نو منتخب وزیر اعظم پاکستان سید یوسف رضا گیلانی نے بڑے زور و شور کے ساتھ ملک سے نا انصافیوں کے خاتمہ کا جو رنگین تصور عوام کے سامنے پیش کیا ہے اسکے پیش نظر عوام نے ایک بار پھر نئی حکمران جماعتوں سے خوش آئند توقعات وابستہ کر لی ہیںاور عام خیال یہی ہے کہ پچھلی حکومت کی نسبت یہ لوگ حقیقت میں عوام کے نجات دہندہ ثابت ہوں گے اور ملک سے تمام خرابوں کو مٹا کر دم لیں گے ۔سچ تو یہ ہے کہ ہر حکومت نے پاکستان کے محب وطن ،مخلص اور سادہ لوح عوام کو خوش گوار مستقبل کی جھوٹی امیدیں دلوائیں وجہ یہ ہے کہ ہر جانے والی حکومت کی رخصتی پر عوام نے یومِ نجات منایا اور ہر آنے والی حکومت کو مسیحا سمجھ کر اچھے دنوں کی آمد کے سلسلہ میں ایک ایک دن گننے لگے لیکن بدقسمتی سے انکا یہ خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہوا ۔ہر آنے والی حکومت نے نہ صرف عوام کو مایوس کیا بلکہ رفتہ رفتہ وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ اس سے تو گذشتہ حکومت ہی بہتر تھی ۔تباہی اور بربادی کا سلسلہ جاری رہا یہاں تک کہ آج یہ نوبت آچکی ہے کہ ہمارے حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے عبداستار ایدھی جیسے شریف شہریوں کو بھی حراست میں لے لئے جاتا ہے لیکن ہمارے سیاستدان آج بھی انہیں ممالک کے حکام کے ساتھ چھپ چھپ کر ملاقاتیں کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔ شائد یہی وجہ ہے کہ قومی معیشت اور معاشرے کا کوئی بھی گوشہ زوال سے محفوظ نہیں رہا ،سرکاری محکموں میں بد دیانتی،تاجروں اور کارخانہ داروں کی لوٹ کھسوٹ عام ہونے کے علاوہ نظم و نسق نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہی ہے ۔صحت اور عوامی بہبود کے شعبوں کا وجود اور عدم وجود برابر ہیں ۔عوامی نمائندے مینڈیٹ کے نام پر پاکستان کو لوٹتے رہے اور بیرونِ ممالک اپنی تجوریاں بھرتے رہے ۔پولیس جو عوامی تحفظ کی محافظ سمجھی جاتی تھی ملک بھر میں خاص طور پر صوبہ پنجاب میں جرائم کی بڑھتی ہوئی وارداتیں اور لاء اینڈ آرڈر کی مخدوش صورتحال پولیس کی نا اہلی کا زندہ ثبوت بن گیا ہے ۔ملک کے ایک مخصوص طبقہ نے تمام وی آئی پی سہولیات اپنے تک محفوظ کر رکھی ہیں جبکہ حکمران طبقہ خود کو عام شہریوں سے بہت بالا تر اور مطلقِ انسان سمجھتا رہا اور اگر یہ کہا جائے کہ ہر لحاظ سے ملک زوال کی طرف جارہا ہے توغلط نہ ہو گا اِن تمام تر حالات میں انہی پرانے لوگوں نے ایک بار پھر اقتدار سنبھالا ہے اور عوام بہت ساری خوش فہمیوں کا شکار ہو گئے ہیں کہ انکے غصب شدہ حقوق بحال کئے جائیں اور انہیں بھی مہذب انسانوں کی طرح زندگی گزارنے کا موقع دیا جائے ۔لیکن جیسے جیسے دِن گزرتے جائیں گے معلوم نہیں انکی امیدیں بر لائیں گی یا نہیں؟جس جمہوریت کے نام پر یہ حکومت اقتدار میں آئی ہے معلوم نہیں کہ اسکی پاسداری ہوگی یا نہیں ؟عام لوگوں کی روزمرہ زندگی میں تبدیلی واقع ہوگی یا نہیں ؟نئی حکومت میں شامل افراد کا انتخاب شائد ہی کسی تبدیلی کا باعث بنے چونکہ ان میں اکثرو بیشتر افراد سابقہ نظام کا حصہ رہ چکے ہیں اور انہوں نے ماضی میں پاکستان کے لئے کوئی قابلِ ذکر کارنامہ سر انجام نہ دیا ہے ۔اگر اس بحالیء جمہوریت کے بعد عام شہری کی زندگی میں کوئی تبدیلی نہ لائی گئی اور یہ حکومت بھی محض نعروں کی حد تک رہی تو اس تمام اکھاڑ بچھاڑ کا کیا فائدہ؟۔عوام اب نعرے اور وعدے نہیں بلکہ عملی اقدامات چاہتے ہیں ۔وہ رسہ گیروں ،مجرموں اور پاکستان کو اپنی جاگیر سمجھ کر لوٹنے والوں کو کیفرِ کردار تک پہنچتا دیکھنا چاہتے ہیں؟عوام ایک ایسا نظام چاہتے ہیں جس میں انہیں باآسانی انصاف میسر ہو،داخلے اور ملازمتیں صرف اور صرف میرٹ پر ملیں ۔عوامی حکمران عوام کی قسمتوں کا مختار نہ بن سکیں ،سرکاری محکموں میں بدعنوانیوں کا قلع قمع کیا جائے ۔سرکاری محکموں کو حکمرانوں کی خوشنودی کی خاطر نہ لُٹایا جائے،محکموں میں بے جا مداخلت کے دروازے ہمیشہ کے لئے بند کر دئیے جائیں ،قانون پر عملدرآمد کروایا جائے اور ہر ایک کے لئے ایک جیسا قانون ہو۔نئی حکومت کوئی ایسا نظام اور ضابط مرتب کرے کہ جس سے ماضی کی طرح چار دن کی چاندنی اور پھر اندھیری رات والا محاورہ صادق نہ آئے ۔پولیس اور تحقیقاتی اداروں کو حکمرانوں کا آلۂ کار بنانے کی بجائے صحیع معنوں میں باعمل بنایا جائے اور ان میں حکمرانوں کی بے جا مداخلت کا راستہ بند کر دیا جائے ۔پُر شوکت ضیافتوں اور حکمرانوں کے شاہانہ پروٹوکول پر پابندی عائد کی جائے اور ہر حکمران کو قوم کے سامنے جوابدہ بنایا جائے ۔مختصر یہ کہ پاکستان کو صحیع معنوں میں ایک جمہوری ،فلاحی اور اسلامی ریاست بنایا جائے چونکہ عوام اب چہروں کی تبدیلی کو ترجیح نہیں دیتی بلکہ ہر شعبہ میں خاطر خواہ تبدیلیوں کی خواہاں ہے۔کیا نو منتخب وزیر اعظم عوامی امیدوں پر پورا اتریں گے؟کیا وہ لوڈ شیڈنگ کے مستقل خاتمے کے کالا باغ ڈیم کی بنیاد رکھنے کی استطاعت رکھتے ہیں؟کیا وہ عدلیہ کی بحالی اور آزاد عدلیہ کے قیام کی استطاعت رکھتے ہیں؟کیا وہ پولیس اور دیگر تحقیقاتی اداروں کو حکمرانوں کا آلۂ کار بننے سے روک پائیں گے؟ کیا وہ پاکستان کی دولت لوٹ کر باہر منتقل کرنے والے چہروں کو سزا دلوا پائیں گے؟ کیا وہ سرکاری محکموں سے بد عنوانیوں کا خاتمہ کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے؟کیا وہ عام شہری کی زندگی میں تبدیلیاں لا سکیں گے ؟کیا وہ ڈاکٹر قدیر کو اس مقام پر لے آئیں گے جسکے وہ حقدار ہیں؟کیا وہ ملک میں سے مہنگائی کے خاتمے کو یقینی بنا سکیں گے؟۔ اگر وہ یہ سب کچھ کرنے کی استطاعت رکھتے ہیں تو انہیںپاکستان پر حکومت کرنے کا مکمل حق ہے اور اگر وہ یہ سب کچھ نہیں کر پائے تو شائد عوام انہیںبھی کبھی معاف نہیں کریں گے۔سید یوسف رضا گیلانی کو چونکہ بہت سارے چیلنجز کا سامنا ہے اس لئے انہیں چاہئے کہ وہ بولڈ اقدامات کریں اور پاکستانی عوام پر ثابت کریں کہ یہاں کوئی تو حکمران آیا ہے جس نے ملک کی خاطر کچھ کیا ہے۔بہر حال دیکھتے ہیں کہ وہ اپنی مرضی سے حکمرانی کرتے ہوئے کوئی قابلِ زکر اقدامات کرتے ہیں یا پھر پاکستان کی دولت لوٹنے والوں کی مشاورت ڈنگ ٹپاتے ہیں۔
International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.
Saturday, April 5, 2008
یوسف رضا گیلانی کو چیلنجز کا سامنا ۔ تجزیہ ۔ محمد اکرم خان فریدی
نو منتخب وزیر اعظم پاکستان سید یوسف رضا گیلانی نے بڑے زور و شور کے ساتھ ملک سے نا انصافیوں کے خاتمہ کا جو رنگین تصور عوام کے سامنے پیش کیا ہے اسکے پیش نظر عوام نے ایک بار پھر نئی حکمران جماعتوں سے خوش آئند توقعات وابستہ کر لی ہیںاور عام خیال یہی ہے کہ پچھلی حکومت کی نسبت یہ لوگ حقیقت میں عوام کے نجات دہندہ ثابت ہوں گے اور ملک سے تمام خرابوں کو مٹا کر دم لیں گے ۔سچ تو یہ ہے کہ ہر حکومت نے پاکستان کے محب وطن ،مخلص اور سادہ لوح عوام کو خوش گوار مستقبل کی جھوٹی امیدیں دلوائیں وجہ یہ ہے کہ ہر جانے والی حکومت کی رخصتی پر عوام نے یومِ نجات منایا اور ہر آنے والی حکومت کو مسیحا سمجھ کر اچھے دنوں کی آمد کے سلسلہ میں ایک ایک دن گننے لگے لیکن بدقسمتی سے انکا یہ خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہوا ۔ہر آنے والی حکومت نے نہ صرف عوام کو مایوس کیا بلکہ رفتہ رفتہ وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ اس سے تو گذشتہ حکومت ہی بہتر تھی ۔تباہی اور بربادی کا سلسلہ جاری رہا یہاں تک کہ آج یہ نوبت آچکی ہے کہ ہمارے حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے عبداستار ایدھی جیسے شریف شہریوں کو بھی حراست میں لے لئے جاتا ہے لیکن ہمارے سیاستدان آج بھی انہیں ممالک کے حکام کے ساتھ چھپ چھپ کر ملاقاتیں کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔ شائد یہی وجہ ہے کہ قومی معیشت اور معاشرے کا کوئی بھی گوشہ زوال سے محفوظ نہیں رہا ،سرکاری محکموں میں بد دیانتی،تاجروں اور کارخانہ داروں کی لوٹ کھسوٹ عام ہونے کے علاوہ نظم و نسق نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہی ہے ۔صحت اور عوامی بہبود کے شعبوں کا وجود اور عدم وجود برابر ہیں ۔عوامی نمائندے مینڈیٹ کے نام پر پاکستان کو لوٹتے رہے اور بیرونِ ممالک اپنی تجوریاں بھرتے رہے ۔پولیس جو عوامی تحفظ کی محافظ سمجھی جاتی تھی ملک بھر میں خاص طور پر صوبہ پنجاب میں جرائم کی بڑھتی ہوئی وارداتیں اور لاء اینڈ آرڈر کی مخدوش صورتحال پولیس کی نا اہلی کا زندہ ثبوت بن گیا ہے ۔ملک کے ایک مخصوص طبقہ نے تمام وی آئی پی سہولیات اپنے تک محفوظ کر رکھی ہیں جبکہ حکمران طبقہ خود کو عام شہریوں سے بہت بالا تر اور مطلقِ انسان سمجھتا رہا اور اگر یہ کہا جائے کہ ہر لحاظ سے ملک زوال کی طرف جارہا ہے توغلط نہ ہو گا اِن تمام تر حالات میں انہی پرانے لوگوں نے ایک بار پھر اقتدار سنبھالا ہے اور عوام بہت ساری خوش فہمیوں کا شکار ہو گئے ہیں کہ انکے غصب شدہ حقوق بحال کئے جائیں اور انہیں بھی مہذب انسانوں کی طرح زندگی گزارنے کا موقع دیا جائے ۔لیکن جیسے جیسے دِن گزرتے جائیں گے معلوم نہیں انکی امیدیں بر لائیں گی یا نہیں؟جس جمہوریت کے نام پر یہ حکومت اقتدار میں آئی ہے معلوم نہیں کہ اسکی پاسداری ہوگی یا نہیں ؟عام لوگوں کی روزمرہ زندگی میں تبدیلی واقع ہوگی یا نہیں ؟نئی حکومت میں شامل افراد کا انتخاب شائد ہی کسی تبدیلی کا باعث بنے چونکہ ان میں اکثرو بیشتر افراد سابقہ نظام کا حصہ رہ چکے ہیں اور انہوں نے ماضی میں پاکستان کے لئے کوئی قابلِ ذکر کارنامہ سر انجام نہ دیا ہے ۔اگر اس بحالیء جمہوریت کے بعد عام شہری کی زندگی میں کوئی تبدیلی نہ لائی گئی اور یہ حکومت بھی محض نعروں کی حد تک رہی تو اس تمام اکھاڑ بچھاڑ کا کیا فائدہ؟۔عوام اب نعرے اور وعدے نہیں بلکہ عملی اقدامات چاہتے ہیں ۔وہ رسہ گیروں ،مجرموں اور پاکستان کو اپنی جاگیر سمجھ کر لوٹنے والوں کو کیفرِ کردار تک پہنچتا دیکھنا چاہتے ہیں؟عوام ایک ایسا نظام چاہتے ہیں جس میں انہیں باآسانی انصاف میسر ہو،داخلے اور ملازمتیں صرف اور صرف میرٹ پر ملیں ۔عوامی حکمران عوام کی قسمتوں کا مختار نہ بن سکیں ،سرکاری محکموں میں بدعنوانیوں کا قلع قمع کیا جائے ۔سرکاری محکموں کو حکمرانوں کی خوشنودی کی خاطر نہ لُٹایا جائے،محکموں میں بے جا مداخلت کے دروازے ہمیشہ کے لئے بند کر دئیے جائیں ،قانون پر عملدرآمد کروایا جائے اور ہر ایک کے لئے ایک جیسا قانون ہو۔نئی حکومت کوئی ایسا نظام اور ضابط مرتب کرے کہ جس سے ماضی کی طرح چار دن کی چاندنی اور پھر اندھیری رات والا محاورہ صادق نہ آئے ۔پولیس اور تحقیقاتی اداروں کو حکمرانوں کا آلۂ کار بنانے کی بجائے صحیع معنوں میں باعمل بنایا جائے اور ان میں حکمرانوں کی بے جا مداخلت کا راستہ بند کر دیا جائے ۔پُر شوکت ضیافتوں اور حکمرانوں کے شاہانہ پروٹوکول پر پابندی عائد کی جائے اور ہر حکمران کو قوم کے سامنے جوابدہ بنایا جائے ۔مختصر یہ کہ پاکستان کو صحیع معنوں میں ایک جمہوری ،فلاحی اور اسلامی ریاست بنایا جائے چونکہ عوام اب چہروں کی تبدیلی کو ترجیح نہیں دیتی بلکہ ہر شعبہ میں خاطر خواہ تبدیلیوں کی خواہاں ہے۔کیا نو منتخب وزیر اعظم عوامی امیدوں پر پورا اتریں گے؟کیا وہ لوڈ شیڈنگ کے مستقل خاتمے کے کالا باغ ڈیم کی بنیاد رکھنے کی استطاعت رکھتے ہیں؟کیا وہ عدلیہ کی بحالی اور آزاد عدلیہ کے قیام کی استطاعت رکھتے ہیں؟کیا وہ پولیس اور دیگر تحقیقاتی اداروں کو حکمرانوں کا آلۂ کار بننے سے روک پائیں گے؟ کیا وہ پاکستان کی دولت لوٹ کر باہر منتقل کرنے والے چہروں کو سزا دلوا پائیں گے؟ کیا وہ سرکاری محکموں سے بد عنوانیوں کا خاتمہ کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے؟کیا وہ عام شہری کی زندگی میں تبدیلیاں لا سکیں گے ؟کیا وہ ڈاکٹر قدیر کو اس مقام پر لے آئیں گے جسکے وہ حقدار ہیں؟کیا وہ ملک میں سے مہنگائی کے خاتمے کو یقینی بنا سکیں گے؟۔ اگر وہ یہ سب کچھ کرنے کی استطاعت رکھتے ہیں تو انہیںپاکستان پر حکومت کرنے کا مکمل حق ہے اور اگر وہ یہ سب کچھ نہیں کر پائے تو شائد عوام انہیںبھی کبھی معاف نہیں کریں گے۔سید یوسف رضا گیلانی کو چونکہ بہت سارے چیلنجز کا سامنا ہے اس لئے انہیں چاہئے کہ وہ بولڈ اقدامات کریں اور پاکستانی عوام پر ثابت کریں کہ یہاں کوئی تو حکمران آیا ہے جس نے ملک کی خاطر کچھ کیا ہے۔بہر حال دیکھتے ہیں کہ وہ اپنی مرضی سے حکمرانی کرتے ہوئے کوئی قابلِ زکر اقدامات کرتے ہیں یا پھر پاکستان کی دولت لوٹنے والوں کی مشاورت ڈنگ ٹپاتے ہیں۔
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment