لاہور۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان قاضی حسین احمد نے کہا ہے کہ فرد واحد کی بنائی ہوئی سپریم کورٹ اور اس کے فیصلوں کو قوم قبول نہیں کرتی ۔ حکمران اتحاد نام نہاد سپریم کورٹ کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرنے کی بجائے آئین کو اصل شکل میں لانے اور فردواحد کی ترامیم ختم کرنے کے لئے آئین میں ترمیم کرے ۔ چیف جسٹس افتحار محمد چوہدری سمیت تمام ججوں کو جلد بحال کیا جائے اور پرویز مشرف کے مواخذے میں تاخیر نہ کی جائے۔ پریم کورٹ کی طرف سے گریجوایشن کی شرط ختم کرنے پر اپنے ردعمل میں قاضی حسین احمد نے کہا کہ حکمران اتحاد نے قوم سے 2 نومبر کے غیر آئینی اقدام کو تسلیم نہ کرنے اور ججوں کو بحال کرنے کا وعدہ کیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس افتحار محمد چوہدری اور دوسرے ججوں کی بحالی کی صورت میں موجودہ سپریم کورٹ کے فیصلوں کی حیثیت متنازعہ ہو جائے گی ۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے یہ شرط ختم کرنے کی بہت پہلے اپیل کی تھی لیکن جس وقت اس کی ضرورت تھی ،اس وقت اسے ختم نہیں کیا گیا ۔ انہوں نے کہا کہ اگر اس وقت اسے ختم کیا جاتا تو اس سے سپریم کورٹ کے وقار میں اضافہ ہوتا ۔ انہوں نے کہا کہ 2 نومبر کے غیر آئینی اقدام کے ذریعے بننے والی موجودہ سپریم کورٹ پر لوگوں کو اعتبار نہیں ہے اور وکلا، سول سوسائٹی اور جمہوری جماعتوں نے اسے تسلیم نہیں کیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہفرد واحد کی ضرورت کے مطابق فیصلے سے اس کی مزید سبکی ہو گی ۔ قاضی حسین احمد نے کہا کہ حکمران اتحاد نے جو تبدیلیاں لانی ہیں اس کے لئے متنازعہ سپریم کورٹ کا سہارا لینے کی بجائے آئینی ترمیم کا راستہ اختیار کیا جائے جیسا کہ لندن اے پی سی میں تمام جماعتوں نے طے کیا تھا کہ سترھویں ترمیم اور ایل ایف او کو ختم کیا جائے گا اور آئین کو اس کی اصل شکل میں بحال کیا جائے گا ۔ قاضی حسین احمد نے کہا کہ پرویز مشرف نے دینی جماعتوں کا راستہ روکنے کے لئے بے اے کی شرط کو ایل ایف او کا حصہ بنایا تھا اور بعد میں دینی جماعتوں کو دباؤ میں لانے کے لئے اس کو ایک حربے کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ 2002 سے قبل اس طرح کی کوئی شرط نہیں تھی لیکن سابقہ اسمبلیاں گریجوایٹ اسبلی سے بہتر طور پر کام کرتی رہی ہیں اور پاکستان کا آئین بنانے والی اسمبلی بھی گریجو ایٹ نہیں تھی ۔ انہوں نے کہا کہ گریجوایشن کی شرط سے قومی اسمبلی کے معیار اور کارکردگی میں کوئی فرق نہیں پڑا ۔ گریجو ایٹ اسمبلی کا کردار ربڑ سٹمپ سے زیادہ نہیں تھا ۔ فیصلوں اور پالیسی سازی میں اس کا کوئی عمل دخل نہیں تھا اور فرد واحد اسے اپنے فیصلوں کی توثیق کے لئے استعمال کرتا رہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ یہ اختیار حلقے کے عوام کے پاس ہونا چاہیے کہوہ اپنی نمائندگی کے لئے کس کا انتخاب کرتے ہیں ۔
International News Agency in english/urdu News,Feature,Article,Editorial,Audio,Video&PhotoService from Rawalpindi/Islamabad,Pakistan. Editor-in-Chief M.Rafiq.
Tuesday, April 22, 2008
چیف جسٹس افتحار محمد چوہدری سمیت تمام ججوں کو جلد بحال کیا جائے اور پرویز مشرف کے مواخذے میں تاخیر نہ کی جائے۔قاضی حسین احمد
لاہور۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان قاضی حسین احمد نے کہا ہے کہ فرد واحد کی بنائی ہوئی سپریم کورٹ اور اس کے فیصلوں کو قوم قبول نہیں کرتی ۔ حکمران اتحاد نام نہاد سپریم کورٹ کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرنے کی بجائے آئین کو اصل شکل میں لانے اور فردواحد کی ترامیم ختم کرنے کے لئے آئین میں ترمیم کرے ۔ چیف جسٹس افتحار محمد چوہدری سمیت تمام ججوں کو جلد بحال کیا جائے اور پرویز مشرف کے مواخذے میں تاخیر نہ کی جائے۔ پریم کورٹ کی طرف سے گریجوایشن کی شرط ختم کرنے پر اپنے ردعمل میں قاضی حسین احمد نے کہا کہ حکمران اتحاد نے قوم سے 2 نومبر کے غیر آئینی اقدام کو تسلیم نہ کرنے اور ججوں کو بحال کرنے کا وعدہ کیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس افتحار محمد چوہدری اور دوسرے ججوں کی بحالی کی صورت میں موجودہ سپریم کورٹ کے فیصلوں کی حیثیت متنازعہ ہو جائے گی ۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے یہ شرط ختم کرنے کی بہت پہلے اپیل کی تھی لیکن جس وقت اس کی ضرورت تھی ،اس وقت اسے ختم نہیں کیا گیا ۔ انہوں نے کہا کہ اگر اس وقت اسے ختم کیا جاتا تو اس سے سپریم کورٹ کے وقار میں اضافہ ہوتا ۔ انہوں نے کہا کہ 2 نومبر کے غیر آئینی اقدام کے ذریعے بننے والی موجودہ سپریم کورٹ پر لوگوں کو اعتبار نہیں ہے اور وکلا، سول سوسائٹی اور جمہوری جماعتوں نے اسے تسلیم نہیں کیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہفرد واحد کی ضرورت کے مطابق فیصلے سے اس کی مزید سبکی ہو گی ۔ قاضی حسین احمد نے کہا کہ حکمران اتحاد نے جو تبدیلیاں لانی ہیں اس کے لئے متنازعہ سپریم کورٹ کا سہارا لینے کی بجائے آئینی ترمیم کا راستہ اختیار کیا جائے جیسا کہ لندن اے پی سی میں تمام جماعتوں نے طے کیا تھا کہ سترھویں ترمیم اور ایل ایف او کو ختم کیا جائے گا اور آئین کو اس کی اصل شکل میں بحال کیا جائے گا ۔ قاضی حسین احمد نے کہا کہ پرویز مشرف نے دینی جماعتوں کا راستہ روکنے کے لئے بے اے کی شرط کو ایل ایف او کا حصہ بنایا تھا اور بعد میں دینی جماعتوں کو دباؤ میں لانے کے لئے اس کو ایک حربے کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ 2002 سے قبل اس طرح کی کوئی شرط نہیں تھی لیکن سابقہ اسمبلیاں گریجوایٹ اسبلی سے بہتر طور پر کام کرتی رہی ہیں اور پاکستان کا آئین بنانے والی اسمبلی بھی گریجو ایٹ نہیں تھی ۔ انہوں نے کہا کہ گریجوایشن کی شرط سے قومی اسمبلی کے معیار اور کارکردگی میں کوئی فرق نہیں پڑا ۔ گریجو ایٹ اسمبلی کا کردار ربڑ سٹمپ سے زیادہ نہیں تھا ۔ فیصلوں اور پالیسی سازی میں اس کا کوئی عمل دخل نہیں تھا اور فرد واحد اسے اپنے فیصلوں کی توثیق کے لئے استعمال کرتا رہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ یہ اختیار حلقے کے عوام کے پاس ہونا چاہیے کہوہ اپنی نمائندگی کے لئے کس کا انتخاب کرتے ہیں ۔
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment