’مائنس ون‘ فارمولے کو ماننے کے لیے تیار نہیں:مسلم لیگ نون
پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون ججوں کی بحالی کے حوالے سے اختلافات کو دور کرنے کے لیے مذاکرات کا دوسرا دور کر رہے ہیں۔
پیر کے روز پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کے درمیان ججوں کی بحالی کے حوالے سے ہونے والے مذاکرات بے نتیجہ رہے تھے اور ساڑھے تین گھنٹوں کے مذاکرات کے بعد اعلان کیا گیا تھا کہ دونوں جماعتوں کے رہنما منگل کے روز ایک بار پھر ملاقات کریں گے جس میں ججوں کو بحال کرنے سے متعلق قرار داد کو حتمی شکل دینے پر بات چیت کی جائے گی۔
اطلاعات کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی ایک ایسے فارمولے پر مسلم لیگ نون کی حمایت کی خواہاں ہے جس کے تحت چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے علاوہ تمام ججوں کو بحال کر دیا جائے۔
اطلاعات کے مطابق پیپلز پارٹی چیف جسٹس کے عہدے کی معیاد تین سال مقرر کرنا چاہتی ہے جسے اگر منظور کر لیا گیا تو جسٹس افتخار محمد چودھری بحالی کے ایک ماہ بعد ریٹائر ہو جائیں گے۔
پاکستان مسلم لیگ نون کے انفارمیشن سیکرٹری اور وفاقی وزیر تعلیم احسن اقبال نےبات کرتے ہوئے کہا کہ ’مائنس ون‘ یعنی ایک کے علاوہ کا فارمولہ ماننے کا مطلب یہ ہو گا کہ نو مارچ 2007 کو جنرل پرویز مشرف نے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری سے چھٹکارا حاصل کرنے کی جو کوشش کی تھی اس کو مان لیا گیا۔
مائنس ون کامطلب
’مائنس ون‘ یعنی ایک کے علاوہ کا فارمولہ ماننے کا مطلب یہ ہوگا کہ نو مارچ 2007 کو جنرل پرویز مشرف نے جو چاہا وہ ایک سال کی قربانیوں کے باوجود ہو گیا۔
احسن اقبالانہوں نے کہا کہ اگر ایسا ہی کرنا تھا تو پچھلے ایک سال میں درجنوں جانوں کی قربانی، ہزاروں لوگوں کی جیل کی صعوبتیں برداشت کرنے، ملک کا آئین معطل کروانے اور ملک میں ایمرجسنی نافذ کراوانے کی ضرورت نہیں تھی۔
انہوں نے صدر مشرف نے چیف جسٹس سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے ملک میں ایمرجسنی لگائی اور مسلم لیگ ان سب قربانیوں کو نظر انداز نہیں کر سکتی۔
احسن اقبال نے کہا کہ مسلم لیگ نواز کا ججوں کی بحالی کے حوالے سے موقف انتہائی واضح ہے اور وہ کسی مائنس ون فارمولے کو نہیں مانتی۔’عدلیہ کی بحالی مسلم لیگ نون کے لیے انتہائی اہم ہے اور اگر ایسا نہ ہوا تو مسلم لیگ کے لیے کابینہ میں بیٹھنے کا کوئی جواز نہیں ہوگا۔ انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون اس مسئلے کا کوئی حل نکال لیں گے۔ججز کالونی کے قرب میں واقع پنجاب ہاؤس میں پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کے درمیان پیر کو مذاکرات ہوئے اور آج بھی مذاکرات پنجاب ہاؤس میں ہی ہوں گے۔
پیر کو مذاکرات کے بعد پاکستان مسلم لیگ نون کے ترجمان صدیق الفاروق کا کہنا تھا کہ کوئی جماعت ناکامی کی متحمل نہیں ہوسکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مری معاہدے پر دستخط کرنے والوں اور حکمراں اتحاد میں شامل دیگر جماعتوں کے اس سے پیچھے ہٹنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
ممتاز ماہر قانون فخر الدین جی ابراہیم نے ، جس سے ججوں کی بحالی کے حوالے حکمران اتحاد نے مشورہ کیاتھا، بات کرتے ہوئے کہا کہ ججوں کی بحالی کےلیے پارلیمانی قرار داد کی بھی ضرورت نہیں۔
فخر الدین جی ابراہیم کا موقف تھا کہ قانونی ججوں کو کام کرنے سے زبردستی روکا گیا لہذا بحالی کے لیے کسی قرار داد کی ضرورت نہیں۔
قرارداد کا انگریزی زبان میں مسودہ بعض صحافیوں کو دیا گیا جس کے مطابق وفاقی حکومت سے اپنی آئینی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے آئین کے آرٹیکل ایک سو نوے کو استعمال میں لاتے ہوئے ججوں کو دو نومبر والی صورتحال میں بحال کرنے کے لیے اقدامات اٹھانے کی سفارش کی گئی ہے۔
قرار داد میں عدلیہ کی بحالی کے لیے شہریوں، وکلاء، سول سوسائٹی اور ذرائع ابلاغ کی جانب سے جدوجہد کا اعتراف کرتے ہوئے ان کا شکریہ ادا کیا گیا ہے۔ قرار داد میں عدلیہ کی آذادی اور قانون کی بالادستی کو اہم قرار دیا گیا ہے۔
توقع ہے کہ اس قرار داد کے ذریعے سپریم کورٹ میں ججوں کی تعداد بڑھائی جائے گی تاکہ پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے ججوں کو عدالت میں برقرار رکھا جا سکے۔
No comments:
Post a Comment