ایم Èئی اور Èئی ایس Èئی جیسی اہم فوجی ایجنسیوں پر اپنے بندے لگا دیئے ۔ اہم کورز میں تقرریاں کردیں۔ اسمبلی کے جاتے جاتے دوبارہ صدارت کا منصب حاصل کر لیا ۔ اہلیت سے جاتے جاتے پوری اعلیٰ عدلیہ کو گھر بھیج دیا۔ جمہوریت کی طر ف جاتے جاتے ایمرجنسی کی Èڑ میں مارشل لاءنافذ کردیا۔ لہذا جب بھی کوئی ان کے جانے کی بات کرتا ہے تو میں خوف سا محسوس ہونے لگتا ہے۔ بات کوئی کرتا ہے اور ڈر ہمیں لگنا شروع ہوجاتا ہے کہ ایسا نہ ہو کہ جاتے جاتے پھر کوئی کام کرجائیں۔
دنیا میں لوگ Èتے ہیں چلے جاتے ہیں۔ سدا کسی کو نہیں رہنا۔ جنرل (ر) پرویز مشرف نے بھی اقتدار کا کوئی Èب حیات نہیں پی رکھا کہ جیتے جی جائیں گے ہی نہیں۔ اس لئے ان کا جانا ہمارے نزدیک کوئی مسئلہ نہیں سوال یہ ہے کہ جائیں گے کس طرح؟ جہاں تک ان کے جانے کی بات ہے عقلمندوں کیلئے اس کی کھلی نشانیاں سامنے Èچکی ہیں Èرہی ہیں اور Èئندہ دنوں میں مزید Èئیں گی۔ حال ہی میں صدر صاحب کا ایک انٹرویو نجی ٹی وی چینل پر نشر ہوا ۔ خاص بات یہ تھی کہ یہ انٹرویو معروف اداکارہ عتیقہ اوڈھو سے کرایا گیا ۔ کسی سینئر صحافی سے نہیں ۔ اس پر ایک قاری نے لکھا ہے کہ جس کا ملک جل رہا ہے ۔ جس کے کونے کونے میں خود کش پھٹ رہا ہے ۔ جس کے ملک کا ہر پڑھا لکھا انسان سڑکوں پر نعرے مارتا پھر رہا ہے ۔ جس کے ملک کا بچہ بچہ مہنگائی کے ہاتھوں مر رہا ہے ۔ جس کے ملک میں ہر انسان بجلی‘ گیس ‘ Èٹا ‘ چینی جیسی چیزوں کو ترس رہا ہے ۔ وہ حکمران ایک باغ وبہار شخصیت کی حامل حسینہ وجمیلہ کو سامنے بٹھائے ماضی کی یادیں تازہ کررہا تھا۔ اس انٹرویو کو دیکھ کر تو لگ رہا تھا کہ کسی ایسے حکمران کا انٹرویو ہے جس کے ملک میں سب ٹھیک ہے ‘ ہر طرف امن ہے اور اس پرسکون ماحول میں بادشاہ سلامت خیالوں میں کھو کھو کر اپنے بچوں کی عادتوں ‘ اپنے پوتے پوتیوں کی شرارتوں کے بارے میں قوم کو Èگاہ کر رہے ہیں ۔ ایک اور قاری کا کہنا ہے کہ میرا انٹرویو سننے سے پہلے خیال تھا کہ جہاں نئی حکومتیں بن رہی ہیں ‘ جہاں نئے لوگ حکومت میں شامل ہو رہے ہیں وہاں ہم پاکستانی اس عظیم انٹرویو میں اپنے صدر صاحب کو نئے Èنے والوں کو نصیحت کرتا سنیں گے ۔ ان سے وعدے کرتا سنیں گے لیکن سب نے دیکھا کہ اپنے عظیم انٹرویو میں ہمارے صدر صاحب ماضی میں ایسے کھوکھو کر اور ایسے اداس ہو کر باتیں کر رہے تھے جیسے اپنے Èخری وقتوں میں بہادر شاہ ظفر کیا کرتا تھا ۔ وہ بھی ایسٹ انڈیا کمپنی کے جہازوں سے تجارتی سامان کی جگہ برطانوی جرنیلوں کو اترتا دیکھ کر ایسے ہی ماضی میں کھو کھو کر اور ایسے ہی اداس ہو ہو کر ‘ کنیزوں کو سامنے بٹھا کر شاعری کیا کرتا تھا ۔ صدر صاحب کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان کے عوام عظیم ہیں لیکن یہاں لیڈر شپ کا فقدان ہے ۔ کوئی ان کو سمجھائے کہ اگر پاکستان میں عظیم لیڈروں کا فقدان ہوتا تو ہمارے قبرستان عظیم لیڈروں کی قبروں سے Èباد ہوتے ؟ ساٹھ سالہ تاریخ میں جتنے عظیم لیڈر پاکستان کے قبرستانوں میں دفن ہوئے اتنے کسی دوسرے ملک کے قبرستانوں میں دفن نہیں ہوئے ۔اتنے عظیم لیڈر پاکستان میں پیدا ہوئے تھے جبھی تو دفن بھی ہوئے ۔ صدر صاحب کیوں نہیں سمجھتے کہ لیڈر پیدا ہوتے ہیں لیکن زندہ نہیں چھوڑے جاتے ۔ کوئی تو ہے جو ہمارے لیڈروں کی جان کا دشمن بن کر بیٹھا ہے ۔ جو پاکستان میں لیڈر شپ کا فقدان پیدا کرنا چاہتا ہے۔ کیا عجب یہ وہی لوگ ہوں جو Èصف زرداری اور نواز شریف جیسے لیڈروں کو سامنے کھڑا دیکھ کر بھی لیڈر شپ کے فقدان کا رونا روتے رہتے ہیں۔ معزز قاری کی بات درست ہے لیڈرشپ ہمیشہ سے موجود رہی ہے مگر یہاں کسی کو کام نہیں کرنے دیا گیا۔ ہاتھ باندھ دیئے گئے اور گلا گھونٹ دیا گیا۔ خود دس دس سال بلاشرکت غیرے اپنوں پر حکومت اور غیروں کی غلامی کرتے رہے مگر اصل لیڈر شپ کو دو دوسال بعد چلتا کرکے الزام تراشی شروع کردی انہی لیڈروں سے اب حلف لے رہے ہیں جن پر کل الزام لگا رہے تھے یہ لیڈر شپ تازہ دم بھی ہے اور پرعزم بھی۔ عسکری اصول ہے کہ جب تازہ دم لوگ Èجاتے ہیں تو ”تھکے ہوئے “واپس چلے جاتے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف نے وردی اتارنے سے پہلے جو ” اپنے بندے “ اہم اداروں اور عہدوں پر بٹھائے تھے ان کے تبادلے اور فراغتیں شروع ہوچکی ہیںدو اہم ترین کورز کے سربراہ کورکمانڈر لاہور شفاعت اللہ شاہ، کور کمانڈر منگلا سجاد اکرم اور اپوزیشن والوں کو ”ہانکا“ لگا کر صدارتی کیمپ کی طرف لانے والے نیب کے ڈی جی میجر جنرل افتخار احمد تبدیل ہوچکے ہیں۔ ان سے پہلے صدر کے اپنے مقرر کردہ لیفٹیننٹ جنرل شاہد عزیز خود ہی چھوڑ گئے تھے کیونکہ وہ نیب کو احتساب کا ادارہ سمجھتے تھے نہ کہ انتقام کا۔ خفیہ اداروں میں بھی تبدیلی کی ہوا چل پڑی ہے۔ ان اداروں میں سب سے اہم انٹیلی جنس بیورو (IB)‘ ملٹری انٹیلی جنس (MI) اور انٹر سروسز انٹیلی جنس (ISI) ہیں ۔ IB کے ڈ ائریکٹر جنرل بریگیڈئیر (ر) اعجاز شاہ استعفیٰ دے چکے ہیں اور MI کے ڈی جی میجر جنرل ندیم اعجاز کی جگہ میجر جنرل Èصف کو لگانے کی اطلاعات ہیں IB میں ابھی تعیناتی ہونا ہے اور یہ ممکنہ طور پر وزیراعظم کریں گے کیونکہ IB وزیراعظم ہی کو جوابدہ ہوتی ہے ۔ پیچھے ISI رہ جاتی ہے جس کے ڈی جی لیفٹیننٹ جنرل ندیم تاج (ابھی تک) ہیں ۔ اس طرح ان 3 اہم ترین قومی سلامتی کے اداروں میں بھی تبدیلی کی ہوا چل پڑی ہے ۔ ان 3 میں سے طاقتور ترین ISI ہے جس کے سربراہ کا جنرل مشرف کے ساتھ تینوں اپنے بندوں میں سب سے قریب ترین رشتہ ہے صدر ان کے سگے خالو ہیں لہذا اب ساری نظریں ادھر لگی ہوئی ہیں کیونکہ اگر یہاں بھی تبدیلی È گئی تو ” اندھی طاقت “ کے تمام مراکز پر صدر مشرف کا کنٹرول ختم ہو جائے گا ۔ ہماری دعا ہے کہ جنرل (ر) مشرف اور جنرل کیانی کے درمیان Èئیڈیل تعلقات رہیں اور دونوں کی لائن ایک ہونے میں بھی ہمارا کوئی نقصان نہیں مگر جنرل مشرف نے جس انداز کے ساتھ کمانڈ کی چھڑی جنرل کیانی کے حوالے کی تھی وہ انداز اور اطوار کچھ اور چغلی کھاتے ہیں ۔ جاتے جاتے فوجی اہمیت کی ایجنسیوں پر اپنے بندے لگا دینا اور Èرمی ہائوس خالی نہ کرنا اس بات کے واضح اشارے تھے کہ وہ جنرل کیانی کو مکمل کنٹرول نہیں دینا چاہتے ۔ انہیں چھڑی دیکر ڈنڈا اپنے پاس ہی رکھنا چاہتے ہیں ۔ مگر مذکورہ بالا تبدیلیاں ظاہر کرتی ہیں کہ جنرل کیانی چھڑی پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد اب ڈنڈے پر گرفت مضبوط کرنے لگے ہیں۔ فوجی نوعیت کی ایجنسیوں پر تعیناتیاں نئے Èرمی چیف کا حق تھا جو انہوں نے اپنی سنیارٹی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نئے چیف کو استعمال نہیں کرنے دیا جو صرف یہ سوچ کر برداشت کر گئے کہ ”کوئی بات نہیں ۔ بڑے ہیں “ مگر صدر صاحب یہ بھول گئے کہ سدا نہ باغیں بلبل بولے ۔ سدا نہ باغ بہاراں 18 فروری کے بعد ہر گزرتے دن کے ساتھ ساتھ طاقت کے تمام مراکز اپنا قبلہ درست کرتے جا رہے ہیں ۔ چاہے وہ فوج ہو ‘ خفیہ ایجنسیاں ‘ انتظامیہ یا مقننہ اور اب عدلیہ بھی دنوں کی بات رہ گئی ہے ۔ چیف جسٹس افتخار سمیت تمام معزول ججوں کی بحالی تو دیوار پر لکھی ہی جا چکی ہے مگر اس سے بھی پہلے ممکن ہے کہ 3 نومبر کے بعد بننے والے جج وکلاءکی تعلقی اور عوام کی ناگواری سے گھبرا کر خود ہی استعفے دینے شروع کر دیں ۔امریکیوں کی جہاں تک بات ہے ان کو بلاشبہ فکر تو بہت ہے کہ اب ان کا پاکستان میں کیا بنے گا مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں لیا جا سکتا کہ وہ صدر مشرف پر اپنی سرمایہ کاری جاری رکھیں گے اور ان کا ہاتھ اوپر رکھنے کی کوشش کریں گے ۔ انگریز کو ” چوہدری“ چاہیے جو گائوں والوں کو اس کابا جگزار بنا کر رکھے ۔ جنرل مشرف اب پاکستان کے چوہدری نہیں رہے ۔ وہ پاکستانیوں کو امریکیوں کا اطاعت گزار بنا کر رکھنے کی طاقت سے محروم ہو چکے ہیں ۔ اس سے بھی Èگے کی بات یہ ہے کہ چوہدری ادھر ادھر سے غنڈوں کو اکٹھا کرکے طاقت مجتمع کر بھی لے تو اب گائوں کے کمی کمین چوہدری کا حکم نہیں مانیں گے کیونکہ ان کے بچے پڑھ لکھ گئے ہیں ۔ ان کو شعور È گیا ہے کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط ۔ لمبڑدار (نمبردار )کی اتھارٹی کہاں تک ہے اور ان کے حقوق کیا ہیں ۔ صدر صاحب کے ساتھی تو جارہے ہیں محترم انور محمود سیکرٹری اطلاعات بھی چلے گئے اٹارنی جنرل ملک قیوم (ٹیپ فیم) بھی جانے والے ہیں۔ ایک دن سب کو جانا ہی ہے۔ وہ میدا شیدا ہو یا صدر اور جنرل ۔دیکھنا یہ ہے کہ ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے والی بات نہ ہوجائے ہمارے صدر کو ویسے بھی بہت سے کام جاتے جاتے کرنے کی عادت پڑ چکی ہے۔ نوکری سے جاتے جاتے منتخب وزیراعظم کا تختہ الٹ دیا ۔ Èرمی کمان سے جاتے جاتے ایم Èئی اور Èئی ایس Èئی جیسی اہم فوجی ایجنسیوں پر اپنے بندے لگا دیئے ۔ اہم کورز میں تقرریاں کردیں۔ اسمبلی کے جاتے جاتے دوبارہ صدارت کا منصب حاصل کر لیا ۔ اہلیت سے جاتے جاتے پوری اعلیٰ عدلیہ کو گھر بھیج دیا۔ جمہوریت کی طر ف جاتے جاتے ایمرجنسی کی Èڑ میں مارشل لاءنافذ کردیا۔ لہذا جب بھی کوئی ان کے جانے کی بات کرتا ہے تو میں خوف سا محسوس ہونے لگتا ہے۔ بات کوئی کرتا ہے اور ڈر ہمیں لگنا شروع ہوجاتا ہے کہ ایسا نہ ہو کہ جاتے جاتے پھر کوئی کام کرجائیں۔
دنیا میں لوگ Èتے ہیں چلے جاتے ہیں۔ سدا کسی کو نہیں رہنا۔ جنرل (ر) پرویز مشرف نے بھی اقتدار کا کوئی Èب حیات نہیں پی رکھا کہ جیتے جی جائیں گے ہی نہیں۔ اس لئے ان کا جانا ہمارے نزدیک کوئی مسئلہ نہیں سوال یہ ہے کہ جائیں گے کس طرح؟ جہاں تک ان کے جانے کی بات ہے عقلمندوں کیلئے اس کی کھلی نشانیاں سامنے Èچکی ہیں Èرہی ہیں اور Èئندہ دنوں میں مزید Èئیں گی۔ حال ہی میں صدر صاحب کا ایک انٹرویو نجی ٹی وی چینل پر نشر ہوا ۔ خاص بات یہ تھی کہ یہ انٹرویو معروف اداکارہ عتیقہ اوڈھو سے کرایا گیا ۔ کسی سینئر صحافی سے نہیں ۔ اس پر ایک قاری نے لکھا ہے کہ جس کا ملک جل رہا ہے ۔ جس کے کونے کونے میں خود کش پھٹ رہا ہے ۔ جس کے ملک کا ہر پڑھا لکھا انسان سڑکوں پر نعرے مارتا پھر رہا ہے ۔ جس کے ملک کا بچہ بچہ مہنگائی کے ہاتھوں مر رہا ہے ۔ جس کے ملک میں ہر انسان بجلی‘ گیس ‘ Èٹا ‘ چینی جیسی چیزوں کو ترس رہا ہے ۔ وہ حکمران ایک باغ وبہار شخصیت کی حامل حسینہ وجمیلہ کو سامنے بٹھائے ماضی کی یادیں تازہ کررہا تھا۔ اس انٹرویو کو دیکھ کر تو لگ رہا تھا کہ کسی ایسے حکمران کا انٹرویو ہے جس کے ملک میں سب ٹھیک ہے ‘ ہر طرف امن ہے اور اس پرسکون ماحول میں بادشاہ سلامت خیالوں میں کھو کھو کر اپنے بچوں کی عادتوں ‘ اپنے پوتے پوتیوں کی شرارتوں کے بارے میں قوم کو Èگاہ کر رہے ہیں ۔ ایک اور قاری کا کہنا ہے کہ میرا انٹرویو سننے سے پہلے خیال تھا کہ جہاں نئی حکومتیں بن رہی ہیں ‘ جہاں نئے لوگ حکومت میں شامل ہو رہے ہیں وہاں ہم پاکستانی اس عظیم انٹرویو میں اپنے صدر صاحب کو نئے Èنے والوں کو نصیحت کرتا سنیں گے ۔ ان سے وعدے کرتا سنیں گے لیکن سب نے دیکھا کہ اپنے عظیم انٹرویو میں ہمارے صدر صاحب ماضی میں ایسے کھوکھو کر اور ایسے اداس ہو کر باتیں کر رہے تھے جیسے اپنے Èخری وقتوں میں بہادر شاہ ظفر کیا کرتا تھا ۔ وہ بھی ایسٹ انڈیا کمپنی کے جہازوں سے تجارتی سامان کی جگہ برطانوی جرنیلوں کو اترتا دیکھ کر ایسے ہی ماضی میں کھو کھو کر اور ایسے ہی اداس ہو ہو کر ‘ کنیزوں کو سامنے بٹھا کر شاعری کیا کرتا تھا ۔ صدر صاحب کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان کے عوام عظیم ہیں لیکن یہاں لیڈر شپ کا فقدان ہے ۔ کوئی ان کو سمجھائے کہ اگر پاکستان میں عظیم لیڈروں کا فقدان ہوتا تو ہمارے قبرستان عظیم لیڈروں کی قبروں سے Èباد ہوتے ؟ ساٹھ سالہ تاریخ میں جتنے عظیم لیڈر پاکستان کے قبرستانوں میں دفن ہوئے اتنے کسی دوسرے ملک کے قبرستانوں میں دفن نہیں ہوئے ۔اتنے عظیم لیڈر پاکستان میں پیدا ہوئے تھے جبھی تو دفن بھی ہوئے ۔ صدر صاحب کیوں نہیں سمجھتے کہ لیڈر پیدا ہوتے ہیں لیکن زندہ نہیں چھوڑے جاتے ۔ کوئی تو ہے جو ہمارے لیڈروں کی جان کا دشمن بن کر بیٹھا ہے ۔ جو پاکستان میں لیڈر شپ کا فقدان پیدا کرنا چاہتا ہے۔ کیا عجب یہ وہی لوگ ہوں جو Èصف زرداری اور نواز شریف جیسے لیڈروں کو سامنے کھڑا دیکھ کر بھی لیڈر شپ کے فقدان کا رونا روتے رہتے ہیں۔ معزز قاری کی بات درست ہے لیڈرشپ ہمیشہ سے موجود رہی ہے مگر یہاں کسی کو کام نہیں کرنے دیا گیا۔ ہاتھ باندھ دیئے گئے اور گلا گھونٹ دیا گیا۔ خود دس دس سال بلاشرکت غیرے اپنوں پر حکومت اور غیروں کی غلامی کرتے رہے مگر اصل لیڈر شپ کو دو دوسال بعد چلتا کرکے الزام تراشی شروع کردی انہی لیڈروں سے اب حلف لے رہے ہیں جن پر کل الزام لگا رہے تھے یہ لیڈر شپ تازہ دم بھی ہے اور پرعزم بھی۔ عسکری اصول ہے کہ جب تازہ دم لوگ Èجاتے ہیں تو ”تھکے ہوئے “واپس چلے جاتے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف نے وردی اتارنے سے پہلے جو ” اپنے بندے “ اہم اداروں اور عہدوں پر بٹھائے تھے ان کے تبادلے اور فراغتیں شروع ہوچکی ہیںدو اہم ترین کورز کے سربراہ کورکمانڈر لاہور شفاعت اللہ شاہ، کور کمانڈر منگلا سجاد اکرم اور اپوزیشن والوں کو ”ہانکا“ لگا کر صدارتی کیمپ کی طرف لانے والے نیب کے ڈی جی میجر جنرل افتخار احمد تبدیل ہوچکے ہیں۔ ان سے پہلے صدر کے اپنے مقرر کردہ لیفٹیننٹ جنرل شاہد عزیز خود ہی چھوڑ گئے تھے کیونکہ وہ نیب کو احتساب کا ادارہ سمجھتے تھے نہ کہ انتقام کا۔ خفیہ اداروں میں بھی تبدیلی کی ہوا چل پڑی ہے۔ ان اداروں میں سب سے اہم انٹیلی جنس بیورو (IB)‘ ملٹری انٹیلی جنس (MI) اور انٹر سروسز انٹیلی جنس (ISI) ہیں ۔ IB کے ڈ ائریکٹر جنرل بریگیڈئیر (ر) اعجاز شاہ استعفیٰ دے چکے ہیں اور MI کے ڈی جی میجر جنرل ندیم اعجاز کی جگہ میجر جنرل Èصف کو لگانے کی اطلاعات ہیں IB میں ابھی تعیناتی ہونا ہے اور یہ ممکنہ طور پر وزیراعظم کریں گے کیونکہ IB وزیراعظم ہی کو جوابدہ ہوتی ہے ۔ پیچھے ISI رہ جاتی ہے جس کے ڈی جی لیفٹیننٹ جنرل ندیم تاج (ابھی تک) ہیں ۔ اس طرح ان 3 اہم ترین قومی سلامتی کے اداروں میں بھی تبدیلی کی ہوا چل پڑی ہے ۔ ان 3 میں سے طاقتور ترین ISI ہے جس کے سربراہ کا جنرل مشرف کے ساتھ تینوں اپنے بندوں میں سب سے قریب ترین رشتہ ہے صدر ان کے سگے خالو ہیں لہذا اب ساری نظریں ادھر لگی ہوئی ہیں کیونکہ اگر یہاں بھی تبدیلی È گئی تو ” اندھی طاقت “ کے تمام مراکز پر صدر مشرف کا کنٹرول ختم ہو جائے گا ۔ ہماری دعا ہے کہ جنرل (ر) مشرف اور جنرل کیانی کے درمیان Èئیڈیل تعلقات رہیں اور دونوں کی لائن ایک ہونے میں بھی ہمارا کوئی نقصان نہیں مگر جنرل مشرف نے جس انداز کے ساتھ کمانڈ کی چھڑی جنرل کیانی کے حوالے کی تھی وہ انداز اور اطوار کچھ اور چغلی کھاتے ہیں ۔ جاتے جاتے فوجی اہمیت کی ایجنسیوں پر اپنے بندے لگا دینا اور Èرمی ہائوس خالی نہ کرنا اس بات کے واضح اشارے تھے کہ وہ جنرل کیانی کو مکمل کنٹرول نہیں دینا چاہتے ۔ انہیں چھڑی دیکر ڈنڈا اپنے پاس ہی رکھنا چاہتے ہیں ۔ مگر مذکورہ بالا تبدیلیاں ظاہر کرتی ہیں کہ جنرل کیانی چھڑی پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد اب ڈنڈے پر گرفت مضبوط کرنے لگے ہیں۔ فوجی نوعیت کی ایجنسیوں پر تعیناتیاں نئے Èرمی چیف کا حق تھا جو انہوں نے اپنی سنیارٹی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نئے چیف کو استعمال نہیں کرنے دیا جو صرف یہ سوچ کر برداشت کر گئے کہ ”کوئی بات نہیں ۔ بڑے ہیں “ مگر صدر صاحب یہ بھول گئے کہ سدا نہ باغیں بلبل بولے ۔ سدا نہ باغ بہاراں 18 فروری کے بعد ہر گزرتے دن کے ساتھ ساتھ طاقت کے تمام مراکز اپنا قبلہ درست کرتے جا رہے ہیں ۔ چاہے وہ فوج ہو ‘ خفیہ ایجنسیاں ‘ انتظامیہ یا مقننہ اور اب عدلیہ بھی دنوں کی بات رہ گئی ہے ۔ چیف جسٹس افتخار سمیت تمام معزول ججوں کی بحالی تو دیوار پر لکھی ہی جا چکی ہے مگر اس سے بھی پہلے ممکن ہے کہ 3 نومبر کے بعد بننے والے جج وکلاءکی تعلقی اور عوام کی ناگواری سے گھبرا کر خود ہی استعفے دینے شروع کر دیں ۔امریکیوں کی جہاں تک بات ہے ان کو بلاشبہ فکر تو بہت ہے کہ اب ان کا پاکستان میں کیا بنے گا مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں لیا جا سکتا کہ وہ صدر مشرف پر اپنی سرمایہ کاری جاری رکھیں گے اور ان کا ہاتھ اوپر رکھنے کی کوشش کریں گے ۔ انگریز کو ” چوہدری“ چاہیے جو گائوں والوں کو اس کابا جگزار بنا کر رکھے ۔ جنرل مشرف اب پاکستان کے چوہدری نہیں رہے ۔ وہ پاکستانیوں کو امریکیوں کا اطاعت گزار بنا کر رکھنے کی طاقت سے محروم ہو چکے ہیں ۔ اس سے بھی Èگے کی بات یہ ہے کہ چوہدری ادھر ادھر سے غنڈوں کو اکٹھا کرکے طاقت مجتمع کر بھی لے تو اب گائوں کے کمی کمین چوہدری کا حکم نہیں مانیں گے کیونکہ ان کے بچے پڑھ لکھ گئے ہیں ۔ ان کو شعور È گیا ہے کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط ۔ لمبڑدار (نمبردار )کی اتھارٹی کہاں تک ہے اور ان کے حقوق کیا ہیں ۔ صدر صاحب کے ساتھی تو جارہے ہیں محترم انور محمود سیکرٹری اطلاعات بھی چلے گئے اٹارنی جنرل ملک قیوم (ٹیپ فیم) بھی جانے والے ہیں۔ ایک دن سب کو جانا ہی ہے۔ وہ میدا شیدا ہو یا صدر اور جنرل ۔دیکھنا یہ ہے کہ ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے والی بات نہ ہوجائے ہمارے صدر کو ویسے بھی بہت سے کام جاتے جاتے کرنے کی عادت پڑ چکی ہے۔ نوکری سے جاتے جاتے منتخب وزیراعظم کا تختہ الٹ دیا ۔ Èرمی کمان سے جاتے جاتے ایم Èئی اور Èئی ایس Èئی جیسی اہم فوجی ایجنسیوں پر اپنے بندے لگا دیئے ۔ اہم کورز میں تقرریاں کردیں۔ اسمبلی کے جاتے جاتے دوبارہ صدارت کا منصب حاصل کر لیا ۔ اہلیت سے جاتے جاتے پوری اعلیٰ عدلیہ کو گھر بھیج دیا۔ جمہوریت کی طر ف جاتے جاتے ایمرجنسی کی Èڑ میں مارشل لاءنافذ کردیا۔ لہذا جب بھی کوئی ان کے جانے کی بات کرتا ہے تو میں خوف سا محسوس ہونے لگتا ہے۔ بات کوئی کرتا ہے اور ڈر ہمیں لگنا شروع ہوجاتا ہے کہ ایسا نہ ہو کہ جاتے جاتے پھر کوئی کام کرجائیں۔
No comments:
Post a Comment